نیا نہیں ،اصل پاکستان چاہئے
(Irfan Mustafa Sehrai, Lahore)
یوں تو اس بار گرمی نے اپنا رنگ
دیر سے دکھایا ہے، لیکن اﷲ تعالٰی کی اس نعمت کی قدر اُن ممالک کے لوگ
جانتے ہیں ،جہاں سورج کی کرنیں دیکھ کر عید کا سماں بن جاتا ہے ۔ وہاں کے
لوگ اپنے کپڑوں سے باہر ہو جاتے ہیں ،’’ سن باتھ‘‘ لیتے ہیں ،جن سے ان کی
سکن کی بیماریوں میں افاقہ ہوتا ہے ۔ ہمیں اﷲ تعالٰی نے بے شمار نعمتوں سے
نوازا ہے ۔ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں یا نہیں یہ تو ہماری کوتاہی ہے ۔ورنہ
ہم پر ہمیشہ خدا بزرگ برتر کا کرم اور فضل رہا ہے۔ ہمارے فعل کتنے بھی غلط
کیوں نہ ہوں، پھر بھی اﷲ تعالٰی کی رحمت ، بزرگانِ دین اور نیک بندوں کی
وجہ سے ہم بہت سے مصائب سے معجزانہ طور پر بچ نکلتے ہیں۔
ہمارے لوگوں کی بہت ہی چھوٹی چھوٹی سی خواہشات ہیں۔جسے لے کر وہ زندگی
گزارنا چاہتے ہیں۔ گرمی ہو تو ہم کسی ٹھنڈے پانی میں نہالیں،کسی صاف ستھرے
ماحول میں چند دن گزار لیں۔کسیخوبصورت وادی پر قدرت کے نظارے کر لیں۔شہروں
میں رہتے ہوئے کسی کھلی فضا میں گھوم لیں ۔کہیں اچھی جگہ صاف ستھرا مزے دار
کھانا کھا لیں ۔کسی گراؤنڈ میں کھیل لیں ۔ اگر گراؤنڈ نہ ملے، تو سڑکوں پر
ہی کھیل کر اپنی روح کو تسکین دے دیں۔اگر کھیل نہیں سکتے ،تو میچ دیکھ کر
خوش ہو جائیں ۔مجھے اپنی قوم کی معصومیت کا اندازہ اُس وقت ہوا جب باجوڑ سے
آئے ہوئے ایک خان صاحب سے ملاقات ہوئی۔جو صبح ہی قذافی اسٹیڈیم کا پتہ پوچھ
رہا تھا ۔چار بچے میچ شروع ہونا تھا، مگر اسے صبح ہی اسٹیڈیم میں جا کر
بیٹھ جانا تھا۔اس کے چہرے پر کوئی ایسی شکن نہیں تھی، جس سے اندازہ ہوتا کہ
یہ اس باجوڑ کا باشندہ ہے ،جہاں ہر پل موت گردش کرتی ہے۔ ہر جانب وہشت کا
عالم ہے۔ دہشتگردی نے ان کے قدرتی حسین علاقے کو وحشت زدہ بنا دیا گیا
ہے۔وہ پُر سکون تھا ،اُسے تو صرف اپنی کرکٹ ٹیم کے ہیروز کو میچ کھیلتے
دیکھنا تھا ۔ اسے کسی دہشت گردی کا ڈر نہیں تھا۔وہ یہ بھی نہیں سوچ رہا تھا
کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے……!کیونکہ اس کے اندر ایک پاکستانی دل دھڑک رہا
تھا۔وہ صرف اس دل پر توجہ دے رہا تھا، حالانکہ وہ بھی اسی پِیسے ہوئے
معاشرے کا فرد ہے،دہشت گردی نے نہ صرف اُس کے دوست ، رشتہ دار یا علاقے کے
لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ،بلکہ پورے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی
ہیں،وہ یہ سب نہیں سوچنا چاہتا ،وہ حکمرانوں کی جانب بھی نہیں دیکھ رہا، جن
کی بے حسی نے عوام کو کس نہج پر لا کھڑا کیا ہے۔ وہ اُن لوگوں سے بھی نالاں
نہیں، جو کہتے ہیں کہ انٹرنیشنل کرکٹ کی پاکستان میں کوئی ضرورت نہیں یا
وہاں انٹر نیشنل میچیز ہونا خطرناک ہو سکتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ پاکستانی
دہشتگردی کی وجہ سے ڈرے ہوئے لوگ ہیں،ان کی خواہشات مر چکی ہیں ،لیکن خان
نے ان تمام باتوں کی نفی کر دی ، اسے ان تمام باتوں سے غرض نہیں، اسے اپنی
چھوٹی سی خواہش پوری کرنی تھی۔اسے زمبابوے اور پاکستان کا کرکٹ میچ دیکھنا
تھا اسی لئے وہ اتنی دور سے قذافی سٹیڈیم پہنچا تھا۔
پاکستانی عوام ایک دلیر قوم ہے۔ یہ اپنے معاشی مسائل کی چکی میں ضرور پیس
چکی ہے،مگر ان کے محب الوطنی اور روشن دل ویسے ہی ہیں۔ان کی بدقسمتی یہ ہے
کہ ان کو قیادت ایسی ملتی ہے ،جو انہیں مستقبل کی روشن راہ دکھانے کے بجائے
ایسے راستوں پر ڈال دیتی ہے، جس سے انہیں آپس میں دوریاں ،حسد،بغض ،نفرت
جیسی بیمایاں لگ جاتی ہیں ۔ انہیں اپنی سیاست چمکانے کے لئے نسلی اور
صوبائی تعصب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ان سے جھوٹے وعدے کر کے ان کی امید کو
انتہا پر پہنچا دیتے ہیں ،مگر جب موقع ملتا ہے تو ان کے ہر ایک وعدے کو
فراموش کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام کے دل سے قیادت کا احترام ختم ہو
چکا ہے، جو ہمارے ہاں کسی دور میں ہوا کرتا تھا۔موجودہ حکمرانوں پر سے
اعتماد اٹھ چکا ہے۔دلی طور پر نفرت جنم لے چکی ہے۔کیا بیس کروڑ افراد میں
سے ایک بھی ایسا نہیں جو نیلسن منڈیلا یا ڈاکٹر مہاتیر محمد جیسا دل رکھتا
ہو۔ایسا ہر گز نہیں ۔بہت سے محب وطن افراد جن کی روح میں ملک اور عوام کی
محبت سمائی ہے ،مگر وہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتے ،جہاں وہ ملک و قوم کے لئے
کچھ کر سکیں، کیونکہ نہ یہ حکمران طبقہ انہیں آگے آنے کی اجازت دیتا ہے اور
نہ ہی اب تک عوام کو یہ شعور آیا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو تلاش کرے۔بہت سے
ممالک میں ایسی مثالیں ملتیں ہیں ،جہاں ایک عام سے انسان کو ملک کا سربراہ
بنانے میں تمام عوام یک جان ہو گئی اور اس نے ملک کی کایا ہی پلٹ دی۔
پاکستان کی سیاست دنیا سے بالکل مختلف ہے،یہاں وہ کامیاب ہو گا جو انتہائی
بہترین اداکار ہو ،جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا ماہر ہو،جرائم کا بادشاہ
ہو،قانون سے کھیلنا جانتا ہو ،جیل ضرور گیا ہو، آئین کی دھجیاں اڑا دے، مگر
اسے ریاست انگلی بھی نہ لگا سکے،یہ ہماری سیاست دانوں کا معیار ہے۔یہ سیاست
میں آتے ہیں تو سٹور کیپر ہوتے ہیں اور چند ہی سالوں کی سیاست انہیں ارب
پتی بنا دیتی ہے۔ وہ بڑے سے بڑا جرم سامنے آنے پر بھی عدالتوں کو بے بس کر
دینے کی طاقت رکھتے ہیں، مجرم ہوتے ہوئے بھی بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہو جاتے
ہیں۔
عوام ان تمام باتوں سے بے زار ہو چکے ہیں ۔اُسے اپنے اور اپنے ننھے بچوں کے
لئے چند خوشی کے لمحات درکار ہیں ،جسے وہ آسانی سے حاصل کر سکیں ۔پاکستانی
عوام نے زمبابوے اور پاکستان کی کرکٹ سیریز میں ثابت کیا ہے کہ وہ ایسی
گرمی اور دہشت گردی کے ڈر کو بلائے تاک رکھ کر انتہائی پُر جوش انداز میں
میچ دیکھتے ہیں ۔ ملک کے ہر کونے سے گھنٹوں کی مسافت طے کر کے میچ دیکھنے
کے ساتھ پاکستان کی خوشیاں بحال کرنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنے آتے
ہیں۔ اگر یہی جوش اور جذبہ ہمارے حکمرانوں ، اداروں کے سربراہان میں آ جائے
تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں خوشیاں دوبارہ آنے میں کوئی دیر نہ لگے۔
موجودہ حکومت ہر ممکن کوششوں میں ہے کہ انرجی بحران کو دور کیا جائے ،
انڈسٹری لگائی جائے ، چائنہ اور ترکی ہمارے دوست ممالک ہیں ۔انہوں نے بھی
پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے کردار ادا کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے،مگر ان
تمام باتوں کے باوجود ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔جس سے
ہماری آنے والی نسل درست راستے پر چلے ۔انہیں ریاست ،عدالت ، قانون اور
اداروں کا احترام سکھایا جائے،ان کی اہمیت سے روشناس کروایا جائے۔وہ دنیا
ٹیکنالوجی کی ترقی سے مثبت فائدہ اٹھائیں ،نہ کہ جعلی یونیورسٹیوں کو آن
لائن کریں اور جعلی ڈگریاں دے کر ان بے چاروں کا حق ماریں، جنہوں نے دن رات
کی محنت اور دشواریوں سے حقیقی ڈگریاں لی ہیں، لیکن ان کا حق ان جعلی ڈگری
ہولڈرز نے مار لیا ہے۔اس ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں نئی دنیا روشناس کروائی
ہے، وہاں سائبرزکرائم بہت بڑھ گیا ہے۔ نئی نسل کو سائبرز کرائم سے ہونے
والی بربادی سے بچانے کے لئے حکمرانوں ، اساتذہ،علماء ،والدین اور دوست
احباب کو اہم روال ادا کرنا ہو گا……تاکہ ہمارا ملک خوشیوں کا گہوارہ بن
سکے۔ہمیں اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں پر فخر ہو۔ہمیں نیا نہیں اصل
پاکستان چاہئے ۔ |
|