اعلیٰ تعلیم یافتہ دہشتگرد․․․․․․

کافی عرصہ ہوا اس قلم نے لکھنا چھوڑ دیا تھا اور اسی وجہ سے میرے قلم کو بھی زنگ بھی لگ گیا تھا اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں نے حالات وواقعات سے منہ موڑ لیابلکہ اس کی وجہ حکمرانوں کی بے حسی تھا کہ جنہوں نے لکھنے والوں اور اخبار کے سفید پنوں کو کالے کرنے والوں کی طرف توجہ دینا ہی چھوڑ دی ہے اور یہ لوگ عوام کے مسائل کیا حل کریں گے ان سے تو اپنے ہی معاملات حل نہیں ہوتے ۔۔کبھی صولت مرزا کا مسئلہ ہوتا ہے تہ کبھی ذوالفقار مرزا کا۔۔کبھی گلو بٹ تو کبھی پومی اور بلو بٹ سامنے آجاتے ہیں اور انہی مسئلوں کو الجھاتے، سلجھاتے ان کی حکومت چلی جاتی ہیں ہر المناک واقعے کے بعد ایک تحقیقاتی کمیشن بنا دیا جاتا ہے جن میں اکثر کمیشن صرف اپنی کمیشن بناکر اپنا کام پورا کر لیتے ہیں اور ایک سانحے کے بعد دوسرا سانحہ رونما ہوتا رہتا ہے،یہاں ہر اچھے کام کا کریڈٹ لینے ہر کوئی آجاتا ہے لیکن جب کوئی سانحہ یا حادثہ رونما ہو جاتا ہے تو اس کی ذمہ داری قبول کرنے اور اپنی کوتاہی کا اعتراف کرنے کو کوئی تیار نہیں ہوتا، ہماری خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ساٹھ سال کے کم سے نہیں یورپی ممالک میں اس عمر میں لوگوں کو ریٹائرڈ کر دیا جاتا ہے اور آرام کا مشورہ دیا جاتا ہے کیونکہ جدید تحقیقات کے مطابق ساٹھ سال کے بعد سے انسانی دماغ کی صلاحیتیں کم ہونا شروع ہوجاتی ہیں لیکن ہمار ے یہاں تو ایسا لگتا ہے کہ سیاستدانوں کا دماغ ہی ساٹھ سال کے بعد کا م کرنا شروع کرتا ہے ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے دو سالوں سے شہر قائد کراچی سے جرائم میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے اور ہماری رینجرز اور پولیس کی دن رات کی محنت باقاعدہ نظر آ رہی ہے لیکن ان اداروں کی محنت اور بہادری کا صلہ لینے کوئی اور ہی میدان میں آجاتا ہے، بدھ کے روزوزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہمارے بزرگ سیاستدان اور سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے بڑے فخر سے بتایا کہ انہوں نے سانحہ صفوراں چورنگی کے حملہ آوروں اور سماجی رہنما سبین محمود کے قاتلوں کو گرفتار کر لیا ہے اور سائیں فخر کیوں نہ کریں یہ واقعی سندھ پولیس کا قابل فخر کارنامہ بھی ہے لیکن اس واردات کا ایک پہلو ایسا ہے جس سے ہر پڑھے لکھے اور ذی شعور انسان کا سر شرم سے جھک گیا وہ پہلو کیا ہے یہ جاننے کے لئے ہمیں اسی پریس کانفرنس میں سائیں کے بیان کا بغور جائزہ لینا ہوگا ،وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اپنی اس پریس کانفرنس کے دوران سانحہ صفوراں اور سبین محمود کے قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم سعد عزیز اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہے اور وہ آئی بی اے میں بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریٹر کا اسٹوڈنٹ ہے جبکہ ملزم اظہر سر سید یونیورسٹی سے الیکٹرک انجینئر اور حافظ ناصر کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات ہے سائیں کا یہ انکشاف حیرت انگیز اور دل دہلا دینے والا تھا کیونکہ ہم نے یہ تو سنا تھا کہ دہشتگرد انتہائی سفاک اور درندے ہوتے ہیں جو کہ کسی بھی وقت کسی کی بھی جان لے سکتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سنا تھا کہ دہشتگرد اتنے پڑھے لکھے بھی ہوتے ہیں سائیں کو یہ بات بتاتے ہوئے بالکل فخر کرنا چاہیے اور ان دہشتگردوں کو ان کے منتطقی انجام تک بھی پہنچانا چاہیے لیکن ساتھ ہی یہ بھی سوچنا ہوگا کہ یہ پڑھے لکھے دہشتگرد اس نہج تک کیسے پہنچے ؟؟؟سعد عزیز جسے بزنس ایڈمنسٹریٹر بننا تھا ودہشت گرد کیوں بنا؟؟؟ اظہر جسے الیکٹرک انجینئر بننا تھے وہ دہشتگردی کے راستے پر کیسے چل پڑا؟؟؟ اور حافظ قرآن ناصر اسلامیات میں پر عبور حاصل کرنے کے باوجود اسلامی تعلیمات کو بھول کر کیسے دہشتگردوں کے چنگل میں پھنس گیا؟؟؟یہاں سوال تویہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان دشتگردی کی طرف مائل کیوں ہوئے؟؟؟ ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کا برین واش کرنے والے کون ہیں؟؟؟ اگر وہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا برین واش کر سکتے ہیں تو سادہ لوح افراد تو ان کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں! !! اگر یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ دہشتگرد ہیں تو ان کے علاوہ بھی کئی طالبعلم ایسے ہونگے جو اب بھی ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہونگے جنہیں دہشتگرد بنانے والی فیکٹری کے مالکان اپنے مزموم مقاصد کے استعمال کے لئے تلاش کر رہے ہونگے ان مستقبل کے معماروں کو ان دہشتگردوں کے گروہ سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟؟؟

اس ملک کے ہر ذی شعور انسان کے لئے ان دہشتگردوں کا یہ پہلو انتہائی قابل افسوس اور حکمرانوں کے لئے غور طلب ہے کہ دہشتگرد بھی کوئی ایسی ہی نہیں بن جاتا بلکہ ہمارے ملک میں دہشتگرد بنانے کی فیکٹریاں موجود ہیں جو کہ نہ صرف معصوم بلکہ پڑھے لکھے لوگو ں کا برین واش کرکے یا انہوں سہانے خواب دکھا کر کبھی مجاہد کا نام دے کر دہشتگرد بناتے ہیں تو کبھی نام نہاد مشن کا نام دے کر اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ مہنگائی اور بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح نے بھی جرائم پیشہ افراد پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جب نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر در در کی ٹھوکریں کھائیں گے تو ان میں سے چند نوجوان تو ایسے ضرور ہونگے جوکہ ان دہشتگردوں کی نظروں میں ضرور آجاتے ہونگے یا کچھ نوجوان ایسے بھی ہونگے جواپنی زندگی کو بہتر بنانے اور دنیاوی خواہشیں پوری کرنے کے لئے ان دہشتگردوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہونگے، ہمارے حکمرانوں کو اچھے کاموں کا کریڈٹ لینے کے ساتھ ساتھ اپنی زمہ داریوں کا بھی احساس کرنا ہوگااور ان سب باتوں کے ذمہ دار صرف ہمارے حکمران نہیں بلکہ حکمرانوں سے زیادہ ذمہ داری ہمارے معاشرے کی ہے کیونکہ یہ دہشت گرد کہیں اور سے نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں ہی جنم لیتے ہیں سب سے پہلے تو ہمیں اپنے بچوں پر نظر رکھنی چاہیے اس کے بعد اپنے ارد گرد رہنے والے لوگوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے اگر کوئی مشکوک شخص یا افراد نظر آئے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کرکے اپنی معاشرتی ذمہ داری پوری کریں ۔
Muhammad Ansar Gaddi
About the Author: Muhammad Ansar Gaddi Read More Articles by Muhammad Ansar Gaddi: 2 Articles with 1677 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.