دھماکوں کی سرزمین
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
28 مئی 1998ء بروزجمعرات شام تین
بجکرپندرہ منٹ پرپاکستان میں چاغی کے پہاڑوں میں پانچ ایٹمی دھماکے کرکے
پاکستان کے دفاع کوناقابلِ تسخیربنا دیا۔17 سال بعداُسی دِن ،تاریخ اوروقت
پرہماری سیاسی قیادت نے پاک چائنااکنامک کوریڈورپر’’ہم آواز‘‘ہو کراقتصادی
دھماکا کردیا ۔ابلیسیت کی علمبرداروہ قوتیں جو آس لگائے بیٹھی تھیں کہ
پاکستان کی سیاسی جماعتیں اِس اکنامک کوریڈور کو ’’کالاباغ ڈیم‘‘ بنادیں گی،
اُنہیں مُنہ کی کھانی پڑی لیکن ’’مشتری ہوشیارباش‘‘ یہ طاغوتی طاقتیں ابھی
مایوس نہیں ہوئیں ۔ابلیس کے یہ چیلے خوب جانتے ہیں کہ اگرناقابلِ تسخیردفاع
کے ساتھ معاشی میدان میں بھی پاکستان ناقابلِ تسخیرہو گیاتو پھربڑی مشکل
ہوجائے گی،اِس لیے وہ افراتفری پھیلانے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں
گے ۔
دھماکے توطالبان نامی دہشت گردوں نے بھی بہت کیے لیکن اب خوداُن کادھماکہ
ہوچکا ، ایک سیاسی جماعت کے ’’بھائی‘‘کے آڈیو، ویڈیودھماکے بھی دَم توڑچکے
لیکن اِس کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ دھماکے ختم ہوگئے یاہوجائیں گے کیونکہ
’’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘‘۔ایک دھماکہ توہمارے مُرشد علامہ
طاہرالقادری بھی کرنے آرہے ہیں۔ اُنہوں نے فرمایاہے کہ وہ جون میں اپنے
اگلے لائحہ عمل کااعلان کریں گے ۔کچھ بَدبخت یہ بھی کہتے ہیں کہ علامہ صاحب
کااگلا لائحہ عمل اِس کے سوااور کیاہو سکتاہے کہ ’’دیت‘‘کی اگلی قسط کَب ،کہاں
اور کیسے وصول کی جائے۔ علامہ صاحب نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پرتشکیل دی جانے
والی جے آئی ٹی کی رپورٹ کومضحکہ خیزاور انصاف کاقتل قراردیا ہے۔ وہ کہتے
ہیں’’ہمیں نواز،شہباز ،راناثناء اﷲ ،آئی جی اورتوقیرشاہ کے سانحہ ماڈل ٹاؤن
میں براہِ راست ملوث ہونے میں کوئی شک نہیں‘‘۔ہمیں یقین ہے کہ وہی لوگ ملزم
بلکہ مجرم ہیں جن کاذکر ہمارے مُرشدنے کیاکیونکہ مُرشدکے ’’حُجرے ‘‘میں
مقیم مریدنے ہمیں ’’بقلم خود‘‘بتلایا کہ علامہ صاحب کوجو بشارت ہوئی اُس
میں انہی لوگوں کومجرم ٹھہرایاگیا۔ اِسی لیے وہ آئی ایس آئی کی تحقیقات
کومانتے ہیں نہ آئی بی یاکسی دوسری کی ایجنسی کی تحقیقات کو۔ہم توپہلے ہی
جانتے تھے کہ مُرشدکی ہربشارت اصلی ہوتی ہے اوراُس پر ایمان لانامریدین کا
فرضِ عین لیکن کبھی کبھارشیطان کے ورغلانے پرہمارا ایمان بھی متزلزل
ہوجاتاجس پرہم ایمان کی مضبوطی کے لیے فوراََانٹر نیٹ پرموجود مُرشدکے
خوابوں کے’’ کلپس ‘‘دیکھ کراپناایمان تازہ کرلیتے۔ مُرشدنے یہ چشم
کشاانکشاف بھی کیا’’شریف سلطنت پاکستان میں داعش کاراستہ ہمواراور اپریشن
ضربِ عضب کی قربانیوں کو ضائع کرنے کے راستے پرچل رہی ہے‘‘ جبکہ دشمنانِ
مُرشدیہ کہتے ہیں کہ مُرشدکو ڈھیروں ڈھیر نذرانے دے کراقتصادی راہداری
پروگرام کابیڑا غرق کرنے کے لیے بھیجاجا رہاہے۔ کوئی اِن عقل کے اندھوں سے
پوچھے کہ بھلامُرشد کوچائناکے46 ارب ڈالر کے اقتصادی پیکیج اوراکنامک
کاریڈور کوسبوتاژ کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کومہمیز دینے کی کیا ضرورت ہے
،یہاں چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاکر اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانے
والے بہت۔ ابھی تووزیرِاعظم صاحب کی کوششوں اور کاوشوں سے اے پی سی میں صرف
مغربی روٹ پراتفاق ہواہے ،وسطی اورمشرقی روٹس توباقی ہیں اورصنعتی زونزبھی۔
جون کی چلچلاتی دھوپ میں مُرشد ایک دفعہ پھراپنے مریدین کاصبرآزمانے آ رہے
ہیں۔ شنیدہے کہ مُرشدکے ’’کنٹینر‘‘کے ایئرکنڈیشنرکی سروس کی جارہی ہے
اوردروغ بَرگردنِ راوی ایئرکنڈیشنر کی صفائی ستھرائی سابق گورنرپنجاب
چودھری سروراپنی نگرانی میں کروا رہے ہیں۔ نہیں معلوم کہ چودھری صاحب یہ
کام کپتان صاحب کی اجازت سے کروارہے ہیں یا مفادِعامہ کے تحت۔ ویسے ہمیں
یقین ہے کہ وہ مفادِعامہ کے تحت ہی کررہے ہوں گے کیونکہ سارے جہاں کا درد
اُن کے نہ صرف جگربلکہ پھیپھڑوں میں بھی سماچکا ہے۔ویسے کچھ لوگ ’’اندرکی
بات‘‘بتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ چودھری صاحب کوتحریکِ انصاف نے ’’چیف
آرگنائزر‘‘بنانے کاجھانسا دیالیکن یہ عہدہ لے اُڑے شاہ محمودقریشی ۔اِس لیے
چودھری صاحب نے احتجاجاََ ’’کنیڈوی کنٹینر‘‘کی صفائی ستھرائی کاکام سنبھال
لیا۔ ہمارے لندن پلٹ چودھری صاحب جب سے پاکستان آئے ہیں، اُن کے ساتھ ’’ہَتھ‘‘ہی
ہورہا ہے ۔پہلے نوازلیگ نے جھانسادے کرگورنرہاؤس میں بند کردیا ،وہاں سے
رہائی ملی توتحریکِ انصاف نے ’’سہانے سپنے‘‘ دکھاکر اپنے ساتھ ملایاجس
کاانگلینڈ والوں نے بُرامناتے ہوئے یہ دھماکہ کردیاکہ چودھری صاحب کابیٹا
الیکشن میں چاروں شانے چِت ہوگیا اوراب تحرکِ انصاف بھی ’’طوطاچشم‘‘ بن گئی
۔فی الحال تووہ تحریکِ انصاف ہی میں ہیں،آگے آگے دیکھیے ہوتاہے کیا۔
اگرہمارے پاس بھی کوئی ’’چڑیا‘‘ہوتی توہم بھی بتادیتے کہ چودھری صاحب اب
کِس ٹہنی پربیٹھنے والے ہیں۔
ہمیں کپتان صاحب کے جذبۂ حب الوطنی پرپہلے کبھی شک تھا نہ اب ہے لیکن حقیقت
یہی کہ اُن کے دھرنوں نے ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچایااوراب جبکہ وطنِ
عزیزترقی کی شاہراہ پرگامزن ہونے کوہے ،وہ ایک دفعہ پھر ’’اَوکھے اَوکھے‘‘
بیان دینے لگے ہیں۔ اُن کاتازہ ترین بیان ہے کہ ’’سونامی تواب شروع ہوئی
ہے۔سونامی سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ پہلے نوازشریف اورآصف زرداری سونامی کے
خوف سے بھائی بھائی بنے اب سیکولراے این پی اورمولانا اکٹھے ہوگئے۔ میں سب
کوشکست دوں گا ‘‘ایسے دعوے کپتان صاحب نے پہلے بھی بہت کیے لیکن
ہواکیا؟،خواب چکناچور ہوئے اورایک بال سے کئی وکٹیں گرانے کادعویٰ کرنے
والے خاں صاحب سڑکوں پر۔ اُنہوں نے کہاہے’’ اب نئے پاکستان سے پہلے نیا
خیبرپختونخوا بنے گا‘‘۔ اﷲ کرے ایساہی ہولیکن خاں صاحب نے توپہلے90 دنوں
میں نیاپاکستان اورپھر 180 دنوں میں نیا خیبرپختونخوابنانے کادعویٰ کیا۔ اب
ساڑھے سات سودنوں کے بعدوہ کہہ رہے ہیں کہ ’’پہلے نیا خیبرپختونخوا بنے
گا‘‘۔ وہ 180 دنوں میں نیا خیبرپختونخوابنانے کادعویٰ کیاہوا؟۔ کیاکپتان کی
خدمت میں دست بستہ عرض کیاجا سکتاہے کہ
تیرے وعدے پہ جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مَر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
خاں صاحب فرماتے ہیں’’30 مئی کے بعد ایسابلدیاتی نظام آنے والاہے جس کے
بعدقومی اورصوبائی اسمبلی کے اراکین بلدیاتی نمائندوں کے پاس آئیں گے
کیونکہ سارے اختیارات بلدیاتی نمائندوں کے پاس ہوں گے‘‘۔ اگرواقعی سارے
اختیارات بلدیاتی نمائندوں کو سونپ دیئے جائیں گے توپھراِن اراکینِ اسمبلی
اوروزیروں شزیروں کومفت میں تنخواہیں اورمراعات کِس کھاتے میں؟۔ اگرکوئی
کہے کہ یہ آئین میں ’’ترمیمیں شرمیمیں‘‘کریں گے توہم کہتے ہیں کہ اگراِن
میں سے ایک فیصداراکینِ اسمبلی کوبھی آئین کی شُدبُدہو تو جوچور کی سزا، وہ
ہماری۔جب کپتان صاحب نے یہ کہاکہ تبدیلی سڑکوں اورمیٹروبس سے نہیں آتی
توکسی ستم ظریف نے آوازلگائی ’’جی ہاں! تبدیلی توشادی سے آتی ہے‘‘۔خاں صاحب
نے فرمایا’’پنجاب اورسندھ کی حکومتوں نے بلدیاتی انتخاب اِس لیے نہیں
کروائے کہ وہ فنڈزکو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہیں‘‘۔بالکل بجاارشاد
،پنجاب اورسندھ کی حکومتیں ہیں ہی ایسی، سوال مگریہ کہ اُن کی حکومت
خیبرپختونخوا میں دوسال تک کِس انتظارمیں رہی؟۔ اگربلوچستان میں بہت پہلے
بلدیاتی انتخاب ہوسکتے تھے توخیبرپختونخوا میں کیوں نہیں؟۔ اب تودواڑھائی
ماہ بعدپنجاب اورسندھ میں بھی بلدیاتی انتخاب ہورہے ہیں، توکیا فرق
ہواپنجاب اور’’نئے خیبرپختونخوا‘‘کی حکومتوں میں؟۔ |
|