پندرہویں شعبان حقیقت کے آئینے میں

مذہب اسلام اﷲ رب العزت کی جانب سے منتخب کردہ دین ہے۔ یہ آسان ہونے کے ساتھ ساتھ اعتدال ومیانہ روی کی حمایت بھی کرتا ہے۔ یہاں کسی طرح کے ظلم وجبر اور افراط وتفریط کی گنجائش نہیں ملتی۔ فرائض وواجبات اور سنن ونوافل سے متعلق تمام شرعی امور کو ان کی حدوں میں پوری کرنا محمود سمجھا گیا ہے۔ حکم ِرب کی بجاآوری اور طریقۂ نبوی کی پیروی اگر مزاج شریعت کے خلاف ہو تو یہ بندگی نہیں گندگی ہے۔ جس سے دین متین کی شبیہہ خراب ہوگی اور معاشرہ میں سدھار کے بجائے بگاڑ پید اہوگا۔

امور شرعیہ کے متعدد شعبوں میں سے ایک بدنی عبادت بھی ہے، جو نماز یا روزہ کی شکل میں ادا کی جاتی ہے۔ دین کی بنیاد کہے جانے والے ان دونوں امور پہ آج ہم کتنے کار بند ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہر ایک اپنے اندر غور کرکے اندازہ لگا سکتا ہے۔ لیکن کچھ خاص موقعوں پر ہم پابند شریعت تو کجا بر سَر شریعت نظر آتے ہیں۔ حد اعتدال سے نکل کر افراط وتفریط میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جس سے یا تو اسلام کی صحیح تعلیم دَب جاتی ہے یا معاشرہ میں غلط پیغام جاتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں امت مسلمہ کے حق میں نقصاندہ ہیں۔

اسی سلسلے کی ایک کڑی نصف شعبان میں کیے جانے والے اعمال ہیں۔ شعبان المعظم میں ہادی عالم محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کا معمول ذخیرہ ٔاحادیث میں موجود ہے، جو مجموعی طور پر اس مہینہ کی عظمت وبرکت اور حرمت کی طرف مشیر ہے۔ لیکن چونکہ امت کے درمیان مختلف باتیں پائی جارہی ہیں، جو کہیں نہ کہیں اس کی اصلیت اور حقیقت پر پردہ ڈال دیتی ہیں۔ اس لیے یہاں مختصراً نصف شعبان کی رات کی فضیلت، اس میں کیے جانے والے اعمال اور ۱۵ویں شعبان کے دن میں روزہ کے سلسلہ میں واضح اور مبرہن گفتگو مقصود ہے۔ جو متبعین شریعت کے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکے۔

شب برات کے بارے میں پیارے نبی ﷺ کے ارشادات
مکمل افادہ کی غرض سے احادیث کی مختلف عربی عبارتیں پیش کرکے ان تمام کے ماحصل اردو ترجمہ پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
٭ عن ابی موسی الاَشعری رضی اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ ﷺ قال: اِن اللّٰہ لیطلع فی لیلۃ النصف من شعبان، فیغفر لجمیع خلقہ اِلاَّ لِمشرک اَوْ مشاحن۔ (سنن ابن ماجہ حدیث۱۳۹۰)
٭ عن ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ عن النبی ﷺ قال: ینزل اللّٰہ الی السماء النصفَ من شعبان ،فیغفر لکل شیٔ الا رجل مشرک اَوْ رجل فی قلبہ شحناء۔ (شعب الایمان للبیھقی، حدیث ۳۵۴۶)
٭ قال رسول اللّٰہ ﷺ (اتدرین أی لیلۃ ھذہ) قلت، اَللّٰہ و رسولہ اعلم، قال ھذہ لیلۃ النصف من شعبان، ان اللّٰہ عز وجل یطلع علی عبادہ فی لیلۃ النصف من شعبان فیغفر للمستغفرین و یرحم المسترحمین ویؤخر اھل الحقد کما ھم۔ (شعب الایمان للبیھقی ،حدیث۳۵۵۴)
٭ عن عبد اللّٰہ ابن عمرو رضی اللّٰہ عنہ ان رسول اللّٰہ ﷺ قال: یطلع اللّٰہ عز وجل الی خلقہ لیلۃ النصف من شعبان، فیغفر لعبادہ الا لِاُنْثیین: مشاحن وقاتل نفس۔ (مسند احمد، حدیث ۶۶۴۲)
٭ عن عائشۃ عن النبی ﷺ قال: ھل تدرین مافی ھذہ اللیلۃ یعنی لیلۃ النصف من شعبان؟ قالت ما فیھا یا رسول اللّٰہ؟ قال: فیھا یکتب کل مولود بنی آدم فی ھذہ السنۃ، وفیھا ان یکتب کل ھالک من بنی آدم فی ھذہ السنۃ، وفیھا ترفع اعمالھم، وفیھا تنزل ارزاقھم۔ (الدعوات الکبیر للبیھقی، حدیث۵۳۰)
٭ عن عثمان بن ابی العاص عن النبیﷺ قال: اذا کانت لیلۃ النصف من الشعبان، نادیٰ منادٍ ھل من مستغفر؟ فاغفرلہ، ھل من سائل؟ فاعطیہ، فلایسأل احد شیاً الا اعطی الا زانیۃ بفرجھا او مشرک۔ (شعب الایمان للبیھقی، حدیث ۳۵۵۵)
٭ عن عثمان بن محمد قال قال رسول اللّٰہﷺ تقطع الاجال من شعبان الی شعبان حتی ان الرجل لینکح ویولد لہ وقد دخل اسمہ فی الموتیٰ۔ (شعب الایمان للبیھقی، حدیث ۳۵۵۸)
٭ قال رسول اللّٰہﷺ اتانی جبرئیل علیہ السلام فقال: ھذہ اللیلۃ لیلۃ النصف من شعبان، واللّٰہ فیھا عتقاء من النار بعدد شعور غنم کلب لاینظر اللّٰہ فیھا الی مشرک ولا مشاحن ولا الی قاطع رحم ولا الی مسبل ولا الی عاق لوالدیہ ولا الی مدمن خمر۔ شعب الایمان للبیھقی، حدیث ۳۵۵۶)

خلاصۂ احادیث
شب برات کے بارے میں پیارے نبیﷺ نے جو کچھ ارشاد فر مایا اس کا ماحصل یہ ہے کہ اﷲ پاک پندرہویں شعبان کی رات کو اپنے بندوں کی طرف نظر رحمت فرماتے ہیں۔ اﷲ کی طرف سے ہر مغفرت کے طالب کو معاف کردیا جاتا ہے۔ مانگنے والے کو عطا کیا جاتا ہے۔ رحم چاہنے والے پر رحم کیا جاتا ہے۔ اس رات اﷲ پاک بہت سے لوگوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد کر دیتا ہے؛ مگر شرک کرنے والا، کینہ رکھنے والا، رشتہ توڑنے والا، شراب پینے والا، ناحق قتل کرنے والا، ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا اور بدکار عورت، یہ سارے لوگ اس رات بھی اﷲ کی رحمت، مغفرت اور نعمت سے محروم کردیے جاتے ہیں۔ اسی رات کو بندوں کی مقررہ روزی لکھ دی جاتی ہے۔ اس سال میں پید اہونے والے اور مرنے والے کی فہرست تیار جاتی ہے۔

اکابرین امت کے اقوال
حضرت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ پانچ راتوں میں دعاؤں کو قبول کیا جاتا ہے: جمعہ کی رات، عید الاضحی کی رات، عیدالفطر کی رات، رجب کی پہلی رات اور شعبان کی پندرہویں رات۔ (شعب الایمان)

علامہ ابن الحاج مالکی ؒ فرماتے ہیں کہ اس رات کے بڑے فضائل ہیں اور یہ بڑی خیر والی رات ہے۔ ہمارے اسلاف اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے۔ (المدخل۲۹۹)

علامہ ابن تیمیہؒ کے شاگرد ابن رجب منہلی فرماتے ہیں کہ شام کے مشہور تابعی خالد بن نعمان اس رات کی بڑی تعظیم کرتے اور خوب عبادت کرتے۔ (لطائف المعارف ۱۴۴)

علامہ ابن نجیمؒ فرماتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں رات کو بیدار رہنا مستحب ہے۔ (البحر الرائق۵۲/۲)

شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ اس رات کو بیدار رہنا مستحب ہے اور فضائل میں اس جیسی احادیث پر عمل کیا جاتا ہے، یہی امام اوزاعی کا قول ہے۔ (ماثبت بالسنۃ۳۶۰)

ماقبل میں پیش کردہ احادیث کے علاوہ اور بھی متعدد صحابہ کرام سے اس رات کی فضیلت منقول ہے۔ بعض صحت کے درجہ کو پہنچتی ہیں، بعض حسَن کا مقام رکھتی ہیں تو بعض ضعیف بھی ہیں۔ مجموعی طور پر شب برات کی فضیلت مسلم اور محول ہے ،جس کا قولاً یا عملا ً انکار نہیں کیا جاسکتا۔ خلیفۃ الرسول صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی روایت ’’ ینزل اللّٰہ الی السماء النصفَ من شعبان ،فیغفر لکل شیٔ الا رجل مشرک اَوْ رجل فی قلبہ شحناء۔‘‘کے بارے میں کٹر غیر مقلد عالم عبد المجید سلفی لکھتے ہیں ’’روی الطبرانی و البیھقی من حدیث ابی بکر الصدیق باسانید لابأس بہ (حاشیہ المعجم الکبیر۱۰۸/۲۰، رقم الحدیث ۲۱۵) اور حضرت معاذبن جبل ؓ کی روایت کی سند کو محمد حسن اسماعیل الشافعی نے المعجم الاوسط کے حاشیہ میں ’’اسنادہ حَسنٌ‘‘ کہا ہے۔ (المعجم الاوسط ۱۱۹/۵) اور امام ابوبکر ہیثمی نے حضرت معاذبن جبل ؓ کی روایت کے بارے میں ’’رجالھا ثقات‘‘ کے الفاظ نقل فرمائے ہیں۔

الغرض محدثین وفقہاء امت کے نزدیک باب فضائل میں متکلم فیہ روایات جب متعدد طرق اور متعدد صحابہ سے ثابت ہوجائیں تو بلاشبہ معتبر ہوتی ہیں۔ اس لیے خواہ مخواہ اس رات کی فضیلت اور عظمت کے بارے میں لوگوں کو شکوک و شبہات میں ڈالنا انتہائی نامناسب بات ہے۔

پندرہویں شعبان کا روزہ
احادیث مبارکہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نفلی روزوں کے سلسلہ میں حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کا کو ئی لگا بندھا معمول نہیں تھا۔ کبھی مسلسل روزہ رکھتے، کبھی ناغہ کرتے۔ کبھی ایّام بیض (۱۳،۱۴،۱۵تاریخوں) کے روزے رکھتے، کبھی مہینے کے شروع میں منگل، بدھ اور جمعرات کے روزے رکھتے تو کبھی جمعہ کے روزے کا اہتمام فرماتے۔ اسی طرح شعبان کے مہینہ میں بھی کثرت سے روزہ رکھا کرتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آپﷺ نے پندرہویں شعبان کے روزہ کا اہتمام کیا یا اس کے رکھنے کا حکم دیا؟ تو اس بارے میں ایک حدیث سنن ابن ماجہ میں ہے۔ یہ حدیث سیدنا حضرت علی کرم اﷲ وجہ سے مروی ہے۔ مکمل سند کے ساتھ ملاحظہ ہو:
حدثنا الحسن بن علی الخلاّل، قال حدثنا عبد الرزاق، قال انبأنا ابن ابی سبرۃ، عن ابراھیم بن محمد، عن معاویۃ بن عبد اللّٰہ بن جعفر عن ابیہ عن علی بن ابی طالب قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلھا وصوموا یومھا، فان اللّٰہ ینزل فیھا لغروب الشمس الی سماء الدنیا فیقول: اَلاَ مِنْ مستغفر فاغفرلہ، الا مسترزق فارزقہ ، الامبتلی فاعافیہ، الا کذا، الاکذا، حتی یطلع الفجر (سنن ابن ماجہ، حدیث۱۳۸۴،۲۵۳/۱، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)
ترجمہ: (عبد اﷲ محمد بن یزید قزوینی ؒفرماتے ہیں کہ) ہم سے حسن بن علی خلّال نے بیان کیا کہ ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا کہ ہمیں ابن ابی سبرہ نے خبر دی، وہ اس حدیث کو ابراہیم بن محمد سے بیان کرتے ہیں اور وہ معاویہ بن عبد اﷲ بن جعفر سے اور وہ اپنے والد سے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ نے بیان فرمایا کہ :رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب نصف شعبان کی رات ہوجائے تو اس رات کو قیام کرو (نماز پڑھو) اور اس کے دن کو روزہ رکھو، اس لیے کہ اﷲ تعالی اس رات غروب شمس کے وقت آسمان دنیا پر نزول ِاجلال فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ :ہے کوئی معافی مانگنے والا کہ میں اس کو معاف کروں؛ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اس کو رزق دے دوں؛ ہے کوئی (مصیبت میں) مبتلا کہ میں اسے اس سے بچادوں؛ ہے کوئی ایسا ․․․ہے کوئی ایسا․․ ․یہاں تک کہ صبح صادق طلوع ہوجاتی ہے۔

اس حدیث میں پندرہویں شعبان کے روزہ کا حکم ہے۔ چونکہ یہ حدیث محدثین کے نزدیک سنداً ضعیف ہے۔ اس لیے اس روزہ کو فرض یا واجب یا سنت موکدہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ اس کو بدعت کہا جاسکتا ہے۔

چونکہ امت کا ایک بڑا طبقہ اس پر عمل کرتا چلا آرہا ہے، اس لیے اس عمل کی شدت کو دیکھتے ہوئے بعضوں نے اسے بدعت پر محمول کردیا اور حضرت علی ؓسے مروی مذکورہ بالا حدیث کو فقط ایک راوی ابن ابی سبرہ کی وجہ سے موضوع قرار دے دیا، جوکہ حقیقت سے ناآشنائی ہے۔

یہ بات سچ کہ اس حدیث میں ایک راوی ’’ابن ابی سبرہ‘‘ ہیں، جن کے بارے میں امام احمد بن حنبلؒ اور یحےٰی بن معین ؒ نے واضع حدیث ہونے کی بات کہی ہے۔ لیکن یہ سچ نہیں ہے کہ زیر بحث حدیث بھی اس کی وضع کردہ ہے؛ کیوں کہ اگر یہ حدیث موضوع ہوتی تو حافظ منذری ؒاس کو اپنی کتاب الترغیب والترہیب میں ذکر نہ کرتے۔ اسی طرح ’’ماتمس بہ الحاجۃ‘‘ جس میں ساری موضوع احادیث موجود ہیں، اس میں اس حدیث کا کہیں تذکرہ نہیں ہے۔

اب رہی بات کہ جنھوں نے ’’جامع ترمذی‘‘ کے شارح مولانا عبدالرحمن مبارک پوری ؒ( جو خود بھی غیر مقلد تھے) کی تصنیف ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ (۵۳/۲) پر آئی ہوئی عبارت سے اس حدیث کے موضوع ہونے پر استدلال کیا ہے، دراصل انھوں نے تحفۃالاحوذی کی پوری عبارت کو سامنے نہیں رکھا ۔ لہذا اس کی مکمل عبارت بعینہ نقل کی جارہی ہے، جس سے حقیقت کا انکشاف ہو جائے گا:
منھا حدیث علی قال: قال رسول اللّٰہﷺ اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلھا وصوموا یومھا (الخ) رواہ ابن ماجۃ، وفی سندہ ابو بکر بن عبد اللّٰہ بن محمد بن ابی سبرۃ القرشی العامری المدنی، قیل اسمہ عبد اللّٰہ، وقیل محمد وقد ینسب الی جدہ، رموہ بالوضع کذا فی التقریب، وقال الذھبی فی المیزان ضعفہ البخاری وغیرہ، وروی عبد اللّٰہ وصالح ابنا احمد عن ابیھما قال، کان یضع الحدیث، وقال النسائی متروک۔ انتھی فھذہ الاحادیث بمجموعھا حجۃ علی من زعم انہ لم یثبت فی فضیلۃ لیلۃ النصف من شعبان شئیٌ۔ (تحفۃ الاحوذی ۵۳/۲)
ترجمہ: انھیں میں سے حضرت علی کی حدیث ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جب شعبان کی ۱۵؍ تاریخ آئے تو رات میں عبادت کرو اور دن میں روزہ رکھو (الخ) اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں ابوبکر بن عبداﷲ بن ابی سبرہ القرشی العامری المدنی ہیں، ان کا نام لوگوں نے عبد اﷲ بتایا ہے، بعض لوگوں نے اس کو وضع حدیث کا مرتکب ٹھہرایا ہے، ایسے ہی تقریب میں ہے۔ امام ذہبی نے میزان میں فرمایا ہے کہ امام بخاری وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور عبد اﷲ وصالح بن احمد بن حنبل نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ وہ حدیث گھڑتا تھا اور امام نسائی نے فرمایا کہ وہ متروک ہے، بس یہ تمام حدیثیں مجموعی اعتبار سے اس شخص کے خلاف حجت ہیں جس نے گمان کیا ہے کہ پندرہویں شعبان کی رات کے سلسلہ میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔

دیکھیے مولانا مبارک پوری ؒابن ماجہ کی حدیث نقل کرکے اس کے راوی پر جو جرح ہے اس کو بھی نقل کرتے ہیں، اس کے باوجود اس حدیث کو دوسری ضعیف حدیثوں کے ساتھ ملا کر حجت بھی قرار دیتے ہے۔

معلوم ہو اکہ علامہ منذریؒ یا مولانا مبارک پوری ؒنے اس حدیث کو موضوع نہیں کہا، بلکہ صرف ضعیف قرار دیا ہے۔ مگر اس کا ضعف اس پر عمل کرنے سے مانع نہیں ہے۔
اس رات میں قبرستا ن جانا

اس سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے ایک حدیث مروی ہے:
وہ فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے آپﷺ کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ ؐ کی تلاش میں نکلی۔ میں نے دیکھا کہ آپؐ جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا: کیا تم اس سے خو ف کرتی تھی کہ تم پر اﷲ اور اس کے رسولﷺ ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ مجھے یہ خیال آیا کہ شاید آپؐ دوسری اہلیہ محترمہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا بے شک اﷲ پاک شعبان کی پندرہویں شب میں آسمان دنیا پر جلوہ گر ہوتے ہیں اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں اپنے بندوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ (جامع ترمذی ۱/ابواب الصوم)

اس حدیث سے حضور پاکﷺ کا صرف ایک بار اس رات میں قبرستان جانا ثابت ہے۔ کوئی حکم ثابت نہیں۔ اسی طرح اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آپ خفیہ طور پر قبرستان گئے، کسی کونہ بتایا، حتی کہ زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ بھی اس سے بے خبر تھیں۔ اگر اس رات کو قبرستان جانا اتنا ہی اہم ہوتا جتنا کہ آج کے دور میں اس کی اہمیت جتائی جاتی ہے، توآپ ؐضرور کسی کو بتاتے، کم از کم اپنے گھر کے افراد اور اہلیہ کو ضرور بتاتے۔ لہذا اس حدیث کی بنیاد پر اس پرعمل کرنے کے لیے پوری زندگی میں ایک بار پندرہویں شعبان کی رات کو قبرستان جانا (جس طرح پیارے آقاﷺ گئے) کافی ہوگا۔ اور سنت کے مطابق ہوگا۔ اور اس پر دوام اور اہتمام خلاف سنت ہوگا۔

الغرض پندرہویں شعبان کی رات، اس رات کے اعمال اور اس دن کے روزے کے سلسلہ میں واضح باتیں احادیث سے ثابت ہو چکی ہیں۔ اور قائدہ ہے کہ شریعت میں جو جتنا ثابت ہو اسے اتنا ہی باقی رکھنا اور اسی حد تک اس پر عمل کرنا مطلوب ہوتا ہے، اس کی حد سے تجاوز کرنا خلاف شرع کہلاتا ہے جو کہ مردود ہے۔ لہذا اس رات سے متعلق تمام غیر شرعی چھوٹے بڑے اعمال قابل ترک ہیں ،خواہ وہ مساجد میں اجتماعی شب بیداری ہو یا نوافل کے مخصوص اور وضع کردہ طریقے یا اس رات میں گھروں میں روحوں کے آنے کا عقیدہ یا کھلم کھلا غیر شرعی اعمال جو شرعا اور معاشرتاً دونوں اعتبار سے قبیح ہوں؛ ان سب سے احتراز ضروری ہے، تاکہ موجودہ اور آئندہ نسل کے سامنے اسلام کی صحیح اور اصل تعلیم پیش ہوسکے اور دین کے نام پر غیر شرعی وخلاف سنت رسم ورواج سے معاشرہ بالکل محفوظ رہ سکے۔
Mufti Muhammad Fayaz Qasmi
About the Author: Mufti Muhammad Fayaz Qasmi Read More Articles by Mufti Muhammad Fayaz Qasmi: 10 Articles with 10031 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.