آہٹ سن لیں ، تو اچھا ہے

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر زمین پر بھیجا۔اس کے ساتھ بہت سی نعمتوں سے بھی نوازا۔پیغبر بھیجے ،تاکہ انسان کو زندگی گزارنے کے اصولوں سے روشناس کروایں ۔بہت سی نعمتوں کو پوشیدہ رکھا۔جن کو ڈھونڈنے کے لئے وسیع دماغ دیا،جستجوکی حِس عطا کی۔اسی لئے انسان نے اﷲ تعالیٰ کی چند پوشیدہ نعمتوں کو ڈھونڈا اور قیامت تک ایسا کرتا رہے گا،مگر نعمتیں ختم نہیں ہوگی۔انسان کو خدا کا نائب ہونے کا رتبہ دیا گیا، لیکن انسان اﷲ تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات سے منکر ہوا ۔ یہ آج نہیں بنی اسرائیل سے سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ بہت سی قومیں تباہ و برباد ہو گئی ۔صرف اس لئے کہ آنے والے اس سے نصیحت لیں ،لیکن ہم آج بھی اُسی دور میں دوبارہ پہنچ گئے ہیں۔ہم نے ملاوٹ بے ایمانی،کم تولنا ، فحاشی ،ریاکاری ، فراڈ ، انسانیت سے گری ہوئی حرکات کرنا اور بداخلاقی ،بدتمیزی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا انجام نہ صرف برا ہے بلکہ بھیانک ہے۔یہ خیال اکثر ہر با شعور انسان کو آتا ہے ، جب وہ معاشرتی بے راہ روای کو دیکھتا ہے۔ بے انصافی، بے حسی سے آئے روز واسطہ پڑتا ہے۔

انسان کو زندہ رہنے کے لئے ہوا ، پانی اور غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اﷲ تعالی کی نعمتوں میں سے ہیں۔ جس کا حصول انسان نے انسان کے لئے مشکل ترین بنا دیا ہے۔ پیسے کی ہوس نے ان سے انسانیت چھین لی ہے۔کروڑوں انسان بڑی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں،ہر روز ہزاروں لوگوں کی اموات ہو جاتیں ہیں، مگر انہیں یہ تک نہیں پتہ چلتاکہ ہمیں قتل کیا گیا ہے،اگر پتہ بھی چل جائے ،تو وہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں ،انہیں کچھ خبر نہیں ۔وہ اسے اﷲ تعالیٰ کی مرضی سمجھ کر صبر شکر کر لیتے ہیں۔ حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے۔آلودہ ہوا، گندہ پانی اور ملاوٹ شدہ غذا کہیں اور سے نہیں بلکہ پیسے کی ہوس کے مارے ہوئے انسان نے انسان کو سستی موت بانٹی ہے۔ ایسا ہی ایک واقع سنڑل جیل کورٹ لکھپت لاہور کا ہے۔جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہم اور ہمارے حکمران کس قدر بے حس ہیں ۔ جیل میں سڑتے ہوئے لوگ جانور نہیں ،بلکہ انسان ہیں۔ اُن میں بہت سے لوگ نا انصافی کی بھینٹ چڑھے ہوئے بے گناہ ہیں اور جو گناہ گار بھی ہیں، وہ بھی انسان ہی ہیں۔غازی روڈ پر واقع مرغی فروش کے انکشاف نے ہمارے معاشرے اور حکمرانوں اور انتظامیہ کو برہنہ کر دیا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ دو سال سے مری ہوئی مرغیوں کا گوشت انتظامیہ کی ملی بھگت سے فروخت کر رہا ہوں ،جسے جیل میں قیدیوں کو کھلایا جاتاہے۔ایسی حرکت کرنے سے نہ صرف ہمارا دین منع کرتا ہے، بلکہ انسانیت کے طور پر بھی بڑی گری ہوئی حرکت ہے۔یہ واقعہ کوئی ایک دفعہ سامنے نہیں آیا،بلکہ بار ہا ایسے واقعات سامنے آئے ہیں۔ان حالات کی وجہ یہ ہے کہ ہم اصل گناہ گار کو سزا نہیں دیتے ،تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کر سکے۔ جیل کا مقصد یہ نہیں کہ مجرموں کو اذیت دی جائے ،بلکہ اُن کی اصلاح مقصود ہوتی ہے ۔ اُن کی صحت اور تربیت کا انتظام حکمرانوں کی ذمہ داری ہے،مگر ہماری جیلوں کا الٹا چکر ہے۔ جب کوئی شخص ان جیلوں میں وقت گزارتا ہے۔وہاں جو تربیت اسے ملتی ہے اس سے وہ اچھا شہری بننے کی بجائے مجرمانہ سوچ کو پختہ کر کے جیل سے باہر آتا ہے۔ نشے کا عادی بن جاتا ہے کیونکہ جیل میں منشیات عام میسر ہے۔وہ جرم سے نفرت کی بجائے، جرم کے نئے گر سیکھتا اور گروں بناتا ہے ،وہ موبائل پر جرائم کرنے کے فن سے آشنا ہوتا ہے کیونکہ موبائل فون کی سہولت جیل میں اسے آسانی سے میسر ہے۔قتل،بھتہ خوری،اغوا ،یہ تمام جرائم جیل میں کاروباری شکل اختیار کر چکے ہیں۔ یہ کاروبار جیل میں موجود نامور گروپ کرتے ہیں اور یہ مشہور عام ہیں۔جن مجرموں کو مشقت کی سزا ہوتی ہے ،ان سے پیسے لے کر آرام کروایا جاتا ہے اور جو غریب انتظامیہ کو پیسے نہیں دے سکتے، ان سے کئی گنا زیادہ مشقت کروائی جاتی ہے۔

کیا یہ معلومات ہمارے اربابِ اختیار سے پوشیدہ ہیں؟ایسا ہر گز نہیں ،کیونکہ ان کے اپنے مفادات ہیں،اس لئے انہوں نے ’’چپ کا روزہ‘‘ رکھ لیا ہے۔ بہت سے ایسے با اختیار لوگ ہیں ،جو اپنے مجرمانہ کام انہیں پیشہ ور مجرموں سے جیل میں بیٹھے کرواتے ہیں ۔جنہوں نیاس اندھیر نگری کو روشنی کی کرن دینی ہے ،وہ خود اس میں ملوث ہیں۔ جن چہیتوں سے وہ کام لیتے ہیں ، انہیں تو تمام تر سہولیات جیل میں میسر ہیں۔

ایسی ہولناک کرپشن کے ہوتے ہوئے جرائم کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔ قانون بنانے والے اور ان پر عمل کروانے والے خود اس گھناؤنے کاروبار کا حصہ ہیں۔نتیجہ ملک میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔ جہاں اچھے بُرے کی تمیز ختم ہو جائے، وہ معاشرہ پستی میں گر جاتا ہے ۔جس ڈگر پر ہم چل رہے ہیں ،وہاں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔یہاں نہ معاشی ترقی ہو سکے گی ،نہ سماجی بہتری آئے گی اور نہ ہی عوام محفوظ ہو گی ۔آہٹ سن لیں ، تو اچھا ہے……
 
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 110080 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.