برما میں اقلیتی مسلمان آبادی
بدھا بھگشو کے پیروکاروں کے رحم وکرم پر ہے اور اقوام متحدہ، اسلامی تعاون
تنظیم سمیت دنیا کا کوئی ذمہ دار ادارہ مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کی روک
تھام میں مسلسل ناکام رہے۔ایک رپورٹ کیمطابق برما میں مسلمانوں پر مظالم
نئی بات نہیں لیکن مسلم آبادی کے اجتماعی قتل عام کا آغاز اُس وقت سے شروع
ہوا جب بنگلہ دیش نیا نیا پاکستان سے جُدا ہوا تھا، برما اور بنگلہ دیش کے
درمیان مسلمانوں کو ایک دوسرے کی حدود میں دھکیلنے پر ایک تنازع پیدا ہوا،
بنگلہ دیش برما کے مہاجرین کا بوجھ اُٹھانے کو تیار نہیں تھا جبکہ برمی
حکومت مسلمانوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھی،1992ء میں دونوں ملکوں کے
درمیان اقوام متحدہ کی وساطت سے ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت بنگلہ دیش میں
موجود تمام مسلمان مہاجرین کو واپس میانمار (برما)منتقل کرنے پر اتفاق کیا
گیا تھا، اُس وقت ڈھائی لاکھ برمی مسلمان پناہ لیے ہوئے تھے۔معاہدہ کرنے
باوجود برمی حکومت مسلمانوں کو برما میں رکھنا نہیں چاہتی اور جب مسلمانوں
کی ایک بڑی تعداد واپس برما چلی گئی تو برما حکومت نے سول اور ملٹری
ملیشیاکے ذریعے مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع کر دیا۔۔
اس کے بعد2013ء میں برما میں قتل عام کا نیا سلسلہ شروع ہوا، میڈیا اور بعض
نام نہاد صحافی اس قتل عام کو فرقہ وارانہ فسادات کہ کر اصل بات کو فراموش
کیا جبکہ حقیقت تو یہ تھا کہ برما میں بدھا کے پُر امن پیروکارں کو بیرونی
اشاروں پر مسلمانوں کے قتل عام پر اُکسایا جاتا تھا، قتل عام میں نہ صرف
بدھ مذہب کے انتہا پسند شامل تھیں بلکہ فوج، پولیس اور ریاستی ادارے بھی
بڑگ چرح کر حصہ لیتے تھے۔
ٓآج کل ایک بار پھر برما کے مظلوم مسلمانوں پر مظالم کا نیا سلسلہ جاری ہے،
کئی دنوں پر سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی تصاویر دیکھنے سے دل میں برما کے
مسلمانوں کیلئے کچھ لکھنا چاہتا تھا لیکن ذہن اتنا منتشر ہو چکا تھا کہ کچھ
بھی لکھنے میں ناکام رہا، آج ایک پوسٹ نے مجھے کچھ لکھنے کا حوصلہ دیا،
گزشتہ دنوں سے ایک تصویر نظر سے گزری، سبز رنگ کی ایک سمندری کشتی جس کی
لکھڑی سے سے بنی سطح پانی میں رہ رہ کرپھلسن زدہ محسوس ہو رہی تھی، دو ربڑ
کے ٹائر اس سے لٹک رہے تھے، شائد ایمرجنسی بوٹس کے طور پر لٹکا رکھے ہوں گے،
کشتی میں عمر کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے انسان نما چیزیں سوار تھیں،
ادھ ننگے جسم، ہڈیاں یوں جیسے ابھی چمڑی پھاڑ کر باہر کع آئیں گی، چہروں پر
خوف اور پریشانیاں عیاں تھا، اُن میں سے کچھ کشتی کے ساتھ لٹکتے ان ٹائروں
سے لٹکے ہوئے تھے اور اُن میں سے ایک نیچے اس ہیبت ناک ، سیاہ اور الودہ
پانی میں۔۔۔۔۔۔۔تصویر کے نیچے درج تھا، روہنگیا مسلمانوں کی کشتی جسے
ملائیشیا نے اپنے ساحلوں پر اُترنے کی اجازت نہ دی، تفصیل پڑھی تو معلوم
ہوا کہ برما کے روہنگیا مسلمانوں کی یہ کشتی کئی دنوں سے بحرہ انڈمان میں
بھٹک رہی ہے کیونکہ قریبی ممالک جن میں ملائیشیا اور انڈونیشا بھی شامل ہیں،
انہیں اپنے ملک میں رکھنے کو تیار نہیں۔۔۔۔۔
تو یہ بھی مسلم ممالک ہیں جودوسرے ملک کے مسلمانوں کی کشتی کو اپنی ملک میں
جگہ دینے کو تیار نہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ انہیں ا یسا کرنے پر غصہ سے
خراج تحسین پیش کروں یا انگشتہ بدنداں ہو جاؤں ؟؟؟
برما میں مسلمانوں کی خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے اور تمام مسلم ممالک
انہیں پناہ دینے سے انکار کرتے ہیں، اُن کو پکڑ پکڑ کر آگ کے الاؤ میں
پھینکا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنے بھیٹا ہے، عورتوں اور
بچوں کو نہایت بے دردی کیساتھ دریاؤں میں کودنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور
میڈیا کو ہالی ووڈ فلم کی کامیابی اور ناکامی کی پڑی ہے ، وہاں کے مسلمانوں
کو اجتماعی قبروں میں زندہ درگور کرنا اور زخموں سے چور تڑپتے لاشوں پر رقص
کرنا کسی بھی مہذب دُنیا اور تہذیب میں روا نہیں ہو سکتا لیکن انسانی حقوق
کے علمبردار خواب خرگوش میں مُبتلا ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کب ہماری ماؤں کی کھوک سے محمد بن قاسم جنم لیگا
جو مظلوم مسلمانوں کیلئے دشمن کو ملیا میٹ کرنے کیلئے کافی ہو،کونسے ملک سے
احمد شاہ ابدالی پیدا ہوگا جو دشمن سے برما کو ہمیشہ کیلئے خالی کرا دیں،
کب ہماری سر زمین سے وہ پھول کھلے گا جو اپنی مہک سے مسلمانوں میں اتحاد
واتفاق قائم کریں جو برما کے مسلمانوں کی مدد کریں۔۔۔۔ااﷲ تعالیٰ برما کے
مسلمانوں کی مدد کریں اور انہیں دشمن سے بچائے رکھے۔ آمین |