جانا تو طے ہے
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
گاؤں دیہات کی کچی مسجد کی
بوسیدہ سی چٹائی پر بیٹھ کر قرآن یاحدیث کا درس دیناتو دنیا میں کہیں بھی
کوئی زیاد ہ حیرت وندرت والی بات نہیں ہے؛ کہ دین اسلام کی بعثت بحر وبر،
شہر وقریہ سب کے لئے ہوئی ہے، اس کی تعلیمات اللہ کی کتاب اور رسول ﷺکی سنت
سے پھیلی ہیں ، لامحالہ اسکا حامل بھی ہر جگہ اور ہرطرح سے اسکی جدوجہد
کریگا ، کچھ غیر معمولی شخصیات مگر ان معمولی وضع قطع کے لوگوں میں ایسی
ہوتی ہیں ،جو سب کی طرح مگر سب سے الگ ہوتی ہیں ، دریائے سندھ کی دونوں طرف
پھیلی ہوئی کوہستانی طرز زندگی کی حامل پشتون قوم میں وقتا ًفوقتاً پہلو
میں بہتےبحرِِ گہربارکے ذوقِ اضطراب سے نادر ہ ٔ روزگار ہستیوں نے جنم
لیاہے۔
کابل گرام نامی گاؤں میں اخوند خیل برادری میں بیسویں صدی کے وسط میں جنم
لینے والے شیخ ولی اللہ نے بھی ایک عام مدرسے میں پڑھا، یہ مولانا حسین
احمد مدنی اورمولانا حسین علی کے صف اول کےتلامذہ کا دور تھا اور ملک میں
ہرطرف انہی کا طوطی بولتاتھا ،کراچی کے دارالعلوم اور صوابی کے دار القرآن
میں گرد ونواح کےہزاروں طالبانِ علم نےآکر کسب فیض کیا ،مگر شیخ ولی اللہ
نے ان کے پاس وہ سبق پڑھا، جس سےانہوں نے امت کی امامت کیلئے نشانِ راہ کا
کام لینا تھا،شیخ ولی اللہ کی تخلیق کسی نوبل کام کیلئے ہوئی تھی اور انہیں
اس کا ادراک تھا ، فراغت کے بعد اسی لئے انہوں نے اظہارِ اعتماد اور پیشکش
کے باوجود یہ کہہ کر ان اساتذہ کے اداروں میں پڑھانے سے معذرت کی کہ‘‘میں
نے اپنے علاقے میں کام کرنا ہے’’ ۔
خود شناسی کا یہ وہ مقام ہے جس پر قدم جمانے والے کی لافانی حیثیت میں شبہے
کی گنجائش نہیں ہوتی ، شیخ ولی اللہ صاحب اپنے آبائی گاؤں میں بیٹھ گئے اور
تعلیم الکتاب کا وہ سلسلہ شروع کیا ،جس میں کبھی مشیخت کا تاج سرپر بند ھنے
کی نوبت آتی ہے ،نہ تلمّذ وتبرک کےطہبہ دست بوسی کیلئے لائنیں لگاتے ہیں،
نذرانوں سے دامن بھرنے والےآتے ہیں نہ مدح وثنا کے قصیدے گوش گذار
کرنےکیلئے بزم سجائی جاتی ہے ،یہ ادب کے قرینوں اور رعایتِ منازل کے تکلفات
سے کوسوں دور عوام کو کتابِ ہدایت سے جوڑنے کی سادہ سی جدوجہد تھی ،ذات پات
کے گنبد میں بسیرا کرنے والوں کیلئے جس میں کوئی کشش نہ تھی ، مال ومنفعت
کے دام میں گرفتار کرکے رام کرنے کا کسی کو موقع دینا بھی مولانا کے مزاج
میں نہ تھا، پھر کیاتھا شیخ صاحب نے توحید وسنت کا درس دیا ،لوگوں کو ہمنوا
اور گرویدہ بنانے کےلئے نہیں رضائے حق اور ادائے فرض کی خاطر، کسی نے کان
دھرا کسی نے اڑان بھری ،کوئی ساتھ ہو لیا،کسی نے ٹھکرادیا، مگر انہوں نے
اپنی راہ ورسم نہیں بدلی، کسی بااثر کے رعب داب میں آئے نہ ہمراہوں کے
وفاداری بدلنے کے خوف سے ان کے پائے استقامت میں لغزش آئی ۔
شیخ ولی اللہ ایک جماعت کے رہنما بھی تھے، جس سے دوسرے بے شمار لوگوں کے
طرح مجھے بھی اختلاف ہوسکتاہے ، مگر شیخ اپنی ذات میں ہی ایک انجمن تھے اور
ان کی ذاتی حیثیت شاید جماعتی مقام سے ما ورا تھی، مجھ جیسے طالب علم کا ان
سے تاثر بھی ذاتی نوعیت کا ہے ،جاکعتی وابستگی کے حوالے سے نہیں ،اور ان کے
نام لیواؤں خصوصاً خونی ناتے کا دم بھرنے والوں کو بھی شیخ کی جماعتی
خدمات کی بجائے ان کی علمی اور اصلاحی مساعی کو بلاکم وکاست محفوظ کرکے
اسکی اشاعت پر توجہ دینی چاہیے ۔
شیخ کا تاریخی مقام او ردینی رُتبہ کیا تھا ،اس کا فیصلہ اب نہیں کیا
جاسکتا ،مستقبل کا مؤرخ اور مبصّراس حوالے سے اپنے فیصلے کا حق محفوظ
رکھتاہے ،ہماری تعدیل اور تنقید سے ابھی شیخ مرحوم بے نیاز ہیں ، تاہم اتنا
کہنے میں حرج نہیں ہے کہ ان کی عملی اور اصلاحی خدمات مسلّم ہیں ،نظریاتی
نہج میں بھی ان کے پیش رو اور پیروکار کم نہیں ہیں ،مگر آتشیں مزاجی اور
افراطِ حمیّت نے انہیں کچھ وقتی اور علاقائی حرکات وتنظیمات سے نتھی کردیا
، یہ سلسلہ بھی غالباً اتفاق سے شروع ہوکر اختصاص کی انتہا پر جاپہنچا اور
خود شیخ شخصی یا جماعتی لحاظ سے اس سطح ذہنی کے متحمل نہ تھے کہ کسی موڑ
پر‘‘ کیا کھویا کیاپایا’’ کے معیار پر اپنی سرگرمیاں جانچنے یا مسلّم
ومعروف میزانِ اعتدال میں اپنے افکار کا وزن ملاحظہ فرماتے ۔
سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید سے وہ بہت متأثر تھے،اکثر وبیشتر ان کے
کارناموں کا تذکرہ کرتے رہتے،اسی لئےمصلحت بینی اور عاقبت اندیشی ان کے
آئینِ جوانمردی میں عذرِ گناہ کے مترادف تھی، فکری قلاشوں اور نظری خانماں
بربادوں کا وہ لشکر جس کے نعروں کی گونج میں شیخ کی شعلہ فشانی کو نمود و
عروج ملا ، ایک ایک کرکے اس کے تا روپود پر افتاد آپڑی اور پھر تقدیر کے
قاضی نے کسمپرسی کے عالم میں ان کو جرمِ ضعیفی کی سزاسنائی،موت بسترِ مرگ
پرآجائے ، یاکال کھوٹری میں ،میدانِ کا رزار میں، یاکسی قدرتی حادثے میں
شخصیات کے حوالے سے اسکی زیادہ اھمیت نہیں ہوتی کہ جاناتو طے ہے ایک ذرا
ڈھنگ کا فرق ہوتاہے۔
شیخ ولی اللہ کے جانے سے پیدا ہونے والاخلا تا دیر محسوس ہوگا، کہ درس قرآن
جس سے اہل ِعلاقہ کی عملی اخلاقی اور معاشرتی اصلاح کی ضرورت پوری ہوتی تھی
، وہ اس مؤثر اندا ز میں بازیاب ہو، اسکی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔کاش وہ سماج
کو اس خسارے سے بچانے کیلئے ادارے میں رجال سازی کی کوئی ایسی صورت ڈھونڈ
نکالتے جس سے ان کا درجہ ٔحرارت بڑھانے والوں کو مایوسی ہوتی مگر درس قرآن
اور محافلِ وعظ وتذکیر اجڑنے کی نوبت نہ آتی ،کیا ہی اچھا ہوتا۔
میں ان کے دروس میں جاتا رہا،ریکارڈ شدہ دروس سننے کا اتفاق بھی ہو ا،وہ
ایک بحرِ زخار تھے، جہاں مطالعے کی گہرائی تھی، معلومات کی وسعت تھی،فصاحت
کی روانی تھی اور طعن وطنز کی اٹھتی ہوئیں لہریں تھیں ، امواج تنقید کی بے
رحمی تھی،نگاہِ تشخیص کا اجلاپن تھا ۔
اس بحرِ متلاطم نے خشک ہوکر تشنگانِ علم ومعرفت کو تپتے صحرا میں بوند بوند
کیلئے ترستا چھوڑدیا، اللہ تعالی شیخ رحمہ اللہ کی خدمات کو قبول فرما ئے
اور ان کا بدل قوم وملت کوعطا کرے۔ |
|