ڈینگی کا انتقام
(Hafiz Kareem Ullah Chishti, Mianwali)
عبدالغفارخان نیازی، پائی خیل
’’اُف! میرا تو دم گھٹ رہا ہے اس جگہ پر۔۔۔ میں کیا کروں؟ ہائے !‘‘ کاغذ نے
اپنے ساتھ پڑی ہوئی بوتل سے کہا۔
’’حال تو میرا بھی کچھ ایسا ہی ہے کاغذ بھائی۔ پر کیا کریں، مجبوری ہے۔ ہم
کچھ کر بھی تو نہیں سکتے ۔ابھی دیکھو، میرا بھی برا حا ل ہے۔ کتنی مٹی جمع
ہو گئی ہے میرے اندر۔۔۔ مجھ سے تو سانس بھی نہیں لیا جا رہا۔کتنی گندگی ہے
اس جوہڑ میں!‘‘ بوتل نے پریشان سے لہجے میں جواب دیا۔
’’ہاں بوتل بہن۔ کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔ کتنے گندے ہیں اس محلے کے لوگ۔۔۔
ہر طرف گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں مگر ان لوگوں کے کان پر جوں تک نہیں
رینگتی!‘‘کاغذ نے بوتل کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’کاش! میں کچھ کر سکتی تو ان گندے انسانوں کو ضرور سبق سکھاتی جو گندگی
پھیلاتے ہیں۔ پر افسوس۔۔!‘‘ بوتل نے جواب دیا۔
’’بات تو تمہاری بھی ٹھیک ہے بوتل بہن۔ اب دیکھو اس محلے کے لوگ کتنے گندے
ہیں۔ یہاں پر کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے کے لئے ڈرم بھی موجود ہے لیکن پھر بھی
یہ لوگ کورا کرکٹ اس میں ڈالنے کی بجائے اسی طرح گلیوں میں پھینک دیتے
ہیں۔‘‘کاغذ نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’کاغذ بھائی، تم یہاں کیسے پہنچے۔ تم تو کسی کتاب کا ورق لگتے ہو!‘‘بوتل
نے کاغذ سے پو چھا ۔
’’ہاں بوتل بہن۔۔۔ میں اردو کی کتاب کا ایک ورق تھا۔ وہ کتاب جس بچے کے پاس
تھی، وہ بہت گندہ بچہ تھا ۔وہ کتابوں کو سنبھا ل کر نہیں رکھتا تھا بلکہ
ادھر ادھر پھینک دیتا تھا۔ جس کی وجہ سے کتاب پھٹ گئی اور میں دھکے کھاتا
کھاتا یہاں اس گندے پانی کے جو ہڑ میں پہنچ گیا ہوں۔۔۔‘‘کاغذنے اپنی کہانی
سناتے ہوئے کہا۔
’’اوہ، بہت افسوس ہوا سن کر ۔حالانکہ اس کو چاہئے تھا کہ وہ کتابوں کو
سنبھال کر رکھتااور جب اس کی ضرورت ختم ہو جاتی توپھر کسی غریب بچے کو دے
دیتا تو وہ اس سے فائدہ اٹھا لیتا۔‘‘بوتل نے پریشان سے لہجے میں کہا۔
’’بوتل بہن، کہتی تو تم ٹھیک ہو۔ پر ہم صرف افسوس ہی کرسکتے ہیں!‘‘کاغذ نے
اداسی سے کہا۔
’’پتہ نہیں ہمیں یہاں کتنا عرصہ اس گندے پانی کے جوہڑ میں رہنا پڑے
گا؟‘‘بوتل نے رو دینے والے انداز میں کہا۔
’’دعا کرو بوتل بہن۔۔۔ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل آئے گا۔‘‘کاغذ
نے بوتل کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا۔
(کاغذ اور بوتل اسی طرح آپس میں باتیں کر کے ایک دوسرے کو حوصلہ دے رہے تھے
کہ اتنے میں وہاں سے ایک مچھر کا گزرنا ہوا)
’’ارے مچھر بھائی، کیا حال ہے آپکا؟ کدھر جا رہے ہو؟آؤ ہم سے بھی کچھ بات
کر لو ۔‘‘بوتل نے مچھر کو آواز دیتے ہوئے کہا۔
(مچھر بوتل کی آواز سن کر ان کی طرف آیا اور بوتل کے اوپر بیٹھ گیا)
’’جی بوتل بہن، کیا بات ہے ؟آپ نے مجھے بلایا ۔۔۔ارے کاغذبھائی بھی موجود
ہیں یہاں۔آپ دونوں مجھے کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہو۔‘‘مچھر نے دونوں کو
مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’آپ نے بالکل درست کہا!ہم واقعی بہت پریشان ہیں۔ بہت مشکل سے یہاں ہم گندے
پانی کے جوہڑ میں دن گزار رہے ہیں۔آپ خود دیکھ لیں، ہماری کیا حالت ہو گئی
ہے!‘‘بوتل نے رو دینے والے انداز میں کہا۔
’’اس محلے کے لوگ کے بہت گندے ہیں۔یہ خود تو صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں لیکن
ان کی گلی محلوں کا حال دیکھو، ہر طرف کچرا ہی کچرا نظر آتا ہے۔ کاش! اگر
میرے بس میں ہوتا تو میں ان کو ضرور سبق سکھاتا!‘‘کاغذ نے غصیلے انداز میں
کہا۔
’’واقعی، تمہاری یہ بات تو درست ہے۔ میں نے بھی یہ بات نوٹ کی ہے ۔‘‘ مچھر
نے کاغذ کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’مچھر بھائی، آپ کا نام کیا ہے؟اور آپ یہاں مجھے پہلی مرتبہ نظر آئے
ہیں‘‘کاغذ نے سوال کیا۔
’’آپ نے بالکل درست کہاکاغذ بھائی ۔میں واقعی یہاں نیا آیا ہوں اور میرا
نام ڈینگی ہے۔میں پہلے ساتھ والے پارک میں رہتا تھا پودوں کے پتوں میں۔‘‘
مچھر نے جواب دیتے ہو کہا۔
’’او ڈینگی!تو آپ ڈینگی بھائی ہو ۔۔۔واہ!ڈینگی بھائی ،آج کل تو آپ کے بڑے
چرچے ہیں۔ہر طرف آپ کے نام اور تصاویر کے بورڈ اور اشتہار لگے ہوئے ہیں۔ہر
کوئی آپ سے ڈرتا ہے ۔آخر کیا وجہ ہے؟‘‘بوتل نے سوال کیا۔
’’آ پ دونوں واقعی ٹھیک کہہ رہے ہو۔میں آج کل واقعی بہت مشہور ہو گیاہوں
اور ہر کوئی مجھے سے ڈرتا ہے ۔مجھ سے ڈر کر لوگ اب پوری آستین کے کپڑے
پہنتے ہیں۔عورتیں ہاتھوں پر دستانے پہنتی ہیں۔۔۔ صرف اور صرف میرے خوف سے
کہ کہیں میں ان کو کاٹ نہ لوں اور وہ بیمارنہ ہو جائیں۔ لیکن آپ یہ نہیں
پوچھو گے کہ میں ان لوگوں کا خون کیوں چوستا ہوں اور ان کو کیوں بخار ہو
جاتا ہے ‘‘ مچھر نے دونوں سے سوال کیا۔
’’جی ڈینگی بھائی ،بتائیں پلیز ۔۔۔جلدی بتائیں،کیا وجہ ہے؟‘‘ دونوں نے بیک
وقت کہا۔
’’بات یہ ہے دوستوکہ میں پہلے ساتھ والے پارک میں رہتا تھا ۔وہاں پر گندگی
وغیرہ نہ تھی ۔ وہاں پر میں اپنے بیوی ’’لوئی‘‘ کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی
گزار رہاتھا ۔ہم دونوں میاں بیوی بہت خوش تھے ۔مجھے شروع سے گندگی سے بہت
نفرت ہے ۔میں دوسرے مچھروں کی طرح گندی جگہ پر رہنا پسند نہیں کرتا۔یوں تو
میں پہلے بھی انسانوں کا خون چوستا تھا لیکن ان کو کچھ بھی نہیں ہوتا تھا
۔کیوں کہ میں صاف ستھری جگہ پر رہتا تھا۔ اس لئے میرے ساتھ جراثیم نہیں
ہوتے تھے۔ لیکن ایک دن ایسا ہوا کہ کچھ لوگ آئے اور انہوں نے وہ تما م پودے
کاٹ کر جلا دیے، جن میں مَیں اور لوئی رہتے تھے۔ جس کی وجہ سے مجھے وہاں سے
بھاگنا پڑا ۔جب کہ میری بیوی لوئی بے چاری جل کر مر گئی ۔مجھے اس کی موت کا
بہت افسوس ہوا۔اس کے علاوہ میرے لئے صدمے کے بات اور تھی کہ میں جس جگہ
رہتا تھا، اس جگہ ان لوگوں نے ان پودوں کو جلا دیا اور اس طرح وہاں پر
لوگوں نے کوڑا کرکٹ پھینکنا شروع کر دیا ۔مجبوراً مجھے بھی اس گندگی میں
رہنا پڑا۔‘‘ڈینگی تھوڑا سا رکا اورایک لمبا سانس لے کر دوبارہ بات شروع
کردی۔
’’گندگی میں رہنے کی وجہ سے میرے اندر جراثیم پیدا ہونے لگے۔ اب میں جسے
کاٹتا ہوں، اسے بخار ہو جاتا ہے اور لوگ اسے ڈینگی بخار کہتے ہیں۔‘‘
’’اچھا، تو یہ بات ہے ڈینگی بھائی۔۔۔ اسی لیے لوگ آپ سے ڈرتے ہیں۔‘‘ کاغذ
نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
’’جی بالکل یہی بات ہے۔۔۔ اور اب تو میں نے یہ مشن بنا لیا ہے کہ ان لوگوں
سے انتقام ضرور لوں گا جنہوں نے مجھے گندگی میں رہنے پر مجبور کیا اور میری
بیوی ’لوئی‘ بھی مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئی۔‘‘ ڈینگی نے غصے سے
پھنکارتے ہوئے کہا۔
’’آپ کی باتیں سن کر بہت افسوس ہوا ہے ڈینگی بھائی۔۔۔ کیا آپ ہمارا بھی ایک
کام کریں گے؟‘‘ بوتل نے منت بھرے لہجے میں کہا۔
’’جی ضرور بوتل بہن۔۔۔ آپ بتائیں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘ ڈینگی
نے ہامی بھرتے ہوئے کہا۔
’’ڈینگی بھائی، جس طرح آپ ان لوگوں سے اپنی بربادی کا انتقام لے رہے ہیں،
اسی طرح آپ ان محلے والوں سے بھی ہمارا بدلہ لیں۔ کیونکہ یہ بہت گندے لوگ
ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جب آپ انہیں کاٹیں اور یہ بیمار ہوں تو پھر انہیں احساس
ہو جائے کہ صفائی کتنی ضروری چیز ہے۔ اس طرح آپ کا انتقام بھی پورا ہو جائے
گا اور ہمارا بھی۔‘‘ بوتل نے کہا۔
’’دوستو! میں تم دونوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں ان لوگوں سے تمہارا انتقام
ضرور لوں گا۔ جنہوں نے تمہیں گندگی میں رہنے پر مجبور کیا ہے۔۔۔۔ اور یہی
نہیں ۔۔۔ میں مرتے دم تک ان لوگوں کو کاٹتا رہوں گا اور ان میں بیماریاں
پھیلاتا رہوں گا، جب تک یہ لوگ اپنی گلی محلوں کو صاف ستھرا نہیں رکھیں
گے۔‘‘ ڈینگی یہ عزم لے کر پرواز کر گیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ اور دوستو! تب سے اب تک ڈینگی جہاں گندگی دیکھتا ہے، وہاں کے لوگوں کو
کاٹنا شروع کر دیتا ہے۔ اور ڈینگی کے کاٹے کا علاج کوئی کہاں سے لائے؟ اس
لیے ہمیں چاہیئے کہ ہم صفائی کا خاص خیال رکھیں اور مچھروں کی پناہ گاہوں
کو ختم کر دیں۔ تا کہ ڈینگی کے انتقام سے بچ سکیں۔ ویسے بھی صفائی نصف
ایمان ہے! |
|