یاد رفتگان۔ ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی
(abdul rehman jalalpuri, lahore)
تحریر: محمد عبدالرحمن جلالپوریؔ
چند برس قبل دہشتگردی کی ایک بڑی لہر پاکستان میں پہنچی اور ہزاروں
پاکستانیوں سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔ اور یہ دہشتگردی زیادہ خطرناک اس
لیے بھی ہے کہ اس میں مارنے والے بھی اسلام کے دعویداراور جو مارے جاتے وہ
مسجدوں میں نماز ادا کررہے ہوتے ہیں۔ یہ تسلسل کوئی ایک دہائی سے ملک میں
جاری ہے۔ اسلامی لبادہ اوڑھے قاتلوں کے پیچھے چھپا آلہ کار یہ نہیں جانتا
کہ وہ کیا کررہا ہے۔ بے گناہ انسانوں کو قتل کرنا ، معصوم بچوں کواپنی ظلمت
کا نشانہ بناناکہاں کی انسانیت ہے۔ پھر وہ اُس اسلام کے نام پر مسلمانوں کو
کافر ومشرک کہہ کر قتل کررہے ہیں جس اسلام کے داعی نبی کریم ﷺ نے کسی انسان
کے ناحق قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ یہ آلہ کار مسلمانوں کے روپ
میں دہشتگردوں کو تیار کر کے مسجدوں کو شہید کرواتا ہے اور اس میں موجود
قرآن مجید کی بے حرمتی کرتا ہے یہ کہاں کی مسلمانیت ہے۔
اس دہشتگردی کے خلاف افواج پاکستان آپریشن کرنے کو تو تیار تھی لیکن ان
قاتلوں کے وہ ایجنٹ جو میڈیا اور اقتدار کی کرسی پر فائز تھے وہ ان کے لیے
نرم رویہ رکھتے تھے اور ان سے مذاکرات کرنا چاہتے تھے۔ ان قاتلوں کے خلاف
کوئی آواز بلند کرنے کو تیار نہ تھا۔ وہ مختلف مسالک کے جید علماء کو مارتے
اور اس سے مسلمانوں کو ناختم ہونے والی فرقہ وارانہ جنگ میں دھکیل دینا
چاہتے تھے۔
اسی اثناء میں ایک درویش صفت عظیم عالم دین ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے ایک فتوی
صادر فرمایا کہ اسلام میں خودکش حملے حرام ہیں۔ خودکش حملے کرنے والوں کا
اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے جامعہ نعیمیہ لاہور کے
وسیع العریض لائبریری ہال میں تمام مکاتب فکر کے علماء ولیڈران کو مدعو کیا
اور اپنا فتوی ان کے سامنے رکھا جس پر تمام شرکاء نے آپ کی تائید کی اور آپ
کو اپنا لیڈر تسلیم کیا۔ یہ وہ دن تھا جب ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے اپنی
دوراندیشی سے ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے سامنے مضبوط بند باندھ دیا
اور بتا دیا کہ دہشتگردی کے خلاف تمام مکاتب فکر کے علماء متحد ہیں۔ خودکش
حملے کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
ڈاکٹر سرفراز نعیمی مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد حسین نعیمی کے صاحبزادے
اور جامعہ نعیمیہ کے ناظم اعلیٰ تھے۔ حفظ ودرس نظامی کے ساتھ پنجاب
یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور جامعۃ الازہر سے فاضل تھے۔ جامعہ پنجاب سے
ڈاکٹریٹ کے ڈگری ہولڈر بھی تھے۔ مذہبی طبقات میں اتنی پڑھی شخصیات کم ہی
دیکھنے کو ملتی ہیں۔
ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی تمام زندگی علم واگہی اورخدمت دین کے لیے وقف تھی۔
ان کے اخلاص وتحرک، صلح جوئی اور تحمل کی وجہ سے وہ ہر ایک مکتب فکر کے ہاں
عزت واحترام کا مقام رکھتے تھے۔ وہ اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے۔ وہ
اپنی رائے رکھتے تھے لیکن اختلاف رائے کو تنقید کا روپ دے کر نفرت پھیلانے
کے مخالف تھے۔ دینی ودنیوی علوم سے مالا مال ہونے کے باوجود کبھی اپنی بات
مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے ہر شخص کی رائے کو احترام سے سنتے اور
ایسے انداز میں جواب دیتے کہ مخاطب اپنے آپ کو عزت واحترام سے بلند تر درجے
پر فائز سمجھنے لگتا۔
ڈاکٹر سرفراز نعیمی جامعہ نعمیہ کے شیخ الحدیث بھی تھے اور قومی اخبارت میں
مستقل کالم نویس بھی، ملکی وملی معاملات پر میڈیا آپ سے گاہے بگاہے انٹریو
لیتے۔اہلسنت وجماعت کے 6000سے زائد مدارس کے علمی بورڈ’’تنظیم المدارس
(اہلسنت) پاکستان‘‘ کے ناظم اعلیٰ کا منصب بھی آپ کے پاس تھا۔ میاں شریف
خاندان سے اس وقت کے تعلقات جب میاں نواز شریف وشہباز شریف ابھی بچے تھے
اور چوک دالگراں کے قریب چھت پر سرفراز نعیمی کے ساتھ کرکٹ کھیلاکرتے تھے۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود شخصیت میں ٹھاٹھ باٹھ نہیں بلکہ سادگی تھی۔ سفر
کے لیے کوئی بڑی گاڑی آپ کی منتظر نہ ہوتی بلکہ ایک پرانے ماڈل کی موٹر
سائیکل پر سفر کرتے وہ بھی بسااوقات طلباء لے جاتے اور ڈاکٹر صاحب اس کے
انتظار میں کھڑے رہتے۔ سادگی کا یہ عالم کہ کوئی بھی دیکھ کر آپ کا گرویدہ
ہوجائے۔ نماز کے بعد رش کی وجہ سے اگر جوتا نہ ملا تو ننگے پاؤں جامعہ سے
منسلک چھوٹے سے گھر میں چل پڑتے کوئی طالب علم نے جوتا پیش کرتا تو فرما
دیتے ’’کاکا یہ تمہارا جوتا ہے‘‘ کوئی عقیدت مند ہاتھ چومنے کی کوشش کرتا
تو فرماتے’’ یہ ہاتھ کام کرنے کے لیے ہیں چومنے کے لیے نہیں‘‘
ڈاکٹر سرفراز نعیمی جہاں سادگی اور درویشی کی تصویر تھے وہیں ظلم وستم کے
خلاف سیسہ پلائی دیوار بھی تھے۔ ڈنمارک اور جرمنی کی طرف سے 2005ء میں
بنائے جانے والے خاکوں کے خلاف ’’تحفظ ناموس رسالت محاذ‘‘ کا پلیٹ فارم
تشکیل دیا اور احتجاج ریکارڈ کروایا۔ شرپسندوں کی وجہ سے آپ کو پابند سلاسل
کیا گیا۔ لیکن عشق رسول سے لبریز یہ درویش صفت انسان ذرا بھی ڈگمگایا نہیں۔
اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کی خلاف جب فتوی صادر کیا تو مخلص
دوستوں نے عرض کی ڈاکٹر صاحب وہ طالبان ہیں آپ کو ماردیں گے۔ فرمایا کیا
طالبان کے ڈر سے میں حق بات کہنا چھوڑ دوں۔ اگر اسلام کی سربلندی کے لیے
مجھے جان بھی دینی پڑی تو دے دوں گا۔12جون 2009ء کو جامعہ میں اپنی جان
پاکستان اور اسلام پر قربان کرتے ہوئے ڈاکٹر سرفراز نعیمی منصب شہادت پر
سرفراز ہوگئے ۔ ان کی زندگی حقیقت میں اقبال کے اس شعر کی عکاسی کرتی ہے کہ
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی |
|