انصاف کا تقاضا

قوی یقین تھا کہ30جون کو پی ٹی آئی کے کارکن حبیب اﷲ کے قتل میں نامزد اے این پی کے سیکرٹری جنرل اور سابق صوبائی وزیر میاں افتخارحسین باعزت رہا ہو جائیں گے اور یہ صاحب بھی رہائی کے بعد جب سیاسی جیل خانہ (پولیس ریسٹ ہاؤس)سے باہر آئیں گے تو عوام کا جم غفیران کا استقبال کرنے کے لیے بے چین ہوگا ۔ان استقبال کرنے والوں نے ہاتھوں میں پھول پکڑے ہوں گے جو میاں افتخار کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہوں گے پھر یہ پھول نچھاور بھی کیے جائیں گے اور ان پھولوں کے ایک دو نہیں سیکڑوں ہار میاں افتخار کو پہنائے جائیں گے ،پھولوں کے گلدستے میاں افتخار کو ان کے کارنامہ کے عوض ملنے والی سزا کے بدلے دئیے جائیں گے اور پھر میاں افتخار سینہ پھُلائے ان پھولوں کو روندتے ہوئے عوام کے جم غفیر کے نعرو ں اورزندہ باد زندہ باد کے شور سے گزریں گے ہاتھ کی انگلیاں وکٹری کا نشان بنارہی ہوں گی۔ میاں افتخار کے چہرے پر ایک پرسکون اور فاتحانہ مسکراہٹ پھیلی ہوگی جو یہ بتا رہی ہوگی کہ قانون آج پھراثر و رسوخ کے نیچے دب گیا اور حسب نسب ، سیاسی و معاشرتی قد کاٹھ اور پیسہ جیت گیا۔

قتل کے الزام میں نامزد میاں افتخار صرف چار دن بعد بے گناہ ٹھہرایا گیااور اگر شہادتیں پھر بھی میاں افتخار کے خلاف ہوئیں تو میاں افتخار کا سیاسی و معاشرتی قد کاٹھ ہی مقتول حبیب اﷲ کے خاندان کے لیے رعب و دبدبے کا باعث ہو گا ،اس غریب خاندان کا استحصال ہوگا ،بے شمار افرادمقتول حبیب اﷲ کے خاندان کے خیر خواہ میدان میں آجائیں گے، دیت کی بھی آفر کی جائے گی یا پھر راضی نامہ ہو جائے گا اور ایک مرتبہ پھر اثر و رسوخ آڑے آئے گا اور وکٹری کا نشان بناتے ملزم جیل کی سلاخوں سے باہر آئے گا ، کندھوں کے سہارے سے اپنی کروڑوں روپے مالیت کی گاڑی میں بیٹھے گا اور سرخرو ہو کر منزل کی جانب روانہ ہو گا۔

وہ والد جوچار دن پہلے اپنے نوجوان بیٹے کی ہلاکت پر برسر پیکار تھا اور فوراً تھانہ میں ایف آئی آر درج کروا کر ملزم کو گرفتار کروایا، دو دن بعد اپنے اس اقدام سے منحرف ہوگیا اور بیانات ایسے دینے شروع کر دئیے جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مقتول حبیب اﷲ کا خاندان شدید دباؤ کا شکار ہے اور جلد ہی یہ معاملہ ویسے ہی رفع دفع ہو جائے گا جیسے کچھ عرصہ قبل شاہ زیب کے قاتلوں کے ساتھ ہوا۔ دیت پر معاملہ ٹھہرا تو ریمنڈ ڈیوس کی یاد تازہ ہو جائے گی مگر حالات و واقعات کے تناظر میں لگتا ایسا ہے کہ معاملہ دیت تک پہنچے گا ہی نہیں اور مجرم اپنے دنیاوی قد کاٹھ اور سیاسی اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرخرو ہو جائے گا۔ مجرموں کا سرخرو ہونا کوئی آج کی بات نہیں ہے شاہ زیب کے قاتلوں نے بھی شاہ زیب کے خاندان پر اپنے قد کاٹھ او رسیاسی و معاشرتی اثر و رسوخ کا شدید دباؤ ڈالا تو شاہ زیب کے خاندان نے ’’درمیانہ راستہ‘‘ اختیار کر کے شاہ زیب کا قتل بھلا دیا ۔ ریمنڈڈیوس سے ہلاک ہونے والے نوجوانوں کے کیس میں’’ درمیانہ راستہ‘‘ اختیار کر بیٹھے جب کہ کراچی میں ہونے والے سرفراز کے قاتل جانے کون سے ثبوت کے منتظر ہیں کہ تختہ دار سے دور ہیں ۔

میاں افتخار کی گرفتاری پر ہمارے منتخب کردہ’’عوامی نمائندوں ‘‘نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ میاں افتخار کی گرفتاری پر ہمارے ملک کے’’ بڑے‘‘ نے بھی تشویش کا اظہار کیاتو سابقہ صدر نے بھی غم و غصہ اور پریشانی کا اظہار کیا جب کہ ان کے متوالوں اور جیالوں نے تو اس گرفتاری کو سیاسی انتقام قرار دیا ۔ مطلب کہ اگر انصاف ہوتا کہیں دکھائی دے تو ان کو تشویش ہے مگر قربا ن جائیں اس پولیس کو کہ جس نے آپس میں مخالف دو پارٹیوں کے دہ اہم لیڈران کو بیک وقت پکڑ کر پورے ملک کو یہ دکھا دیا کہ انصاف سب کے لیے ایک جیسا ہو گا مگر پھر بھی انصاف پر تشویش کرنے والے حیران ہیں ۔ حیرت بھی ہے اور ڈر بھی ہے حیرت تب کہ میاں افتخار اور علی امین گنڈا پور کی گرفتاری ایک حیران کن امر ہے اور ان خاندانی سیاسی قائدین اور ان کے جیالوں اور متوالوں کو ڈر اس بات پر کہ اگر انصاف کے یہی تقاضے نبھائے گئے تو مستقبل میں یہ ہتھکڑیوں کے نرغے میں آسکتے ہیں مجھے تو حیرت ایک ایسے قائد پر ہوئی کہ جس کی پارٹی اسلام اسلام کا نعرہ لگاتی ہے اس قائد نے بھی انصاف کو تقاضوں پر نہ صرف حیرت کا اظہار کیا بل کہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے صوبہ کے پی کے کی صوبائی حکومت پر شدید تنقیدکی۔

خیر ان عوامی نمائندوں کا کیا کہنا اور کیا ان پر تنقید کرنی عوام بھی نہیں چاہتی کہ ملک میں انصاف کا بول بالا ہو ۔ یہی مجرم جب جیل سے رہا ہو کر تھانے سے باہر آتے ہیں تو ان کو داد تحسین مختلف طریقوں سے دینے والی یہی عوام ہوتی ہے جو کل بھی اور آج بھی ان کے مظالم کا شکار ہوئی ۔ ایک دو سال پہلے میرے شہر کے ایک مشہور و معروف پٹواری کو جو خرد برد کے الزام میں پکڑا گیاتھا اور پھر کچھ عرصہ بعد رہا کیا گیا تو سیکڑوں افراد نے اس پٹواری کو ایک ریلی کی صورت میں اس کے گھر تک لے کر گئے مٹھائیاں بانٹی گئیں ، فائرنگ کی گئی ، پٹاخے بجائے گئے ، سڑکوں پر پھولوں کی پتیوں سے بارش کی گئی ۔ یہ پٹواری کوئی 10کلومیٹر کے سفر کو طے کر کے جب گھر تک پہنچا تو وکٹری کا نشان بنائے یہ آسمان کو بھی دیکھتا تھا اور زمین کو بھی اور ساتھ ساتھ سیکڑوں لوگوں کو بھی دیکھتا تھا کہ جو کل اسی کے ظلم کا شکار ہوئے اور آج وہی اسے کندھوں کا سہارا دے کر جشن منا رہے ہیں ۔اسی طرح ایک بلڈر جائیداد میں خرد برد کرنے کے الزام میں گرفتاری پانے کے بعد جب رہا ہوا تو ویسا ہی استقبال کیا گیا جیسا راقم اوپر سطور میں مذکور کر چکا ہے ۔

انصاف ، انصاف اور انصاف صرف حکمرانوں تک ہی محدود نہیں ہے اس کے تقاضوں کو عوام نے بھی پورا کرنا ہوگااور ان تقاضوں سے دوری جہاں حکمرانوں کی وجہ سے ہے تو عوام نے بھی بھر پور حصہ ڈالا ہے ۔جو یہ سمجھتے اور جانتے مانتے ہیں کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے عذاب آتے ہیں اور آرہے ہیں وہ یہ بھی مانیں اور جانیں کہ یہ عذاب صرف حکمرانوں کی وجہ سے نہیں آتے ہیں عوام بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور کچھ زیادہ ہی ۔
 
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86104 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.