برما کے مظلوم
(Sami Ullah Malik, Mianwali)
حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ مسلمان
ایک جسم کی مانند ہیں ‘جب جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو یہ درد
پورا جسم محسوس کرتاہے۔‘‘لیکن افسوس ہم اورایشوز کوچنتے رہے اوراپنی ذاتی
مصروفیات میں محو ہوکر برما کہ مسلمانوں کی حالتِ زارپرتوجہ نہ دی۔ملکی سطح
پر بھی برماکے مظلموں کو وہ پذیرائی نہ ملی جو ان کا حق تھا۔اس کی وجہ ہم
اہل قلم اورمیڈیاکے افراد کی ترجیحات بھی ہیں۔بھلاہورضوان اﷲ خان
فیچررائٹرنئی بات اورسبوخ سید کا جن کی تحریروں کو پڑھ کر ہم نے بھی لکھنے
کیلئے قلم اُٹھالیا۔سوشل میڈیاپرہم نے بھی 27مئی کو لکھا لیکن افسوس کہ
اخبارات کے صفحات پر لکھنے کیلئے فرصت کے لمحات تلاش کرتے رہے ۔اوراب بھی
جتناکچھ اخبارات میں لکھا جارہاہے‘یہ جو سائیڈ خبر اوراندرونی صفحات پر
چھوٹی سی خبر لگ رہی ہے ‘یہ سب سوشل میڈیاکہ قلم کاروں کی مرہون منت ہی
ہے۔اس ضمن میں چند دن پہلے جہان نے بھی ایک پراثر اداریہ لکھا‘اوربرماکہ
مظلوموں کے حق میں تواناآواز اُٹھائی۔
برماکہ مظلوم مسلمان بھائی اس مذہب کے جنونیوں کے شکنجے میں پھنسے ہیں جو
درخت کاٹنے سے بھی منع کرتاہے۔ہندوستان کی تاریخ کا عظیم فرمانروااشوک اعظم
جس نے سرزمینِ ہند کو خون سے رنگین کردیاتھابعدازاں بدھ مت اختیارکیااورفوج
کا محکمہ ہی ختم کردیا‘اپنے مذہب کے تحت اس نے جنگی پالیسی ترک کرکے ملک کو
چارچاند لگادیئے کہ سرحد پربیٹھے منگول بھی اُس کی جانب میلی آنکھ سے نہ
دیکھ سکتے تھے۔مگرافسوس کے اس مذہب کے جنونی یا باغی اب انسان کے خون سے
نہارہے ہیں ۔برماکی سرزمین پرمسلمان کو ان تمام حقوق سے یکسرمحروم
رکھاگیاہے جوکہ ایک ملک کے شہری کابنیادی حق ہے‘حتی کے مسلمان وہاں معیاری
تعلیم بھی حاصل نہیں کر سکتا۔
اس وقت ہزارہابرمی مسلمان بنگلہ دیش کی سرزمین پر کیمپوں میں موجود ہیں
‘جنھیں حسینہ واجد کی حکومت نے اپنے ملک واپس جانے کا حکم دیتے ہوئے وضاحت
کی ہے کہ چونکہ یہ برماکہ شہری ہیں لہذا ان کی حفاظت برماکی حکومت کی ذمہ
داری ہے۔نہیں معلوم محترمہ حسینہ واجد میڈیاسے نابلد ہیں یاان کے اندر
انسانی محبت کافقدان ہے۔وہ برمی حکومت جومسلمانوں کی بستیوں کے جلنے ‘معصوم
بچوں کے تیز دھار آلہ سے کٹنے اورمسجدوں میں قتل عام پر نہیں پسیجی اب
کیونکر مسلمانوں کواپنے ملک میں جگہ دے گی۔ہزارہا برمی مسلمان سمندر میں
پکار رہے ہیں کہ ‘ایٹمی قوت کے مالک اور مکہ ومدینہ کے تاجداروں تم
کدھرکھوگئے ہو؟؟؟بھلاہوعثمانی خلافت کی سرزمین ترک کا جنھوں نے ان بے آسرا
وپردیسی مسلمان بھائیوں کے زخموں پر مرہم رکھا۔
افسوس کے ستاون اسلامی ممالک غش کھاکرسوگئے۔مسلمانوں کی سبھی تنظیمیں
خاموش۔اب کیوں نہ عرب میں ایک ایسی فورس کی تیاری کی بات کی جاتی جوکہ
برماکہ مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلائے ؟؟۔برماکے مسلمان ان قلم کاروں سے
شکوہ کناں ہیں جنھوں نے سعودیہ کے یمن پر حملے کو توجائز قراردینے کیلئے
صبح وشام تحریریں لکھیں اورآج ان کے قلم دردکی وہ شدت اختیار نہیں کررہے جو
کہ برمی مسلمانوں کا حق ہے۔ہمارے قلم کاربھائی یہ بھی کہتے نہیں تھکتے تھے
کہ یمن کی جنگ سے کعبہ کو خطرہ ہے ۔ہم پوچھتے ہیں کہ کیاسرکارِ دوجہاں نے
نہیں فرمایاکہ مسلمان کا خون کعبہ کی حرمت سے بھی افضل ہے؟؟۔
جب مشرقی تیمورمیں عیسائیوں کے ساتھ معاملات پیش آئے تواقوام متحدہ سمیت
تمام حقوقِ انسانی کے ٹھیکیدار میدان میں آگئے‘اب ؟؟؟ہم ہرگزیہ نہیں کہتے
کہ عیسائیوں پر یاکسی مذہب کے ماننے والوں پر ظلم ہوتوآواز نہیں بلند کرنی
چاہیئے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان کی حرمت بلامذہب ونسل اورعلاقائی
ولسانی تعصبات سے مبراہونی چاہیئے۔اب انسانی حقوق کاعالمی ادارہ بھی خاموش
ہے اورپاکستان میں انسانی حقوق کاواویلامچانے والی نام نہاد مذہب مخالف این
جی اوز بھی۔رہیں برماکی وہ محترمہ آنگ سانگ سوچی جنھیں ا نوبل انعام
ملاتھاان کے لبوں کو بھی نہ جانے کن مجبوریوں نے قفل لگادیاہے۔سناہے کہ وہ
الیکشن بحالی کی تحریک چلارہی ہیں اور اس دوران وہ فاشسٹ حکومت کی دشمنی
نہیں لیناچاہتیں۔افسوس کہ ان باغیوں کوحکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔
پاکستان اگرچہ اسوقت مسائل کے لامنتاہی سلسلے سے نبردآزماہے لیکن ایک ذمہ
دار مسلم ملک ہونے کہ ناطے اس کا فرض بنتاہے کہ ریاستی سطح پر برماکی حکومت
سے اس معاملے پر بات چیت کرے ۔اسکے ساتھ ساتھ تمام اسلامی کو چاہیئے کہ
برماکی حکومت کو الٹی میٹم دیں اوراگروہ باز نہ آئے توپھر اس سے سفارتی
تعلقات ختم کردینے چاہیئں۔اس ضمن میں ان تمام غیراسلامی ممالک کی مدد بھی
لی جائے جو دردِ دل رکھتے ہیں ۔ |
|