بسم الله الرحمن الرحيم
جشن عید میلاد النبی جیسی بدعات کو اچھا سمجھنے والے کا رد سوال:
سوال :
برائے مہربانی درج ذیل موضوع کے متعلق معلومات مہیا کریں: عید میلاد النبی
صلى اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لوگ دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں, ان میں سے
ایک گروہ تو کہتا ہے کہ یہ بدعت ہے کیونکہ نہ تو یہ نبی کریم صلى اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے دور میں منائی گئی اور نہ ہی صحابہ کے دور میں اور نہ تابعین
کے دور میں.
اور دوسراگروہ اسکا رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ :تمہیں جو بھی کہے کہ ہم جو
کچھ بھی کرتے ہیں وہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں یا پھر
صحابہ کے دور میں یا تابعین کے دور میں پایا گیا ہے, مثلاً ہمارے پاس علم
رجال اور جرح وتعدیل نامی اشیاء ایسی ہیں اور انکا انکار بھی کوئی شخص نہیں
کرتا حالانکہ انکار میں اصل یہ ہے کہ وہ بدعت نئی ایجاد کردہ ہو اور اصل کی
مخالف ہو-اور جشن عید میلاد النبی صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اصل کہاں ہے
جسکی مخالفت ہوئی ہےٍ, اور بہت سارے اختلافات اس موضوع کے اردگرد گھومتے
ہیں؟
اسی طرح وہ اسکو دلیل بناتے ہیں کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے جشن میلاد النبی
منانے کو صحیح کہا ہے, اسلئے آپ اس سلسلے میں شرعی دلائل کے ساتھ حکم واضح
کریں؟
الحمد للہ:
اول:
سب سے پہلى بات تو يہ ہے كہ علماء كرام كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ
وسلم كى تاريخ پيدائش ميں اختلاف پايا جاتا ہے اس ميں كئى ايك اقوال ہيں
جنہيں ہم ذيل ميں پيش كرتے ہيں:
چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ كى رائے ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ
وسلم سوموار كے دن دو ربيع الاول كو پيدا ہوئے تھے.
اور ابن حزم رحمہ اللہ نے آٹھ ربيع الاول كو راجح قرار ديا ہے.
اور ايك قول ہے كہ: دس ربيع الاول كو پيدا ہوئے، جيسا كہ ابو جعفر الباقر
كا قول ہے.
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى پيدائش بارہ ربيع
الاول كو ہوئى، جيسا كہ ابن اسحاق كا قول ہے.
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى پيدائش رمضان
المبارك ميں ہوئى، جيسا كہ ابن عبد البر نے زبير بكّار سے نقل كيا ہے.
ديكھيں: (السيرۃ النبويۃ لابن كثير ( 199 - 200 ).
جاری ہے--- |