ہمارے علم كے ليے علماء كا يہى
اختلاف ہى كافى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم سے محبت كرنے والے
اس امت كے سلف علماء كرام تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى پيدائش
كے دن كا قطعى فيصلہ نہ كر سكے، چہ جائيكہ وہ جشن ميلاد النبى صلى اللہ
عليہ وآلہ وسلم مناتے، اور پھر كئى صدياں بيت گئى ليكن مسلمان يہ جشن نہيں
مناتے تھے، حتىٰ كہ فاطميوں نے اس جشن كى ايجاد كى.
شيخ على محفوظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سب سے پہلے يہ جشن فاطمى خلفاء نے چوتھى صدى ہجرى ميں قاہرہ ميں منايا،
اور انہوں نے ميلاد كى بدعت ايجاد كى جس ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ
وآلہ وسلم، اور على رضى اللہ تعالىٰ عنہ كى ميلاد، اور فاطمۃ الزہراء رضى
اللہ تعالىٰ عنہا كى ميلاد، اور حسن و حسين رضىٰ اللہ تعالى عنہما، اور
خليفہ حاضر كى ميلاد، منانے كى بدعت ايجاد كى، اور يہ ميلاديں اسى طرح
منائى جاتى رہيں حتىٰ كہ امير لشكر افضل نے انہيں باطل كيا.
اور پھر بعد ميں خليفہ آمر باحكام اللہ كے دور میں پانچ سو چوبيس ہجرى ميں
دوبارہ شروع كيا گيا حالانكہ لوگ تقريباً اسے بھول ہى چكے تھے.
اور سب سے پہلا شخص جس نے اربل شہر ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وآلہ
وسلم كى ايجاد كى وہ ابو سعيد ملك مظفر تھا جس نے ساتويں صدى ہجرى ميں اربل
كے اندر جشن میلاد النبی منائى، اور پھر يہ بدعت آج تك چل رہى ہے، بلكہ
لوگوں نے تو اس ميں اور بھى وسعت دے دى ہے، اور ہر وہ چيز اس ميں ايجاد كر
لى ہے جو ان كى خواہش تھى، اور جن و انس كے شياطين نے انہيں جس طرف لگايا
اور جو كہا انہوں نے وہى اس ميلاد ميں ايجاد كر ليا " انتہى
ديكھيں" الإبداع في مضار الابتداع " ( ص 251 )
جاری ہے----- |