تقویٰ

تحریر:عنبرین مغیث سروری قادری ایم ۔اے (ابلاغیات)

تقویٰ کے لغوی معنی ’’زِرہ‘‘ کے ہیں جو ضرر اور نقصان سے محفوظ رکھتی ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں تقویٰ کے معنی ہر اس کام سے رک جانے کے ہیں جو اللہ کے غضب کا باعث ہو اور ہر وہ عمل اختیار کرنا بھی تقویٰ ہے جس سے اللہ کی رضا حاصل ہو۔ مومن کو گناہوں سے جھجک اور نیکیوں سے رغبت ہونے لگے تو د ل کی اس کیفیت کا نام تقویٰ ہو گا۔ گویا احکامِ الٰہی پر صرف رضائے الٰہی کے حصول کی نیت سے کاربند ہونا اور گناہوں سے بچنا تقویٰ کی اصل ہے۔

تقویٰ اللہ کے وجود پر یقینِ کامل رکھنے والوں کا ایک ایسا وصف ہے جس کا حصول ہی اللہ کے دین کی بنیاد ہے۔ اللہ نے جتنے بھی پیغمبر بھیجے ان کا ذمہ بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچا کر انہیں تقویٰ سکھانا اور ان کی تربیت اس طرح سے کرنا تھا کہ ان کا ہر عمل اللہ کی رضا کے مطابق ہو جائے اور وہ ہر اس عمل سے پرہیز کریں جو اللہ کی ناراضی کا باعث ہو۔ یعنی تقویٰ ہی وہ سبق ہے جو ہر نبی نے اپنی امت کو سکھایا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
* وَاِذْ نَادٰٰی رَبُّکَ مُوْسٰٓی اَنِ اءْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo قَوْمَ فِرْعَوْنَ اَلَا ےَتَّقُوْنَO(الشعراء۔ 10,11)
ترجمہ:اور (یاد کیجیے) جب آپ کے ربّ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ندا دی کہ تم ظالموں کی قوم کے پاس جاؤ (یعنی) قومِ فرعون کے پاس، کیا وہ تقویٰ نہیں رکھتے۔
* اِذْ قَالَ لَھُمْ اَخُوْھُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَo اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌo فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوْنِo (الشعراء 106-108)
ترجمہ:جب ان سے ان کے بھائی نوح (علیہ السلام) نے کہا کیا تم تقویٰ نہیں رکھتے۔ بے شک میں تمہارے لیے امانت دار رسول (بن کر آیا) ہوں۔ سو تم تقویٰ اختیار کرو اللہ کے لیے اور میری اطاعت کرو۔
* اِذْ قَالَ لَھُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَo اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌo فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوْنِo (الشعراء، 177-179)
ترجمہ:جب ان سے شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم تقویٰ نہیں رکھتے۔ بے شک میں تمہارے لیے امانتدار رسول (بن کر آیا) ہوں۔ پس تم تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔
* وَ اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَo اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَلَا تَتَّقُوْنَo (الصّآفٰت 123-124)
ترجمہ:اور یقیناًالیاس (علیہ السلام بھی) رسولوں میں سے تھے۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کیا تم تقویٰ نہیں رکھتے۔
چنانچہ تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد صرف لوگوں کو تقویٰ سکھانا تھا۔ اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت سے بھی اللہ پاک فرماتا ہے :
* یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo (آلِ عمران۔ 102)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کی طرف تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو۔
نہ صرف یہ کہ تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد بندوں کو متقی بنانا تھا بلکہ اللہ کی فرض کردہ ہر عبادت کا مقصد بھی تقویٰ کی صفت کو بندوں میں اجاگر کرنا ہے جیسا کہ اللہ پاک خود فرماتا ہے:
* ےٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لََعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo (البقرہ۔21)
ترجمہ:اے لوگو! اپنے ربّ کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پیشتر تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔
* لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآ ؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْط (الحج۔37)
ترجمہ:ہرگز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، مگر اسے صرف تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔
* یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ امَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ۔183)
ترجمہ:اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کیے گئے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔
قرآن کے نزول کا مقصد بھی بندوں کو متقی بنانا ہی ہے۔
* کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ ےَتَّقُوْنَ (البقرہ۔187)
ترجمہ:اسی طرح اللہ لوگوں کے لیے اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ متقی بن جائیں۔
ہر نیک عمل خواہ ظاہری ہو یا باطنی‘ بھی تقویٰ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
* ترجمہ:انصاف کرنا تقویٰ سے قریب تر ہے۔ (المائدہ)
* ترجمہ:معاف کر دینا تقویٰ سے قریب تر ہے۔(البقرہ)
* ترجمہ:اور اگر صبر کرو اور تقویٰ کرو تو یہ بڑی ہمت کی بات ہے۔ (آلِ عمران)
* ترجمہ:اور تقویٰ کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کرواؤ۔ (البقرہ)
ان تمام آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دینِ الٰہی کی اصل بنیاد تقویٰ کے حصول پر ہے۔ تقویٰ کے بغیر نہ ایمان ہے نہ دین، نہ دنیا کی بھلائی ہے نہ آخرت کی، نہ اللہ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے نہ قرب اور نہ ہی قرآن سے کوئی ہدایت حاصل ہو سکتی ہے کیونکہ اللہ نے واضح طور پر فرما دیا کہ اس میں ہدایت صرف اورصرف تقویٰ والوں کے لیے ہے۔
* ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرہ۔2)
ترجمہ:(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ اس میں ہدایت ہے (صرف) متقین کے لیے ۔
* وَ اِنَّہٗ لَتَذْکِرَۃٌ لِلْمُتَّقِیْنَo (الحاقہ۔48)
ترجمہ:اور بے شک یہ (قرآن) نصیحت ہے متقین کے لیے۔
* ھٰذَا بِیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّ مَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَo
ترجمہ:یہ قرآن (عام) لوگوں کے لیے (تو صرف) بیان ہے اور اس میں ہدایت اور نصیحت ہے (صرف) متقین کے لیے۔

یہ جاننے کے بعد کہ تقویٰ دین اور ہدایت کی بنیاد ہے، یہ جاننا ضروری ہے کہ ’’تقویٰ‘‘ اصل میں ہے کیا۔ تقویٰ سے مراد صرف ’’اللہ سے ڈرنا‘‘ نہیں ہے جیسا کہ قرآن کی کچھ آیات میں ’’تَتَّقُوْا‘‘ کے معنی میں تمام علماء کرام نے ’’اللہ سے ڈرو‘‘ لکھا ہے حالانکہ اللہ سے ڈرنے یا خوفِ الٰہی کے لیے قرآن میں اَخَافُ یا خَشِیَّۃَ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح کچھ آیات میں علماء نے تقویٰ کے معنی ’’پرہیزگاری‘‘ کے کیے ہیں حالانکہ تقویٰ اللہ کے خوف اور پرہیزگاری سے کہیں زیادہ وسیع تر اصطلاح ہے جو اپنے معنوں میں ادب، پرہیزگاری، محبتِ الٰہی، اطاعتِ الٰہی اور خوفِ الٰہی کو بھی سمو لیتی ہے۔ خوفِ الٰہی اور پرہیزگاری تو صرف تقویٰ کے دو اجزا ہیں۔ تقویٰ دراصل نہ کسی عمل کا نام ہے نہ کسی حالت کا نام ہے جبکہ خوف ایک حالت ہے جو کبھی ہوتی ہے اور کبھی نہیں اور پرہیزگاری ایک عمل ہے۔ تقویٰ درحقیقت قلبِ مومن کی ایک صفت یا وصف ہے جو محبتِ الٰہی کی وجہ سے حاصل ہونے والے قربِ الٰہی کی بدولت مومن کے دل میں اجاگر ہوتی ہے اور اسے ہر اس عمل سے روکنے کا باعث بنتی ہے جو اسے اللہ سے دور کر دے، کیونکہ دوری اللہ سے محبت کرنے والوں کو گوارا نہیں، اور تقویٰ کی صفت کی بدولت ہی اس میں ہر وہ عمل کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے جو اسے اللہ کے اور قریب کرے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لائق بنا دے۔ تقویٰ قلب کی ہی صفت ہے اس بات کی تحقیق مندرجہ ذیل آیات اور احادیث سے ہوتی ہے، سورۃ الحجرات میں اللہ فرماتا ہے:
* اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰیط لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌO(الحجرات۔3)
ترجمہ:بے شک جو لوگ رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی بارگاہ میں (ادب و احترام کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے’’ دلوں‘‘ کو اللہ نے تقویٰ کے لیے چن کر خالص کر لیا ہے انہی کے لیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔
* وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآءِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوبِo (الحج۔32)
ترجمہ:جو شخص اللہ کے شعائر (نشانیوں) کی تعظیم کرتا ہے تو یہ ’’دلوں‘‘ کے تقویٰ میں سے ہے۔
ان آیات سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تقویٰ کا تعلق قلوب سے ہے وہیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ادب و احترام اور شعائر اللہ کی تعظیم بھی تقویٰ میں ہی شامل ہے۔ ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تقویٰ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انگلی سے قلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’تقویٰ یہاں ہوتا ہے‘‘۔ پس تقویٰ قلبِ مومن کی ایک صفت ہے جس کی بنا پر وہ نیک اعمال کی طرف مائل ہوتا ہے، اعمالِ بد سے پرہیز کرتا ہے، اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کرتا، ان کا ادب و تعظیم کرتا ہے یعنی دین سے متعلق تمام اعمالِ خیر کا تعلق تقویٰ سے ہے۔ تقویٰ وہ اعتقاد ہے جس سے اعمالِ خیر پھوٹتے ہیں، تقویٰ ہر نیک عمل کی جڑ ہے اور اسے صرف خوفِ خدا یا پرہیزگاری تک محدود سمجھنا مناسب نہیں۔ حدیثِ پاک میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ان من کمال التقوٰی لعلم من لا یعلم’’کمالِ تقویٰ یہ ہے کہ تو اسے دین کا علم سکھائے جو اسے نہیں جانتا‘‘۔ یعنی دین کے ابلاغ کا تعلق بھی تقویٰ سے ہی ہے۔ جب ایک شخص تقویٰ کے کمال پر پہنچ کر یہ بات اچھی طرح سمجھ جاتا ہے کہ اللہ بندوں کی کن باتوں سے راضی ہوتا ہے اور کن باتوں سے ناراض، اللہ کی معرفت کیسے حاصل کی جاتی ہے اور اسے کیسے پایا جاتا ہے تب ہی وہ دوسروں کو اس کے متعلق بتا سکتا ہے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے کہ لَوْ کَانَ الْعِلمٌ بِدُونِ التَّقْوٰی لَکَانَ شَرْفٌ عَلٰی خَلْقٍ اِبْلِیْسِ مَلْعُوْن ترجمہ:اگر تقویٰ کے بغیر علم کو شرف حاصل ہوتا تو ابلیس ملعون خلقِ خدا میں سب سے زیادہ اشرف ہوتا‘‘۔ یعنی علم کی فضیلت بھی تقویٰ ہی کی بدولت ہے اور تقویٰ کے بغیر علم خواہ کتنا ہی زیادہ اور اعلیٰ کیوں نہ ہو، بے کار ہے۔

اگر تقویٰ کے ان وسیع مفاہیم کو مدِ نظر رکھا جائے تو یہ بات سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ تقویٰ سے درحقیقت مراد ’’قربِ الٰہی‘‘ کا حصول ہے جس کا ذریعہ بھی تقویٰ ہی ہے۔ یعنی تقویٰ ہی راستہ ہے اور تقویٰ ہی منزل ہے۔ اوّل تقویٰ جس سے مراد خوفِ خدا، پرہیزگاری اور ادب لیا جاتا ہے، وصالِ حق کی منزل کا راستہ اور راستہ کا زادِ راہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَالتَّقُوْنِ ےٰٓاُولِی الْاَلْبَابِo (البقرہ۔197) ترجمہ:بے شک سب سے بہتر زادِ راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! میرا تقویٰ اختیار کرو۔
اس آیتِ کریمہ میں ’’میرا تقویٰ‘‘ سے مراد ’’میرا قرب‘‘ ہے جو تقویٰ آخر ہے اور تقویٰ اوّل کا نتیجہ ہے۔چنانچہ تقویٰ آخر سے مراد قربِ حق ہے جو تمام عبادات اور اعمالِ خیر کا مقصود ہے اور اللہ کا دیدار اور رضا عطا کرتا ہے۔ چنانچہ تقویٰ ہی دینِ حق کے صراطِ مستقیم کی ابتدا، اس راہ کا سامان اور انتہا بھی ہے۔ حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* علمِ تقویٰ علمِ تصور و تصرف کی طرح معرفتِ مشاہدۂ دیدار کی چابی ہے۔ تقویٰ مجاہدہ نہیں بلکہ حضورِ حق میں مشاہدۂ وصالِ لازوال ہے(امیر الکونین)
باھوؒ ! بہر از خدا تقویٰ نما بے ریا تقویٰ بہ برد جانبِ خدا
ترجمہ:اے باھُو (رحمتہ اللہ علیہ) ر ضائے الٰہی کی خاطر تقویٰ اختیار کر کہ بے ریا تقویٰ ہی بارگاہِ الٰہی تک پہنچاتا ہے۔
حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
ز تم اپنی ہوس کو چھوڑ دو اور تقویٰ اختیار کرو۔ ربّ تعالیٰ کی ذات انہی کے لیے ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ (الفتح الربانی۔ ملفوظاتِ غوثیہ)
* اے مسلمانو! تم ہر حال میں تقویٰ اختیار کرو کیونکہ تقویٰ ہی دین کا لباس ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 39)
* اے اللہ کے بندے! اگر تو چاہتا ہے کہ تیرے سامنے کوئی دروازہ بند نہ رہے تو تو تقویٰ اختیار کر کیونکہ تقویٰ ہر دروازہ کی کنجی ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے ترجمہ:جو اللہ سے تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لیے (ہر مشکل سے) نجات کی راہ نکال دے گا اور وہاں سے اسے روزی دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔ (الطلاق2-3)

تقویٰ کی صحیح تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ صرف قرب و رضائے حق کی نیت سے ہر اس عمل، خیال اور حالت سے گریز کرنا جو اللہ سے وصال کی راہ میں مانع ہو اور ہر اس عمل‘ خیال اور حالت کو اختیار کرنا جو وصالِ حق میں مددگار ہو اور اسی اصول کے تحت راہِ وصالِ حق طے کرتے ہوئے منزلِ تقویٰ یعنی انتہائے قربِ حق کو حاصل کر لینا۔

اُمتِ مسلمہ کے عام و خاص مسلمانوں اور مومنوں کے لیے تقویٰ کے مختلف درجات اور صورتیں ہیں۔ عام مسلمانوں کا تقویٰ صرف اس حد تک محدود ہے کہ وہ اللہ کے غضب اور جہنم کے خوف سے کبیرہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہری طور پر شرک سے بچنا، چوری، دھوکہ، قتل، زنا، رشوت، ظلم جیسے گناہوں سے بچنا ہی ان کا تقویٰ ہے، خواہ دلوں میں اللہ کے سوا بہت سے بت سجا رکھے ہوں اور جھوٹ، غیبت، بہتان، لالچ، کینہ، بغض اور ایسے بہت سے بد اعمال ان کا روز مرہ کا وطیرہ ہوں۔ ایسے گناہ کرتے ہوئے نہ انہیں اللہ یاد رہتا ہے نہ اللہ اور جہنم کا خوف۔ اعمالِ خیر کے لحاظ سے بھی ان کا تقویٰ کبھی کبھی نماز، روزہ، زکوٰۃ جیسے فرائض ادا کرنے یا دکھاوے کا حج کرنے اور خیرات کرنے تک محدود ہے۔ پس ایسے تقویٰ کو ہرگز تقویٰ نہ کہنا چاہیے اور نہ ہی یہ لوگ اس ہدایت اور اجر و انعام کے مستحق ہیں جس کا وعدہ اللہ نے تقویٰ والوں سے کیا ہے۔ انہی عام مسلمانوں میں سے کچھ بہتر مسلمان وہ ہیں جو کسی قدر زیادہ اعمالِ خیر انجام دیتے ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ پابندی سے ادا کرتے ہیں، گناہوں سے بچنے کی بھی زیادہ کوشش کرتے ہیں لیکن ایسا کرنے میں ان کی نیت قربِ حق کے حصول کی ہرگز نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک روزمرہ زندگی گزارنے کا وہ طریقہ ہے جو ان کے والدین نے انہیں سکھا دیا ہے یا شریعت کی کتب سے پڑھ کر انہوں نے جان لیا ہے کہ ایسا کرنے سے جہنم سے نجات ملے گی اور جنت میں جگہ ملے گی۔ چنانچہ ان کے اعمال اللہ کے لیے خالص نہیں بلکہ خوفِ جہنم و ہوسِ جنت کی بدولت ہیں۔ ان کے اعمال کو تقویٰ کہا تو جا سکتا ہے لیکن یہ نا خالص تقویٰ ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو بہت زیادہ عبادات کرتے ہیں اور گناہوں سے بھی بچتے ہیں لیکن یا تو یہ سب اعمال وہ لوگوں میں اپنا نام بڑھانے اور ریاکاری کے طور پر کرتے ہیں ، یا کرتے تو اللہ کے لیے ہیں لیکن اپنی عبادات پر غرور کرتے ہوئے دل میں خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں، ان کا تقویٰ بھی ناخالص، ناپاک اور اللہ کے ہاں ناقابلِ قبول ہے، نہ ان کا ہدایت میں کوئی حصہ ہے نہ ایمان میں ۔ ایسے لوگ خواہ دن رات قرآن کی تلاوت کریں انہیں ہرگز ہدایت حاصل نہ ہوگی جیسا کہ اللہ نے خود قرآن میں فرمایا کہ ترجمہ:اللہ بہتوں کو اس (قرآن) سے ہدایت دیتا ہے اور بہتوں کو گمراہ کرتا ہے (البقرہ۔ 16)۔ ہدایت پانے والے وہ ہیں جو اصل اور خالص تقویٰ والے ہیں اور گمراہ ہونے والے وہ ہیں جو تقویٰ سے محروم ہیں۔ پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ تقویٰ اپنے ہر عمل اور سوچ کو اللہ کے لیے خالص کر دینے کا نام بھی ہے۔ جو اس خلوص سے محروم ہے وہ تقویٰ سے محروم ہے خواہ وہ دن رات نماز، روزے اور عبادات میں گزاردے اور گناہ سے بچتا رہے۔ وہ مسلمان تو کہلا سکتا ہے، مومن اور متقی نہیں، اس کے لیے جہنم سے نجات اور جنت کی نعمتیں تو ہو سکتی ہیں لیکن قرب و دیدارِ الٰہی نہیں۔ رضائے الٰہی کا بھی سب سے کم حصہ انہیں ہی ملے گا کیونکہ انہوں نے رضائے الٰہی سے زیادہ جنت کی طلب کی۔ پس جو شخص جو طلب کرتا ہے اور جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے وہی اسے حاصل ہوتا ہے۔

اصل تقویٰ کی ابتدائی صورت یہ ہے کہ بندے کے دل میں قرب و رضائے الٰہی کے حصول کی خواہش جاگے اور اس خواہش کے تحت ہی وہ شریعت کے تمام اوامر و نواہی کی ظاہری طور پر پابندی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے قلب کی بھی نگہبانی کرتا ہے کہ کہیں اس میں ریاکاری کا عنصر یا غرور تو پیدانہیں ہو رہا۔ تقویٰ اگر خالص ہو تو ابتدا میں ہی اپنے ثمرات سے طالبِ حق کو مستفید کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اصل متقی خواہ تقویٰ کا ایک حصہ ہی ابھی اس کے دل میں اجاگر ہوا ہو، قرآن کی آیات سے ہدایت حاصل کرتا ہے۔ اللہ خود اس کی رہنمائی کرتا ہے کہ اس کے قرب کے راستہ پر آگے کیسے بڑھا جائے۔ تقویٰ شوقِ الٰہی بھی ہے اور اطاعتِ الٰہی بھی۔ متقی شوقِ الٰہی میں اطاعتِ الٰہی کرتا ہے اور اسی شوق میں اس کا خوفِ الٰہی بھی بڑھتا ہے۔ تقویٰ کی پہلی منزل پر تو وہ صرف شریعت میں حلال چیزوں کو اختیار کرتا اور تمام حرام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے لیکن تقویٰ کی اگلی منزل پر وہ خوفِ الٰہی کے بڑھنے کے باعث ناصرف حرام بلکہ مشتبہ چیزوں سے بھی گریز کرنے لگتا ہے۔ روایت میں ہے کہ ایک بار ایک بزرگ دورانِ وعظ نجاست کے کپڑوں یا بدن پر لگ جانے کے متعلق شریعت کے احکام بتا رہے تھے کہ اگر اٹھنی برابر یا اس سے زیادہ مقدار میں نجاست کپڑوں یا بدن پر لگی ہو تو نماز نہ ہوگی اور اگر اٹھنی سے کم مقدار میں ہوگی تو نماز ہو جائے گی۔ وعظ کے بعد جب وہ بزرگ نماز کے لیے اٹھے تو دیکھا کہ کپڑوں پر تھوڑی سی نجاست کیچڑ وغیرہ کی صورت میں لگی ہے جس کی مقدار اٹھنی کے حجم سے کافی کم تھی، فوراً اٹھے اور اسے دھونے لگے۔ ایک شخص نے دیکھ کر کہا کہ آپ تو اپنے ہی وعظ سے الٹ کرنے لگے، یہ نجاست تو اٹھنی کی مقدار سے کم ہے، آپ کی نماز ہو جائے گی پھر بھی آپ اسے دھو رہے ہیں یہ کیا معاملہ ہے؟ ان بزرگ نے فرمایا ’’وہ اصولِ شریعت ہے جو تمہارے لیے ہے اور یہ اصولِ تقویٰ ہے جو میرے لیے ہے‘‘۔ اسی طرح بادشاہ شاہ مظفر جو تقویٰ اور پرہیزگاری میں بلند مقام رکھتا تھا، کے متعلق منقول ہے کہ اس کے پاس ایک نہایت اعلیٰ نسل کا گھوڑا تھا جسے وہ نہایت عزیز رکھتا تھا۔ اس گھوڑے کی تیزی اور دلیری قابلِ تحسین تھی۔ بادشاہ ہمیشہ میدانِ جنگ میں اسی گھوڑے پر سوار ہو کر جاتا اور فتح یاب ہو کر واپس لوٹتا۔ ایک بار یہ گھوڑا بہت بیمار ہو گیا۔ طبیبوں کو طلب کیا گیا تو انہوں نے گھوڑے کے علاج کے لیے اسے شراب بطورِ دوا پلا دی۔ گھوڑا تو اس سے فوراً ٹھیک اور پہلے کی مانند تندرست و توانا ہو گیا لیکن شاہ مظفر نے پھر کبھی اس کی سواری نہ کی کیونکہ شراب پینے کے باعث وہ گھوڑا اس کے لیے مشتبہ ہو چکا تھا۔ اسی حوالے سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے ’’اگر شراب کا قطرہ کنویں میں گر جائے پھر اس جگہ منارہ بنا دیا جائے تو میں اس میں اذان کہنے کو تیار نہیں اور اگر دریا میں شراب کا قطرہ گر جائے پھر دریا خشک ہو جائے اور وہاں گھاس اگ آئے تو میں اس جگہ اپنے مویشی چرانے کو تیار نہیں‘‘۔

پس اُمتِ محمدیہ میں اس درجے کے مومنین کے لیے تقویٰ کے معنی زہد، ورع، خشیتِ الٰہی، پرہیزگاری، قناعت و صبر کے ہیں لیکن اس سے اعلیٰ درجے کے مومنین و صالحین جو خواص میں شامل ہیں، کے لیے تقویٰ سے مراد ترکِ ماسویٰ اللہ ہے۔ ان کے لیے اللہ کے سوا ہر شے حرام و مشتبہ ہے۔ ان کے لیے تقویٰ ہر طرح کی خواہشات سے پرہیز ہے، عام مومنین تو عمل کے وقت تقویٰ کا لحاظ کرتے ہیں لیکن خاص مومنین عمل کے ساتھ ساتھ اپنے احوالِ باطن میں بھی تقویٰ کو مدِ نظر رکھتے ہیں۔ یعنی عام مومن تو عمل کرتے وقت خوفِ خدا رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے ایسا کوئی عمل سرزد نہ ہو جائے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہو لیکن خاص مومن اپنے دل سے گزرنے والے خیالات اور دل کے حالات پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ کہیں ایسا کوئی خیال دل سے نہ گزر جائے یا قلب کسی ایسی حالت (غصہ، لالچ، کینہ وغیرہ) میں مبتلا نہ ہو جائے جو اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ہو۔ ان کے لیے تقویٰ قلوب کی نگہبانی ہے، خواہشاتِ نفس و دنیا و آخرت سے مکمل پرہیز ہے، رضا و قضا پر مکمل صبر ہے اور یہی تقویٰ فقر و تصوف کے اُس سفر کی ابتدا اور زادِ راہ ہے جس کی انتہا پر قربِ الٰہی کا وہ مقام حاصل ہوتا ہے جہاں اللہ کے دیدار کے بعد تصدیق بالقلب سے کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھا جاتا ہے اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بلا واسطہ فیض حاصل کرنے کے بعد مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللّٰہِ پڑھا جاتا ہے۔ نہ صرف توحید کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے بلکہ دیدارِ الٰہی کے بعد نماز معراج بنتی ہے اور ایسا روزہ رکھنے کی توفیق حاصل ہوتی ہے جس کا اجر خود ذاتِ حق تعالیٰ ہے۔ پس تقویٰ سے ہی ایمان کی تکمیل ہوتی ہے اور کامل تقویٰ فنا فی ذاتِ حق تعالیٰ ہو جانا ہے۔ جب طالب قرب و رضائے الٰہی کے سفر میں اس مقام پر پہنچتا ہے کہ اس کا باطن بیدار ہو کر اللہ تعالیٰ سے اپنا رابطہ استوار کر لیتا ہے اور حق تعالیٰ کی طرف سے الہام و اوھام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو اب کامل تقویٰ یہ ہے کہ طالب اوھام کے ذریعے ملنے والے اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کی بلا چوں و چرا پابندی کرتا ہے، اپنے ارادے، اپنی خواہش سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے ان تمام احکام پر عمل کرنا جن کا حکم اللہ تعالیٰ بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے اسے باطن میں الہام کرتا ہے، اور ان تمام باتوں سے رک جانا جن سے باطن میں رکنے کا حکم دیا جاتا ہے، کامل تقویٰ ہے۔ یہ تقویٰ کامل اس لیے ہے کہ یہاں طالب اپنے ارادے اور اپنی خواہش سے اس طرح دستبردار ہوتا ہے کہ اللہ کا ارادہ ہی اس کا ارادہ بن جاتا ہے۔ نہ اس میں اس کی اپنی ذات رہتی ہے نہ اپنی مرضی۔ تقویٰ کے دیگر تمام درجات اور احکام کامل تقویٰ کے اسی مقام تک رسائی حاصل کرنے کے لیے سیڑھی تھے۔ اس مقام پر وہ سوتا ہے تو اللہ کی مرضی سے، جاگتا ہے تو اللہ کے حکم سے، اللہ حکم کرے تو اٹھ کھڑا ہوتا ہے، اللہ حکم کرے تو بیٹھ جاتا ہے۔ اس کا کھانا اللہ کے حکم سے، پینا اللہ کی مرضی سے، جب اللہ چاہے وہ ہنستا ہے، جب اللہ چاہے وہ روتا ہے۔ پس اس کا ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی اللہ کے حکم کے تابع ہو جاتا ہے۔ اگر اس کی یہ باطنی اتباع کامل ہو جاتی ہے تو گناہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اس کی ’’پرہیزگاری‘‘ یعنی تقویٰ بھی کامل ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر پہنچنے والے طالب کے لیے ’’گناہ‘‘ سے مراد اپنے باطن سے ملنے والے احکام کی بجاآوری نہ کرنا ہے اور ’’نیکی‘‘ ان احکام کی پابندی کرنا ہے خواہ وہ احکام کسی بھی معاملہ سے متعلق ہوں۔ جس قدر وہ ان احکام کی پابندی کرے گا اسی قدر اللہ کے ہاں ’’متقی‘‘ شمار ہوگا۔ یہ وہ تقویٰ ہے جو ریا سے بالکل پاک ہے اور صرف اللہ اور بندے کے بیچ کا معاملہ ہے کہ کسی دوسرے کو اس کی کانوں کان خبر نہیں ہوتی کہ ایک طالب کو باطن میں اوھام کے ذریعے کیا احکام دئیے جا رہے ہیں۔ سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’جس کو خلوت میں تقویٰ حاصل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے۔ (ملفوظاتِ غوثیہ)

یہ ’’خلوت کا تقویٰ‘‘ ہی باطنی تقویٰ ہے۔ اسی کے متعلق ایک حدیثِ پاک میں بھی اشارہ کیا گیا ’’اگر ایک دوسرے کے اندر ستر مکان ہوں اور سب میں قفل پڑے ہوں اور کوئی بندہ سب سے اندر والے مکان میں اللہ کے تقویٰ میں مشغول ہو تو بھی اللہ اس کو اس کے عمل کی چادر پہنائے گا حتیٰ کہ لوگوں میں اس کے چرچے ہونے لگیں گے‘‘۔ اس قدر تنہائی میں باطنی تقویٰ ہی اختیار کیا جا سکتا ہے، نہ کہ ظاہری اعمال و پرہیزگاری کا۔ اور ایسا ہی تقویٰ اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنا ولی اور دوست فرمایا ہے:
* اِنْ اَوْلِیَآؤُہٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَo (الانفال۔34)
ترجمہ:بے شک اللہ کے ولی تو صرف متقی ہیں لیکن ان میں سے اکثر (اپنی عاجزی کے باعث اپنی ولایت سے) لاعلم ہیں۔
* اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُتَّقِیْنَ o (التوبہ۔4)
ترجمہ:بے شک اللہ متقین سے محبت کرتا ہے۔
* فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُتَّقِیْنَo(آلِ عمران۔76)
ترجمہ:پس بے شک اللہ متقین سے محبت کرتا ہے۔

حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ تقویٰ اور اہلِ تقویٰ کے مدارج و درجات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
* معرفتِ توحیدِ الٰہی تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ تقویٰ اور اہلِ تقویٰ عالم چار قسم کے ہیں۔ اوّل متقی و علمِ تقویٰ ’’فقہ‘‘ ہے کہ مسائلِ فقہ زبان پر رہیں اور حلال کھائے اور سچ بولے۔ دوم متقی و علمِ تقویٰ علمِ تصدیق ہے جسے متقئ فکر فنائے نفس کہتے ہیں۔ سوم متقی و علمِ تقویٰ فیض ہے جو باعثِ فرحتِ روح ہے۔ چہارم متقی و علمِ تقویٰ فضل ہے جس سے متقی مشاہدۂ اسرارِ پروردگار سے مشرفِ دیدار ہوتا ہے۔ یہ نصیبہ اسے روزِ الست سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ یہ جملہ مراتبِ متقی جب یکجا ہوتے ہیں تو اس مجموعے کو تقویئ بدایت کہتے ہیں یعنی اس تقویٰ کا عالم ازلی فیض و فضل کا عالم ہوتا ہے جو اس آیتِ کریمہ کے مطابق ہے کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (البقرہ۔ 2,3) ترجمہ:’’اس میں ہدایت ہے ان اہلِ تقویٰ کے لیے جو عالمِ غیب پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔ پس ایسے صاحبِ تقویٰ پر راہِ باطن میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اور بعینِ عیان دیدار و لقائے ربانی روا ہے، وہ دونوں جہان کا تماشا دیکھتا ہے، اُسے لقائے الٰہی بھی حاصل ہوتا ہے اور لقائے جنت بھی۔ پس وہ لاھوت لامکان میں معرفتِ دیدارِ عالمِ رحمتِ رحمن ہوتا ہے‘‘۔ (امیر الکونین)
حضرت شاہ سیّد محمد ذوقیؒ تقویٰ کی تعریف اور مدارج بیان کرتے ہوئے اپنی تصنیف سِرِّدلبراں میں تحریر فرماتے ہیں:
* ہر اس چیز سے نفرت و بیزاری جو دل میں متعین ہو یا وصل الی اللہ میں مانع آئے تقویٰ ہے۔ تقویئ عوام ترکِ کفر و شرک ہے ۔تقویئ متقی ترکِ معاصی اور شریعت کی منہیات سے پرہیز اور اجتناب ہے۔ تقویئ خواص عبادات و ریاضات میں وساوس کا قلع قمع کرنا ہے۔ تقویئ خواص الخواص یہ ہے کہ ہر دم اور ہر لحظہ ترکِ ماسویٰ اللہ سے متصف رہے اور خطرۂ دنیا کو کسی وقت اور کسی حال میں اپنے قلب میں نہ آنے دے۔ (سرِّ دلبراں)

اب اہم سوال یہ ہے کہ تقویٰ کے ان مدارج کو طے کیسے کیا جائے اور کامل تقویٰ تک رسائی کیسے حاصل کی جائے۔ چونکہ قرآنِ کریم میں متقین کے لیے مکمل ہدایت ہے اس لیے اس سوال کا جواب بھی قرآن ہی میں موجود ہے۔ اللہ پاک واضح طور پر فرماتا ہے کہ وَمَا یَذْکُرُوْنَ اِلَّا اَنْ یَّشَآءَ اللّٰہُ طھُوَ اَھْلُ التَّقْوٰی وَ اَھْلُ الْمَغْفِرَۃِ (المدثر۔56) ترجمہ: اور یہ لوگ نہیں کرتے ذکر سوائے اللہ کی مرضی (رضا) چاہنے کے، یہی اہلِ تقویٰ اور اہلِ مغفرت ہیں‘‘۔ یعنی اہلِ ذکر ہی اہلِ تقویٰ ہیں۔ بے شک ذکرِ الٰہی بندے کا تعلق لمحہ بہ لمحہ اللہ سے مضبوط کرتا ہے، اسے قربِ حق سے نوازتا ہے جس کے نتیجہ میں تقویٰ میں بھی ہر لمحہ اضافہ ہی ہوتا ہے۔ ذکرِ الٰہی ہی وہ کلمۂ تقویٰ ہے جو مومنوں پر لازم قرار دیا گیا ہے جیسا کہ حکمِ ربانی ہے وَاَلزَّمَھُمْ کَلْمَۃُ التَّقْوٰی ترجمہ:’’ان پر کلمۂ تقویٰ اختیار کرنا لازم قرار دیا گیا‘‘۔ لیکن اس کلمۂ تقویٰ کو اختیار کرنے کی ایک شرط ہے جس کو سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سرّ الاسرار میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’شرط یہ ہے کہ اس کلمہ کو کسی متقی قلب سے اخذ کیا جائے جو دنیوی خواہشات سے مبرّا ہو‘‘۔ (سرّالاسرار) بے شک تقویٰ سکھانا کسی ایسی ہستی کا ہی کام ہے جو خود تقویٰ کے اعلیٰ درجات پر ہو اور دنیا و آخرت کی تمام خواہشات سے نجات حاصل کر چکی ہو۔ اسی لیے تمام انبیاء نے جب اپنی امتوں کو تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی تو ساتھ ہی اپنی اطاعت کی بھی ہدایت کی جیسا کہ مضمون کے آغاز میں بیان کردہ آیات میں انبیاء نے اپنی امتوں کو حکم فرمایا کہ فَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوْنِ ترجمہ:تم تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو‘‘۔ پس اپنے نبی، اپنے ہادی اور رہنما جو پہلے سے ہی تقویٰ کے اعلیٰ ترین مقام پر ہے ، کی اطاعت ہی تقویٰ کا زینہ ہے۔ حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ’’مرشد اپنے مریدوں میں یوں ہوتا ہے جیسا کہ ایک نبی اپنی قوم میں‘‘ (سلطان الوھم)۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصالِ ظاہری کے بعد وہ مرشدینِ کاملین جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقی متابعت کے بعد اعلیٰ درجہ کے متقین میں شمار ہوتے ہیں، ہی اُمتِ محمدی کو تقویٰ کی راہ دکھانے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں، کلمۂ تقویٰ کو ان سے حاصل کر کے اور ان کی کامل اطاعت کر کے ہی تقویٰ کے ابتدا سے انتہا تک تمام مدارج طے کیے جا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کے لیے ان کامل صادق بزرگوں کی صحبت اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے:
* یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا تَّقُواللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَo (سورۃ التوبہ۔119)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور (اس کے لیے) صادقین کا ساتھ اختیار کرو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کا قول ہے ’’ تیری اطاعت کا سب سے زیادہ مستحق وہ شخص ہے جو تجھے تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرنے کی ہدایت کرے اور خواہشِ نفس کی پیروی سے منع کرے‘‘۔
سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’توحید کے موتی کسی کامل مرشد کے قلب سے اخذ کیے جاتے ہیں تو پھر (طالبِ حق کا) دل زندہ ہو جاتا ہے۔‘‘ (سرّالاسرار)
حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ ایسے صاحبِ تقویٰ مرشد جو طالبانِ حق کو تقویٰ کی راہ دکھا کر قربِ الٰہی کے مدارج طے کراتا ہے، کے متعلق فرماتے ہیں:
* علمِ تصوف کا عالم صاحبِ تقویٰ ہوتا ہے اور علمِ تقویٰ کے دو گواہ ہیں کہ اہلِ تقویٰ کا کھانا نور اور خواب مشرفِ معرفتِ لقائے حضور ہوتا ہے۔ یہ دونوں عالمِ تقویٰ کے بال و پر ہوتے ہیں جن سے وہ جملہ مقاماتِ ذات و صفات کو پل بھر میں تحقیق کر کے ہر مردے کو زندہ کر سکتا ہے۔ متقی اہلِ تقویٰ وہ ہے جو اگر کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہ کو مقامِ کنہہ کن سے پڑھ لے تو مملکتِ خداوندی کی کوئی چیز اس سے مخفی و پوشیدہ نہیں رہتی۔ (امیر الکونین)

پس حقیقی تقویٰ جس پر قرآن کی تمام ہدایات اور عباداتِ حق تعالیٰ کی قبولیت کا دارومدار ہے، کسی کامل مرشد کی اطاعت اور اس کی صحبت میں ذکرِ الٰہی کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے اور اس تقویٰ کے حصول کے بغیر طالب معرفت و قربِ حق تعالیٰ کی ایک رتی کو بھی نہیں پا سکتا۔

جس طرح ہر لفظ کا ایک متضاد لفظ اور ہر صفت کی ایک متضاد صفت ہوتی ہے اسی طرح ’’تقویٰ‘‘ کا متضاد لفظ ’’نفاق‘‘ ہے اور ’’متقی‘‘ کا متضاد ’’منافق‘‘ ہے۔ پس جو متقی نہیں وہ منافق ہے۔ متقی وہ ہے جس کا ہر عمل صرف قرب و رضائے الٰہی کی خاطر ہے اور منافق وہ ہے جس کا ہر عمل اس کی اپنی ذات کے فائدے کے لیے ہے خواہ وہ دنیوی فائدہ ہو یا اُخروی۔ منافق ہر عمل اپنے لیے کرتا ہے لیکن جھوٹ بولتا ہے کہ اس کا ہر عمل اللہ کے لیے ہے۔ اسی جھوٹ اور اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرنے کی بنا پر منافق کا ہر عمل بارگاہِ الٰہی میں ردّ ہوتا ہے اور متقی کا ہر عمل قبولیت کا درجہ پاتا ہے۔ پس اس کے عمل اور نیت کے خلوص اور قبولیت کے باعث اسے بارگاہِ الٰہی سے مزید عملِ خیر کی توفیق ملتی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ’’تقویٰ کے ہوتے ہوئے عمل میں کمی نہیں آسکتی اور جو چیز قابلِ قبولیت ہو اس میں کمی کس طرح آ سکتی ہے‘‘۔ (نہجہ البلاغہ)

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جس قدر منافقین کی مذمت فرمائی ہے اسی قدر متقین کی تعریف فرمائی ہے اور ان کے لیے کثیر انعامات کا ذکر فرمایا ہے۔ متقین کے لیے سب سے بہترین انعام جو اللہ انہیں عطا کرتا ہے وہ خیر اور شر میں امتیاز کرنے کی قوت ہے جس کے ذریعے وہ زندگی کے ہر معاملے میں ایسا فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے متصف ہو جاتے ہیں جس میں رضائے الٰہی ہے۔ سورۃ الانفال میں اللہ فرماتا ہے۔
* ترجمہ:اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ تمہارے لیے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (وہدایت) مقرر فرما دے گا اور تمہارے (دامن) سے تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ (الانفال۔29)
تقویٰ کے ذریعے قربِ الٰہی حاصل کرنے کے بعد انہیں ’’اللہ کے ساتھ‘‘ کی وہ نعمت میسر آتی ہے جس کا دنیاو آخرت میں نہ کوئی مقابلہ ہے نہ بدل۔ اللہ فرماتا ہے:
* وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَo (سورۃ التوبہ۔36)
ترجمہ:اور جان لو! بے شک اللہ متقین کے ساتھ ہے۔
* اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقُوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النحل۔128)
ترجمہ:بے شک اللہ ان لوگوں کو اپنی معیتِ (خاص) سے نوازتا ہے جو صاحبانِ تقویٰ ہیں اور یہ ہی وہ لوگ ہیں جو محسنین بھی ہیں۔
محسنین سے مراد وہ عارفین ہیں جو مرتبۂ احسان یعنی مرتبہ دیدارِ الٰہی تک پہنچے اور یہی متقین ہیں۔ اللہ کے اس ساتھ کی بدولت، جو انہیں ان کے تقویٰ اور اللہ کے قرب کی خالص نیت سے تمام اعمالِ تقویٰ سر انجام دینے کی وجہ سے حاصل ہوا،اللہ منزلِ معرفت کی انتہا تک پہنچانے والا یہ دشوار راستہ بھی اور ان کی دیگر مشکلات بھی آسان فرما دیتا ہے۔
* وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ ےَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا (الطلاق۔4)
ترجمہ:اور جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے (دینی و دنیاوی) کاموں میں آسانی فرما دیتا ہے۔
گناہوں کی بخشش اور آخرت کے تمام درجات و انعام کے مستحق بھی صرف تقویٰ والے ہیں۔
* وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہٖ وَ یُعْظِمُ لَہٗٓ اَجْرًا (الطلاق۔5)
ترجمہ:اور جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے گناہوں کو اس (کے نامۂ اعمال) سے مٹا دیتا ہے اور اجر و ثواب کو اس کے لیے زیادہ کر دیتا ہے۔
* وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَO(الاعراف۔128)
ترجمہ:اور انجامِ خیر تقویٰ والوں کے لیے ہے۔
* اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ اَمِیْنٍO فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍO (الدخان۔51,52)
ترجمہ:بے شک متقین امن والے مقام میں ہوں گے باغات اور چشموں میں۔
اور اسی طرح بے شمار آیات میں تقویٰ والوں کے لیے انعامات اور انجامِ خیر کی خوشخبری سنائی گئی ہے:
* ترجمہ:بلا شبہ تقویٰ والے باغوں اور نہروں میں ہوں گے۔ (القمر)
* ترجمہ:بے شبہ متقین باغوں میں نعمت میں ہوں گے۔ (طور)
* ترجمہ:بے شک تقویٰ والے سایوں اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذارےٰت)
* ترجمہ:یقیناًتقویٰ والوں کے لیے ان کے پروردگار کے پاس نعمت کے باغ ہیں۔ (نٓ)
* ترجمہ:بے شک تقویٰ والوں کے لیے کامیابی ہے۔ (الانبیاء)

اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو برابر بنایا، کسی ایک کو دوسرے پر کسی بھی بنا پر فوقیت نہیں لیکن اگر اللہ کے ہاں درجات و فضیلت ہے تو صرف تقویٰ والوں کو۔ سورۃ الحجرات میں اللہ فرماتا ہے ترجمہ:’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدافرمایا اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے فضیلت والا (صرف) وہ ہے جو تقویٰ رکھتا ہے۔ (الحجرات۔13)

خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی واضح فرما دیا ’’کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ اگر تم میں سے کسی کو فضیلت حاصل ہے تو صرف تقویٰ کی بنا پر‘‘۔
پس انجامِ خیر اور اللہ کے دیدار و رضا کے لیے صحیح اور کامل تقویٰ اختیار کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور کامل تقویٰ تک رسائی کامل مرشد کے بغیر ممکن نہیں۔

استفادہ کتب:
قرآن ۔احادیث ۔امیر الکونین۔الفتح الربانی۔ ملفوظاتِ غوثیہ۔سرّالاسرار۔نہجہ البلاغہ
نوٹ: یہ مضمون ماہنامہ سلطان الفقر لاہور سے شکریہ کے ساتھ لیا گیا ہے۔
Nasir Hameed
About the Author: Nasir Hameed Read More Articles by Nasir Hameed : 29 Articles with 51961 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.