تحریر: خادم سلطان الفقر حضرت
سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
وَھم کے معنی ظن اور گمان کے ہیں اور ’’اوہام‘‘ اس کی جمع ہے۔ اصطلاحِ فقر
میں وَھم سے مراد طالبِ مولیٰ کی ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ ظاہرو باطن میں
اُس کے دِل میں جو سوال بھی پیدا ہوتا ہے طالب اس کاجواب بارگاہِ ربّ العزت
سے وصول پاتا ہے دوسرے الفاظ میں وَھم سے مراد اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی ہے۔
اس ہمکلامی کو حضرت سلطان العارفینؒ ’’سیرِ اوہام ‘‘ کے نام سے موسوم کرتے
ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ تھے ایک مقررہ وقت پر کوہِ طور پر تشریف
لے جاتے، با وضو ہو کر دو نفل پڑھتے، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں متوجہ
ہوتے، استغراق کا ایک پردہ سا چھا جاتا اور آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے
ہم کلام ہو جاتے۔ آج بھی فقراء اور عارفین اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں متوجہ
ہوکر ہمکلام ہوتے ہیں جسے حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے ’’سیرِ
اوہام ‘‘کا نام دیا ہے۔
* آپؒ فرماتے ہیں:’’ اوہام دِل کے دیکھنے ، سننے، بولنے اور سمجھنے کا نام
ہے۔‘‘(سُلطانُ الوَھم)
* جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے اللہ سے ہم کلام ہونے کے لیے کوہِ
طور تھا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اُمتی کے لیے اس کا اپنا وجود ہی
کوہِ طور ہے کیونکہ وہ اپنے وجود کے اندر ہی شہ رگ سے نزدیک تر اللہ تعالیٰ
کا کلام سنتا ہے اور حضورِ ربّ سے اپنے ذکر اذکار کا جواب باصواب پاتا ہے۔
(کلید التوحید کلاں)
* قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَ حْیًا اَوْمِنْ
وَّرَآیئ حِجَابٍ اَوْیُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَایَشَآءُ
ط اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ۔(الشوریٰ۔51)
ترجمہ: اور ہر بشر (انسان) کی مجال نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کلام کرے مگر
یہ کہ وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے (جیسے موسیٰ علیہ السلام سے کی) یا
کسی فرشتے کو فرستادہ بناکر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی
کرے ۔ بے شک وہ بلند مرتبہ اور حکمت والا ہے۔
* ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے:
مَامِنْ عَبْدٍ اِلَّا وَسَیُکَلِّمُہٗ رَبُّہٗ لَیْسَ بَیْنَ الْعَبْدِ
وَالرَّبِّ تَرْجُمَانٌ وَلَا وَاسِطَۃٌ......(بخاری و مسلم)
ترجمہ: ہر ایک مومن بندہ اللہ تعالیٰ سے کلام فرمائے گا اور اس وقت اللہ
اور بندے کے درمیان نہ کوئی ترجمان ہوگا نہ کوئی واسطہ۔
* شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فصوص الحکم میں فرماتے
ہیں:
(۱) اور اوہام اس معرفت (معرفتِ حق تعالیٰ) کو صورتِ خیالی سے بہت مستحکم
اور قوی کر دیتے ہیں اور اسی واسطے اس خلقتِ انسانی میں وَھم کی سلطنت عقل
پر بڑھی ہوئی ہے کیونکہ عاقل اگرچہ مرتبۂ کمال (عقل کے کمال) کو پہنچ جائے
لیکن وَھم کی حکومت سے کبھی خالی نہیں ہوتا اور جن چیزوں کو عقل ادراک کرتی
ہے وَھم ان کو صورت میں بتلاتا ہے۔ پس اس کامل صورتِ انسانی میں وَھم بہت
بڑا سلطان (سُلطانُ الوَھم) ہے۔اور اس کی سلطنت قوی ہے۔
(۲) دائمی فکر اور یکسوئی اور محویت ہی انسانِ کامل کی صورت میں سلطانِ
اعظم ہے یعنی انسانِ کامل کو جو کمال حاصل ہوتا ہے وہ اسی وَھم کی بدولت
ہے۔ وَھم سے مراد دائمی خیال اور محویت ہے جو عشقِ الٰہی کا ثمرہ ہے۔
(۳) جب اللہ تعالیٰ عارف کے دِل سے وَھم کا پردہ اٹھا دیتا ہے تو وہ اس راز
کو پا لیتا ہے کہ وہ ذات جس کو وہ اپنے سے اورخَلق سے دور جانتا تھا، اس کے
دِل میں جلوہ نما ہے۔ یہ معرفت کی انتہا ہے۔(شرح فصوص الحکم والا یقان )
* سیّد عبد الکریم بن ابراہیم الجیلی ؒ ’’انسانِ کامل‘‘ میں لکھتے ہیں:
(۱) وہ ملکوت پر اطلس سے بڑھ کر نور ہے کہ جس کو نفسوں میں لفظ وَھم سے
تعبیر کرتے ہیں ۔وہ رحمن کی آیت ہے۔ آیت سے میری مراد صورت ہے اس میں اس نے
لطیف ترین جمال سے تجلّی فرمائی ہے۔ وہ اس کا قہر ہے اس کا علم ہے ۔ اس کا
حکم ہے۔ وہ اس کی ذات ہے۔ وہ ہر محفوظ تر شے ہے وہ اس کا فعل ہے، اس کا وصف
ہے، اس کا اسم ہے وہ اس کے ہر نفیس ترین حسن کا مظہر ہے۔ وہ اس خال کا نقطہ
ہے کہ اس کی قسم کے ساتھ اس شخص کو تعبیر کرتے ہیں جو پیچھے نہیں ہٹتا یعنی
جس پر وَھم کا غلبہ ہو وہ ہر خطرناک کام میں گھس پڑتا ہے اس لیے اسے وَھم
کی قسم سے یاد کرتے ہیں جیسے جواں مرد کو حاتم کی قسم سے اور اس کی یمین ہے
کہ وہ اس کا چھلکا ہے وہ سفید چشم عورت پر سیاہ ریشم کا ایک ستر ہے پس
حیران ہو اور حیران نہ بھی اس لیے کہ وہ وحشت نہیں ہے لیکن وہ نہایت درجہ
کی تاریکی ہے۔
(۲) اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وَھم کو اپنے اسمِ
کامل (ھُو) سے پیدا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نورِ وَھم سے
عزرائیل ؑ کو پیدا کیا ہے (یعنی حضرت عزرائیل ؑ وَھم کا فرشتہ ہے کیونکہ
روحوں کو قبض کرنے کی وجہ سے وہ روح کا زیادہ علم رکھتا ہے) پھر چونکہ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وَھم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نورِ کامل سے پیدا
کیا ہے لہٰذا وجود میں اُسے لباسِ کامل میں ظاہر کیا ہے۔
(۳) جاننا چاہیے کہ نورِ وَھم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نفس کے لیے آئینہ
بنایا ہے اور اپنے قدس کا مظہر قرار دیا ہے۔ عالم میں اس سے بڑھ کر ادراک
کرنے والی کوئی چیز نہیں اور نہ ہی نگہداشت میں اس سے بڑھ کر کوئی زور آور
چیز ہے۔تمام موجودات میں اس کا تصرف ہے۔ اسی سے عالم اللہ کی بندگی کرتا ہے
اسی کے نور سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف نگاہ کی۔ اسی سے
پانی پر چلا وہ شخص جو چلا اور اسی سے ہوا پر اڑا جو اڑا ۔وہ نورِ یقین ہے
اور استیلا وتمکین کی اصل ہے جس کو یہ نور مسخّر ہو گیا اور وہ اس پر حاکم
ہوا وہ اس سے کائناتِ علوی و سفلی میں تصرف کرتا ہے اور جس پر سُلطانُ
الوَھم غالب ہوتا ہے وہ اس سے وہمی امور (وَھم کے ذریعے) میں بات کرتا ہے۔
(۴) خدا نے جب وَھم کو پیدا کیا تو اس کو کہا کہ میں تجھے حلفاً کہتا ہوں
کہ میں اہلِ تقلید کے لیے بجز تیرے کسی شے میں تجلّی نہیں کروں گا اور تیری
پوشیدگی کے سوا عالم کے لیے میں ظاہر نہیں ہوں گا۔(ترجمہ فضل میراں۔ ناشر
نفیس اکیڈمی کراچی)
وحی اور فرشتوں کے نازل ہونے کا سلسلہ تو خاتم النبیّین حضرت محمد مصطفی
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے ساتھ ہی ختم ہو گیا لیکن پسِ پردہ
اللہ تعالیٰ آج بھی فقرا ء اور عارفین سے ہم کلام ہوتا ہے، اس ہم کلامی کو
سیرِ اوہام کہتے ہیں۔ اوہام مقامِ وصال کے قریب تر ہے اور مقامِ وحدانیت ہے
اور اس کا مرکز قلب (باطن) ہے۔ جب کثرتِ ذکر اور تصور اسمِ اللہ ذات سے
اسمِ اللہ ذات دِل میں قرار پکڑلیتا ہے اور دِل میں نقش ہو جاتا ہے، جس سے
قلب بیدارہو کر عشق کی تپش سے پختہ ہو کرحضوری میں چلا جاتا ہے تو قلب میں
طالب کو اوہام کا مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے اور وہ اپنے ہر سوال کا جواب
بارگاہِ ربِّ جلیل سے باصواب وصول پاتا ہے۔ اور پھر راہِ فقر میں یہ لمحات
بھی آجاتے ہیں کہ طالب ہر لمحہ اللہ تعالیٰ سے محوِ گفتگو یا اللہ تعالیٰ
طالب سے محوِ گفتگو رہتا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں عاشق و معشوق اور محب و
محبوب کے درمیان نہایت ہی دلچسپ اور پُر کیف سلسلۂ راز و نیاز شروع ہو تا
ہے۔ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں مومن کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے ،جہاں اُس کی
ہمتِّ ایمان اور یقین کوپرکھا جاتا ہے ۔ یہاں پر اس پر انوار و تجلیات کی
بارش ہوتی ہے جہاں کبھی تو اس پر قوسِ ابرُو سے تیرِ مژگاں چلا کر اس کے
قلب و جگر کو چھلنی کیا جاتا ہے اور کبھی لبِ لعل کے شربتِ رُوح افزا سے اس
پر نوازشات کی بارش کی جاتی ہے۔ اس مقام پر کبھی عاشق کے لیے شمع و پروانہ
اور گل و بلبل کی داستانیں دہرائی جاتی ہیں تو کبھی اُسے نظرِ عنایت سے
نوازا جاتا ہے ۔ کبھی چہرے سے پردہ اٹھا کر اُسے حسنِ عالمِ سوز کے جلوؤں
سے مشرف کیا جاتا ہے تو کبھی اُسے آتشِ ہجر و فراق میں ڈال کر خاکستر بنایا
جاتا ہے۔ اسی مقام پر عابد و معبود اور عاشق و معشوق کے مابین ایسا سلسلۂ
کلام جاری ہو تا ہے جس میں ہزاروں‘ لاکھوں حقائق و معارف بیان کیے جاتے
ہیں، علمِ لدّنی اور علمِ اسرار عطا کیا جاتا ہے اور کئی قسم کی تجلیات سے
سالک کی تواضع کی جاتی ہے ۔ کبھی جاہ و جلال کی بجلیاں گرائی جاتی ہیں تو
کبھی حُسن و جمال کے کرشموں سے سرشار کیا جاتا ہے ، کبھی ہجرو فراق کے تیر
برسائے جاتے ہیں تو کبھی شرابِ وصل سے سیراب کیا جاتا ہے، کبھی زلفِ سیاہ
کے پھندوں میں گرفتار کیا جاتا ہے تو کبھی رُخِ انور کی ضیا باریوں سے ان
کے قلب و جان کو زندہ کیا جاتا ہے۔ کبھی بُعد سے آزمایا جاتا ہے تو کبھی
قرب سے نوازا جاتا ہے، کبھی بیخودی، استغراق اور محویت میں مست کیا جاتا ہے
تو کبھی خوف و ہیبت کی آگ میں جلایا جاتا ہے ۔ کبھی بلبل کی طرح رُوئے گُل
پر نثار ہونے کی دعوت دی جاتی ہے تو کبھی شمئ حُسن پر دیوانہ وار جلایا
جاتا ہے ۔ غرضیکہ محبوبِ حقیقی کے نازو انداز، عشوئے غمزے بدلتے رہتے ہیں
اور عاشقِ صادق ہر حال میں خوش و خرم رہتا ہے۔ اس لیے کہ دوست کا جلال اور
جمال دونوں محبوب ہیں۔ قرب میں وہ صفتِ جلال کا مشاہدہ کرتے ہیں اور بُعد
میں جمال کا اور کبھی معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ان کی گریہ و زاری ، ان
کے غم و اندوہ، ان کے ہجرو فراق، ان کے وصل و انبساط ، ان کے ذوق و شوق، ان
کے شعرو سخن، ان کے وجد و حال، ان کے علم و دانش، ان کی جد و جہد،ان کی
کاوشوں ، قربانیوں، جانثاریوں کا مرجع، ان کا منجا ، ان کا ملجا، ان کا
ماویٰ، ان کی جان، ان کی عزت، ان کی شان، ان کی آن، ان کی بان، ان کے دین ،
ان کے ایمان، ان کے دھرم ، ان کے بھرم ، ان کی شرم، ان کے زُہد، ان کے
تقویٰ، ان کے حج، ان کی زکوٰۃ، ان کے صوم، ان کی صلوٰۃ، ان کی زندگی اور ان
کی موت کا مقصد و مدعا، غرض و غایت صرف اور صرف محبوبِ حقیقی کی رضا ہوتی
ہے جیسا کہ حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَنَا عِنْدَ ظَنِّ
عَبْدِیْ بِیْ یعنی میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوتا ہوں اب بندہ جیسا
گمان کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ویسا ہی بن جاتا ہے ۔ اگر الہام چاہتا
ہے تو الہام دِل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یاد رہے الہام یکطرفہ ہوتا ہے یعنی
اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کی بات دِل میں ڈالنا ۔ دلیل یا آگاہی سے مراد
یہ ہے کہ کوئی دلیل یا آگاہی چاہی یعنی جیسا چاہا ویسا ہی ہوگیا۔ کشف یہ ہے
کہ اسرارِ غیب سے کچھ جان لینا ۔ لیکن وَھم اِن سب سے اعلیٰ مقام ہے کیونکہ
یہاں تو ہر لمحہ گفتگو جاری ہے۔ اب یہ طالب کا گمان ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے
کیونکہ ’’اولیاء کے قلوب پر سکون حرام ہو تا ہے‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ
کسی مقام پر ٹک نہیں سکتے۔اس لیے الہام سے دلیل و آگاہی اور دلیل و آگاہی
سے وَھم کی طرف بڑھنا چاہیے جیسا کہ حضرت سخی سلطان با ھُو رحمتہ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:
* فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں
گا۔‘‘(البقرہ۔152)
تم مجھے اوہام سے یا الہام سے یا آگاہی سے یا دلیل سے یاد کرو گے تو میں
بھی تمہیں اوہام یا الہام سے یا آگاہی و دلیل سے یاد کروں گا ۔ اے ناقص
بخیل! یہی وہ راہِ کاملین ہے جو انہیں بارگاہِ ربِّ جلیل تک پہنچاتی ہے یہ
راہ کلمہ طیبات ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ‘‘۔اور ا
سمِ اللہ ذات کی مشقِ تصورسے حاصل ہوتی ہے۔(کلید التوحید کلاں)
* حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’سُلطانُ الوَھم ‘‘ میں
فرماتے ہیں:
’’اے میرے عزیز! میں آپ کو اوہام کے بارے میں مختصر اً بتانا چاہتا ہوں۔
جاننا چاہیے کہ خدا تک پہنچنے کا مقرب ترین اور موصل ترین راستہ دِل کا
راستہ ہے جس کے بغیراللہ تعالیٰ کی ذات تک پہنچنا مشکل ہی نہیں بلکہ محال
ہے۔ دل کی سیر بذریعہ وَھم ممکن ہے جو صرف سلطان الوَھم شاہِ ظن کی رفاقت
سے ہی کی جاسکتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حدیثِ قدسی ’’اَنَا
عِنْدَظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ‘‘ ترجمہ: میں اپنے بندے کے گمان (وَھم) کے ساتھ
ساتھ ہوتا ہوں۔ اس راستے کی سیر کے لئے اصل اور بنیادی چیز وَھم ہی ہے ۔
سُلطانُ الوَھم (مرشدِ کامل) کی رفاقت کے بغیر سلطنتِ وَھم کے اس صحرائی
راستے میں قدم رکھنا ممکن نہیں جیسا کہ یہ قول ’’وَلِذٰلِکَ کَمَا کَانَتْ
اَوْھَامُ اَقْوٰی سُلْطَانًا فِیْ ھٰذِہٖ نِشْأَ ۃٍ ‘‘ (ترجمہ: سُلطانُ
الوَھم ہی اس راستے کی ہر ایک چیز پر قوی اور غالب ہے)بھی سُلطانُ الوَھم
پر ہی دلالت کر تا ہے۔ (سُلطانُ الوَھم )
* اے عزیز ! اس راستے کی ابتدا اور انتہا مرشد کامل ہے کہ ’’اَلشَّیْخُ
اَبْلَغُ فِیْ ھٰذِہِ الطَّرِیْقُ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ‘‘ (ترجمہ: مرشد کامل
ہی اس راستے کی ہر ایک چیز کے بارے میں مکمل آگاہی رکھتا ہے)۔ مرشدِ کامل
اور مرشدِ واصل کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے مرید کو عالمِ اوہام (اوہام کے
جہان)تک پہنچاتا ہے اور اُس پر فتحِ قلب (دِل کی زندگی) واضح کر تا ہے اور
فتحِ قلب یہ ہے کہ مرشد کامل بحکم’’اَلشَّیْخُ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ‘‘
(ترجمہ:مرشد کامل زندہ کرتا اور مارتا ہے) کے مصداق اپنے اوہام اور تصرف سے
مرید کے دل کوذکرِ اسمِ اللہ ذات سے اس طرح زندہ کر دیتا ہے کہ مرید کا
کوئی سانس حق تعالیٰ کے ذکر کے بغیر با ہر نہیں آتا اور مرید سوتے جاگتے ہر
حالت میں اللہ کا ذاکر ہو جاتا ہے اور اُسے دائمی طور پر سیرِ اوہام حاصل
ہو جاتی ہے اس کے علاوہ مرید کے دل میں اس قدر بصیرت یعنی دِل کی نظر پیدا
کرتا ہے کہ وہ تمام عالمِ الطاف (عالمِ باطن) کا معائنہ کر لیتا ہے اور اسی
بصیرت کی بدولت وہ ہر لمحہ اپنے دل میں اللہ کے جمال اور دیدار سے مستفید
ہو تا رہتا ہے۔ چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فتحأ دل کے بارے میں
ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’رَاْیئ قَلْبِیْ رَبِّیْ‘‘ (ترجمہ: میں نے اپنے ربّ
کو اپنے دل میں دیکھا) اور حضرت داؤد علیہ السلام سے بھی یہی منقول ہے کہ
’’اُوْحِیَ بِرُؤْیَتِیْ اللّٰہِ تَعَا لٰی اَنْظَرِیْ مَعْرِفَتْنِیْ
قُلْتُ لَا رُؤْیَتُ قَالَ قَلْبِکَ فِیْ شَاھِدَتِیْ وَبِرُ ؤْ یَتِیْ‘‘
(ترجمہ: حضرت داؤ د ؑ فرماتے ہیں کہ اللہ نے مجھ پر وحی کی اور پوچھا کہ اے
داؤدؑ ! کیا تُونے میرا دیدار کیا ہے اور میری معرفت پائی ہے؟ تو میں نے
عرض کی کہ نہیں تو فرمان ہو ا کہ تیرا دِل تو میرا مشاہدہ کر تا ہے لہٰذا
توُ اپنے دل میں میرا دیدار کر) ۔ (سُلطانُ الوَھم)
* اے جانِ عزیز ! انبیا ء اور اولیاء نے بھی وَھم کے ذریعے ہی دل کی سیر
حاصل کی اور اس راستہ کے سالک کو آگاہ فرمایا کہ اگر کوئی سالک اس راہ میں
ایک ہی مقام پر رُک گیا تو وہ نقصان رسیدہ ہے کیونکہ ’’مَنْ اِسْتَوٰی
یَوْمَاہُ فَھُوَمَغْبُوْنٌ ‘‘ (ترجمہ: جس نے دو دن ایک ہی مقام پر قیام
کیا تو اُس کا نقصان ہو گیا) اور اگر یہ نقصان لا حق نہ ہو مگر سیرِ دِل
کئے بغیر ہی سکون و آرام کر نے لگے تو ایسا سکون بھی حرام ہے کیونکہ
’’اَلسَّکُوْتُ حَرَامٌعَلٰی قُلُوْبِ الْاَوْلِیَآءِ‘‘ (ترجمہ: اولیا ء کے
دِلوں پر سکوت حرام ہے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ سالک کو ہمہ وقت کوشش کرنی
چاہیے کہ سیرِ دِل حاصل ہو جائے اور یاد رہے کہ سیر دِل کا حصول محض
سُلطانُ الوَھم یعنی مرشد کامل ہی سے ممکن ہے۔ سیرِ اوہام کو تین طریقوں
میں تقسیم کیا گیا ہے حدیث ’’ تَفَکَّرُ سَاعَۃٍ خَیْرٌ مِّنْ عِبَادَۃِ
سَنَۃٍ، تَفَکَّرُ سَاعَۃٍ خَیْرٌ مِّنْ عِبَادَۃِ سِتِّیْنَ سَنَۃٍ،
تَفَکَّرُ سَاعَۃٍ خَیْرٌ مِّنْ عِبَادَۃِ الثَّقَلَیْنِ‘‘ (ترجمہ: ایک
لمحے کا تفکر ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے، ایک لمحے کا تفکر ساٹھ سال کی
عبادت سے بہتر ہے اور ایک لمحے کا تفکر جن و اِنس کی عبادت سے بہتر ہے)۔
اوہام کی راہ میں مبتدی کا تفکر ایک سال کی عبادت کے برابر، متوسط کا تفکر
ساٹھ سال کی عبادت کے برابر اور منتہی کا تفکر جن و اِنس کی عبادت کے برابر
ہو تا ہے۔ (سُلطانُ الوَھم)
* اے میرے عزیز! آپ کو معلوم ہو نا چاہیے کہ اللہ کی معرفت اور وصال کا
راستہ کو نسا ہے اور وہ راستہ کس طرح حاصل ہو تا ہے؟ اللہ کے وصال کا راستہ
دِل کا راستہ ہے اب چاہیے کہ اس راستہ کے بارے میں آگاہی حاصل کی جائے۔
جاننا چاہیے کہ اس راستہ کی آگاہی اور حصول مرشدِ کامل کے ہاتھ میں ہے اور
وہی اس راستہ کا رہبرہے کیونکہ’’ فَالْوَ ھْمُ ھُوَ السُّلْطَانَ الْاَ
عْظَمُ فِیْ ھٰذِہِ الشَّارَتِ الصُّوْرَتِ الْکَامِلَۃِ الْاَنْبِیَآءِ‘‘
(ترجمہ: پس اس راہ میں اوہام مرشدِ کامل، سلطان المعظم ہے جس کی اکمل ترین
صورت انبیاء ہیں) اور مرشدِ کامل کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا
رشاد ہے: ’’اَلشَّیْخُ فِیْ قَوْمِہٖ کَالنَّبِیُّ فِیْ اُمَّتِہٖ ‘‘
(ترجمہ: مرشدِ کامل اپنے مریدین میں اُسی طرح ہوتا ہے جیسے نبی اپنی اُمت
میں) چنانچہ جس طرح پیغمبر علیہ السلام راہبر ہیں اسی طرح مرشد کامل بھی
مرید کا راہبر ہوتا ہے اور راہبر کی رفاقت کے بغیر سفر کرنا خطرات سے خالی
نہیں۔ اس راستے میں ایک بڑا خطرہ نفس کا ہے جسے ترک کئے بغیر وصالِ حق نصیب
نہیں ہوتا ۔ جیسا کہ شیخ بازید ؒ نے اللہ تعالیٰ سے وصال کے راستے کے بارے
میں دریافت فرمایا کہ اِلٰھِیْ اَیُّ الطَّرِیْقُ اِلَیْکَ‘‘ (ترجمہ: الٰہی
تیری طرف آنے کا کونسا راستہ ہے) تو حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ دَعَ
نَفْسَکَ وَ تَعَالْ‘‘ (ترجمہ: نفس کو چھوڑ اور میری طرف آ جا)۔ اسی طرح
’’عین القضات‘‘ میں ہمدانی ؒ طالبِ اللہ کے لئے فرماتے ہیں ’’اللہ کے وصال
کا راستہ نہ عرش میں ہے نہ مشرق و مغرب میں ، نہ جنوب میں ہے اور نہ شمال
میں بلکہ اُس کے وصال کا راستہ تو تیرے دِل میں ہے لہٰذا اُسے دِل میں تلاش
کرتاکہ تو اُسے پالے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ طالبِ اللہ کو شب و روز اعمالِ
دِل میں ہی کوشاں رہنا چاہیے تاکہ اُسے سیر دِل حاصل ہو اور بذریعہ اوہام
اللہ کا وصال و معرفت پا سکے۔ اس کے برعکس جو آدمی علمِ اوہام سے بے خبر
اعمالِ جوارح یعنی ظاہری اعمال میں ہی مشغول رہتا ہے اور اپنے باطن کی
اصلاح کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تو وہ جان لے کہ اُس نے اپنی گراں مایہ عمر
بربادکرلی۔ لیکن کسی کی پیروی اختیار کرنے سے پہلے یہ بات ضرور مدِ نظر
رکھنی چاہیے کہ بعض فقیر ظاہری طور پر بہت پارسا نظر آتے ہیں وہ صرف ظاہری
اعمال پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں اور اپنے باطن کو آباد نہیں کرتے اور نہ ہی
باطنی اصلاح کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں ایسے فقیر پیروی کے لائق نہیں ہوتے
کیونکہ وہ خالی ، بے کار اور اللہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دور
ہوتے ہیں۔ (سُلطانُ الوَھم)
* ’’اِعْلَمْ رِزْقُ اللّٰہِ سَیْرُ الْقَلْبِ بِسُلْطَانُ الْوَھْمِ بِلَا
اِسْتَوَا وَقَصُوْرٌ ‘‘ ( ترجمہ: جان لے اے طالب کہ اللہ تعالیٰ تجھے
سُلطانُ الوَھم کے وسیلے سے مکمل طور پر سیرِ قلب عطا فرمائے گا)اے جانِ
عزیز! اس راستے میں تمام تر دارو مدار مرشدِ کامل پر ہے اور مرشدِ کامل کے
بغیر اس راہ میں قدم رکھنا خلل ، حسرت اور پریشانی کا موجب ہے مگر جب مرشدِ
کامل مریدِ صادق کا ہاتھ پکڑے تو مرید کو چاہیے کہ پورے اخلاص سے مرشدِ
کامل کی خدمت کرے تاکہ مرشدِ کامل مرید میں اپنے تصرف سے اوہام کو جاری کر
دے اور مرید کے دِل میں صدق آجائے۔ مرشد کو چاہیے کہ مرید کا دِل بواسطہ
وَھم ہمیشہ قید میں رکھے اور اپنی مؤثرہ ہمت سے تمام مقامات کو طے کرادے
اور بموجب’’اَصْبَحُوْا مَعَ اللّٰہِ وَاِنِ اسْتَطِیْعُوْا فَاصْبَحُوْا
مَعَ اللّٰہِ مَنْ صَحَبَ اللّٰہِ ‘‘(ترجمہ: تم اللہ تعالیٰ کی صحبت اختیار
کرو اور اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتے تو پھر اللہ کے مصاحب یعنی مرشدِ
کامل کی صحبت اختیار کرو)۔ جب مرشدِ کامل کی صحبت حاصل ہوتی ہے تو ابتدا
میں مرشد کامل مرید کے دِل میں اپنے اوہام کے تصرف سے ذکرِ خفی (ذکر و تصور
اسمِ اللہ ) کی بنیاد رکھتا ہے اور مرید بغیر محنت اور ارادے کے دائمی ذاکر
ہو جاتا ہے حتیٰ کہ اُس کا کوئی بھی سانس اللہ کی یاد کے بغیر نہیں نکلتا
کیونکہ’’اَ لْاَ نْفَاسُ مَعْدُوْدَۃٍ کُلُّ نَفْسٍ یَخْرِجُ بِغَیْرِ
ذِکْرُ اللّٰہِ فَھُوَمَیِّتٌ ‘‘ (ترجمہ: سانس گنتی کے ہیں جو سانس بھی
ذکرِ اللہ کے بغیر نکلے وہ مردہ ہے) یہ بات اُس پر ثابت ہو جاتی ہے اور
مرید کا دِل اسمِ g کے ذکر سے بیدار (زندہ) ہو جاتا ہے کیونکہ ’’اَلنَّاسُ
یَنَا مُوْا فَاِ ذَا مَا تُوْ افَانْتَبِھُوْا ‘‘ (ترجمہ: تمام انسان غفلت
کی نیند سوئے ہوئے ہیں پس بوقتِ موت بیدار ہوتے ہیں) مگر اس وقت بیداری بے
سود ہے لہٰذا مرید کے دِل سے غفلت کی نیند دور ہو جاتی ہے اور وہ زندہ دِل
ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشادِ ربّ العالمین ہے’’اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَ
حْیَیْنٰہُ (پ ۸ ع۲ ترجمہ: بھلا ایک شخص جو کہ مردہ تھا پھر ہم نے اُسے
زندہ کر دیا) تو وہ اس بات کی تحقیق (یقین) کر لیتا ہے۔ مرید کو چاہیے کہ
وہ اپنے شیخ کو متصرفِ کُل سمجھے جیسا کہ فرمایا گیا ہے’’اَلشَّیْخُ یُحْیِ
الْقَلْبُ الْمَیِّتِ الْمُرِیْدُ بِذِکْرِاللّٰہِ وَیُمِیْتُ النَّفْسِ‘‘
(ترجمہ: شیخ مردہ مرید کے دِل کو اللہ کے ذکر سے زندہ کرتا ہے اور اُس کے
نفس کو ختم کر دیتا ہے) حتیٰ کہ وہ شیخ کے مقام پر مقر ر ہو جاتا ہے اور
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشاد کے مطابق ’’الذِّکْرِ لَآ
اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘ مرید کے دِل میں
منقّش ہو جاتا ہے اور وہ ہمیشہ اللہ کے مشاہدے میں مشغول ہو جاتا ہے چونکہ
مرید کے دِل میں اسمِ اللہ ذات منقش ہو چکا ہو تا ہے اس لئے اُس کا ہر ایک
سانس جو اندر جاتا ہے اور جو باہر آتا ہے اللہ کی یاد کی خبر دیتا ہے اور
کوئی بھی سانس ذکرِ اللہ یعنی اسمِ اللہ ذات کے مشاہدے کے بغیرنہیں نکلتا
اس طرح اُس کا دِل زندہ ہو جاتا ہے۔ پس جب سانس باہر نکلتا ہے تو ذکرِ ھُو
باہر نکلتا ہے اور تمام خواہشات کوھُوکے جھاڑو سے اپنے دِل سے صاف کرتا ہے
اور (ماسویٰ اللہ) تمام گندگی کو باہر نکال دیتا ہے یا پھر جب سانس اندر لے
کر جاتا ہے تو وہ اللہ کی یاد سے پُر ہو تا ہے اس سبب سے کہ مَنْ اَحَبَّ
شَیْءًا اَکْثَرَ ذِکْرُہٗ (ترجمہ:جو کوئی جس چیز سے محبت کرتا ہے تو اکثر
اُسی کا ذکر کرتا ہے)مرشد کامل مرید کے دِل میں اللہ کے ذکر (یعنی تصور
اسمِ اللہ ذات) کی بنیاد رکھتا ہے جیسا کہ حدیثِ قدسی ہے اَنَا جَلِیْسٌ
مَنْ ذَکَرَنِیْ (ترجمہ: جو کوئی مجھے یاد کرتا ہے میں اُسی کے ساتھ ہوتا
ہوں) تو اِس طرح وہ اللہ سے محبت کرتا ہے اور غیر اللہ سے وحشت محسوس کرتا
ہے لہٰذا وہ ماسویٰ اللہ سے منقطع ہو جاتا ہے اور سالک کا انتہائی کام فتحأ
دِل اُسے حاصل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ تقریباً چار ہزار پیرانِ
طریقت نے اس بات پر اجماع کیا کہ سالک کا انتہائی کام کیا ہے کہ جس کے
نتیجے میں وہ ہمیشہ اپنے آپ کو خدا وندِ ذُوالجلال کی غلامی اور حضوری میں
پائے ۔ تو سب نے سیرِ اوہام پر ہی اتفاق کیا کیونکہ سیرِ اوہام سے ہی فتئ
دِل حاصل ہوتی ہے جس کی بدولت سالک ہر لمحہ راحت و خوشی حاصل کرتا
ہے۔(سُلطانُ الوَھم)
* اے میرے عزیز! اگر دِل کا صاف آئینہ گناہوں کی وجہ سے زنگ آلود ہو چکا ہے
تو اُسے صاف کرنا چاہیے جیسا کہ حد یثِ پاک میں آیا ہے ’’ لِکُلِّ شَیْیءٍ
مُصْقِلَۃُ و مُصْقِلَۃُ الْقَلْبِ ذِکْرُ اللّٰہِ ‘‘(ترجمہ:ہر چیز کی
صفائی کے لئے ایک آلہ ہو تا ہے اور دِل کی صفائی کا آلہ اللہ کا ذکر
ہے)۔لہٰذا پہلے مرید کے دِل کے آئینہ کو صاف کیا جائے ، جب دِل کا آئینہ
روشن ہو جائے گا تو اُس میں حق تعالیٰ کی تجلی نمودار ہوجائے گی پھر خدا
اور بندے کے درمیان کوئی پردہ نہ رہے گا۔
سعدی حجاب نیست تو آئینہ صاف دار زنگار خُردہ کے نماید جمالِ دوست
ترجمہ: اے سعدی! یہاں کوئی پردہ نہیں ہے تُو اپنے آئینہ (دِل) کو صاف کر
کیونکہ زنگ آلود آئینہ دوست کی خوبصورتی کو کیسے دکھا سکتا ہے۔(سُلطانُ
الوَھم)
* اے میرے عزیز! جب نورِ ذکر، نورِذات کے ساتھ اتصال کی بدولت ذاتی صفت
حاصل کر لیتا ہے تو پھر ذاکر کسی وقت بھی حق سے جدا نہیں ہوتا اور اُس کا
کوئی لمحہ بھی ذکرِ الٰہی کے بغیر نہیں گزرتا اور ذاکر کو تزکیۂ نفس، تصفیۂ
قلب اور تجلیۂ رُوح حاصل ہو جاتا ہے اور اوہام کی وسا طت سے سیرِ دِل بھی
حاصل ہو جاتی ہے اور وہ ’’وَقُلْ جَآ ءَ الْحَقُ وَزَ ھَقَ الْبَاطِلُ ط
اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o‘‘(بنی اسرائیل81 )ترجمہ:’’ اور فرما
دیں کہ حق آیا اور باطل نکل بھاگا، بے شک باطل ہے ہی نکل بھاگنے والا‘‘)کے
چابک سے اپنے دِل سے تمام اغیار کو ہانک کر باہر نکال دیتا ہے۔
جائیکہ سلطان خیمہ زد غوغہ نماند عام را نام و نشاں در دِل نماند
ترجمہ: جہاں بادشاہ اپنا خیمہ نصب کر تا ہے وہاں کوئی شورو غُل نہیں ہوتا
اسی طرح جب دِل میں حق آجاتا ہے تو وہاں غیر اور باطل کا نام و نشان نہیں
رہتا۔(سُلطانُ الوَھم)
* تفکر اور ذکرِ اوہام سے حاصل ہونے والے وصالِ وحدت کے بارے میں سلطان
الفقر و سُلطانُ الوَھم فرماتے ہیں:
۱۔ تفکر بہ اوہام وحدت دہد رساند بہ مولیٰ و از خود دہد
۲۔ وَھم است سلطان تفکر وزیر تذکر بود لشکرت دِل پذیر
۳۔ تجرد تفکر بہ کس زادِ راہ بدیں توشہ ہمت شود عین شاہ
۴۔ چو و ہمت رساند بہ عالم وصال تنت عین گردد ز صحبت کمال
۵۔ چو اوہام گردد یقین گیر من جہاں جملہ اید بہ تدبیر من
۶۔ چوں سلطان و ہمت بہ یابد کمال بہرِ ساعت آید بہ دِل صد جمال
۷۔ بدیں وَھم خود را چو آراستی وصولی حقیقت بہ خود یافتی
ترجمہ:-۱۔تفکر اوہام کے ساتھ ہو تو وصالِ وحدت بخشتا ہے اور معیتِ مولیٰ
میں غرق کرکے وبالِ ہستی سے نجات دلاتا ہے۔۲۔وَھم بادشاہ ہے، تفکر اس کا
وزیر ہے اور تذکر اس کا دل پذیر لشکر ہے۔۳۔ اگرکسی کو تجرد و تفکر کا زادِ
راہ میسر آجائے تو اس توشۂ ہمت سے وہ بادشاہ بن جائے گا۔ ۴۔جب وَھم تجھے
عالمِ وصال تک پہنچا دے گا تو تیرا وجود اس کی محبت سے کمال پذیرہو جائے گا
۔۵۔ جب میں اوہام کی مدد سے مراتبِ یقین پر پہنچا تو تمام جہان میری تدبیر
کے غلام بن گئے۔۶۔ جب سُلطانُ الوَھم(مرشدِ کامل)اپنے کمال کا ظہور فرماتا
ہے تو دِل میں دم بہ دم نورِ جمال کے سینکڑوں جلوے ظہور پذیر ہوتے
ہیں۔۷۔اگر تُو خود کو اس وَھم سے آراستہ کرلے تو تُو حقیقت کو پالے گا اور
خود کو بھی پالے گا۔(محک الفقر کلاں، سُلطانُ الوَھم)
* جو آدمی اس مرتبے (مرتبۂ اوہام) پر پہنچ جاتا ہے اس کا آرام و سکون مٹ
جاتا ہے۔ کبھی وہ صاحبِ خوف ہوتا ہے اور کبھی صاحبِ رجا، کبھی صاحبِ سکر
ہوتا ہے اور کبھی صاحبِ محو، کبھی بے خبرہو کر ہوائے خود پرستی میں صاحبِ
غرور ہوتا ہے اور کبھی صاحبِ حضور، کبھی صاحبِ غیب ہوتا ہے اور کبھی صاحبِ
جمال وجلال، کبھی صاحبِ استغفار ہوتا ہے اور کبھی صاحبِ افتخار اور کبھی
صاحبِ مشاہدہ ہو کر حلاوتِ عشق و محبت کے مزے لیتا ہے اس طرح ابدا لآباد تک
اس کے دِل کی کیفیات اس قدرسرعت سے بدلتی رہتی ہیں کہ اُن کا شمار تک ممکن
نہیں ہوتا۔(محک الفقر کلاں)
بہ اوہام حالش برآور تو سیر اگر وصل خواہی بروں شو ز غیر
ترجمہ: اوہام کی مدد سے تو اُس کے احوال کی سیر حاصل کر اگر تو وصالِ حق
چاہتا ہے تو غیر حق سے جدا ہوجا۔(محک الفقر کلاں اور سُلطانُ الوَھم)
* صاحبِ وَھم طالب کے بارے میں سلطان العارفین ؒ فرماتے ہیں: ’’بعض طالب
صاحبِ وَھم ہوتے ہیں۔ صاحبِ وَ ھم وہ ہے کہ جس کے دِل میں ذوقِ وحدانیت
پایا جاتا ہو، اس کا وَھم قاتلِ نفس ہوتا ہے۔‘‘ (محک الفقر کلاں)
* اہلِ حضور کو مقامِ وحدانیت سے وَھم ہوتا ہے جو نہی اس پر حالتِ وَھم
وارد ہوتی ہے اُس کا ہر مشکل کام اسی وقت ہو جاتا ہے اور بذریعہ وَھم ظاہرو
باطن کی ہر تفصیل اس پر منکشف ہو جاتی ہے۔(کلید التوحید کلاں)
* سُلطانُ الوَھم کے بارے میں ’’قربِ دیدار‘‘ میں حضرت سخی سلطان با ھو
رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو فقیر فقر کے سُلطانُ الوَھم کے مراتب پر
پوری طرح پہنچ جاتا ہے اسے قربِ الٰہی سے علوم کی وحی اور الہام کا مرسل
قدرتِ الٰہی سے ہزار ہا بار، بلکہ بے شمار پیغام پہنچاتے ہیں اور علمِ
لدّنی اور وارداتِ غیبی اس پر وارد ہوتی ہیں۔ عارف باللہ اسمِ اللہ ذات کے
تصور سے ایک ہی دم میں ہزار ہا، بلکہ لاکھوں کروڑوں مقامات طے کرا دیتا ہے
اور غل وغش، غلاظت، کدورت اور خناس و خرطوم کے واہمات و خطرات کا زنگار دور
کر دیتا ہے اس کا پُو نور دِل اسمِ اللہ ذات اور دائمی حضوری کے سوا اور
کسی طرف مائل نہیں ہوتا اس مقام پر پہنچ کر دِل کو بہت سکون ملتا ہے اور وہ
روشن ضمیر ہو جاتا ہے اور نفس پر حکمران ہو جاتا ہے یہ فنا فی اللہ فقیر کے
مراتب ہیں جس کی نگاہ اثر پیدا کرتی ہے اور ایک نگاہ کرے تو اسکی تاثیر سے
اس کے قلب و قالب میں اسمِ اللہ ذات سرایت کر جاتا ہے اور تمام بدن اور دِل
میں اسمِ اللہ ذات کا نقش خوش خط لکھا ہوا دیکھتا ہے لیکن یہ مراتب ناقص
ہیں۔ اگرچہ اسمِ اللہ ذات کے تصور سے ذکر کی گرمی ہوتی ہے اور مردہ دِل میں
بھی نظر کے ساتھ گرمی آجاتی ہے لیکن جب تک اسے مشاہدہ اور معرفتِ الٰہی اور
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل نہ ہو تب تک اس پر یقین
نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس قسم کے مراتب حرص و ہوا کے حامل مبتدی کے لیے
فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور معرفتِ الٰہی سے دوری کا باعث
ہیں۔ (قربِ دیدار)
سیرِ اوہام راہِ فقر میں بڑا اعلیٰ مرتبہ ہے اور یہ حضورِ قلب کے بعد حاصل
ہوتا ہے اور فنا فی اللہ تک مرتبۂ سیرِ اوہام ہی پہنچاتا ہے۔
(یہ مضمون خادم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
کی تصنیفِ مبارکہ شمس الفقرا سے شکریہ کے ساتھ لیا گیا ہے)
|