تحریر: عنبرین میغیث سروری قادری
ایم۔اے(ابلاغیات)
روایت میں ہے کہ ایک بار ایک شخص مال کی خریدو فروخت کے سلسلے میں بازار
گیا ۔ بازار پہنچ کر اس نے ایک دوسرے شخص سے کہا کہ وہ ذرا اس کے گھوڑے کی
حفاظت کرے تب تک وہ بازار میں خریدو فروخت کرلے ۔وہ شخص آمادہ ہو گیا۔ لیکن
پہلے شخص کے بازار میں جاتے ہی اس کی نیت خراب ہو گئی۔ اس نے گھوڑے کی زین
اور لگام اتاری اور بازار میں جاکر فروخت کردی جس کے اسے دو ٹکے ملے ۔ جب
پہلا شخص بازار سے واپس آرہا تھا تو اس نے ارادہ کیا کہ وہ اس شخص کو اس کے
گھوڑے کی حفاظت کی خدمت کے عوض دو ٹکے ادا کر ے گا لیکن جب وہ واپس پہنچا
تو دیکھا کہ گھوڑا تو موجود ہے لیکن وہ آدمی زین اور لگام لے کر جاچکا ہے ۔زین
اور لگام کے بغیر گھوڑے پر سواری مشکل تھی اس لیے یہ شخص دوبارہ بازار گیا
اور ایک دکان پر جب زین اور لگام خریدنے لگا تو دیکھا کہ اسی کے گھوڑے کی
زین اور لگام اس دکان پر پڑی ہے جو پہلا شخص چوری کرکے یہاں بیچ گیا تھا۔
اس نے اس زین اور لگام کی قیمت دو ٹکے ادا کی اور انہیں خرید کر گھوڑے پر
ڈالا اور روانہ ہو گیا۔
سبق اس روایت میں یہ ہے کہ انسان کے پاس جو رزق آنا ہے اور جو رزق اس کے
پاس سے جانا ہے وہ مقدر میں مقرر ہے۔ نہ بڑھ سکتا ہے نہ کم ہو سکتا ہے
البتہ اس رزق کو حلال طریقے سے کمانے یا حرام طریقے سے حاصل کرنے کا فیصلہ
اور راستہ انسان خود منتخب کرتا ہے۔ جس نے چوری کی اس کی قسمت میں دو ہی
ٹکے تھے ۔ صبر کرتا اور نفس کی خواہش کو دبا لیتا تو وہی دو ٹکے جو زین اور
لگام چوری کرکے حاصل کیے ، وہی گھوڑے کی رکھوالی کے عوض حلال طریقے سے مل
جاتے اور دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی کام آتے۔ لیکن اپنے مقدر میں لکھے
رزق کے لیے تھوڑا سا انتظار، تھوڑا سا صبر اور تھوڑی سی محنت کی کمی نے اسی
رزق کو حلال سے حرام بنا دیا۔
انسان کے پیٹ میں اس سے زیادہ جا ہی نہیں سکتا جتنا وہ لکھوا کر لایا ہے۔
جو نوالہ اس کے مقدر میں لکھا ہی نہیں وہ اس کا نہیں ہو سکتا ۔ جس طرح مقدر
کیئ ہوئے رزق کو حاصل کرنے کے طریقے کا انتخاب انسان کے ہاتھ میں ہے اسی
طرح اس رزق کو حلال یا حرام طریقے سے خرچ کرنے کا اختیار بھی انسان کے ہاتھ
میں ہے۔ قرآن و حدیث میں جس قدر زور رزقِ حلا ل کمانے پر دیا گیا ہے اس سے
کہیں زیادہ زور حلال کمائے ہوئے رزق کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر دیا
گیا ہے۔ہم حلال کمانے کے لیے تو کوشش کر لیتے ہیں لیکن اس حلال کمائے ہوئے
رزق کو حلال خرچ نہیں کرتے۔ کمائے ہو ئے مال میں سے جو مال اللہ کے حق تھا،
اسے اگر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بجائے اپنی ذات پر استعمال کر لیا تو
حرام خرچ کیا۔ جب اللہ رزق کی فراوانی عطا کرتا ہے تو ساتھ ہی اپنے بندے کو
آزماتا بھی ہے کہ یہ میرے دیئے ہوئے رزق کا شکرانہ مجھے کیسے ادا کرتا ہے ۔
زبان سے شکر ادا کر دینا کافی سمجھتے ہوئے جہاں ہم اپنی ذات پر دس ہزار خرچ
کرکے بھی مطمئن نہیں ہوتے ، وہاں اللہ کی را ہ میں دس روپے کسی فقیر کو دے
کر اسے اللہ کی رضا کے لیے بہت سمجھتے ہیں، لیکن اللہ کا حق روک کر ہم کب
تک مطمئن زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ جو رزق ہمارے مقدر میں لکھا نہیں تھا بلکہ
وہ اللہ نے ہمیں اس لیے دیا تھا کہ ہم اسے اللہ کی راہ میں دے دیں وہ ہمارا
کبھی نہیں ہو سکتا ۔چنانچہ جب ہم خود اپنی خوشی سے سیدھے طریقے سے اللہ کی
راہ میں نہیں مال دیتے تو اللہ اسے ہم سے نکلوانے کے دوسرے رستے کھول دیتا
ہے جو یقیناًہمارے لیے سخت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔کبھی بیماری ، کبھی چوری ڈاکے
کی صورت میں نکل جاتا ہے ، کبھی مقدموں کی نذر ہو جاتا ہے، کبھی ہمارے عزیز
رشتہ دار جنہیں ہم اپنا سمجھتے ہیں دھوکے فراڈ سے لے جاتے ہیں ۔ یہ مال جو
اِن دکھ اور تکلیف دہ صورتوں میں ہماری جیب سے چلا گیا کبھی ہمارا تھا ہی
نہیں۔اگر خود سیدھے طریقے سے اللہ کی راہ میں دے دیا ہو تا تو بیماری ،چوری
اور دھوکے کی تکلیف تو نہ سہنی پڑتی۔ اس پر سب سے بڑا نقصان روزِ آخرت میں
ملنے والی اس کئی گنا زیادہ جزا کا الگ ہو گیا جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے
پر ہمیں ملنا تھی۔سورۃ احزاب آیت 72میں انسان کو اللہ نے اگر ظالم اور جاہل
کہا تو وہ سب سے زیادہ ظلم اور جہل کا مرتکب اپنی ہی ذات کے ساتھ ہوتا ہے۔
جن چوروں لٹیروں کو ہم ہمارا مال لے جانے پر کوستے ہیں، ان کا ایک بڑا حصہ
ہمارے ہی لالچ اور خود غرضی کی پیداوار ہے ۔اگر ہم اپنی جائز ضرورتوں کو
ذرا سا محدود کرکے، غریب اور سخت ضرورت مند طبقے کی ضروریات کو اللہ کی راہ
میں پورا کردیں، تو معاشرے میں بہت کم لوگ رزق کمانے کے غلط طریقوں کی طرف
مائل ہوں گے۔ لیکن چونکہ ہمیں صرف اپنی ہی بھوک مٹانے کی فکر ہے، بھرے ہوئے
پیٹ کو اور گلے تک بھرنا چاہتے ہیں۔شادیوں پر لاکھوں روپے ڈیکوریشن پر خرچ
کر دیتے ہیں۔ایک شادی کے جوڑے پر لاکھوں اڑا دیتے ہیں، جب ہم ایسی خود غرضی
کی نمائش کھلے عام اس معاشرے میں کریں گے جہاں لوگ ایک روٹی کو بھی ترستے
ہیں تو اس کا واضح ردِ عمل یہی ظاہر ہو گا کہ یہ بھوکے پیاسے لوگ ہم سے
اپنا حق چھیننے کے دوسرے طریقے استعمال کریں گے جو ہمیں ناگوار گزریں گے۔
ان کا حق نہ دے کر اگر ایک طرف ہم نے خود کو اللہ کی رضا سے محروم کر لیا
تو دوسری طرف ان لوگوں کو گناہ پر اکسانے کے بھی ذمہ دار ٹھہرے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا’’انسان کے مال کا کیا ہے ، جو کھایا
وہ نکل گیا جو پہنا وہ پرانا کر دیا۔ اس کا مال تو اتنا ہی ہے جتنا اس نے
صدقہ کر دیا ۔‘‘
حلال مال کو اس طریقے سے جمع کرنے، کہ وہ دنیا و آخرت میں ہمارے لیے فائدہ
مند بن جائے ، کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسے برضا و رغبت اللہ کی راہ میں
خرچ کر دیا جائے۔اللہ اپنے وعدے کے مطابق دنیا میں بھی دس گنا لوٹائے گا
اور آخرت میں کئی گنا ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ ’’صدقہ کرو یہ بلاؤں کو ٹالتا ہے۔‘‘
صدقہ بلا سے اس لیے بچاتا ہے کہ ہم اللہ کا حق سیدھے طریقے سے ادا کر دیتے
ہیں تو وہ اسے بیماری یا تکلیف کے ذریعے نہیں نکلواتا لیکن ہم عموماً صدقہ
تب دیتے ہیں جب بلا حملہ آور ہو چکی ہوتی ہے۔اللہ اپنا حق خود نکلوالے اس
سے پہلے اس کا حق ادا کر دینا چاہیے۔ |