تصویری میٹر

حکومت کی طرف سے بجٹ کے ساتھ ساتھ بجلی کے صارفین کے لئے خوشخبری وصول ہوئی ہے کہ اب تصویری میٹر ریڈنگ کا جدید نظام متعارف کرایا جا رہا ہے۔ جس سے بجلی چوری اور میٹر ریڈر کی کرپشن ختم ہو جائے گی۔ ریڈنگ، ریڈنگ کی تاریخ اور وقت صاف صاف نظر آئے گا۔ یقینا یہ بڑی اچھی بات ہے۔ مگر یہ سب کچھ تو لوگوں کو پہلے بھی صاف صاف نظر آتاتھا اورہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بجلی والوں کے میلے میلے ہاتھ بھی بہت نمایاں نظر آتے ہیں اور ان میلے ہاتھوں کے خلاف حکومت کی پھیکی پھیکی اور بے سود کاروائیاں اس سے بھی نمایاں نظر آتی ہیں۔ یہ میلا پن اس وقت تک شاید ختم نہ ہو جب تک وہ خونی انقلاب نہ آئے۔ جس کا خواب شہباز شریف دیکھا کرتے تھے۔ لگتا ہے مرکز میں اپنی حکومت آنے کے بعد انہیں خواب آنا بند ہو گئے۔ لیکن عوام کے لئے نہ پہلے کچھ اچھا تھا اور نہ ہی اب۔ وہ لوگ جنہیں حرام خوری کی لت پڑ گئی ہے انکی سرگرمیوں کے لئے بھی کوئی تصویری میٹر بہت ضروری ہے جو اُن کی ذات کے ہر عیب کو نمایاں کرے یا پھر کڑا اورسخت احتساب اس ملک کے لوگوں کو سنوار سکتا ہے۔
چند سال پہلے ہنستی کھیلتی بستیوں میں پلاٹ کی قیمت اپنے بس میں نہ پا کر میں نے رائے ونڈ روڈ پرچمروپور گاؤں کے عقب میں ایک ویران جگہ پلاٹ لے کر مکان کی ابتداء کی تو شروع ہی میں مجھے بجلی کے بل کا شاندار جھٹکا لگا۔ ایک ہارس پاور کی موٹر اور گیارہ(11)واٹ کا انرجی سیور اور سزا بہتر (۷۲) ہزار روپے۔ وہ بھی بغیر کسی ریڈنگ کے۔ پوچھا بھائی یہ کس چیز کی سزا ہے؟ مگر کوئی جواب نہ ملا۔ فقط اتنا کہا گیا کہ آپ ادا کر دیں کوشش کریں گے کہ اگلے چند مہینوں میں آپ کی کچھ رقم آئندہ بلوں میں آپ کو لوٹا دی جائے۔ مگر کہاں سے دوں، کیسے دوں اور کیوں دوں؟ ان باتوں کا لیسکو کے کسی افسر کے پاس جواب نہیں تھا۔ میں عدالت چلا گیا۔ عدالتوں کا اپنا ایک روایتی طرز عمل ہے۔ جج صاحب مصر تھے کہ تیسرا حصہ مبلغ چوبیس ہزار جمع کرا دیں تو حکم امتناعی جاری ہو سکتا ہے وگرنہ نہیں۔ میرے وکیل نے عرض کیا کہ پروفیسر صاحب میرے استاد ہیں۔ آپ کمیٹی مقرر کر دیں ابھی جاکر جائزہ لے کہ وہاں ایک بجلی کی موٹر اور گیارہ واٹ کے انرجی سیور کے سوا کوئی اور چیز موجود ہی نہیں اور ان دونوں کو سارا مہینہ بغیر وقفے سے بھی چلایا جائے تو بھی بل پانچ یا چھ ہزار سے زیادہ نہیں آئے گا۔ بل پر کوئی ریڈنگ موجود نہیں۔ میٹر کی ریڈنگ بھی معمولی رقم بتا رہی ہے۔ بل کی یہ رقم کہاں سے آئی؟ بلا کر پوچھیں۔ بہرحال کافی بحث کے بعد جج صاحب نے کہا کہ استاد ہونے کی وجہ سے خاص رعایت کر رہا ہوں۔ چوتھا حصہ اٹھارہ ہزار جمع کرا دیں۔ لیسکو نے اٹھارہ ہزار بمع اُس ماہ کے جرمانے آٹھ (۸) ہزار کے ساتھ چھبیس (۲۶) ہزار وصول کئے اور چار، پانچ سال سے کیس عدالت میں ہے۔

دوران سماعت جج صاحب نے مجھے گواہ لانے کا کہا۔ میٹر کی ریڈنگ اور بل کے اندراج میرے خیال میں میرے بہترین گواہ تھے مگر حکم ہوا کہ یہ نہیں کچھ جیتے جاگتے گواہ پیش کئے جائیں۔ مشکل سے پرانے وقت کام کرنے والے ٹھیکیدار اور مستری ڈھونڈے اور گواہی بھگتا دی۔ پچھلے ڈھائی تین سال سے لیسکو کی باری ہے۔ اس کے گواہ نہ آرہے ہیں اور نہ ہی آنے کی توقع ہے۔کچھ عرصہ پہلے جج صاحب نے مشورہ دیا کہ کوشش کرو کسی طرح کورٹ کے باہر لیسکو والوں سے معاملات طے ہو جائیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ اُن کی غلطی ہے۔ ان کو ازالہ بھی کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ قسمت بری کہ میں علاقے کے SDO صاحب کے پاس اس مشکل کے ازالے کے لئے چلا گیا۔ انہوں نے سیدھا اصول بتایا کہ جو رقم وہ مجھے چھوڑیں گے وہ آدھی آدھی ہوگی۔ چھپن ہزار کے آدھے یعنی اٹھائیس ہزار انہیں دے دوں تو میرے نامہ اعمال یعنی بل سے چھپن (۵۶) ہزارکی رقم ہمیشہ کے لئے غائب ہو جائے گی۔ میں نے ساری زندگی یہ سودے بازی نہیں کی۔ چنانچہ انکار کر کے آگیا۔

میرے انکار کی سزا چند دنوں میں مجھے موصول ہو گئی۔ نیا آنے والا بل چھپن ہزار جمع کر کے وصول ہوا۔ میں ریونیو افسر کے پاس گیا کہنے لگے کورٹ کا حکم امتناعی صرف چھ (۶) ماہ ہم مانتے ہیں یا تو نیا لاؤ یا ہم میٹر کاٹ دیں گے۔ میں وکلاء کی ہڑتال کے باوجود جج صاحب سے خصوصی اپیل کے بعد ایک نیا حکم امتناعی لایا۔ مگر مجھ سے نالاں SDO صاحب نے اسے ماننے سے انکار کر دیا اور میرا میٹر کاٹ کر لے گئے۔ یہ ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے۔ بہت کوشش کے بعدشام کے وقت علاقے کے ایگزیکٹیو انجینئر سے رابطہ ہوا۔ بھلا اور خدا ترس آدمی تھا۔ حیران ہو کر کہنے لگا حکم امتناعی بھی تھا اور آپ استاد بھی ہیں۔ آپ کا تو ویسے یہ کہنا کہ صحیح بل دے دوں گا۔ ہمارے لئے کافی ہے۔ میں بات کرتا ہوں۔ چنانچہ اُس مہربان کی مداخلت پر رات گئے میری بجلی بحال ہو گئی۔

بل ادا کرنے کے لئے ایک بنک کے مینجر صاحب کے پاس بیٹھا تھا۔ جن کی رہائش ہنجروال کے علاقے میں ہے۔ وہ بیچارے ایک نوٹس دکھا رہے تھے کہ کسی انسپکٹر شکایات نے لکھا تھا کہ آپ کا میٹر خراب ہے اور لگتا ہے کہ یہ آپ نے جان بوجھ کر کیا ہے۔ لہذا فوری طور پر اس نمبر پر رابطہ کریں ورنہ بجلی کاٹ دی جائے گی اور آپ سے بھاری رقم میٹر خراب کرنے کی وجہ سے وصول کی جائے گی۔ وہ حیران تھے کہ میٹر کسی طرح بھی خراب نہیں مگر یہ بلیک میلنگ سوائے لوگوں سے ناجائز پیسے وصول کرنے کی گھٹیا حرکت کے سوا کچھ نہیں۔ تصویری میٹر ایسے نوٹسز اور نوٹس بھجوانے پر لگا دیں، سارے مسائل اور مشکلیں حل ہو جائیں گی۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500224 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More