مَنْ رَبُّک۔بتا تیرا ربّ کون ہے؟

نورِخداوندی اس کائنات کے ذرے ذرے سے عیاں ہے۔ اس کائنات کی تخلیق سے قبل ذاتِ حق تعالیٰ یکتا و تنہا تھی۔ اس نے اپنے ہی نور سے سب سے پہلے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نور تخلیق کیا اور پھر اس نور سے تمام کائنات اور اس کی تمام مخلوقات کو تخلیق کیا جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰ ۃوالسلام کی حدیث مبارکہ ہے کہ اَنَا مِنْ نُورِ اللّٰہِ تَعَالیٰ وَکُلّ ُ خَلَاءِق مِنْ نُوْرِی ترجمہ’’:میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے۔‘‘

یوں نورِالٰہی بھی تمام مخلوقاتِ عالم کے حصے میں آیا اور نورِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی۔
نورِالٰہی کی موجودگی کی بدولت ہر شے میں ربوبیت کے اثرات پیدا ہوئے اور نورِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی موجودگی کی بدولت ہر شے میں عبودیت کے اثرات پیدا ہوئے۔ انسان چونکہ تمام مخلوقات سے افضل ہے اس لئے اس میںیہ دونوں اثرات سب سے بڑھ کر پیدا ہوئے۔ وہ کسی نہ کسی شے کی پرستش کرنے کا بھی شدید خواہش مند ہوتا ہے اور خود اپنی پرستش بھی کروانا چاہتا ہے۔ کسی شے کی پرستش کی خواہش میں کبھی وہ سورج کو پوجتا ہے، کبھی آگ کو، کبھی پتھر کے بت کو اور کبھی اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو پرستش کی حد تک چاہنے لگتا ہے۔ پرستش کروانے کی خواہش میں کبھی وہ فرعون بنتا ہے تو کبھی نمرود، کبھی بطور حکمران اپنی پرستش کرواتا ہے، کبھی بطور افسر تو کبھی بطور شوہر۔

انسان میں موجود اسی پرستش کے مادے کو اِدھراْدھر بھٹکنے سے بچا کر اصل اور صحیح نقطے یعنی واحد ذاتِ الٰہی پر مرکوز کرنا ہی دینِ حق اور صراطِ مستقیم ہے۔ اگر انسان کی نظر اس صحیح نقطے پر مرکوز ہو تو نہ وہ کسی بھی شے یا رشتے کو خدا سے بڑھ کر چاہے، نہ اس پر توکل کرے اور نہ ہی اللہ کے سوا کسی سے بھی کوئی امید یا خوف رکھے۔ یہی تمام عوامل پرستش کے زمرے میں آتے ہیں۔ اگر ہمیں کسی بھی شے کی خواہش یا کسی بھی رشتے کے لئے محبت ذاتِ حق تعالیٰ کی محبت اور اسکے قرب کی خواہش سے بڑھ کر ہے یا ہم اس کی ناراضگی سے اللہ کی ناراضگی سے بڑھ کر ڈرتے ہیں تو وہ شے یا رشتہ ہمارے اور اللہ کی راہ میں حائل بت ہے اور اس کو خدا تعالیٰ سے بڑھ کر چاہنے یا ڈرنے کے باعث ہم صراطِ مستقیم سے ہٹ چکے ہیں۔ کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ:
’’ہم میں صنم پرستی کا مادہ سب سے زیادہ ہے حالانکہ ہم فرزندانِ توحید ہیں۔ پرستش کی یہ زیادتی ہمیں خدا پرستی سے صنم پرستی کی طرف لے جاتی ہے۔ ہم اللہ کے سوا ہر چیز کو اس قدر ٹوٹ کر چاہتے ہیں کہ بالآخر اللہ کو بھی وہ چیز جو اْ س کے اور بندے کے درمیان حائل ہو جاتی ہے،ہٹانا پڑتی ہے۔‘‘کبھی ہماری اولاد ہمارے لیے بت بن جاتی ہے اور ہماری تمام جد و جہد ،عبادتیں اور دعائیں اس کی بہتری کے لیے وقف ہو جاتی ہیں۔ کبھی رزق ہمارا بت بن جاتا ہے ، کبھی صحت، کبھی جنت اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ بندے کی اپنی عبادات ہی اْ س کا بت بن جاتی ہیں۔ وہ اِ ن عبادات کے تکبر میں اس قدر گم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو ہی بھلا دیتا ہے۔ کبھی اْ سکا علم، کبھی عقل اور کبھی حْسن بھی اْس کے بت بن جاتے ہیں جن کی زیادتی اْ سے اللہ سے دور کر دینے کا باعث بن جاتی ہے۔ اپنے علم، عقل، حْسن یا عبادات پر تکبرکے باعث وہ خود ہی اپنا بت بن جاتا ہے اور اپنی ہی پرستش کرنے لگ جاتا ہے۔ خدا تو کیا اْ سے دوسرے انسان بھی دکھائی دینا بند ہو جاتے ہیں، انسان کے لیے سب سے بڑا بت عموماً اس کی اپنی ہی ذات اوراْ س کی خواہشات ہوتی ہیں۔سورہ الجاثیہ آیت 23 میں اللہ فرماتا ہے اَفَرَءَ یْتَ مَنِ تَّخَذَ اِلٰھَہ‘ ھَوَاہُ ۔ترجمہ: ’’کیا تو نے اْ س شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔‘‘

پس ہم نے جب بھی رزق کی طلب میں اللہ کی عبادت کی ، رزق ہمارا معبود بن گیا، جب جنت کی خواہش میں اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوئے ، جنت ہمارے اور ہمارے اللہ کے درمیان حائل ہو گئی۔ یہی حال اولاد، صحت، دنیاوی ترقی اور دیگر خواہشات کا ہے تبھی تو ہماری نماز ہمیں وہ روحانی سکون اور نفع نہیں دیتی جو اس بلند ترین درجہ کی عبادت کا مقصود ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی حالت اقبالؒ نے اس شعر میں بیان کی ہے۔
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دِل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

اللہ بہت دیر اپنے بندے کا انتظار کرتا ہے کہ کب وہ تمام بتوں کو توڑ کر میری خواہش کرتا ہے، خالص میری عبادت کرتا ہے، صرف اور صرف مجھے اپنا معبود بناتا ہے۔ اور جب بندہ اللہ کی طرف راغب نہیں ہوتا اور انہی بتوں کی طرف مائل رہتا ہے تو اللہ خود ایک ایک کر کے ان بتوں کو توڑنا شروع کر دیتا ہے۔ جس اولاد کو بندہ خدا سے بڑھ کر چاہتا ہے وہ یا تو تکلیفوں میں مبتلا ہو جاتی ہے یا اْ س کی نافرمان ہو جاتی ہے۔ جس رزق کی طلب میں اْ س کی عبادتیں وقف ہوتی ہیں ‘ وہ رزق اْ س سے چھننا شروع ہو جاتا ہے یا اْ سے دوسری مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہی حال تمام بتوں کا ہوتا ہے بالآخر ’’ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم‘‘ والا حال ہوجا تا ہے۔

یہ تمام بت ایک جال، ایک فریبِ نظرہیں جنہیں انسان کے آزمائش کے لئے پیدا کیا گیا۔ جیسا کہ اللہ فرماتا ہے: ’’ لوگوں کے لیے ان کی خواہشات کی محبت(خوب) آراستہ کر دی گئی۔ عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خو بصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی یہ سب دنیوی زندگی کا سامان ہے اور اللہ کا قرب بہتر ٹھکانہ ہے(اٰلِ عمران۔14 )۔‘‘

حدیثِ قدسی میں اللہ فرماتا ہے کہ ’’ اے ابنِ آدم! ایک میریچاہت ہے اور ایک تیری چاہت ہے،ہو گا وہی جو میری چاہت ہے پس اگر تو نے سپرد کر دیا اپنے آپ کو اُ س کے جو میری چاہت ہے تو وہ بھی میں تجھے دوں گا جو تیری چاہت ہے۔ اگر تو نے مخالفت کی اْ س کی جو میری چاہت ہے تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اْ س میں جو تیری چاہت ہے ۔ پھر ہو گا وہی جو میری چاہت ہے‘‘ اس خدائے بے نیاز کی اپنی بندوں سے چاہت اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے بندے صرف اس کے بندے بن کر رہیں اور اپنی خواہشات کے بندے نہ بنیں۔ اسکی غیرت کو گوارا ہی نہیں کہ اْ س کے بندے اس کے سوا کسی اور کی طلب کریں۔ اگر ہم اسکی اِ س چاہت کو دل و جان اور خلوصِ نیت سے پورا کریں گے تو وہ ہماری ان چاہتوں کو بھی پورا کرے گا جن کو ہم نے اس کے قرب کی چاہت پر قربان کیا ہو گا۔دنیاو جنت کے نعمتیں عطا کرنا اْ س کے لیے کچھ مشکل نہیں۔ وہ اْس نے پیدا ہی ہمارے لیے کی ہیں لیکن اگر ہم نے اْ س کی چاہت کی پرواہ ہی نہ کی، دنیاوآخرت کی ہر نعمت کو اْ س کے قر ب پر ترجیح دی تو وہ ہمیں ہماری ان چاہتوں کی دوڑ میں تھکا دے گا۔
Nasir Hameed
About the Author: Nasir Hameed Read More Articles by Nasir Hameed : 29 Articles with 51959 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.