تحریر: عنبرین میغیث سروری قادری
ایم۔اے (ابلاغیات)
دین اسلام پورے انسانی معاشرے کی بھلائی کا دین ہے ۔ لیکن اسے تمام انسانیت
کی فلاح کا دین بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے تمام احکام پر کامل اور
مکمل عمل بھی کیا جائے۔ احکامِ دین پر کامل اور مکمل عمل کیے بغیر محض
مسلمان کہلانے سے اس دین کے فوائد و ثمرات حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ اللہ نے
اپنی کتاب قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے توسط سے جتنے بھی
احکام مسلمانوں پر لاگو کیے وہ تمام کے تمام فرائض کے زمرے میں آتے ہیں
لیکن ہم عموماً صرف کلمہ ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد کو فرائض میں شامل
کرتے ہیں اور اللہ کے دیگر احکام کو غیر ضروری سمجھ کر ان پر کوئی خاص توجہ
نہیں دیتے۔خود کو اور دوسروں کو یہی سمجھاتے ہیں کہ کامل اور مکمل دین
جاننے اور عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے صرف فرائض ادا کرو اور بس ۔ اللہ کو
راضی کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے ۔ حالانکہ اللہ کی رضا تو بے انتہا اور
لامحدود ہے جس کے حصول کے لیے جتنی بھی کوشش کی جائے کم ہے۔دنیا کے ہر کام
میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں سوائے دین کے۔
اللہ نے قرآن میں حکم دیا کہ یا یھا الذین امنو اد خلوا فی السلم کافۃ
(سورۃ البقرہ۔208) ترجمہ: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو اسلام میں پورے داخل
ہو جاؤ۔‘‘یعنی مومن وہی ہے جو اللہ کے تمام احکام کو فرض سمجھ کر ان پر عمل
کرے اور اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اپنے ربّ کی مرضی کے مطابق ڈھال لے ، نہ
کہ وہ جو آدھے تیتر آدھے بٹیر کی طرح کچھ احکام پر تو عمل کرے اور کچھ پر
نہ کرے۔ جس فرض کی ادائیگی میں آسانی اور سہولت یا اپنا ذاتی دنیاوی یا
اخروی فائدہ نظر آئے، اسے ادا کر لیا اور باقی فرائض کی طرف سے کان اور
آنکھیں بند کرلیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت
یوں نہیں کی جاسکتی کہ جو دِل چاہا وہ مان لیا اور جو نہ چاہا وہ نہ مانا۔
اللہ کی طرف سے امتِ مسلمہ کو دیا گیا ایک انتہائی اہم حکم، جسے نماز و
روزہ جتنی ہی اہمیت حاصل ہے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر یعنی اللہ کے
قرب و معرفت کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا
ہے : اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَنّٰھُمْ فِیْ الْاَرْضِ اَقَامُوالصَّلٰوۃَ
وَاٰتُوْالزَّکٰوۃَ وَاَمْرُوْا بِلْمَعْرُ وْفِ وَنَھَوْ عَنِ الْمُنْکَرِ
o ترجمہ’’ (اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ
نماز قائم کریں ،زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور اللہ کی معرفت کا
حکم دیں اور لوگوں کو برائی سے روکیں۔‘‘
مسلم اُمت کا دیگر تمام اُمتوں سے بہتر ہونے کا دارو مدار ان کی نمازوں اور
ر وزوں پر نہیں بلکہ اسی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فرض کی ادائیگی
پر ہے۔ اللہ فرماتا ہے :ترجمہ:’’تم بہترین اُمت ہو کیونکہ تم لوگوں(کی
بھلائی) کے لیے نکالے گئے ہو۔ تم لوگوں کو اللہ کی معرفت کا حکم دیتے ہو
اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(سورۃ آلِ عمران۔110)
اللہ کے اسی حکم سے روگردانی کے باعث ہم تمام دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔ نہ
ہی مسلم معاشرے میں کہیں امن و امان دکھائی دیتا ہے نہ ہی بین الاقوامی سطح
پر مسلمان کی کوئی عزت رہ گئی ہے ،حالانکہ اگر دیکھا جائے تو جس قدر ظاہری
عبادات پر زور آجکل دیا جارہا ہے پہلے کبھی نہ تھا۔ جگہ جگہ حفظ و درسِ
قرآن کے لیے مدرسے کھل گئے ہیں ، کئی ٹی وی چینلز اپنی طرف سے دینِ اسلام
کی تبلیغ میں مصروف ہیں ،کئی رسائل و جریدے دینی احکامات کو پھیلانے کے لیے
خصوصی اشاعتیں کر رہے ہیں لیکن حالات ہیں کہ بگڑتے ہی جارہے ہیں ۔وجہ یہ ہے
کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکرکے فرض کو ادا کرنا تو دور کی بات ہم نے تو
اس کے صحیح معنوں کوبھی نہیں سمجھا ۔امر بالمعر وف کے معنی ہمیشہ یہ کیے
جاتے ہیں کہ ’’نیکی کا حکم دو۔‘‘ اور نیکی کو ہم صرف ظاہری جسمانی عبادات
یا زیادہ سے زیادہ حقوق العباد کی ادائیگی تک محدود کر دیتے ہیں جو نیکی کی
انتہائی محدود صورت ہے۔’’معروف ‘‘ کے معنی ’’واقف‘‘ ہونے ، ’’جاننے‘‘ کے
ہیں ۔ معروف کا لفظ تعارف سے نکلا ہے۔ جس شے یا فرد سے انسان کا تعارف ہو
جاتا ہے انسان اس کو پہچان لیتا ہے اور وہ شے یا فرد اس انسان کے لیے معروف
ہو جاتی ہے۔ امر بالمعروف سے مراد اللہ کی معرفت یعنی پہچان حاصل کرنے کا
حکم دینے کے ہیں۔ اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اللہ کے قریب ہو نا ضروری
ہے۔ اللہ کے قریب ہونے کے لیے اپنی روح اور قلب کو حسد، تکبر، لالچ، ہوس ،
کینہ، خود پسندی وغیرہ جیسی گھناؤنی بیماریوں اور برائیوں سے پاک کرنا
ضروری ہے۔ جب انسان کے دِل میں اللہ کی معرفت اور پہچان حاصل کرنے کی تڑپ
جاگتی ہے صرف تب ہی وہ اپنی روح و قلب کو پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تب ہی
وہ برائی سے بچتا ہے اور حقیقی نیکی تک پہنچتا ہے۔ قلب و روح پاک صاف ہو تو
بندہ اللہ کے قریب ، اللہ قریب تو اس کے خوف سے برائی ترک اور نیکی کی
زیادہ سے زیادہ رغبت۔ چنانچہ اللہ کی معرفت و قرب حاصل کیے بغیر نہ گناہ سے
مکمل طور پر بچنا ممکن ہے نہ حقیقی نیکی و عبادت ممکن ہے۔ قلب و روح کو
برائیوں اور بیماریوں سے پاک کرنے کے لیے روحانی طبیب یعنی ولئ کامل (مرشد
کامل) کی صحبت لازمی ہے جو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ کے مطابق قلب
کا تزکیہ اور نفس کا تصفیہ کر سکے۔ ترجمہ’’ میرا محبوب(صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم ) ان پر آیات تلاوت کرتا ہے اور (اپنی نگاہِ کامل سے ) ان (کی روح) کو
پاک کرتا ہے۔‘‘ (سو رۃ جمعہ۔2)
موجودہ دور میں اللہ کی حقیقی معرفت اور قرب حاصل کرنے کی نہ کسی کو خواہش
رہ گئی ہے نہ ہی کوئی عالم ، مفتی یا ٹی وی چینل یا رسالہ جریدہ لوگوں کو
اس کے حصول کی ترغیب دیتا ہے۔ اللہ کے پاک ولی تو آج بھی لوگوں کو اللہ کے
قرب و معرفت کا راستہ اور طریقہ بتانے کے لیے موجود ہیں لیکن کوئی ان سے
فیض حاصل ہی نہیں کرنا چاہتا۔ اللہ نے حکم دیا کہ ترجمہ:’’ تم میں سے ایک
جماعت ضرور ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو اللہ کی معرفت حاصل کرنے اور برائی
سے رکنے کا حکم دے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (آلِ عمران۔104)
۔اولیاء کرام کی یہ جماعت اللہ کے اسی حکم اورفرض کی ادائیگی کے لیے آج بھی
موجود ہے لیکن کوئی عالم، کوئی واعظ، کوئی درس دینے والا لوگوں کو ان کی
طرف رجوع کرنے کی ترغیب نہیں دلاتا کیونکہ اس طرح ان کی اپنی دکان نہیں
چمکتی۔ بلکہ یہ لوگ الٹا لوگوں کو زیادہ سے زیادہ عبادات کرنے اور پھر اپنی
عبادات پر تکبر کرکے یہ سوچنے کی ترغیب دیتے ہیں کہ ہماری عبادات ہی اللہ
کے قرب کے لیے کافی ہیں اور ہمیں کسی کی ضرورت نہیں حالانکہ اللہ نے خود
حکم دیا کہ کونو مع الصادقین ترجمہ:’’صادقین کے ساتھ ہو جاؤ۔‘‘ (التوبہ119)
اور حکم دیا کہ ترجمہ’’ اور پیروی کر و اس شخص کی جو میری طرف مائل
ہوا۔‘‘(لقمان۔15)
ان اولیاء کی صحبت سے فیض حاصل نہ کرنے کی وجہ سے معاشرے میں ظاہری عبادات
کی بھی کثرت ہے اور ان عبادات پر تکبر کی بیماری بھی عام ہے۔ تکبر شیطانی
صفت ہے جس کے بعد اعلیٰ سے اعلیٰ عبادت بھی ضائع ہو جاتی ہے۔ جب تک امربا
المعروف و نہی عن المنکر کو صحیح طریقہ سے سمجھا اور اس حکم کا صحیح طور پر
اطلاق نہ کیا جائے گا معاشرے کی اصلاح اور مسلم اُمت کی فلاح ناممکن ہے۔
صرف ظاہری عبادات کی کثرت سے کام چلتا تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔ حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک حدیثِ قدسی روایت ہے کہ اللہ نے
فرمایا:’’ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو مبادا وہ وقت آجائے کہ
تم دعا مانگو اور قبول نہ ہو۔تم سوال کرو اور سوال پورا نہ کیا جائے۔ تم
اپنے دشمنوں کے خلاف مجھ سے مدد چاہو اور میں تمہاری مدد نہ کروں۔‘‘(ابنِ
ماجہ)
حضرت ابو الدر دا رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں’’تم امر بالمعروف و نہی عن
المنکر کرتے رہو ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر ایسے ظالم بادشاہ کو مسلط کردے گا
جو تمہارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، تمہارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے۔ اس وقت
تمہارے برگزیدہ لوگ بھی دعائیں کریں گے تو قبول نہ ہوں گی۔تم مدد چاہو گے
تو مدد نہ ہوگی۔ مغفرت مانگو گے تو مغفرت نہ ملے گی۔‘‘بیشک ہمارا یہ حال
صرف اور صرف اللہ کے قرب و معرفت سے محرومی کے باعث ہے۔ جس کا سہرا اوّل
اُن علماء کے سر ہے جو کبھی عام مسلمانوں کے لیے امر بالمعروف کا فریضہ سر
انجام نہیں دیتے اور پھر اُن مسلمانوں کے سر ہے جو صرف اپنی عبادات پر تکبر
اور بھروسہ کیے بیٹھے ہیں اور معرفت کے حصول کے لیے اپنے قلب اور روح کی
صفائی کے لیے کسی ولئ کامل کی طرف رجوع نہیں کرتے۔
معرفت یعنی قربِ الٰہی سے محرومی کے باعث ہی ہم نہی عن المنکر کا فرض بھی
انجام نہیں دیتے ۔ہمارے ارد گرد معاشرے میں بے حیائی، رشوت، ظلم ، دوسروں
کے حقوق غصب کرنا، دولت کی نمائش اور ضیاع، یہاں تک کہ قتل اور زنا جیسے
گناہ اور جرائم کھلے عام ہو رہے ہیں لیکن کسی کو انہیں ہاتھ یا زبان سے
روکنے کی جرأت نہیں۔ وجہ یہ کہ اللہ کے قرب سے محرومی کی وجہ سے ہمارے
دِلوں میں اللہ سے زیادہ لوگوں کا خوف ہے۔ ہم اللہ کے غضب سے زیادہ لوگوں
کی باتوں سے ڈرتے ہیں۔ برائی کو روکنے کی بجائے ہم اِسے کبھی زمانے کا چلن
کہہ کر خود بھی اپنا لیتے ہیں اور کبھی اپنی مجبوری کہہ کر ۔ حالانکہ یہ
صرف ہمارے ایمان کی کمزوری ہے اور کچھ نہیں۔
اللہ کی رضا مومنین کو اُن کے ایمان کے مطابق ہی ملتی ہے۔ جس مقام پر ہمارا
ایمان اُسی مقام پر اللہ کی رضا۔آج دنیا میں مسلمانوں کی پستی صرف امر
بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے میں کوتاہی کی وجہ سے ہے۔ جب خود ہی دین
میں آگے نہیں بڑھنا چاہتے تو دوسروں کو اس کا حکم کیا دیں گے ۔امر بالمعروف
یعنی قربِ الٰہی کی خواہش تو ہماری کسی عبادت کا مقصد نہیں رہ گیا۔ عبادتیں
اہم ، دعائیں اہم، بخشش اہم، جنت اہم، اللہ غیر اہم، اللہ کا قرب غیر اہم ،
اللہ کا دیدار غیر اہم۔ جب اللہ کو ہی نہ چاہا تو کیسی عبادت اور کیسی
نیکی۔ امربالمعروف ایک بھولا بھٹکا خیال ہو گیا اور نہی عن المنکر ہماری
خود غرضیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اللہ کے حکم اور فرض کا یہ حشر کرنے کے بعد
بھی ہم اللہ سے طلب کرتے ہیں کہ وہ دنیا میں ہمیں وہی مقام عطا کرے جو
ہمارے اسلاف کو عطا کیا۔ ہماری اس حالت اور خواہش پر تو ہمارے اسلاف بھی
افسوس کرتے ہونگے۔ |