تحریر: عنبرین میغیث سروری قادری
ایم۔اے(ابلاغیات)
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فرماتا
ہے کہ’’ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک ترجمہ:اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ‘‘
آقائے کائنات سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کی یہ بلندی
دنیا میں زمین و آسمان پر یوں ظاہر ہوئی کہ اللہ اور اس کے فرشتے اور تمام
مومنین ان پر دن رات درودو سلام بھیجتے ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ چوبیس گھنٹے
گونجنے والی اذانوں میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رسالت کی گواہی دی
جاتی ہے۔ ذکر کو یوں بھی بلند کیا کہ کلمہ طیبہ میں اپنے باعظمت نام کے
ساتھ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نام جوڑا اور قرآن پاک میں
بھی کئی مقامات پر ’’اللہ اور اس کا رسول‘‘ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم کے ذکر کو اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر بلندی عطا کی۔ صرف اپنی ذات پر
ایمان کو ادھورا قرار دیا اور کسی کو بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم پر ایمان لائے بغیر اپنی بارگاہ میں قبول نہ کیا۔
اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کو آخرت میں اور بلند تر کرنے
کے لیے بخشش کا تمام تر دارومدار ان کی شفاعت پر رکھا تاکہ وہ لوگ جو دنیا
میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان کے منکر تھے آج ان کی شان کی بلندی
دیکھ لیں کہ اللہ جس کو بخش رہا ہے اُن کے وسیلے اور شفاعت سے بخش رہا ہے۔
حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’میری رحمت میرے غضب پر حاوی ہے۔‘‘
اپنے اس قول کا عملی ثبوت اللہ تعالیٰ روزِ قیامت یوں دے گا کہ اللہ کی
رحمت یعنی رحمت اللعالمین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے اُمتیوں کے
گناہوں کی بخشش اللہ سے طلب فرما کر انہیں اللہ کے غیظ و غضب سے بچالیں گے
اور یوں جو ذکر دنیا میں ہر دم بلندی کی طرف مائل رہا وہ روزِ آخرت اپنے
عروج کی انتہاؤں کو چھولے گا یہاں تک کہ دنیا میں جو لوگ اس شان کو دیکھنے
اور سمجھنے سے قاصر تھے وہ بھی اپنی آنکھوں سے اس شان کو دیکھ لیں گے۔ اپنے
محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذکر اور شان کو یہ بلندی اور عروج عطا
فرمانے کا وعدہ اللہ تعالیٰ قرآن میں ان الفاظ میں فرماتا ہے۔
* وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّک فَتَرْضٰی
ترجمہ: اے حبیب مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) آپ کا رب عنقریب آپ کو
اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔ (والضحیٰ: 5)
* عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا
ترجمہ: یقیناًاللہ آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز
فرمائے گا۔ (الاسراء: 79)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نفسِ مطمئنہ کےُ اس مقام پر ہیں جہاں اپنے لیے
بندے کی کوئی بھی طلب نہیں رہتی پھر اللہ انہیں ایسا کیاعطا کرنے کا وعدہ
کر رہا ہے جس سے وہ راضی ہوجائیں۔ انہیں نہ دنیا کے خزانوں کی طلب ہے نہ
جنت کے۔ نہ وہ اللہ کے ہاں بڑے مقامات کے طالب ہیں کہ اللہ پہلے ہی انہیں
اپنی ذات تک مکمل معراج عطا کر کے بلند ترین مقام پر فائز کر چکا۔ اب اگر
ان کی کوئی طلب ہے تو صرف اپنی گنہگار اُمت کی بخشش کی طلب اور فکر ہے اور
یقیناًاس آیت میں اللہ انہیں یہی عطا کرنے کا وعدہ فرما رہا ہے کہ آپ کے
وسیلے سے بخشش کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھوں گا جب تک آپ راضی نہ ہوجائیں
اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔
اذًا واللّٰہ لا ارضیٰ و واحد من امتی فی النار
ترجمہ: خدا کی قسم میں اس وقت تک راضی نہ ہوں گا جب تک میرا ایک بھی اُمتی
دوزخ میں ہو۔ (تفسیر قرطبی)
امام رازی رحمتہ اللہ علیہ آیت مبار کہ ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ کے تحت حضر
ت ا بو بکر صدیق اورحضرت علی رضی اللہ عنہم کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اِنَ
ھَذاھواشفاعۃفی الامۃ ’’بے شک یہ اُمت کے بارے میں شفاعت کا حق ہے۔‘‘
صحیح مسلم میں روایت بیان کی گئی ہے کہ ایک بار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
اپنی اُمت کے حق میں دعا کرتے ہوئے گریہ وزاری کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ
نے جبرائیل امین علیہ السلام کو بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
میں بھیجا کہ جا کر میرے محبوب سے پوچھو کہ ان کو کون سی چیز مائل بہ گریہ
کر رہی ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حاضر خدمت ہو کر پوچھا تو حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں بتایا کہ وہ اپنی اُمت کے لیے آنسو بہا رہے
ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے جبرائیل ؑ میرے محبوب سے کہہ دو کہ
انا سنرضیک فی امتک ولانسوک ترجمہ:ہم آپ کو آپ کی اُمت کے حق میں عنقریب
راضی کر دیں گے اور آپ کو اس بارے میں رسوا نہ کریں گے۔(صحیح مسلم ۔ کتاب
الایمان‘ باب دعا النبی)
امام خازن رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کریمہ ولسوف یعطیک ربک فتر ضیٰ کی تفسیر
فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم کا اُمت کے حق میں شفاعت کرنا ہے حتیٰ کہ آپ راضی ہو جائیں۔‘‘
مقامِ محمود سے مراد وہ مقام ہے جہاں صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم ہی لائقِ تعریف مقام پر فائز ہوں گے‘ آپ محمود ہوں گے اور تمام عالم
زمین و آسمان چرند پرند‘ انسان‘ فرشتے سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی
تعریف کریں گے۔ یہ مقام یقیناًمقامِ شفاعت ہے کیونکہ جب تک اللہ روزِ آخرت
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس مقام پر فائز نہ فرمائے گا‘ تمام مخلوق
پر آپ کی شان ظاہر نہ ہوپائے گی اور وہ کفار و منافقین جو آپ صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ الٰہی میں انتہائی قربت و عظمت کے انکاری تھے‘ کس
طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت کا اقرار کریں گے۔ اس دن جب شفاعت
کا حق صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم کی تمام مخلوق پر فضیلت ظاہر ہوجائے گی۔ چنانچہ مقامِ محمود
مقامِ شفاعت ہی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی احادیث مبارکہ اور مفسرین
کرام کے بہت سے اقوال اس پر شاہد ہیں۔
* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس قول مبارک’’ عسیٰ ان یبعثک ربک مقاماً
محموداً کے بارے میں فرمایا (یا اس کے بارے میں سوال کے جواب میں فرمایا)
کہ ’’وہ شفاعت ہے‘‘ (جامع ترمذی)
* حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’بے شک لوگ روزِ قیامت چلیں گے‘
ہر اُمت اپنے نبی کو تلاش کرے گی‘ وہ کہہ رہے ہوں گے ’’اے فلاں تو ہماری
شفاعت کر‘‘ یہاں تک کہ شفاعت کی انتہا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
پر ہوگی۔ پس یہ وہ دن ہوگا جب اللہ تعالیٰ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو
مقامِ محمود عطا کرے گا۔‘‘ (صحیح بخاری)
* حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا (روزِ قیامت) میں شفاعت کروں گا اور
عرض کروں گا کہ اے میرے رب تیرے بندے زمین کی ہر جگہ تیری عبادت کرتے تھے
اور وہ مقام (جہاں میں ان کی شفاعت کروں گا) مقامِ محمود ہوگا۔‘‘ (کنز
العمال)
* حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
کے رب کا آپ کو مقامِ محمود پر کھڑا کرنا مقام شفاعت ہے جس جگہ اولین و
آخرین آپ کے لیے محوِ ثنا ہوں گے۔‘‘ (تفسیرا بن عباسؓ )
* امام خازن ؒ فرماتے ہیں ’’اور مقامِ محمود ہی مقامِ شفاعت ہے کیونکہ اس
مقام پر اوّلین و آخرین آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف کریں گے۔‘‘
(تفسیر حازن)
* امام جلال الدین سیوطی ؒ فرماتے ہیں: ’’مقامِ محمود وہ مقام ہے جس جگہ
اولین و آخرین آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حمد کریں گے اور وہ مقامِ
شفاعت ہوگا۔ (جلالین)
روزِ آخرت اللہ کی بارگاہ میں اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کو بھی کسی کی
شفاعت کی جرأت نہ ہوگی جیسا کہ اللہ نے خود فرمایا:
* ترجمہ: کون ایسا شخص ہے جو اس کے حضور اس کے اذن کے بغیر شفاعت کر سکے۔
(البقرہ: 255)
* ترجمہ: (اس کے حضور) اس کی اجازت کے بعد ہی کوئی شفاعت کرے گا۔ (یونس: 3)
* ترجمہ: (اس دن) لوگ شفاعت کے مالک نہ ہوں گے سوائے ان کے جنہوں نے اللہ
رحمن سے وعدہ لے لیا ہے۔ (مریم: 87)
* ترجمہ: اس دن سفارش سود مند نہ ہوگی۔ سوائے اُس شخص (کی شفاعت) کے جسے
رحمن نے اجازت دے دی۔ (طہٰ: 109)
* ترجمہ: اور اُس کے پاس (کسی کی) شفاعت کام نہیں آتی بجز اس کے کہ جس کو
وہ خود اجازت دے دے۔ (سباء: 23)
ان آیات سے ثابت ہے کہ روز قیامت اللہ ضرور چند چنے ہوئے لوگوں کو شفاعت کی
اجازت دے گا جن کے سوا کوئی کسی کی سفارش نہ کر سکے گا اور ان چنے ہوئے چند
لوگوں میں جنہیں اللہ نے شفاعت کا حق دے رکھا ہے‘ یقیناًمحبوبِ الٰہی‘
سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہو سکتا
جو تمام انبیاء کے بھی امام ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ
نے نہ صرف شفاعت کی اجازت دی ہے بلکہ خود کئی آیات میں حکم بھی دیا ہے
کیونکہ اللہ تعالیٰ خود بھی رحمن و رحیم ہے۔ وہ خود بھی اپنے گنہگار بندوں
کو بخش کر اپنی صفاتِ غفور و رحیم کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ لیکن جس طرح اس
نے اپنے محبوب کو اپنی تمام صفات کا مظہر بنایا اور ان کے بغیر کسی صفت کو
ظاہر نہ فرمایا اسی طرح وہ اپنے محبوب کے بغیر اپنی غفور رّحیمی کا بھی
اظہار نہیں کرنا چاہتا۔ حالانکہ اگر وہ چاہتا تو اپنے گنہگار بندوں کو بخشش
مانگنے پر خود ہی معاف کر دیتا لیکن اپنے محبوب کی تمام مخلوق پر عظمت کے
اظہار کے لیے اُن سے فرماتا ہے کہ وہ اس کے بندوں کے لیے بخشش طلب کریں
تاکہ اللہ اپنے محبوب سے اپنی محبت کے اظہار کے طور پر ان کے کہنے پر اپنے
بندوں کو بخش دے۔ اللہ فرماتا ہے: ترجمہ:(اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
) اگر وہ لوگ جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے، آپ کی خدمت میں حاضر
ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا
نہایت مہربان پاتے۔ (النساء: 64)
یعنی اگر ان کے معافی طلب کرنے کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت
بھی شامل ہوجاتی تو اللہ لازماً ان کی توبہ قبول فرما لیتا۔ اللہ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام سے فرماتا ہے:
* ترجمہ: اور (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) اپنے خاص اور عام
مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں ( کے لیے) بخشش مانگیء۔ (محمد: 19)
* ترجمہ: سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) ان سے درگزر فرمایا کریں اور
ان کے لیے بخشش مانگیں۔(النور: 62)
* ترجمہ: اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کے حق میں دعا فرمائیں بیشک
آپ کی دعا ان کے لیے (باعث) تسکین ہے۔ (التوبہ: 103)
* ترجمہ: اور ان (مسلمان عورتوں) کے لیے اللہ سے بخشش طلب
فرمائیے۔(المتحنہ۔12)
ان تمام آیات سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کو شفاعت کا حق اور اجازت دے رکھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ واضح طور پر فرماتا ہے
کہ ’’وہ جس کو بھی بخشے گا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خاطر ہی بخشے
گا۔‘‘
لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ
وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ
ترجمہ: تاکہ بخش دے اللہ آپ (کی اُمت) کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ اور
اپنی نعمت کو آپ پر مکمل فرما دے۔ (سورۃ الفتح: 20)
اس آیت میں لفظ ’’اُمت‘‘ حذف ہے کیونکہ جب یہ بات ثابت اور قبول عام ہے کہ
تمام انبیاء معصوم اور خطا سے پاک ہوتے ہیں تو یہاں جن کے گناہوں کی معافی
کی بات ہورہی ہے وہ اس آیت کے مخاطب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بلکہ
ان کی اُمت ہے۔ ’’ذنب‘‘ کے معانی گناہ ہیں اور ذَنبِکَ سے مراد ’’آپ کے
گناہ‘‘ نہیں بلکہ ’’آپ کی اُمت کے گناہ‘‘ ہی ہیں۔
امام فخر الدین رازی رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’جب
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ اطہر گناہ سے پاک ہے تو بخشش
کس بات کی؟‘‘ (تفسیر الکبیر)
امام موصوف خود ہی جواب دیتے ہیں کہ اس سے مراد اہلِ ایمان یعنی آپ صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت کے گناہ ہیں۔
اسی طرح صاحبِ مجمع البیان فرماتے ہیں ’’اس آیت کریمہ سے مراد یہ ہے کہ
’’اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ آپ کی اُمت کے اگلے پچھلے
تمام گناہ آپ کی شفاعت کے ذریعے معاف فرما دے گا۔‘‘ اس کے بعد فرماتے ہیں
’’ذنوبِ اُمت‘‘ کی اضافت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف کرنا کتنا حسین
ہے۔ اس کی وجہ اُمت اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے درمیان گہرا تعلق
اور واسطہ ہے۔ (مجمع البیان)
قرآن پاک میں اللہ علی الاعلان فرماتا ہے کہ جہاں اس کے محبوب صلی اللہ
علیہ وآلہٖ وسلم موجود ہوں گے وہاں وہ کبھی عذاب نہیں فرمائے گا۔
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ
ترجمہ: اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر عذاب فرمائے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم ان میں (موجود) ہوں (الانفال: 33)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کافروں کو عذاب دینے کے متعلق فرما رہا ہے کہ جب تک
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس روئے زمین پر موجود ہیں تب تک وہ ان کافروں
کو بھی عذاب نہ دے گا کہ جس زمین کو اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
کے قدموں نے چھو لیا خواہ اب اس پر کافر ہی کیوں نہ موجود ہوں اور چاہے وہ
خود ہی عذاب کی خواہش کیوں نہ کریں:
وَاِذْ قَالُوا اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ
فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِاءْتِنَا بِعَذَابٍ
اَلِیْمٍ
ترجمہ: اور جب انہوں نے (طعناً ) کہا کہ اے اللہ اگر یہ (قرآن) تیری طرف سے
حق ہے تو (اس کی نافرمانی کے باعث) ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر
کوئی درد ناک عذاب بھیج۔ (الانفال:32)
جب اللہ تعالیٰ کفار پر ان کی اس قدر زبانِ طعن دراز کرنے کے باوجود حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موجودگی کی برکت کے باعث ان پر عذاب نہ فرما رہا
تھا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے اُمتی‘ جواُن پر ایمان لائے اور
ان سے اپنے گناہوں کی شفاعت کی امید بھی رکھتے ہیں‘ ان کے حق میں حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت کو کیونکر قبول نہ فرمائے گا۔ جب ان کی موجودگی
ہی عذاب سے نجات کا باعث ہے تو اس بات پر یقین کرنے میں کیا چیز مانع ہو
سکتی ہے کہ انہیں شفاعت کا مکمل اختیار بھی حاصل ہے۔
کئی روایات سے بھی یہ ثابت ہے کہ جب صحابہ کرامؓ سے کوئی خطا سرزد ہو جاتی
تو وہ توبہ کرتے وقت توبہ کی نسبت اللہ کی طرف بھی کرتے اور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف بھی کرتے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت
عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار انہوں نے ایک تصویر دار قالین خریدا۔ جب حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے دیکھا تو اپنے قدم مبارک اس پر نہ رکھے بلکہ
دروازے پر ہی کھڑے رہے۔ اُم المومنینؓ نے چہرۂ انور پر ناراضگی کے آثار
پائے تو عرض کرنے لگیں’’یا رسول اللہ اتوب الی اللّٰہ ماذا اذنبت‘‘ یا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں توبہ کرتی ہوں مجھ سے کیا خطا ہوئی۔
(بخاری)
متعدد احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ مختلف موقعوں پر جب کبھی صحابہ
کرامؓ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شفاعت طلب کی تو آپ
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کبھی بھی کسی کو یہ نہیں فرمایا کہ تمہارا مجھ
سے شفاعت طلب کرنا شرک ہے یا یہ کہ اپنے اللہ سے طلب کرو اور اس کے ساتھ
کسی کو شریک نہ کرو۔ اس سلسلے میں چند روایات نقل کی جاتی ہیں۔
* حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا۔ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم ! آپ میرے لیے قیامت کے دن شفاعت فرمایئے گا تو رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :انا فاعل ’’میں شفاعت کروں گا۔ ‘‘(جامع ترمذی)
* حضرت سواد بن قارب رضی اللہ عنہٗ نے اشعار کی صورت میں حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام سے عرض کی:
وانک ادنی المرسلین شفاعۃ
الی اللّٰہ یا ابن الاکر میں الاطایب
ترجمہ: اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مرسلین میں سے بحیثیت شفیع عنداللہ
ہونے کے سب سے زیادہ قریب ہیں‘ اے پاک بزرگ لوگوں کی اولاد۔
فکن لی شفیعاً یوم لاذوشفاعہ
سواک بمغن عن سواد بن قارب
ترجمہ: سو آپ میرے سفارشی ہوجائیں اس دن جب کوئی سفارشی نہ ہوگا۔ آپ کے سوا
کون سواد بن قارب (رضی اللہ عنہٗ )کے کام آنے والا ہے۔ (دلائل النبوۃ
البیہقی)
* حضرت مازن رضی اللہ عنہٗ بن العضوب جب مسلمان ہو کر آئے تو انہوں نے حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شفاعت طلب کی اور یہ اشعار پڑھے۔
تشع لی یا خیر وطئ العصا
فیغفر لی ربی فارجع بالفتح
ترجمہ: تاکہ آپ میرے لیے شفاعت کریں‘ اے بہترین ذات جو کنکریوں پر چلنے
والوں میں سب سے بہتر ہے۔ سو میرا رب مجھے معاف کر دے تاکہ میں کامیاب لوٹ
جاؤں۔ (دلائل النبوۃ لابی نعیم)
* جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان 70 ہزار لوگوں کا ذکر
فرمایا جو حساب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے تو حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہٗ
نے عرض کیا’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ اللہ پاک سے میرے
لیے دعا فرمائیں کہ اللہ پاک مجھے بھی ان میں شامل فرما لے‘‘ تو آپ صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فوراً بغیر توقف کے فرمایا ’’انت منھم‘‘ کہ تم
انہی لوگوں میں سے ہو۔ (جامع ترمذی)
ان تمام روایات سے بڑھ کر وہ احادیث مبارکہ ہیں جن میں حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے خود اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ قیامت کے روز نہ صرف اپنی
تمام اُمت کے گنہگاروں کی شفاعت کروائیں گے بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم
السلام کی بھی شفاعت کرائیں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں؛
* قیامت کے دن تمام نبیوں کا امام میں ہوں گا۔ انہیں خطبہ دوں گا‘ ان کی
شفاعت میں کروں گا اور فخر نہیں کرتا۔ (جامع ترمذی‘ سنن ابن ماجہ)
* سب سے پہلے جنت کی شفاعت میں کروں گا‘ کسی نبی کی اس قدر تصدیق نہیں کی
گئی جس قدر میری کی گئی ہے۔ (صحیح مسلم)
* روزِ حشر جب تمام لوگ نااُمید ہوجائیں گے تو ان کو بشارت کی نوید میں
سناؤں گا۔ (جامع ترمذی)
* حضرت جابر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
فرمایا ’’بے شک میری شفاعت میری اُمت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ہے۔
(ابن ماجہ)
* حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ میری
آدھی اُمت کو جنت میں داخل کر دے یا میں شفاعت کروں۔ میں نے شفاعت کو
اختیار کر لیا اور یہ شفاعت ہر اس مسلمان کے لیے ہے جو شرک پر نہیں مرے
گا۔‘‘ (جامع ترمذی۔ سنن ابن ماجہ۔ مسند احمد بن حنبل۔ حاکم۔ طبرانی۔
البیہقی)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آدھی اُمت کو جنت میں داخل کروانے کی بجائے
شفاعت کو اس لیے قبول فرمایا کیونکہ انہیں اس بات کا سو فیصد یقین تھا کہ
اللہ ان کی شفاعت کو ضرور قبول فرمائے گا اور اس طرح آدھی کی بجائے پوری
اُمت جنت میں داخل ہو جائے گی۔
* حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’(قیامت کے دن) تمام انبیاء علیہم السلام کے لیے
سونے کے منبر بچھائے جائیں گے۔ وہ ان پر بیٹھیں گے اور میرا منبر خالی رہے
گا۔ میں اس پر نہ بیٹھوں گا بلکہ اپنے ربّ کریم کے حضور کھڑا رہوں گا اس ڈر
سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے جنت میں بھیج دیا جائے اور میری اُمت میرے
بعد کہیں بے یارومددگار رہ جائے۔ اس لیے عرض کروں گا اے میرے رب! ’’میری
اُمت‘ میری اُمت‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم آپ کی کیا مرضی ہے۔ آپ کی اُمت کے ساتھ کیا سلوک کروں۔ حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں’’میں عرض کروں گا اے میرے ربّ ان کا
حساب جلد فرما دے۔‘‘ بس ان کو بلایا جائے گا اور ان کا حساب ہوگا۔ کچھ ان
میں سے اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوں گے اور کچھ میری شفاعت سے‘ میں
شفاعت کرتا رہوں گا۔ یہاں تک کہ میں ان کی رہائی کا پروانہ بھی حاصل کرلوں
گا جنہیں دوزخ میں بھیجا جاچکا ہوگا۔ یہاں تک کہ مالک داروغہ جہنم عرض کرے
گا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ نے اپنی اُمت میں سے کوئی بھی
جہنم کی آگ میں نہیں چھوڑا کہ جس پر اللہ رب العزت ناراض ہو۔ (حاکم)
ایک اور مقام پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’قیامت کے روز تین
گروہ شفاعت کریں گے‘ انبیاء علیہم السلام پھر علماء (حق) پھر شہداء‘‘ (ابن
ماجہ)۔ اور ہمارے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام تمام انبیاء علماء اور
شہداء سے بڑھ کر ہے۔ چنانچہ سب سے زیادہ ان کی شفاعت اللہ کے ہاں مقبول و
منظور ہوگی۔
تمام انبیاء علیہم السلام نے اپنی اپنی اُمت کے حق میں اللہ تعالیٰ سے بخشش
کی دعا کی جن کی گواہی خود قرآن پاک دیتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے دعا
فرمائی۔
ترجمہ: اے میرے پروردگار مجھ کو بخش دے اور میرے والدین کو اور ان کو جو
میرے گھر میں ایمان کی حالت میں داخل ہوئے اور تمام ایماندار مردوں اور
عورتوں کو۔‘‘ (سورہ نوح: 28)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا فرمائی ’’اے ہمارے ربّ مجھے بخش دے اور
میرے والدین کو اور دیگر سب مومنوں کو بھی‘ جس دن حساب قائم ہوگا۔‘‘ (سورۃ
ابراہیم: 41)
حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا ’’میں عنقریب تمہارے لیے اپنے رب سے بخشش
طلب کروں گا بے شک وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ (یوسف: 98)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ’’اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی)
بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘
(المائدہ: 118)
قرآن کریم میں انبیاء کرام علیہم السلام کی ان تمام دعاؤں کا تذکرہ کرکے‘
جن میں انہوں نے اپنی اپنی اُمت کے ایمان والوں کے لیے بخشش طلب کر کے ان
کی شفاعت کی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کا اپنی اُمت کے حق میں شفاعت طلب
کرنا بالکل جائز اور حق قرار دیا ہے۔ اگر دیگر انبیاء کا اپنی اُمت کے لیے
بخشش طلب کرنا جائز اور حق ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے
کیوں نہیں اور کیا اگر وہ اپنی اُمت کے لیے بخشش طلب کریں گے تو اللہ، جس
نے انہیں ہر حال میں راضی کرنے کا وعدہ کیا ہے، ان کی دعا قبول نہ فرمائے
گا؟
آیات اور احادیث کی رو سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حقِ شفاعت ثابت
ہونے کے باوجود اُمت کا ایک گروہ اس بات سے بالکل انکاری ہے کہ اللہ تعالیٰ
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت سے گنہگارانِ اُمت کو بخش دے گا۔ ان کا
کہنا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حقِ شفاعت بس اتنا ہی ہے کہ روزِ
حشر جب سورج سوا نیزے پر ہوگا اور تمام اُمتی اس شدید گرمی میں حساب کے
انتظار میں بیٹھے ہوں گے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ سے سفارش کریں
گے کہ اے اللہ حساب جلد شروع کردے۔ ان کے کہنے پر اللہ حساب شروع کر دے گا
اور بس شفاعت سے اس کے سوا کچھ اور مراد نہیں۔ واللہ !ایسے لوگوں کی عقل پر
ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کیا اللہ کے ہاں اس کے محبوب صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم کا مقام اتنا ہی ہے؟ اسی محبوب کے کہنے پر اللہ تعالیٰ نے شب
معراج فرض نمازوں کی تعداد 50 سے کم کر کے پانچ کردی۔ روزے بھی کم کر کے
صرف 30 کر دیئے۔ اسی محبوب کی خوشی کی خاطر قبلہ کا رخ بیت المقدس سے تبدیل
کر کے کعبہ کی طرف کر دیا۔ اس محبوب کے چاہنے والوں کی خاطر اپنے اصولِ
قدرت بدل دیئے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہٗ کے فجر کی اذان نہ دینے پر سورج ہی
طلوع نہ ہوا‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی نمازِ عصر قضا ہو جانے پر
سورج کو الٹا پھر جانے کا حکم دیا‘ اس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی
عظمت روزِ قیامت بس اتنی ہی ہوگی ،مقامِ محمود بس اتنا ہی ہوگا؟
اس گروہ کا کہنا ہے کہ ہر انسان روزِ قیامت صرف اور صرف اپنے اعمال کی
بنیاد پر بخشا جائے گا۔ بے شک اعمال بہت اہم ہیں لیکن اگر اعمال ہی ہر چیز
سے اہم ہیں تو اللہ کی رحمت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی
رحمت اللعالمینی اور ان کے اُمتی ہونے کی فضیلت کیا ہوئی۔اس بات کی دلیل کے
طور پر وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ حدیث مبارکہ پیش کرتے ہیں جس
میں انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اگر ان کے اعمال نیک
نہ ہوئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت بھی انہیں کوئی نفع نہ دے
پائے گی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ نصیحت یقیناًاُمت کو نیک اعمال
کی ترغیب دینے کے لیے تھی تاکہ اُمت صرف شفاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم پر تکیہ کرکے نہ بیٹھ جائے اور نیک اعمال کی بالکل کوشش نہ کرے۔
اُمتیوں کو اچھے اعمال اپنانے کی تلقین کرنا ہی تو حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کا مقصدِ رسالت ہے۔ اچھے اعمال کے بغیر اللہ کی رضا کیسے حاصل کی
جاسکتی ہے۔ البتہ ان اعمال کی ادائیگی میں جو خلوص و تقویٰ کی کمی رہ جائے،
اس کی تکمیل رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شفاعت کے ذریعے ہوگی
تاکہ یہ بارگاہِ الٰہی میں مکمل طور پر مقبول ہو جائیں۔ ایک عام بشر‘ جو شر
اور خیر کا مرقع ہے‘ کے تمام عمر کے نیک اعمال تو صرف اللہ کی عطا کردہ
نعمتوں کا شکرانہ ادا کرنے کے لیے بھی کافی نہیں ہیں‘ ان کے ذریعے اپنے
تمام گناہ بخشوا لینا اور تمام فرائض میں کی گئی کوتاہیوں کا ازالہ کرنا تب
تک ممکن نہیں جب تک ان میں اللہ کی رحمت شامل نہ ہو جائے اور اللہ‘ جو
قیامت کے روزِ حساب منصف ہوگا‘ بڑا انصاف پسند ہے۔ میزان میں ایک طرف
نیکیاں اور ایک طرف گناہ اور کوتاہیاں ہوں گی۔ جس متکبر انسان کو یہ غرور
ہے کہ اس کی نیکیاں اس کے گناہوں سے بڑھ کر ہوں گی‘ اس کی تمام نیکیاں بھی
اس کے غرور کی نذر ہو جائیں گی۔ چنانچہ بخشش صرف عملوں پر ممکن ہی نہیں ۔اس
کے لیے اللہ کے رحم اور کرم کی ازحد ضرورت ہے اور انصاف کرنے والے اللہ کو
جب گناہوں کا پلڑا نیکیوں سے بھاری دکھائی دے گا تو اسے رحم اور کرم پر
آمادہ کرنے والی ذات صرف اور صرف ہمارے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہے کہ
ہم گنہگاروں کو تو اس روز زبان کھولنے کی بھی جرأت نہ ہو سکے گی جب ہم
شرمندہ و پشیمان عظیم قدرت والے اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے۔
یہی ہے ہم گنہگارانِ اُمت کا عقیدۂ شفاعت۔ اس عقیدے کی نفی میں اپنے عملوں
پر متکبر گروہ ان آیاتِ قرآنی کو پیش کرتا ہے:
ترجمہ: اور اس دن سے ڈرو جب کوئی جان کسی دوسری جان کی جگہ کوئی بدلہ نہ دے
سکے گی اور نہ اس کی طرف سے کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ اس کو
(اذنِ الٰہی کے بغیر )کوئی سفارش ہی فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ انہیں کوئی
مدد دی جائے گی۔ (البقرہ: 123)
ترجمہ: اب کسی سفارش کرنے والے کی کوئی سفارش ان کے کام نہ آئے گی۔ (سورہ
مدثر: 48)
ترجمہ: اور جن لوگوں کو یہ اللہ کے سوا (اپنا رب سمجھ کر) پکارتے ہیں تو وہ
سفارش کا بھی اختیار نہیں رکھتے۔ (زخرف: 86)
واضح ہو کہ یہ اور اِس جیسی باقی تمام آیات شرک جیسا ظلم کرنے والے ظالموں‘
کافروں اور مشرکوں کے لیے ہیں جو نہ اللہ پر ایمان لائے نہ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام پر۔ یہ لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُمت میں شامل
نہیں۔ ان کے کفر کی بنا پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خود بھی ان کی سفارش
کبھی نہ کریں گے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ بھی ان کا کوئی
مددگار نہ ہوگا ،نہ ہی ان لوگوں نے دنیا میں کبھی کسی ایسے اللہ کے نیک
بندے سے تعلق جوڑا ہوگا جسے روزِ قیامت اللہ سفارش کا اختیار دے گا۔ چنانچہ
ایسے لوگوں کے سفارشی ان ہی جیسے کافر ہوں گے جن کی سفارش یقیناًاللہ کے
ہاں مقبول نہ ہوگی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام صرف اُمت کے ان گنہگاروں کی
شفاعت فرمائیں گے جن کے دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم پر ایمان تو موجود ہوگا لیکن بشری کمزوریوں کے تحت وہ گناہوں سے بچ نہ
پائے۔ البتہ منافقین جو زبان سے تو ایمان کا اقرار کرتے ہیں لیکن دلوں میں
کفر پالتے ہیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے
فرمایا ’’آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) خواہ ان (گستاخ اور آپ کی شان میں
طعنہ زنی کرنے والے منافقوں) کے لیے بخشش طلب کریں یا ان کے لیے بخشش طلب
نہ کریں۔ اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی بخشش طلب کریں تو بھی اللہ انہیں
ہرگز نہیں بخشے گا۔(التوبہ: 80)
اس آیت سے منافقین پر اللہ تعالیٰ کا غضب کفار سے بھی کئی گنا زیادہ ہونا
ثابت ہوتا ہے۔ کفار کے لیے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام شفاعت کریں گے ہی
نہیں لیکن اُمت کے وہ لوگ جو زبان سے ایمان کا اقرار کرتے رہے لیکن دل میں
کفر پالتے رہے ان سے اللہ اس قدر ناراض ہے کہ اگر حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام اپنی رحمت اللعالمینی کی بنا پر شفاعت فرمائیں گے، تو بھی اللہ
قبول نہ فرمائے گا۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی منافقت کا اظہار
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان میں گستاخی کر کے کیا ہوگا اور اپنے
محبوب کی شان میں گستاخی اللہ کے ہاں وہ گناہ ہے جس کی معافی حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے طلب کرنے پر بھی نہ ملے گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں
کہ ہم ایمان والے ہیں لیکن ایمان کی اصل تعریف سے بھی واقف نہیں جو اللہ کے
محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان الفاظ میں بیان کی کہ ’’تم میں سے
کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں جب تک کہ میں اسے اس کے مال‘ اولاد اور
جان سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔‘‘ (صحیح مسلم۔ بخاری شریف)
یہ لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واسطے اور وسیلے کے بغیر ہی صرف اپنے
عملوں کے ذریعے ہی اللہ کو راضی کرنا چاہتے ہیں حالانکہ قرآن کی کئی آیات
سے ثابت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت کے بغیر اللہ کی اطاعت
ممکن نہیں اور اللہ نے اپنی رضا کا معیار بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم کی اطاعت ہی رکھا۔
ترجمہ: اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان سے کہہ دیجیے اگر تم اللہ سے
محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی محبت اور تمام مخلوق پر ان کی فضیلت و عظمت اور اللہ کے
ہاں ان کے اعلیٰ ترین مقاماتِ محبوبیت کو مانے بغیر ایمان کا دعویٰ محض
منافقت ہے۔ ایسے منافق جو ظاہری عملوں اور عبادتوں میں تو دیگر مسلمانوں سے
بھی بڑھ جاتے ہیں لیکن دل میں اللہ کے محبوبصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے
لیے بغض رکھتے ہیں اور اپنے عملوں کی کثرت کی بنا پر غرور کرتے ہیں کہ صرف
اپنے عملوں ا ور عبادتوں کے ذریعے اللہ کی بخشش کے حقدار بن جائیں گے،اللہ
ان پر واضح کرتا ہے کہ وہ ان سے اس قدر ناراض ہے کہ اگر حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام خود بھی ان کے لیے بخشش طلب کریں تو بھی وہ انہیں معاف نہ کرے گا۔
ان کے اپنے عملوں پر غرور کا تذکرہ اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں فرماتا ہے۔
ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
تمہاری بخشش طلب فرمائیں تو یہ (گستاخی سے) سر ہلاتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں
کہ وہ بے رخی کرتے ہیں اور تکبر کرتے ہیں۔‘‘ (المنافقون: 5)
ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور
رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ
وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیں۔‘‘ (النساء: 61)
ان دونوں آیات میں انہی لوگوں کا تذکرہ ہے‘ جو خود پر اور اپنے عملوں پر
تکبر کی بنا پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف اپنی بخشش کے لیے رجوع ہی
نہیں کرتے اور اس کا عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو
شفاعت کا حق ہی نہیں حاصل۔ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسے لوگوں کو جواب
دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
شفاعتی یو القیمۃ حق فمن لم یومن بھالم یکن من اھلھا ۔ (کنز العمال)
ترجمہ: میری شفاعت قیامت کے روز حق ہے‘ پس جو کوئی اس پر ایمان نہ لائے وہ
اس کا اہل نہ ہوگا۔
کیونکہ اگر وہ اس پر ایمان ہی نہ لائے گا تو اس کا طلبگار بھی نہ ہوگا اور
حقدار بھی نہ ہوگا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی بخشش طلب کرنے کی
اجازت اور حکم خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیا اسی طرح منافقین کے
لیے بخشش طلب کرنے سے منع بھی خودہی فرما دیا۔
ترجمہ: اور آپ کبھی بھی ان (منافقوں) میں سے جو کوئی مرجائے اس (کے جنازے)
پر نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی آپ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ (التوبہ: 84)
کیونکہ اگر آپ اس کے جنازے پر نماز پڑھیں گے تو اس نماز میں اس کی بخشش کی
دعا بھی شامل ہوگی اور اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ان منافقوں کے
حق میں دعا کو قبول نہ فرمائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعا
کو رد کرنا اللہ کو گوارا نہیں اس لیے بہتر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم ان کے لیے دعا فرمائیں ہی نہ۔ جیسے اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب کی رضا
عزیز ہے اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اللہ کی رضا عزیز ہے۔ اس
لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایسے لوگوں کے حق میں بخشش طلب ہی نہ
فرمائیں گے جن کی بخشش کے متعلق اللہ نے واضح طور پر فرما دیا کہ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعا بھی قبول نہ ہوگی۔ چنانچہ ردِ شفاعت کا سوال
ہی پیدا نہ ہوگا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شفاعت کو اذنِ الٰہی
سے کامل قبولیت حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان لوگوں میں شامل کرے جن
کے حق میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام شفاعت اور بخشش طلب کریں گے اور اللہ
ان کی شفاعت کو قبول بھی فرمائے گا۔ (آمین) |