عنبرین مغیث سروری قادری ایم۔اے
(ابلاغیات)
کیا انسان نے کبھی غور کیا ہے کہ اس کے جسم کی تمام تر تازگی اور خوبصورتی
کس کے باعث ہے۔ وہ کو نسا وجود ہے جو اگر جسم میں موجود نہ ہو تو جسم کی
حیثیت ایک بے جان شے مثلاً میز یا کرسی جیسی ہو جائے۔ وہ وجود روح ہے جو
اگر جسم سے نکل جائے تو جسم کچھ ہی عرصے میں گل سڑ جائے۔ جب انسان دنیا میں
آتا ہے تو اللہ اس کی ہر طرح سے معصوم پاک روح کو اس کے جسم کے لباس میں
چھپا کر بھیجتا ہے تاکہ وہ اس عالمِ ناسوت(عالمِ خَلق) میں محفوظ رہ سکے۔جب
روح معصوم ہوتی ہے تو بچے کا جسم کس قدر خوبصورت اور تروتازہ لگتا ہے۔ جیسے
جیسے وہ بڑا ہوتا ہے دنیا میں پائی جانے والی روحانی بیماریاں مثلاً حسد،
تکبر، لالچ، ہوس، خود پسندی، عیب جوئی، بہتان تر اشی وغیرہ اس پر حملہ کر
دیتی ہیں۔ جب تک روح میں قوتِ مدافعت رہتی ہے وہ ان بیماریوں سے لڑتی رہتی
ہے لیکن جب انسان روح پر بالکل توجہ نہیں دیتا تو روح کمزور اور پژمردہ
ہوتی جاتی ہے اور یہ بیماریاں روح پر حاوی ہوتی جاتی ہیں چنانچہ روح کی
بیمار حالت انسانی جسم سے بھی ظاہر ہونے لگتی ہے۔روح کی بیماری بھی علاج نہ
ہونے کے باعث دائمی ہو جاتی ہے تو جسم سے اس کی علامات اس طرح ظاہر ہوتی
ہیں کہ چہرے کے خدوخال عجیب دِکھنے لگتے ہیں یہ اپنی ترو تازگی اور
خوبصورتی کھونے لگتا ہے۔ پس انسان کی اصل خوبصورتی اس کی روح کی پاکیزگی
میں پوشیدہ ہے جسم کی حیثیت صرف روح کے چھلکے کی طرح ہے جیسے ہر پھل کا اصل
اس کے چھلکے میں پوشیدہ ہے۔ اگر وہ اصل تر وتازہ ہے تو چھلکا بھی ترو تازہ
ہے۔ اصل پھل گل سڑ جائے تو چھلکا بھی گل جاتا ہے لیکن انسان اتنا جا ہل ہے
کہ اس کی تمام تر توجہ صرف جسم کے چھلکے پر ہے۔ اسی کو بناتا ہے اسی کو
سنوارتا ہے ‘اس کی آسائش کی خاطر تمام عمر تگ و دو کرتا رہتا ہے اور اپنے
اصل وجود سے بالکل بے خبر رہتا ہے ۔ روح ایک زندہ وجود ہے، ہر زندہ وجودکی
طرح اس کی بھی کچھ ضروریات اور خواہشات ہیں۔ یہ بھی آپ کی توجہ کی طالب
ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے :وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ۔
ترجمہ: ’’اور میں نے اس(ا نسان) میں اپنی روح پھونکی‘‘یعنی ہماری روح اللہ
سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ انسانی جسم سے روح کے نکل جانے پر کہا جاتا ہے:
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہٖ رَاجِعُوْن ’’بے شک ہم اللہ کی طرف سے
ہیں اور اللہ کی طرف ہی ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ یہ جسم تو اسی جہان میں ماں
کے پیٹ میں بنتا ہے اور قبر کے پیٹ میں ختم ہو جاتا ہے۔ اللہ کی طرف سے تو
روح آئی اور وہی اللہ کی طرف لوٹتی ہے۔ چنانچہ روح اللہ سے ہے اور اللہ کو
ہی چاہتی ہے۔ اللہ سے ملنا چاہتی ہے، اسے دیکھنا چاہتی ہے لیکن ہمارے جسموں
میں قید ہے۔ جب تک حسد ، تکبر، بہتان، طمع، ہوس ، کینہ ، کی بیماریوں سے
پاک ہو کر صحت مند نہیں ہوجاتی اور جب تک انسان اسے اس کی غذا دے کر قوت وا
لا نہیں بناتا، یہ جسم سے آزاد ہوکر اپنے محبوب ا للہ کو نہیں مل سکتی اور
تمام عمر جسم کے پنجرے میں تڑپتی رہتی ہے۔ انسان اپنی اندرونی بے چینی کی
وجہ دنیاوی حالات کو قرار دیتا ہے حالانکہ بے قرار تو اس کی روح ہے اپنے
اللہ کے بغیر، روح کو اس کی غذا چاہیے اور اس کی غذا اس کے محبوب ا للہ کا
عشق اور ذکر ہے جیسا کہ سورہ الرعد آیت28میں ا للہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ اَ
لَابِذِکْرِاﷲِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوْبُ ’’بے شک ’’ذکرِ اللہ‘‘ سے ہی قلوب
کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔‘‘یہاں قلب سے مراد انسان کے سینے میں
رکھا گوشت کا دِل نہیں، ایسادِل تو جانوروں میں بھی موجود ہے، بلکہ یہاں
قلب سے انسان کی روح مراد ہے۔ اللہ کے مسلسل ذکر، اس کی یاد، اس کی محبت،
اطاعت اور عبادت روح کو قوت اور پاکیزگی عطا کرتی ہے۔ روح کو اپنی بیماریوں
سے نجات کے لیے ویسے ہی ایک روحانی طبیب کی ضرورت ہے جس طرح جسم کو ایک
ڈاکٹر کی ، وہ روحانی ڈاکٹروہ ولئ کامل (مرشدِ کامل) ہے جس کی رسائی روح تک
ہے۔ یہ ولئ کامل اپنی روحانی قوت سے انسانی نفس کا تزکیہ اور روح کا تصفیہ
کرکے اسے بیماریوں سے نجات دلاتا ہے۔ ذکر اللہ سے روح طاقتور ہوتی ہے اور
پھر اسی ولئ کامل کی راہنمائی میں جسم سے آزاد ہو کر ا للہ تک سفر کرتی
ہے،عالمِ لامکان تک رسائی حاصل کرتی ہے جہاں اپنے اللہ کو دیکھتی اور
ملاقات کرکے سکون پاتی ہے ،صرف تب ہی ایک مسلمان کے ایمان کی تکمیل ہوتی
ہے۔ ایمان جو دوحصوں پر مشتمل ہے ،اقرار باللسان یعنی زبان سے اقرار اور
تصدیق بالقلب یعنی قلب و روح کی تصدیق ۔ اقرار باللسان تو بہت آسان ہے۔
ہمارے والدین ہمارے ذہنوں میں بچپن سے ڈال دیتے ہیں کہ اللہ ایک ہے وہی
عبادت کے لائق ہے اور ہم اس کو دہرا کر اقرار باللسان کی منزل بآسانی پار
کر لیتے ہیں۔یہ صرف ظاہری ایمان ہے جو ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کی
وجہ سے نسبی طرف سے ہمیں نصیب ہوگیا۔حقیقی اور کامل ایمان روح کی تصدیق کے
بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ۔ جس طرح ہر عقل مند انسان محض سنی سنائی بات پر
یقین نہیں کرتا جب تک کہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ یا کانوں سے سن نہ لے اسی
طرح روح جو اللہ سے ہے، جب تک خود اللہ تک پہنچ کر اس کو دیکھ نہیں لیتی اس
کے ہونے کی تصدیق نہیں کرتی۔ اللہ کو دیکھ کر ہی وہ گواہی دیتی ہے کہ ہاں
وہ واحد ہے، بے مثل و بے مثال ہے، اتنا حسین عظیم اور قوت والا ہے کہ عبادت
کے لائق ہے اور سب کچھ دیکھنے کے بعد جان لیتی ہے کہ اس کے سوا کوئی اور اس
لائق نہیں جس کی عبادت کی جائے۔ چنانچہ غیب یعنی اللہ پر ایمان لاناروح کا
کام ہے، جب تک یہ بیمار پژمردہ حالت میں جسم میں قید ہے، نہ اللہ کو مل
سکتی ہے نہ اس کے حضور حاضر ہو کر عبادت کر سکتی ہے اور روح کے بغیر محض
جسمانی عبادتیں بیکار ہیں کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فر
مایا:’’لا صلوۃ الا بحضور القلب ،ترجمہ: حضورِ قلب (روح کی حاضری) کے بغیر
کوئی نماز نہیں۔ روح کی زندگی میں ہی ایمان کی تکمیل ہے اور دین و دنیا کی
بھلائی ہے۔ یہ روح ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے جو اس نے ہمیں وقتی طور پر
اس دنیا میں دی ہے۔ سورۃ احزاب آیت 72میں ا للہ فرماتا ہے’’اور ہم نے اپنی
امانت زمین، آسمانوں پہاڑوں پر پیش کی سب اس کے اٹھانے سے عاجز آگئے لیکن
انسان نے اسے اٹھالیا۔ بے شک وہ ظالم اور جاہل ہے۔‘‘ انسان ظالم اس لیے کہ
اس امانت کی قدرو قیمت بھی نہیں جانتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ جب اس
امانت کو لوٹانے کا وقت آئے گا اور یہ اپنی اصل معصوم پاک حالت میں اس کے
مالک اللہ کو نہ لوٹائی گئی تو اسے اللہ کے کس قدر غیض و غضب کا سامنا کرنا
پڑے گا۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے’’ اور اس روز (قیامت) نہ تمہارا مال کام
آئے گا نہ ہی اولاد بلکہ صرف وہی کامیاب ہوگا جو قلبِ سلیم لائے گا۔‘‘
قلبِ سلیم سے مراد ’’سلامت روح‘‘ہے۔ اس روح کی امانت کی سلامتی کی حفاظت ہی
اصل ایمان ہے اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا’’ جس میں امانت
(پاک زندہ روح) نہیں اس میں ایمان نہیں۔‘‘ |