انفراسڑکچر سے مراد ملک کا ظاہری
جسمانی ڈھانچہ ہے جو اسکی معیشت اور معاشرت میں اہم کردار ادا کرتا
ہے۔اسمیں روڈز، ریلویز، ٹرانسپورٹ ،پل، ڈیم ، ائیر پورٹس ، سی پورٹس،پاور
ہاؤسسزاور اسی نوعیت کے دیگر منصوبے شامل ہوتے ہیں۔ انفراسٹرکچر ملکی معیشت
اور ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ کسی ملک کا انفراسڑکچر جتنا
زیادہ developedہوتا ہے ملک اتنا ہی ترقی یافتہ تصور ہوتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز:
ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز ان کے انفراسٹرکچر میں پنہا ہے۔ ان ممالک
نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے انفراسٹرکچرکو buildاور developکیا اور اس
انفراسڑکچر کی بدولت ان کی ٓامدن میں اضافہ ہوا کیونکہ انفراسڑکچر
developmentکے تنیجہ میں بننے والے اثاثے capital assetsہوتے ہیں جن سے ملک
کو مستقل اور لمبے عرصے تک بلا واسطہ یا بل واسطہ ٓامدن حاصل ہوتی رہتی ہے
۔برطانیہ کی اگر بات کریں توپورے ملک میں روڈز اور ریلویز کا ایک جال
بچھایا گیا ہے، جس کی مرمت اور بہتری پر ہر سال لاکھوں پونڈز خرچ کیئے جاتے
ہیں اور یہ لاکھوں پونڈز اس لئے خرچ کیئے جاتے ہیں کیونکہ ان روڈز اور
ریلویز سے حکومت کو ہر سال کروڑوں پونڈز کی بلا واسطہ یا بل واسطہ ٓامدن
ہوتی ہے ۔
برطانوی حکومتی ادارے Office for National Statisticsکی 8مئی 2014کی رپورٹ
کے مطابق سن 2013میں 16.8ملین ٹورسٹس نے لندن visitکیا اور نہوں نے ٹوٹل
11256ملین پونڈز خرچ کیئے ۔ورلڈ اکنامک فورم کی ٹورسٹس اور ٹریولرز کے
حوالے سے 2015کی جاری کردہ ریٹنگ کے مطابق سپین دنیا میں نمبر ون ہے جہاں
سب سے زیادہ ٹورسٹس اور وزیٹرز ٓاتے ہیں ۔اسی طرح فرانس ، جرمنی ،امریکہ ،
ملائشیا، چین ، ٓاسڑیلیا، سنگا پوروغیرہ بھی ہر سال لاکھوں لوگ جاتے ہیں ۔
پورا یورب روڈز اور ریل کے ذریعہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے روزانہ لاکھوں ٹن
اشیا یورپی ممالک میں ایک جگہ سے دوسرے جگہ بذریعہ روڈ اور ریل جاتی ہیں
۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگ پاکستان کیوں نہیں ٓاتے (سیکیورٹی صورت حال کو
اگر کچھ لمحوں کے لئے بھول جائیں )تو وجہ یہ نظر ٓاتی ہے کہ ہمارا
انفراسٹرکچر ہی اس قابل نہیں کہ کوئی یہاں ٓائے ۔ جن ممالک کا اوپر ذکر کیا
گیا ہے وہاں پاکستان سے زیادہ خوبصورتی نہیں ہے لیکن وہاں ٓاسمان سے باتیں
کرتی بلڈنگز ، کھلی اور شاداب سڑکیں ، جدید ریلویز ، خوبصورت پارکس ، پانی
، بجلی سیوریج کا بہترین نظام ہے اور یہی سب کچھ انفراسرکچر کہلاتا ہے ۔جب
لوگ ان ممالک میں جاتے ہیں تو انہیں سہولیات سے لطف اندوز ہوتے ہیں،
اخراجات کرتے ہیں وہ پیسہ اس ملک کے سسٹم میں جاتا ہے اس سے وہاں کاروبار
بڑھتا ہے ، لوگوں کے لئے روزگار پیدا ہوتا ہے، ملک ترقی کر تا ہے ۔
میٹرو بس سروس :
میڑو بس سروس کا منصوبہ انفراسڑکچر کے زمرے میں ٓاتا ہے ۔ برطانیہ میں ایسے
دو منصوبے بنائے گئے ہیں ۔ پہلا منصوبہ کیمبرج اور دوسر ا لوٹن میں بنایا
گیا ہے۔ یہاں انہیں Guided Bus Waysکہا جاتا ہے ۔کیمبرج بس وئے دنیا کا سب
سے لمبا بس وئے ہے اور اس کی لمبائی 16میل (25 Km)ہے۔ان دونوں منصوبوں اور
پاکستان میں بنائے جانے والے میٹرو میں فرق یہ ہے کہ ان پر چلائی جانے والی
بسوں میں مخصوص guided wheelsلگے ہوئے ہیں جو بس کو automaticallyٹریک کے
مطابق چلاتے ہیں اور ڈرائیور کو سٹیرنگ گھمانا نہیں پڑتا ۔ ان دونوں بس ویز
پر روزانہ ہزاروں لوگ سفر کرتے ہیں جن کا تعلق ورکنگ کلاس سے ہے ۔ ایسے
منصوبوں سے عوام کو براہراست فائدہ ہوتا ہے ۔
میٹرو پر اعتراض :
میٹرو پر اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ ایک سڑک بنانے پر اتنا پیسہ لگا دیا
اس سے بہتر تھا کوئی سکول، کالج ، یونیورسٹی ، ہسپتال وغیرہ بناتے ۔ پہلی
بات تو یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے وہ لوگ ہیں جو انفراسڑکچر کی اہمیت سے
واقف نہیں ،دوسری بات یہ ہے کہ سکول ، کالج ، یونیورسٹی ، ہسپتال
انفراسڑکچر کے زمرے میں نہیں ٓاتے ۔یہ چیزیں ایجوکیشن اور ہیلتھ سیکٹرز میں
ٓاتی ہیں البتہ یہ سب کچھ soft infrastructureکہلا یا جا سکتا ہے، تیسری
بات یہ ہے کہ اگریہ چیزیں بھی بنائی جائیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا
وہاں تک لوگ اڑ کر جائیں گے ، کیا وہاں جانے کے لئے کسی سڑک یا ٹرانسپورٹ
کی ضرورت نہیں ہوتی؟چوتھی بات یہ ہے کہ سکول، کالج، یونیورسٹیز ، ہسپتال
وغیرہ capital assetsنہیں بلکہ liabilitiesکے زمرے میں ٓاتے ہیں اسلئے کہ
حکومت کو ہر سال ان پر خرچ کرنا پڑتا ہے جبکہ ان سے کوئی ٓامدن نہیں ہوتی۔
سرکاری سرپرستی میں چلنے والے یہ ادارے اپنے اخراجات بھی پورے نہیں کر پاتے
اور ان کو ہر سال حکومتی گرانٹ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انہیں اداروں اور بنیادی
سہولیات کی فراہمی کے لئے حکومت کو ٓامدن کی ضرورت ہوتی ہے اوریہ ٓامدن ملک
کے capital assetsسے generateہوتی ہے ۔
اعتراض کرنے والوں سے ایک سوال یہ ہے کہ پاک چین راہداری پر تویہ سب ڈنکے
بجا رہے ہیں جبکہ میٹرو پر اعتراض کر رہے ہیں ذرا بتائیں کہ میٹرو اور پاک
چین راہداری میں فرق کیا ہے ؟ جسے سب پاک چین اقتصادی راہداری کہہ رہے
دراصل وہ بھی روڈزاور ریل کا ہی ایک منصوبہ ہے جس کے بننے پران کو کوئی
اعتراض نہیں اسلئے کہ وہ چین بنا رہا ہے اور میٹرو پر اعتراض ہے کیونکہ یہ
اپنے ملک کے ایک صوبے کی حکومت بنا رہی ہے ۔ ایسا طرز عمل ملک کے ساتھ نا
انصافی اور عوام کے ساتھ زیادتی ہے ۔ان لوگوں کا اعتراض تو یہ ہونا چاہیے
تھا کہ ایسا منصوبہ ان کے علاقوں میں کیوں نہیں لگایا جا رہا؟
Built Operate and Transfer (BOT):
انفراسڑکچر کے منصوبے انتہائی لاگت کے ہوتے ہیں اور پاکستان جیسے ممالک کے
لئے ایسے منصوبوں پر ملکی وسائل میں رہ کر خرچ کرنا انتہائی مشکل ہوتاہے
اسی لئے پچھلے ساٹھ سالوں میں ہمارا انفراسڑکچر نہیں بن سکا ۔ ہر سال بجٹ
میں خسارہ ہی رہا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس صورت حال کو اسی طرح چلنے
دیا جائے کیونکہ اگر سب اسی طرح چلتا رہا تو ہم کبھی بھی اپنا انفراسڑکچر
نہیں بنا پائیں گے ۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ کم لاگت کے منصوبوں کو ملکی
وسائل سے جبکہ کثیر لاگت کے منصوبوں کے لئے ایسے انوسٹرز تلاش کیئے جائیں
جو BOTکی بنیاد پر انفراسڑکچر کے منصوبو ں پر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں
۔اس کے لئے ضروری ہے کہ سفارتی چینلز کا بھر پور استعمال کیا جائے اور دوست
ممالک کے علاوہ دیگر ملکوں سے بھی رابطے کئے جائیں اور سرمایہ کاری کا
ماحول پیدا کیا جائے تاکہ ایسے منصوبے بنائے جاسکیں اور ہمارا ملک بھی ترقی
کر سکے ۔ |