شفقت حسین کی پھانسی چوتھی بار موخر

شفقت حسین کی پھانسی چوتھی بار موخر....پاکستان کی خود مختاری پر سوالیہ نشان!

شفقت حسین کی پھانسی کا معاملہ ایک معما بن چکا ہے۔ سزائے موت کے تمام تر احکامات کے باوجود بھی آئے روز پھانسی کے مقررہ وقت سے پہلے شفقت کی پھانسی کو ملتوی کردیا جاتا ہے۔ ملکی و غیر ملکی این جی اوز، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور یورپی یونین پہلے تو پاکستان میں مجرموں کو پھانسی دینے کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے، لیکن جب ہماری حکومت نے ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے مجرموں کو سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کیا تو یورپی یونین اور ان کے پیسے پر چلنے والی این جی اوز نے شفقت حسین کی سزا کو ایک ہوا بنا کر پیش کیا اور اس کی عمر کو بنیاد بنا کر بہت شور شرابا کیا، حالانکہ یہ بات بھی ثابت ہو چکی کہ شفقت حسین نے جب بچے کو قتل کیا تھا، تو خود اس کی عمر اس وقت 23سال تھی، لیکن اس کے باوجود یورپی یونین شفقت حسین کی آڑ میں پاکستان میں مجرموں کی دی جانے والی پھانسیوں کا سلسلہ رکوانا چاہتی ہے۔ مبصرین کی جانب سے یورپی یونین کے اس رویے پر سختی سے تنقید کی گئی ہے۔ ان کے مطابق یورپی یونین کا یہ رویہ سراسر پاکستان کے معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔ پاکستان خودمختار ملک ہے، اسے اپنے قوانین بنانے اور ان پر عمل درآمد کا پورا حق حاصل ہے۔ ایک طرف یورپی یونین اپنے معاملات میں کسی کو مداخلت نہیں کرنے دیتی، جبکہ دوسرے ممالک میں مداخلت کرکے خود اپنے اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ ایک طرف امریکا نے بے گناہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86 سال کی سزا سنا کر تمام انسانی قوانین کی دھجیاں اڑائی ہیں، ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ سراسر غلط ہے اور عافیہ صدیقی بے گنا ہے، لیکن اگر کوئی اس کی سزا کے خلاف احتجاج کرتا ہے اور اس سزا کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو امریکا کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ یہ ہمارے اندرونی معاملات ہیں، جن میں کسی دوسرے کو مداخلت کا اختیار نہیں ہے، جبکہ امریکا اور دیگر یورپین ممالک دوسرے ممالک کے معاملات میں آئے روز مداخلت کرتے ہیں۔

گزشتہ روز سزائے موت کے قیدی شفقت حسین کی پھانسی چوتھی بار موخر کردی گئی۔ مجرم کو گزشتہ روز کراچی جیل میں پھانسی دی جانی تھی، جس کے لیے تمام انتظامات بھی مکمل کر لیے گئے تھے۔ حکام کے مطابق عین آخری لمحات میں جیل حکام کو اعلیٰ سطح سے احکامات ملے، جس پر شفقت حسین کی پھانسی موخر کر دی گئی، تاہم اس کی وجہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ عدالت نے شفقت حسین کو پھانسی دینے کے لیے چوتھی بار ڈیتھ وارنٹ جاری کیے تھے۔ کراچی کی سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کو خط لکھا تھا کہ شفقت حسین کی سزا پر عملدآمد روکنے کے لیے عدالتی حکم کی میعاد پوری ہو چکی ہے، لہٰذا اس کی سزائے موت کے وارنٹ جاری کیے جائیں۔ واضح رہے کہ شفقت حسین کا نام ان 17 افراد کی ابتدائی فہرست میں شامل تھا، جنہیں دسمبر 2014ءمیں وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کو سزائے موت دینے کے اعلان کے بعد پھانسی دینے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔تاہم اس کے بعد سے چار مرتبہ ڈیتھ وارنٹ جاری ہونے کے باوجود اس کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔ شفقت حسین کو 2001ءمیں کراچی میں ایک پانچ سالہ بچے کو اغوا اور پھر قتل کرنے کے جرم میں 2004ءمیں گرفتار کر کے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی مجرم شفقت حسین کو دی جانے والی موت کی سزا کو برقرار رکھا ہے، جبکہ صدر مملکت بھی اس کی رحم کی اپیل مسترد کر چکے ہیں۔

پاکستان میں آٹھ ہزار سے زاید افراد موت کی سزا کے منتظر ہیں، جن میں سے زیادہ تر کی اپیلیں مسترد کر دی گئی ہیں۔ حکومت نے جب گزشتہ سال دسمبر میں سزائے موت پر عاید پابندی ختم کیے جانے کے بعد ملک بھر کی جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی دینے کا سلسلہ شروع کیا تو انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے اس کی بھرپور مخالفت کی گئی۔ انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیموں اور یورپی یونین کی طرف سے پاکستان سے سزائے موت پر عملدرآمد کے فیصلے کو واپس لینے کے مطالبات تواتر سے سامنے آتے رہے، جس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مجرموں کو پھانسی دینے سے پاکستان انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ جس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے دفتر خارجہ کی جانب سے یہ بیان جاری کیا گیا تھا کہ سزائے موت پر سے پابندی ختم کرنا کسی بھی طور بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ ہمارے آئین اور ہمارے نظام قانون میں موت کی سزا ہے اور یہ بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں ہے، جیسا کہ ہم اپنا نظام دوسروں پر مسلط نہیں کر سکتے تو ہم توقع کرتے ہیں کہ دوسرے ملک ہمارے نظام کا احترام کریں۔

واضح رہے کہ شفقت حسین کی سزائے موت پر عملدرآمد کے لیے رواں سال 14 جنوری کی تاریخ مقرر کی گئی تھی اور اس سزا کے خلاف اس کی تمام اپیلیں مسترد ہو چکی تھیں، لیکن انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں اور یورپی یونین کے دباﺅ پر پھانسی روکنا پڑی، ان کا موقف تھا کہ جس وقت اس جرم کا ارتکاب کیا گیا تھا، اس وقت شفقت حسین کی عمر لگ بھگ 14 سال تھی۔ دوسری مرتبہ سزا پر عملدرآمد کے لیے 19 مارچ کی تاریخ مقرر کی گئی مگر انسانی حقوق کے کارکنوں کے احتجاج کے بعد پہلے اس سزا کو 72 گھنٹوں اور پھر 30 دنوں کے لیے مو ¿خر کیا گیا۔ اس دوران وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے بھی اس معاملے کا نوٹس لیا اور شفقت حسین کی عمر کے تعین کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی، جس نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ سزا کے وقت اس کی عمر 23 برس تھی۔ تیسری مرتبہ اس کے ڈیتھ وارنٹ 24 اپریل کو جاری کیے گئے، مگر اس کے وکلا نے تحقیقاتی کمیٹی کی تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں شفقت حسین کی عمر کی عدالتی تحقیقات کرانے کی درخواست دی جو مسترد کر دی گئی۔

گزشتہ روز شفقت حسین کی پھانسی کو چوتھی بار ملتوی کیا گیا ہے۔ سزائے موت کو عملدرآمد سے چند گھنٹے قبل روکے جانے نے تمام متعلقہ حلقوں بشمول ملزم کے اپنے وکیل تک کو حیرت زدہ کردیا، جو سپریم کورٹ کے سامنے اس غیر یقینی کے ساتھ پیش ہوئے کہ ان کا موکل تاحال زندہ بھی ہے یا نہیں۔ ایوان صدر کے ذرایع تک بھی چوتھی بار شفقت حسین کی سزائے موت ملتوی کیے جانے کے حوالے سے مکمل طور پر لاعلم ہیں۔ ایوان صدر کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق اس حوالے سے وزیراعظم آفس کی جانب سے کوئی سمری ارسال نہیں کی گئی اور نہ ہی صدر ممنون حسین نے اس طرح کے کسی حکم کی منظوری دی۔ آئین کے مطابق سزائے موت کے کسی بھی قیدی کی پھانسی کو ملتوی کرنے کا اختیار صرف صدر کے پاس ہے اور وہ عام طور پر اس طرح کے فیصلے وزارت داخلہ کی جانب سے بھجوائی گئی سمری اور وزیراعظم کے مشورے سے کرتے ہیں۔ صدارتی ترجمان کا کہنا تھا کہ صدر نے پھانسی کو ملتوی کرنے کے حوالے سے کسی قسم کے احکامات جاری نہیں کیے، تاہم ان کا دعویٰ تھا کہ یہ احکامات سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی جانب سے پیر کو کراچی میں یورپی یونین کے پانچ رکنی وفد سے ملاقات کے بعد جاری ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ یورپی یونین کا وفد سزا کو رکوانا چاہتا تھا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے سزائے موت کے مجرم شفقت حسین کی عمر کے تعین کے لیے کی جانے والی جوڈیشل کمیشن کی اپیل مسترد کردی ہے۔ چیف جسٹس ناصرالملک نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ شفقت حسین کا معاملہ عدالتوں سے بڑی حد تک کلیئر ہوچکا ہے اور شفقت حسین کی عمر کا تعین متعلقہ اتھارٹی ہی دوبارہ کروا سکتی ہیں، جبکہ ہم کسی ادارے کے کام میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ رحم کی اپیل منظور یا مسترد کرنا صدر کا صوابدیدی اختیار ہے اور عدالت صدر کے ان اختیارات پر بھی کچھ نہیں کرسکتی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے دباﺅ میں آکر کوئی بھی پھانسی نہیں روکنی چاہیے، جب کوئی یورپی ملک ہمیں اپنے معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں دیتا تو ہمارے معاملات میں مداخلت کیوں کی جاتی ہے؟

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 644410 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.