Ph.D…… جعلی یا جعلسازی

ایگزٹ والوں نے کمال کیا کہ دنیا بھر کے لوگوں میں بغیر کلاسیں اٹینڈ کئے ڈگریاں جاری کر دیں اور ڈگریاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ ہر روز ایف آئی اے (FIA) کے حکام اُن کے دفتر سے لاکھوں ڈگریاں نکالتے ہیں۔ پچھلے پورے ہفتے میں کھیوڑہ کی کان سے اتنا نمک نہیں نکلا جتنی ایگزٹ کے دفتر سے ڈگریاں نکلی ہیں۔ میرے ساتھ البتہ زیادتی ہوئی ہے کہ میں اُن کی ڈگری سے محروم رہا ہوں۔ وگرنہ مجھے زبردستی آج وعدہ معاف گواہ بھی بنایا جاتا اور اخبارات میں مشہوری بھی خوب ہوتی۔ بہت حسرت تھی کہ ایک عدد Ph.D کی ڈگری مل جاتی تو آج میں بھی ڈاکٹر ہوتا۔ مگر افسوس کہ میں اکثر دیر کردیتا ہوں۔ یہ بھی نہیں کہ ڈگری نہیں ملتی تھی۔ پچھلے سالوں میں Times, News Week یا کسی دوسرے غیر ملکی انگریزی میگزین کو اٹھا کر دیکھ لیں آخری صفحات میں چند اشتہارات دعوت دیتے ہیں کہ اپنا تجربہ ضائع نہ کریں۔ تجربے کی اساس پر کوئی بھی ڈگری لیں۔ آپ ایک دن اپنے بارے لکھ کر بھیجیں۔ دوسرے دن مبارکباد وصول کریں کہ ماشاء اﷲ آپ اپنے تجربے کی بنا پر ڈگری لے سکتے ہیں۔ ڈگری کے ساتھ اگر Thesis کی ضرورت ہو تو کچھ فالتو پیسے دینے ہوں گے وہ بھی مل جائے گا۔ یہ کاروبار پوری دنیا میں بہت عام ہے ۔مگر اپنا مزاج کچھ ایسا ہے کہ ہمیشہ کوشش کی ہے کہ اُس چیز سے پرہیز کیا جائے جو جعلی ہو یاجس کا تعلق جعلسازی سے ہو۔ ویسے یہ بات ابھی واضح نہیں کہ ایگزٹ کون سی ڈگریاں بانٹ رہا تھا۔ اگر Ph.D کی ڈگری تھی تو وہ جائز ہے۔ دنیا بھر میں فقط دس فیصد لوگ ایسے ہیں جنہوں نے صحیح معنوں میں ریسرچ کے بعد محنت کے بل بوتے پر P.hdکی ڈگری حاصل کی ہے۔ باقی انہی کے کام سے فیض یاب ہو تے ہیں۔ اسلئے سچی بات تو یہ ہے کہ P.hd کی ڈگری یا تو جعلی ہوتی ہے یا پھر جعلسازی سے لی ہوتی ہے۔

اپنی محنت سے Ph.D کی ڈگری حاصل کرنے والے لوگ عام طور پر دفاع سے متعلق صنعتوں اور منصوبوں میں کام کرتے ہیں یا پھر صفِ اوّل کی یونیورسٹیوں میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔باقی بس اﷲ ہی اﷲ۔ کالجوں میں کام کرنے والے Ph.D حضرات میں سے پانچ فیصد سے بھی کم ایسے ہیں جنہیں اپنے مضمون کی سمجھ بوجھ ہے اور جو پڑھا سکتے ہیں۔ بقیہ تمام نے واقعی یا تو جعلی ڈگری لی ہے یا پھر جعلسازی سے لی ہے۔ کسی کو پڑھانے کا کہہ دیں وہ پریشانی کا شکار ہو جائے گا۔ اُس سے گفتگو کرنے کے بعد فوری اندازہ ہوتا ہے کہ یہ Ph.D فقط گریڈ حاصل کرنے کا ڈرامہ ہے۔ یونیورسٹیوں میں یہ تعداد پچیس (25) سے تیس) (30 فیصد تک ہوگی۔ باقی سب گریڈوں اور مراعات کی دوڑ کے سوا کچھ نہیں۔ہماری یونیورسٹیوں میں کوئی ریسرچ نہیں ہوتی فقط سیاست ہوتی ہے۔ یہاں لوگوں کو ریسرچ کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں۔ پرانے حکیموں اور سنیاسیوں کے عرق اور مرکبات کو نئے انداز میں پیک کرکے ریسرچ کا شور مچا دینا قوم کے ساتھ دھوکہ دئی کے سوا کچھ بھی نہیں۔صحیح کام کے لئے وسائل ہی نہیں کام کیسے ہو سکتا ہے۔ P.hd مافیہ کے سر پرست ، جو کبھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیرتھے ، نے ایک دفعہ اعلان کیا کہ پاکستان مائیکروٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہو چکا ہے 2005 میں ہم یہ ٹیکنالوجی ایکسپورٹ کر رہے ہوں گے۔ دس سال مزید گزرگئے پاکستان میں ایک چپ بھی تیار نہیں ہوئی۔ کہاں گئی وہ ٹیکنالوجی۔ آ ج کل وہ نانو ٹیکنالوجی کی باتیں کر رہے ہیں مگر کچھ زمینی حقائق بھی بتائیں۔ زبانی جمع خرچ سے قوم کب تک بہلے گی۔

پتہ نہیں پاکستان بھر میں یہ تصور کیوں بہت عام ہے کہ Ph.D حضرات بہت پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ Ph.D حضرات کا دائرہ کار تو بہت محدود ہوتا ہے۔ اُن کی علمیت ایک خاص چیز سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں ہوتی۔ میرے خیال میں پڑھے لکھے ہونے کے لئے ایم اے اور ایم ایس سی کی ڈگری بہت کافی ہوتی ہے۔ جس طرح کان کا ڈاکٹر کان، دانت کا ڈاکٹر دانت اور آنکھوں کا ڈاکٹر آنکھ تک محدود ہوتا ہے اور عام بیماریوں کے حوالے سے جنرل فزیشن ہی علاج کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ اُسی طرح عام مضامین کو پڑھانے کے لئے ایم اے اور ایم ایس سی حضرات بہترین استاد ثابت ہوتے ہیں۔ Thesis کا مطلب ہے دعویٰ۔ ایک شخص علامہ اقبال کے ایک شعر کے بارے دعویٰ کرتا ہے کہ یہ شعر فلاں حالات میں لکھا گیا اور ا سکا مفہوم یہ ہے یا ایک شخص سائنس کی کسی ایک Definition یا کسی ایک مخصوص تجربے کے بارے بات کرتے ہوئے اپنے نقطہ نظر سے اُسے رد کرتا ہے یا بہتر کرتا ہے۔ اُس کے دعویٰ کو چند حضرات بطور جج صحیح قرار دے دیتے ہیں مانتے ہیں کہ وہ ایک نئی بات کر رہا ہے جو جائز ہے تو اس شخص کو Ph.D کی ڈگری دے دی جاتی ہے۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ایک شعر کی بہتر تشریح کرنے یا کسی تجربے کے بارے مخصوص رائے دینے سے Ph.D کی ڈگری حاصل کرنے والے کی علمیت کیسے زیادہ ہو گئی۔

۱۹۸۹ء میں کالج اساتذہ نے بہت تگ و دو کے بعد چار درجاتی فارمولہ حاصل کیا۔ میں اُس وقت پنجاب لیکچررز ایسوسی ایشن کا صدر تھا۔ میرے جواں ہمت ساتھیوں نے میرے سمیت اُس وقت کے سیکرٹری تعلیم جناب طارق سلطان سے مذاکرات کئے اور یہ طے ہوا تھا کہ جو لوگ ریسرچ کر رہے ہیں اُن کی حوصلہ افزائی اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریسرچ کی طرف راغب کرنے کے لئے Ph.D حضرات کو خصوصی رعایت دی جائے۔ گو پروموشن کے مواقع دونوں کے لئے یکساں ہوں گے۔ مگر کسی گریڈ میں Non-Ph.D کواگر بارہ سال بعد پروموشن ملے گی تو Ph.D اس پروموشن کو دس سال میں پا لے گا۔ اسی اُصول کو بعد میں سکول اساتذہ اور یونیورسٹی اساتذہ نے بھی اپنایا۔ مگر چند سالوں میں Ph.D مافیہ اس قدر طاقتور ہو گیا کہ تمام اصول بھلا دئے گئے اور تجربے کو نظر انداز کرتے ہوئے ہر جگہ نابالغ Ph.D حضرات کو تعینات کر دیا گیا۔ آج یونیورسٹیاں تباہی سے دو چار ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پڑھانے والے استاد نہیں Ph.Dنابالغ کلرک حضرات ہر طرف چھائے ہیں۔ بہت عرصے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ہوا کا ایک خوشبو بھرا جھونکا آیا ہے کہ یونیورسٹی والوں نے ایک Ph.D نابالغ کے مقابلے میں تجربے کو فوقیت دے کر Non-Ph.D استاد کو تعینات کیا ہے۔ یقینا یہ فیصلہ قابل تحسین ہے اور فیصلہ کرنے والے مبارکباد کے مستحق ہیں۔میرا ہمیشہ موقف یہی ہے اور پھر کہہ رہا ہوں کہ Ph.D کی ڈگری زیادہ تر لوگوں کے پاس یا تو جعلی ہے یا پھر جعلسازی سے لی گئی ہے۔ اگر یوں نہ ہوتا تو وائس چانسلر حضرات کے انٹرویو لیتے وقت جان بوجھ کر مقامی Ph.D حضرات کو کیوں نظر انداز کیا جاتا؟ ویسے چند باتیں اس حوالے سے آپ بھی سن لیں۔

لاہور کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں پڑھانے والے بہت معروف استاد، جو فوت ہو چکے ہیں ،نے Ph.D کی اساس پر بہت سے فائدے لئے اور اپنی ڈاکٹریٹ کی دھوم مچائے رکھی مگر سب کو پتہ ہے کہ انہوں نے Ph.D کی ڈگری امریکہ کی (Century University) سنچری یونیورسٹی سے خریدی تھی جو یونیورسٹی فقط ایک چھوٹے سے کمرے پر مشتمل ہے اور اس کا کوئی باقاعدہ کیمپس موجود نہیں۔ امریکہ اور یورپ میں ایسی بہت سی یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں۔اور ہمارے بہت سے لوگ ان یونیورسٹیوں سے فیض یاب ہو چکے ہیں۔

سیکرٹری ایجوکیشن کی زیر صدارت محکمہ تعلیم کا ایک اجلاس ہو رہا تھا۔ کالج اساتذہ کی نمائندگی کرنے میں بھی موجود تھا۔ Ph.D کے حوالے سے بات ہوئی تو میں نے گلہ کیا یہ سب جعلسازی ہو رہی ہے۔ سائنس کے مضامین کا کوئی پرانا مقالہ پچاس ہزار اور ایجوکیشن، اردو، فارسی، پنجابی جیسے مضامین کا کوئی پرانا یا غیر ملکی مقالہ پچیس ہزار میں لے کر لوگ اُسے دوبارہ لکھتے اور Ph.D ہو جاتے ہیں۔ یونیورسٹی کے ایک محترم مرحوم استاد جو میٹنگ میں موجود تھے میں نے اُن کی شکایت کی کہ انہوں نے ایک عدد ہیچری لگائی ہوئی ہے اور (۱۸۰) ایک سو اسّی حضرات کو Ph.D کرا رہے ہیں جو کسی اعتبار سے باعثِ افتخار نہیں بلکہ شرمساری کا سبب ہے۔ پروفیسر صاحب ناراض ہو گئے کہ میں ہمیشہ جھوٹ بولتا ہوں۔ یہ ٹھیک ہے کہ پچھلے دو تین سالوں میں ۱۸۰ لوگوں نے (Enrollment) کرائی ہے مگر بہت سے چھوڑ چھاڑ گئے۔ سیکرٹری تعلیم نے پوچھا اب باقی کتنے ہیں؟ تو تھوڑا سوچ کر انتہائی سنجیدگی سے بولے بمشکل ۱۲۰ یا ۱۲۵ ہوں گے۔ ساری محفل ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئی۔

سائنس کے مضمون کا کچھ مقالے بہت ہر دلعزیز تھے۔ ایک مقالے پر دس بارہ لوگوں نے موضوع اور الفاظ بدل بدل کر Ph.D کی۔ انہی میں سے ایک صاحب کا انٹرویو تھا۔ انٹرویو سے قبل پریشانی کے عالم میں دائیں بائیں چکر کاٹ رہے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ پریشان کیو ں ہیں؟ بولے آج غلطی کی ہے کہ مقالہ پڑھ کر نہیں آیا۔ اُس میں سے اگر ماہر مضمون نے سوالات پوچھے تو مشکل ہوگی۔ ایک شخص بولا کہ اگر آپ نے خود لکھا ہے تو زبانی یاد ہونا چاہئے۔ غصے سے بولے لکھا خود ہی ہے مگر کئی سال ہو گئے ہیں، کئی چیزیں بھول گیا ہوں اور یہ کوئی ایسی بات نہیں۔ تم فضول باتیں مت بناؤ۔ اسی دوران ایک دوسرے سینئر Ph.D حضرت سامنے آتے دکھائی دئیے۔ پوچھا آپ کدھر؟ کہنے لگے انٹرویو لینے آیا ہوں۔ آج کا ماہر مضمون ہوں۔ پریشان چہرے پر رونق آگئی۔ کسی نے پوچھا کہ یکایک اس پریشان چہرے پر رونق، کیا ہوا؟ ایک دوسرے نے جواب دیا۔ ماہر مضمون اور پریشان صاحب کا ایک ہی مقالہ ہے۔ دونوں کو ہی نہیں معلوم کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ اب دن اچھا گزرے گا۔

میرے دو Ph.D دوست ایک عرصے سے ایک دوسرے سے ناراض ہیں۔ ابتدائی کلاسوں میں دونوں کلا س فیلو تھے بہت دوستی تھی۔ ایک نے پہلے Ph.D کر لی۔ دوسر نے Ph.D کا مقالہ جمع کرایا تو پہلے کا نام ریفری کے طور پر دے دیا اور اُسے کہا کہ سب اچھا لکھ دینا ہے۔ دوسرے نے انکار کر دیا کہ یہ میرا مضمون ہی نہیں۔ میں کیسے لکھ دوں۔لوگوں کو پتہ چلا تو باتیں بنائیں گے۔ اس بات پر دونوں کا خاصا جھگڑا ہوا مگر پہلا اپنے مؤقف پر قائم رہا۔یقینارب العزت کارساز ہے دوسرے کا کام رکا نہیں۔ کام ویسے بھی نہیں رُکتے وہ بھی ماشاء اﷲ پچھلے کئی سال سے ڈاکٹر ہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500365 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More