رمضان المبارک ۔صبرکا مہینہ

مخبرصادق صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خبردی ہے کہ رمضان المبارک رحمت،مغفرت اورجہنم سے خلاصی کامہینا ہے۔گویااس ماہ کے جواہل ایمان کے لیے موسم بہارکی حیثیت رکھتاہے،تین حصے ہیں۔پہلے دس دن رحمت کے ،کہ روزوں اورتراویح کی بہ دولت اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوتی ہے ،گویادل کی کھیتی پررحمت کی پھوارپڑتی ہے ،جواس کوروئیدگی کے قابل بناتی ہے ،گناہوں کے جھاڑجھنکاڑکودھوڈالتی ہے اورنیکیوں کے برگ وبارلانے کے قابل بناتی ہے ،جس کے نتیجے میں جہنم کے قیدیوں کی آزادی کے پروانے جاری ہوتے ہیں اورروزانہ کی بنیادپرگویامغفرت کے پرمٹ بانٹے جاتے ہیں،اورآخری دس دنوں میں جہنم سے خلاصی کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس مبارک مہینے کی برکتیں اورسعادتیں لامتناہی ہیں۔اللہ تعالیٰ کی رحمت قدم قدم پر بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ساراسال گناہوں اورخالق کی بغاوتوں میں لتھڑے مسلمانوں کے لیے رب کریم اپنی رضاورضوان کے دروازے کھول دیتے ہیں۔سعادت منداورخوش نصیب لوگ ان مبارک گھڑیوں کوقدرت کا انعام واکرام سمجھ کر قیمتی بناتے،اپنے روٹھے ہوئے رب کومناتے ،گزشتہ زندگی کی غفلتوں کی تلافی اورآئندہ کے لیے ایمانی زندگی گزارنے کالائحہ عمل طے کرتے ہیں۔وہ ان بابرکت ساعات کوکمائی کی ذریعہ سمجھتے ہیں ،گویاان کواللہ تعالیٰ کی طرف سے دستخط شدہ تیس بلینک چیک ملے ہیں کہ جتناچاہوان میں ثواب لکھوالو۔اہل ایمان دنیاوی کاموں کی طرح اس ماہ مقدس کی پلاننگ بھی پہلے ہی شروع کردیتے ہیں ،کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس ماہ کے لیے جنت کی تزئین کاسلسلہ ایک رمضان کے اختتام کے بعدسے ہی شروع ہوجاتاہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک ماہ قبل سے اپنے جاں نثاروحب دارصحابہ کرا م رضی اللہ عنہم کواس مہینے کی عظمتوں سے باخبرفرماکراس کی تیاری کے لیے ترغیب دیاکرتے تھے۔
اس برکت وعظمت والے مہینے کو کیسے زیادہ سے زیادہ قیمتی، موثر اورمفید بنایا جاسکتاہے؟اس ماہ فرقان کی پرکیف ساعتوں کو کس طورپر قرآنی انوارات وبرکات سے فیض یاب کیا جاسکتاہے؟کیسے ہماری زندگی کے بقیہ گیارہ ماہ ایمانی سانچے میں ڈھل سکتے ہیں؟ان سوالات کے جوابات پانے کے لیے ضروری اورلازمی ہے کہ ہم رمضان کریم کو ان قواعد اوراصول کے مطابق گزاریں ،جن کاذکر ہمیں جا بجا کتاب وسنت میں ملتاہے۔غورکیا جائے تو یہ بات نکھرکرسامنے آتی ہے کہ روزے کامقصد فقط یہ نہیں کہ انسان ایک خاص وقت میں اپنے کھانے پینے اوربشری تقاضوں سے کنارہ کش ہوجائے ،بلکہ اصل مقصود و منتہی یہ ہے کہ انسانی قلب کا تزکیہ ہو،آدمی کاباطن معصیتوں کی آلودگی سے پاک صاف اوراس کے دل میں ایمان وتقوی کانورداخل ہو۔

چناں چہ تقوی،خشیت الہی اورپرہیزگاری کے حصول میں جہاں اوربہت سے امورمعاون بنتے ہیں،وہاں صبرکی اہمیت وحیثیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ایک حدیث مبارکہ میں سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کو صبرکامہینا اورصبرکابدلہ جنت بتلایاہے۔

اسی طرح دوسری حدیث مبارکہ میں آپ علیہ الصلو والسلام نے یوں ارشادفرمایا:روزہ ڈھال ہے(گناہوں اورجہنم سے بچاو کے لیے)پس روزہ دار کو اس دوران نہ توفحش کلامی کرنی چاہیے اورنہ ہی جہالت ونادانی پر مشتمل گفتگو۔اگرکوئی دوسرافرد اس سے جھگڑے یا دشنام طرازی کرے تو اس کو دومرتبہ یہ کہہ دینا چاہیے کہ میں روزہ دارہوں۔

قرآن حکیم ہمیں مختلف انداز اورپیرایوں میں اللہ رب العزت کے ہاں صابرین کا مقام ومرتبہ اوران کو ملنے والے اجروثواب کے بارے میں آگاہ کرتاہے۔صبرکیاہے؟اس کا عملی زندگی میں کہاں کہاں اورکس کس موقع پر اطلا ق ہوتاہے؟بندہ مومن کے لیے اس ایمانی صفت سے متصف ہوناکیوں ناگزیرہے؟
حضرات علمائے کرام صبرکی تین قسمیں بتلاتے ہیں۔اول یہ کہ انسان نیکی اوربھلائی کے کاموں پر مستقیم رہے۔جس نوعیت کا بھی کارخیر شروع کررکھاہے ،اس کو پوری مستقل مزاجی ،محنت اورلگن سے سرانجام دیتارہے۔

دوسری قسم صبرکی یہ ہے کہ گناہوں ،معصیتوں اورباری تعالی کی سرکشیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد کرے۔یہ کوشش وکاوش بھی صبرکے مفہوم میں داخل وشامل ہے۔

صبرکاتیسرا اورآخری درجہ یہ ہے کہ بندہ اپنے اوپر آنے والے ناگہانی مصائب ،بلیات اورحادثات پر برداشت ،ضبط نفس اورحوصلہ کا مظاہرہ کرے۔کسی بھی بیماری ،دکھ،صدمے اورمشقت پر بے صبری کا اظہارنہ ہو۔بلکہ ایسے جاں گسل لمحات اورسانحات میں دل اورزبان پر قابورکھے۔کوئی بھی ایساکلمہ جو تقدیر کے شکوے پر مبنی ہو،اس سے قلب ولسان کی حفاظت کرے۔

حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمدطیب قاسمی فرماتے ہیں کہ صبر کا تعلق ہاتھ پیر سے نہیں بلکہ قلب سے ہے اور قلب کا وظیفہ یہ ہے کہ صبر کرے اورصبر کے معنی یہ ہیں کہ بندہ رضا کا اظہار کردے کہ جو کچھ من جانب اللہ ہو ا وہ ٹھیک ہوا،باقی یہ حکم بھی ہے کہ جدوجہد کرو اورکوشش بھی کرو،ہاتھ پیر سے سعی بھی کرو، یہ صبر کے منافی نہیں ،سعی کا حاصل یہ ہے کہ اس چیز کو پانے کے لئے جدوجہد کرو جو گم ہے،لیکن جو کچھ نتیجہ نکلے اس پر راضی رہے،اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی رہنا بھی صبر ہے، اس میں چون و چرا بالکل نہ کریں۔

شیخ الاسلام جسٹس (ر)مولانا مفتی محمد تقی عثمانی آسان ترجمہ قرآن میں رقم طراز ہیں:صبرکامطلب یہ نہیں کہ انسان کسی تکلیف یا صدمے پر روئے نہیں ۔صدمے کی کسی بات پررنج کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے۔اس لیے شریعت نے اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔جورونا بے اختیارآجائے وہ بھی بے صبری میں داخل نہیں۔البتہ صبر کامطلب یہ ہے کہ صدمے کے باوجود اللہ تعالی سے کوئی شکوہ نہ ہو۔بلکہ اللہ تعالی کے فیصلے پر انسان عقلی طورپر راضی رہے۔

حقیقت یہ ہے کہ رمضان کا مہینا ہمیںصبرکے حصول کی عملی مشق کا بھرپورموقع فراہم کرتاہے۔اس ماہ مبارک میں ہر فرد بشر زیادہ سے زیادہ افعال خیر کرنے کی جستجو میں لگا ہوتاہے۔ عبادات وتلاوت، ذکروتسبیحات ،کثرت نوافل سمیت صدقات وخیرات کا ذوق وشوق پورے جوبن پرہوتاہے۔ساتھ ساتھ ہرروزے داراپنے نفس کو ظاہری وباطنی نافرمانیوں سے آلودہ کرنے سے بچانے کی سعی والتزام کرتاہے۔دن بھر کی بھوک پیاس،لوگوں کے نامناسب رویوں اورناشائستہ طرز کلام کو برداشت کرکے ہمارے اندر ایثار،ہم دردی،غم خواری اوردوسرے کی فکر جیسے روحانی اوصاف نشوونماپاتے ہیں۔

آج جب ہم اپنے گردوپیش پر سرسری نظر ڈالتے ہیں تو ہرمتنفس نفسانفسی،آپادھاپی اوراپنااپنی کااسیروقیدی دکھائی دیتاہے۔جگہ جگہ جلد بازی، عجلت اورتیزی کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ہمارے اجتماعی وانفرادی مزاجوں میں دوسروں کو برداشت کرنے کاحوصلہ،غیروں کی فکر کرنا اورصبروقربانی جیسے اعلی اسلامی اخلاق کی نایابی نظرآتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ بابرکت اورایمان افروز ساعتوں کواس نیت اورعزم کے ساتھ گزاراجائے ،کہ ہمارے اندر بردباری،قناعت،نرم دلی،ضبط اورتحمل جیسی بلنداورایمانی عادات جگہ پاسکیں۔کیوں کہ ایمان کے دوحصے بتلائے گئے ہیں، آدھا شکر اورآدھاصبر۔اللہ تعالی ہمیں صبرکاخوگربنائیں اوراپنے صابرین وشاکرین بندوں میں ہماراشمارفرمائیں ۔آمین!

روزے کا مقصد قرآن مجید نے سور بقرہ میں یہ بیان کیا ہے کہ لوگ خدا سے ڈرنے والے بن جائیں۔ اس کے لیے اصل میں لعلکم تتقونکے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی تمھارے اندر تقوی پیدا ہوجائے۔ قرآن کی اصطلاح میں تقوی کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے شب وروزکو اللہ تعالی کے مقرر کردہ حدود کے اندر رکھ کر زندگی بسر کرے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات سے ڈرتا رہے کہ اس نے اگر کبھی ان حدود کو توڑا تو اس کی پاداش سے اللہ کے سوا کوئی اس کو بچانے والا نہیں ہو سکتا۔

روزے سے یہ تقوی کس طرح پید اہوتا ہے ؟ اس کو سمجھنے کے لیے تین باتیں پیش نظر رہنی چاہییں:
پہلی یہ کہ روزہ اس احساس کو آدمی کے ذہن میں پور ی قوت کے ساتھ بیدار کردیتا ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے۔ نفس کے چند بنیادی مطالبات پر حرمت کا قفل لگتے ہی یہ احساس بندگی پیدا ہونا شروع ہوتااور پھر بتدریج بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ روزہ کھولنے کے وقت تک یہ اس کے پورے وجود کا احاطہ کرلیتا ہے۔ فجر سے مغرب تک کھانے کا ایک نوالہ اور پانی کا ایک قطرہ بھی روزے دار کے حلق سے نہیں گزرتا اوروہ ان چیزوں کے لیے نفس کے ہرمطالبے کو محض اپنے پروردگار کے حکم کی تعمیل میں پورا کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ روزے کا یہ عمل جب بار بار دہرایا جاتا ہے تو یہ حقیقت روزے دار کے نہاں خان وجود میں اتر جاتی، بلکہ اس کی جبلت میں پیوست ہوجاتی ہے کہ وہ ایک پروردگار کا بندہ ہے اور اس کے لیے زیبا یہی ہے کہ زندگی کے باقی معاملات میں بھی تسلیم واعتراف کے ساتھ وہ اپنے مالک کی فرماں روائی کے سامنے سپر ڈال دے اور خیال وعمل، دونوں میں اپنی آزادی اور خودمختاری کے ادعاسے دست بردار ہوجائے۔ اس سے، ظاہر ہے کہ خدا پرآدمی کا ایمان ہر لحاظ سے زندہ ایمان بن جاتا ہے، جس کے بعد وہ محض ایک خدا کو نہیں، بلکہ ایک ایسی سمیع وبصیر، علیم وحکیم اور قائم بالقسط ہستی کو مانتا ہے جو اس کے تمام کھلے اورچھپے سے واقف ہے اورجس کی اطاعت سے وہ کسی حال میں انحراف نہیں کرسکتا۔ تقوی پیدا کرنے کے لیے سب سے مقدم چیز یہی ہے۔

دوسری یہ کہ روزہ اس احساس کوبھی دل کے اعماق اور روح کی گہرائیوں میں اتار دیتا ہے کہ آدمی کو ایک دن اپنے پروردگار کے حضور میں جواب دہی کے لیے پیش ہونا ہے۔ ماننے کو تو یہ بات ہر مسلمان مانتا ہے، لیکن روزے میں جب پیاس تنگ کرتی، بھوک ستاتی اورجنسی جذبات پوری قوت کے ساتھ اپنی تسکین کا تقاضا کرتے ہیں تو ہرشخص جانتا ہے کہ تنہا یہی احساس جواب دہی ہے جو آدمی کو بطن وفرج کے ان مطالبات کو پورا کرنے سے روک دیتا ہے۔ رمضان کا پور ا مہینا ہر روزگھنٹوں وہ نفس کے ان بنیادی تقاضوں پرمحض اس لیے پہرا لگائے رکھتا ہے کہ اسے ایک دن اپنے مالک کو منہ دکھانا ہے۔ یہاں تک کہ سخت گرمی کی حالت میں حلق پیاس سے چٹختا ہے، برفاب سامنے ہوتا ہے، وہ چاہے تو آسانی سے پی سکتا ہے، مگر نہیں پیتا؛ بھوک کے مارے جان نکل رہی ہوتی ہے، کھانا موجود ہوتا ہے، مگر نہیں کھاتا؛ میاں بیوی جوان ہیں، تنہائی میسر ہے، چاہیں تواپنی خواہش پوری کرسکتے ہیں، مگر نہیں کرتے۔ یہ ریاضت کوئی معمولی ریاضت نہیں ہے۔ اللہ تعالی کے حضور میں جواب دہی کا احساس اس سے دل و دماغ میں پوری طرح راسخ ہوجاتا ہے۔ تقوی پیدا کرنے کے لیے ، اگر غور کیجیے تو دوسری موثر ترین چیزیہی ہے۔

تیسری یہ کہ تقوی کے لیے صبر ضروری ہے، اورروزہ انسان کو صبر کی تربیت دیتا ہے۔ بلکہ صبر کی تربیت کے لیے اس سے زیادہ آسان اور اس سے زیادہ موثر کوئی دوسرا طریقہ شاید نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں ہم جس امتحان سے دوچار ہیں، اس کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ ایک طرف ہمارے حیوانی وجود کی منہ زور خواہشیں ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالی کا یہ مطالبہ ہے کہ ہم اس کے حدود میں رہ کر زندگی بسر کریں؟یہ چیز قدم قدم پر صبر کا تقاضا کرتی ہے۔ سچائی، دیانت، تحمل، بردباری ، عہد کی پابندی، عدل و انصاف، عفوودرگزر، منکرات سے گریز، فواحش سے اجتناب اورحق پر استقامت کے اوصاف نہ ہوں تو تقوی کے کوئی معنی نہیں ہیں، اورصبر کے بغیر یہ اوصاف، ظاہر ہے کہ آدمی میں کسی طرح پیدا نہیں ہوسکتے۔
خلاصہ کلام یہ کہ روزہ ہمیں صبرسکھاتاہے اورصبرکامرکزی مفہوم اورنکتہ رک جاناہے اورروزہ بھی رک جانے کوکہتے ہیں۔کھانے پینے سے رک جانا،بیوی کی قربت سے رک جانا،جسم کے تمام اعضاء وجوارح کے غلط استعمال سے رک جانا،نفس کے خلاف پیش آنے والے کسی بھی معاملے میں ردعمل کااظہارکرنے سے رک جانا،اسی تناظرمیں اللہ کے حبیب پاک حضرت محمدمصطفی احمدمجتبیٰ سرورقلب وسینہ سرورکائنات شاہ مکہ ومدینہ خاتم النبیین سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ والتسلیم کے اس فرمان عالی شان کوسمجھاجاسکتاہے،کہ یہ صبرکامہیناہے اورصبرکابدلہ جنت ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کواس ماہ مقدس میں صبرکرنے اوراس کے بدلے میں جنت الفردوس کی دائمی وابدی نعمتوں کامستحق بنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
 
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 307883 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More