عظیم الشان محفلِ نعت

دنیا میں جو کوئی کسی سے محبت کرتا ہے اس کا ذکر کثرت سے کرتا ہے اس کی ادائیں اپنانے کی کوشش کرتا ہے، نبی کریم ﷺ سے محبت کا ہی اثر ہے کہ زندگی کے ہر موقع پر (خوشی کا ہو یا غمی کا) محفل نعت کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی مدح سرائی کی جاتی ہے اور ایمان کو جلا بخشی جاتی ہے اور ماہ ربیع الاول آجائے تو اس میں اضافہ ہوجاتا ہے سارا سال محافل جاری رہتی ہیں لیکن ماہِ ربیع الاول کے آجانے پر ہر گھر، ہر گلی، ہر محلہ اور ہر بستی میں عشاقانِ مصطفیﷺ محفل میلاد النبی ﷺ کا انعقاد کرتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ربیع الاول کے اختتام پر ایک علاقہ کی عظیم الشان محفل نعت میں جانے کا موقع ملا۔ لوگوں تک اس محفل کے انعقاد کی خبر پہنچانے کے لیے ہر جائز طریقہ اختیار کیا گیا۔ اس محفل کے انعقاد سے پہلے ہی لاکھوں روپے خرچ کر دیے گئے تاکہ محفل کی کامیابی میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بنے۔ ملک بھر سے عظیم نعت خوان حضرات ،علماء ومشائخ کی ایک بڑی جماعت سمیت علاقے کی سیاسی وسماجی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ نعت خوان حضرات ،علماء ومشائخ اور سیاسی شخصیات کے لیے بہترین اسٹیج کو سجایا گیا ۔ V.I.Pافراد کے لیے V.I.Pحصہ مختص کیا گیا اور عوام الناس کے لیے ایک خوبصورت پنڈال سجایا گیا۔

میرے ایک مہربان نے مجھے اسٹیج پر جانے کے لیے ایک اسٹیج پاس دیا کہ آپ بھی ہمارے اسٹیج پر علماء کی صف میں بیٹھ جائیں۔ خلوص کو نہ ٹھکراتے ہوے اس محفل کے اسٹیج پر جانے کا شرف حاصل ہوا جس کے بارے میں میرا ذہن کہتا تھا کہ اسٹیج کا پاس ہونے کی وجہ سے مجھے روکا نہیں جائیگا بلکہ پاس دیکھتے ہی اسٹیج پر جانے کی اجازت مل جائے گی ۔ لیکن وہاں تو صورتحال قدرے مختلف تھی۔ منتظمین میں سے ایک ذمہ دار نے مجھے اسٹیج کی جانب آتے دیکھا تو میری طرف دوڑ کے آیا اور سخت لہجہ میں فرمانے لگا ’’مولوی صاحب تسی کیدھر اسٹیج تے آرے او چلو سامنے پنڈال وچ‘‘ اُن کے اس لہجہ سے پہلے تو میں گھبرا گیا پھر عرض کیا جناب میرے پاس اسٹیج کا پاس ہے جناب نے پاس دیکھا تو پوچھا کہ تمہیں یہ پاس کس نے دیا میں نے اپنے مہربان کا ذکر کیا توجناب نے میرے منہ کو بغور دیکھ کر اسٹیج پر جانے کی اجازت اس شرط پر دی کہ مولوی صاحب آپ پیچھے ہو کر بیٹھ جائیں۔ حکم کی تکمیل کرتے ہوئے اس سائیڈ پر بیٹھ گئے وقت کی پابندی کو ملحوظ خاطر نہ رکھتے ہوئے مقررہ وقت سے صرف 2گھنٹے تاخیر سے محفل نعت کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام الہٰی سے کیا گیا اورتاخیر کی وجہ نعت خوان حضرات کا لیٹ ہونا بتایا گیا جب کہ علماء کی کثیر تعداد اسٹیج کی ذینت بن چکی تھی اور سامعین سے پنڈال بھر چکا تھا۔

خیرکچھ وقت گزرا تو نعت خواں حضرات ٹولیوں میں تشریف لانے لگے جن کو اﷲ تعالیٰ نے ظاہری حسن وجمال کی بے پناہ دولت سے نوازا تھا اور اس حسن کو چار چاند لگانے میں بیوٹیشن کی مہارت بھی صاف نظر آرہی تھی۔جس وجہ سے انتظامیہ کے وہ افراد جو پہلے اسٹیج پر نظر نہیں آرہے تھے وہ ان بے ریش نعت خوان حضرات کے ساتھ اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے۔ نعت خوان حضرات چونکہ نبی کریم ﷺ کی مدح سرائی کے لیے تشریف لائے تھے اس لیے خوبصورت بن کے آنا ضروری تو تھا آخر کسی بادشاہ کا قصیدہ تو نہیں پڑھنا تھا بادشاہوں کو جس در سے بادشاہی ملتی ہے اس عظیم شہنشاہ کی نعت پڑھنی تھی اس لیے وہ بہت بن ٹھن کر آئے اور شاید اس لیے بھی کہ سامعین کی توجہ حاصل کی جائے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جہاں اﷲ تعالیٰ نے انہیں حسن کی دولت بخشی وہاں وہ آواز کی دولت سے بھی مالا مال تھے۔ اک نعت خوان بھائی ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے چھوٹے بال ہونے کی وجہ سے مصنوعی لمبے بال بھی لگوائیں وجہ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ لمبے بال اچھے لگتے ہیں لیکن گھر والے اس بات کی اجازت نہیں دیتے ۔

خیر پوری رات نعت خوان حضرات، نبی دوعالم ﷺ کی نعت خوشی آوازی میں پیش کرتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ وارثان منبر و محراب کو نمائش اور حجت کے طور پر پوری رات اسٹیج کی زینت بنایا گیا۔ اختتامِ محفل پر سامعین کو بذریعہ قرعہ اندازی انعامات سے بھی نوازا گیا۔

پوری رات محفل جاری رہی بڑے پرمسرت اور روحانی لمحات گزارے انتظامیہ نے اس کو سجانے میں کسی قسم کی کمی نہ چھوڑی تھی وہ یقیناً مبارکباد کے مستحق تھے لیکن چند خیالات نے مجھے الجھا دیا وہ یہ کہ محب جہاں اپنے محبوب کا کثرت سے ذکر کرتا ہے وہیں محبوب کی اداؤں کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے اس کی ہر بات ماننے کی کوشش کرتا ہے۔ محبوب (ﷺ) کا ذکر کرتے محب تو نظر آئے لیکن ادائیں (سیرت مصطفیﷺ) اپنانے والے بہت کم نظر آئے۔ نعت خوانی کرنے والے دیکھے گئے لیکن محبوب کو راحت پہنچانے والی چیز (نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے) سے عاری نظر آئے۔ وقتِ اختتام آذان فجر بلند ہو رہی تھی محفل کروانے اور سننے والوں میں اکثر تعداد مسجد میں جانے کی بجائے گھروں کا رخ کر چکی تھی کیونکہ قیل وقال کی صدا بلند کرنے والے عظیم علماء کو ذینت کے لیے اسٹیج پر تو بیٹھایا گیا لیکن ان کے علم سے فائدہ حاصل نہ کیا گیا کہ وہ لوگوں کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا درس دیں۔ ان کو یہ موقع نہ دیا گیا کہ وہ سامعین کو بتائیں کہ نعت سننا اور سنانا بڑی سعادت کی بات ہے لیکن اس سے کہیں بڑھ کر نماز کی اہمیت ہے، سیرت مصطفیﷺ کو اپنانے کی اہمیت ہے۔

عشق مصطفیﷺ سے لبریز ہو کر محفل نعت منانے والی انتظامیہ کے اکثر افراد ظاہر بھی سیرت مصطفیﷺ سے عاری نظر آتے تھے یعنی کہ کچھ نے سنت مصطفیﷺ (داڑھی مبارک) سے اپنے چہرے سجائے تھے لیکن کچھ نے اس سنت کا مذاق بناتے ہوئے فیشن کے طور پر کٹوائی اور کچھ تو یہ بھی نہ کر سکے انہوں نے تو بالکل کلین کردیا۔ ابوداؤد شریف کی حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم ہے کہ ’’ جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے‘‘۔

اک خیال میرے دل میں یہ آیا کہ اکثر نعت خوان حضرات جب نعت شریف پڑھ رہے تھے اس وقت (2) چیزوں کا سہارا لے رہے تھے ’’1: ذکرکا 2: دف کا‘‘ اور دور کاسامع یہ فرق کرنے سے عاری ہوجاتا کہ یہ محفل نعت ہے یا پھر کوئی اور محفل۔۔۔۔۔۔تو کیا نعت خوانی کے لیے ان کا سہارا لینا ضروری ہے ؟جس سے مغالطہ ہو کہ کون سی محفل ہے؟

بہت بلند آواز میں ساؤنڈ کو چلایا گیا جس سے یقینا قریبی بستی کے لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہو گا یعنی اک مزدور جو سارا دن محنت کر کے تھک ہار کر سونے کی کوشش میں ہے کہ صبح تازہ دم ہو کر پھر محنت مزدوری کے لیے جاؤں گا لیکن بلند آواز سے وہ کیسے سو سکتا ہے؟ جب انتظامیہ سے میں نے اک موقع پر اس کی شکایت کی تو جواباً فرمایا گیا کہ جب شادی بیاہ اور دیگر مواقع پر لوگ پوری پوری رات گانے بجانے میں گزار دیتے ہیں تب ان مزدوروں کو پریشانی کا سامنا نہیں ہوتا تو پھر محفل نعت پر ہی کیوں پریشانی ہوتی ہے؟؟ میرے خیال میں اگر یہی بات مان لی جائے اور اسی بات کو جواز بنا کر بلند آواز میں ساؤنڈ چلایا جائے تو پھر ان دونوں محافل میں کیا فرق رہ گیا؟؟

محفل نعت پر لاکھوں روپے خرچ کیے گئے ہوں گے اور لافانی کاموں پر روپے خرچ ہونے کی بجائے یقینا ان کاموں پر روپے خرچ ہونے چاہیں لیکن کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ باہر سے ایسے نعت خوان حضرات (جن کی ڈیمانڈ کئی ہزار روپے ہے )کو بلا کر روپے خرچ کئے جائیں کی بجائے مقامی نعت خوان حضرات کو بلا کر محفل نعت کروائی جائے اور وہ روپے(جو فیشن ایبل ، پیشہ وارنعت خوان حضرات کو دیے جاتے ہیں) اپنے علاقے کے غرباء، فقراء اور مساکین میں تقسیم کیے جائیں، کسی مدرسہ کے طالب علموں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خرچ کیے جائیں وغیرہ وغیرہ

اور سب سے بڑھ کر جو خیال میرے ذہن میں آیا اور جس نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا وہ یہ تھا کہ منتظمین کو محفل سے پہلے اور بعد میں یہ کہتے سنا گیا کہ محفل ایسی کروائیں گے کہ لوگوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔۔۔ لوگوں کو پتا چلے گا محفل ایسے کرواتے ہیں۔۔۔۔ اگر کسی میں دم ہے تو ہم جتنی محفل کروا کے دیکھائے ۔۔۔ہم جتنے لوگ جمع کر کے دیکھائے۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ

کیا یہ بات ریا کاری کے ذمرے میں نہیں آجائے گی؟ حدیث کا مفہوم ہے کہ ریاکار کے اعمال اس کے منہ پر دے مارے جائیں گے۔ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ ’’قیامت والے دن عالم کو جہنم میں پھینکنے کا حکم دیا جائے گا وہ عرض کرے گا کہ مولا میں نے تیرے دن کی سربلندی کے لیے علم حاصل کیا اور اس کو آگے پھیلایا ارشاد ہو گا کہ تم نے علم اس لیے حاصل کیا تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں سو لوگوں نے دنیا میں کہہ دیا اب تیرا آخرت میں کوئی حصہ نہیں‘‘ تو کیا جو ان نیتوں سے محافل کرواتے ہیں کہ لوگوں کو پتا چلے کہ فلاں حضرت صاحب، فلاں حاجی صاحب بہت بڑی محفل کرواتے ہیں تو کیا آخرت میں ان کو حصہ دیا جائے گا؟؟
قارئین بہت سے خیالات میں سے چند خیالات آپ کے سامنے ذکر کیے آپ کو اختلاف رائے کا حق ہے لیکن ان خیالات پر غور کرنا بھی ضروری ہے
 
abdul rehman jalalpuri
About the Author: abdul rehman jalalpuri Read More Articles by abdul rehman jalalpuri: 22 Articles with 29332 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.