قصّہ UMT کے ناشتے کا
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
ڈاکٹرعمرانہ مشتاق کے اندریقیناََ
کوئی بے چین روح حلول کرچکی ہے جواُنہیں ہمہ وقت وہمہ دَم بے چین وبیقرار
رکھتی ہے۔ سعداﷲ شاہ تواُنہیں کہتے ہی’’بے چین روح‘‘ ہیں ۔آئے روزکوئی نہ
کوئی ادبی ’’کھڑاک کرنا‘‘عمرانہ مشتاق کامحبوب ترین مشغلہ ہے۔ یہ اُن
کاشعروادب سے خصوصی شغف کاکمال ہے کہ وہ اکثرشاعروں ،ادیبوں اورلکھاریوں کو
ایک چھت تلے جمع کرنے کی سعی کرتی رہتی ہیں۔ گزری اتوار اُنہوں نے ہمیں بھی
UMTمیں ’’لاہوری ناشتے‘‘کی دعوت دی ۔اُن کا ’’بلاوا‘‘ ہمارے لیے حکم کادرجہ
رکھتاتھاکہ وہ خلوص کی خوشبوسے معطرتھا۔جون کے مہینے میں یوں تو گھرسے
نکلنا محال ہوتاہے اوروہ بھی اتوارکے دِن لیکن ایک توادبی کانفرنس جس کی
کنوینئر خود ڈاکٹرعمرانہ مشتاق تھیں اور دوسرے لاہوری ناشتے کی کشش ،گویا
ایک پنتھ دوکاج کے مصداق اُردوکانفرنس میں شرکت بھی اورلاہوری ناشتہ بھی ۔سُناہے
کہ’’ نشہ بڑھتاہے شرابیں جوشرابوں میں ملیں‘‘ لیکن ہمیں پتہ نہیں کہ
خوبصورت اشعارمیں نشہ زیادہ ہوتاہے یا لاہوری ناشتے میں۔ لاہوریوں
کی’’کھابے‘‘ کھانے کی عادت کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے (ہم خودبھی لاہوری ہیں)
توبَرملاکہا جاسکتا ہے کہ لاہوری ناشتے کانشہ سَرچڑھ کے بولتاہے ۔دیسی پائے
اور پیڑوں والی لسّی میں جتنا نشہ ہے وہ بھلا شعروں میں کہاں۔ اُردوکانفرنس
میں شرکت کامصمم ارادہ باندھ کرہم نے اپنے میاں سے بھی ساتھ چلنے کے لیے
کہالیکن توقع کے عین مطابق اُنہوں نے ٹَکاسا جواب دے دیا۔اِس قسم کی محافل
میں اُن کولے جانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ہم نے اُنہیں مکھن لگانے کی
بھرپورکوشش کرتے ہوئے کہا ’’UMTنے ایک اُردوکانفرنس کاانعقاد کیاہے
اوراُردو ادب کا اُستادہونے کے ناطے کیاآپ کا فرض نہیں کہ کانفرنس میں شرکت
کرکے اپنی اُردوسے محبت کاثبوت دیں ‘‘۔ اُنہوں نے کہا’’پہلی بات تویہ کہ
میری اُردوسے محبت لیلیٰ مجنوں والی ہے نہ ہیررانجھے والی، میری اُردوسے
محبت کی وجہ یہ ہے کہ بابائے قوم نے اِسے ’’قومی زبان‘‘ کادرجہ دیااور میں
اسی میں اپنی ’’شناخت‘‘ تلاش کرتارہتا ہوں ۔پاکستان میں ہونے والی
اُردوکانفرنسیں نشستن ،گفتن ،برخاستن سے آگے نہیں بڑھ پاتیں‘‘۔میاں تو
شایدتقریر کے موڈمیں تھے لیکن ہم نے بیچ میں ہی ٹوک کرپینترابدلتے ہوئے کہا
’’لاہوری ناشتے میں’’پائے‘‘بھی ہوتے ہی‘‘۔ اعلیٰ پائے کے ’’پائے‘‘ کھانے
کااُنہیں جنون ہے اِس لیے میرایہ حربہ کارگررہا، پائے کانام سُنتے ہی
اُنہوں نے کہا’’UMT توہمارے گھرکے قریب ہی ہے ، اگرتم مجبور کرتی ہوتو
چلووہاں کے پائے بھی چکھ ہی آتے ہیں‘‘۔
UMT پہنچ کرخوشگوار حیرت ہوئی کہ اِس تعارفی تقریب میں اُردوسے محبت کرنے
والوں کی کثیرتعداد موجودتھی۔ یقیناََ یہ سب کچھ ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کی
محنتوں کا ہی ثمر ہوگا۔ معروف لکھاری محترم رؤف طاہرنے کمال شفقت سے اپنی
ٹیبل پرہمارے بیٹھنے کاانتظام کیا ۔میرے ساتھ والی نشست پرمحترمہ فاطمہ
قمربیٹھی تھیں جن کی اُردوسے والہانہ محبت دیکھ کرہمیں یقین ہوگیا کہ
’’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘‘۔بھائی رؤف طاہرنے میرے میاں کو بھی
اُسی میز پر بیٹھنے کے لیے کہالیکن اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ’’میں
خواتین کے ساتھ نہیں بیٹھا کرتا‘‘۔ دراصل اِس تقریب میں اُنہیں کئی شناسا
چہر ے نظرآرہے تھے جنہیں مِل کروہ ’’عمرِرفتہ‘‘ کوآوازدینا چاہتے تھے۔
ہماری نظرکچھ دوربیٹھے روزنامہ نئی بات کے گروپ ایڈیٹراور نیوزچینل
’’نیو‘‘کے اینکرانتہائی محترم عطاء الرحمٰن پرپڑی توہم اُنہیں سلام کرنے کے
لیے گئے ۔اُن کاانداز وہی مشفقانہ جس کا اظہار وہ ہرملاقات میں کرتے
ہیں۔عطاء بھائی نے ’’ایویں خوامخواہ‘‘ اپنے اوپربزرگی کاخول چڑھارکھا ہے
حالانکہ اپنے کالموں میں وہ بھرپور ’’جوان‘‘ نظرآتے ہیں۔سچی بات ہے کہ ہم
تو’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ، بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ کے مصداق
اِدھراُدھر سے خبریں اُٹھا کر کالم پیٹ بھردیتے ہیں لیکن عطاء بھائی کے
کالم معلومات کاخزانہ اورنئے لکھنے والوں کے لیے مشعلِ راہ۔
تقریب کاآغازاُردو کانفرنس کی کنوینئر ڈاکٹرعمرانہ مشتاق نے کیاجس میں
کانفرنس کی غرض وغائت بیان کرتے ہوئے یہ کہہ کرجی خوش کردیاکہ اسی چھت تَلے
ایسی تقاریب منعقدہوتی ہی رہیں گی۔ ڈاکٹراعجاز شفیع گیلانی کی گفتگو تھی تو
پُرمغز تھی لیکن سامعین کی نظریں ناشتے کی میزوں پر ٹِکی تھیں کہ کب برتن
’’کھڑکیں‘‘ اوروہ تکبیرکا نعرہ بلندکرتے ہوئے ایسے ہی ناشتے پر’’جھپٹ‘‘
پڑیں جیسے افواجِ پاکستان طالبان نامی دہشت گردوں پر۔جونہی ناشتے کااعلان
ہوا ،لوگ ناشتے کی میزوں کی طرف لپکتے بلکہ جھپٹتے دیکھ کر مجھے اقبالؒ
یادآ گئے جنہوں نے کہاتھا کہ
جھپٹنا ،پلٹنا ،پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
لیکن یہاں احباب لہوگرم رکھنے کے لیے نہیں بلکہ پائیوں پر جھپٹتے ، پلٹتے
اور پھرپلٹ کرجھپٹتے پائے گئے ۔’’ نفسانفسی‘‘ کاویسا ہی عالم جیساروزِقیامت
ہوگا۔ کچھ لوگ توعالمِ بیخودی میں پائے یوں’’ادھیڑتے‘‘ نظرآئے جیسے اُن سے
جنم جنم کابدلہ چکارہے ہوں۔ اُدھرپائے آتے ، اِدھر لمحوں میں صاف ۔ڈِش میں
پڑا شوربہ حیرت کی تصویربنا پائیوں پر جھپٹنے والوں کی شوریدہ سَری
دیکھتارہ جاتا۔ دوسری طرف عالم یہ کہ پلیٹوں میں پڑی پایوں کی ہڈیاں کوہ
ہمالیہ کی چوٹیوں کا نظارہ پیش کررہی تھیں ۔وہاں ’’پایہ پیما‘‘توبہت تھے
لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ’’چوٹی‘‘ کِس نے سَرکی ۔دراصل پائے تھے ہی
اتنے مزیدارکہ کسی کو’’صبرو قرار ذرانہ رہا‘‘۔اُس دِن مجھے بیچارے بکروں پر
بہت ترس آیا۔
UMT کے اربابِ اختیارنے ناشتے کا’’کھُلاڈُلا‘‘ انتظام کررکھا تھا۔حلوہ
،پوری،چنے ،نان اورپائے وافرمقدار میں تھے۔آملیٹ اورسلائس بھی تھے لیکن اُن
کی طرف کسی کی توجہ نہ تھی ۔چائے اورکافی کاانتظام بھی تھالیکن ’’لَسّی‘‘
کہیں نظرنہیں آئی حالانکہ یہ تو’’لاہوری ناشتے‘‘ کالازمی جزوہے ۔میرے میاں
خالی پلیٹ ہاتھ میں لیے ناشتے کی میزوں کا طواف کرتے نظرآئے توہم نے ’’خالی
پلیٹ‘‘ کاسبب پوچھا۔کہنے لگے ’’ہمیشہ دیرکر دیتاہوں میں‘‘۔ہم نے کہا’’سارے
نون لیگئے ایسے ہی ہوتے ہیں‘‘۔ اِس سے پہلے کہ اُن کی زبان سے کوئی ’’سَڑا
بُسا‘‘ جملہ پھسلتا ،ہم وہاں سے کھِسک لیے۔ ناشتے کے بعد ہم نے ڈاکٹرعمرانہ
مشتاق سے اجازت لے کرگھر کی راہ لی ۔خیال تویہی تھاکہ کچھ دیر شعروشاعری کا
’’مزہ‘‘بھی چکھ لیاجائے لیکن گھرمیں کچھ مہمانوں کی آمدمتوقع تھی اِس لیے
مجبوراََواپس آناپڑا۔ واپسی پرمیرے میاں عالمِ غیض میں تھے شاید یہ پائیوں
پہ ہاتھ صاف نہ کرنے کادُکھ ہو۔ وہ بڑبڑاتے اورہم سنتے رہے ۔اُنہوں نے
کیاکہا اورہم نے کیاسُنا ،یہ رازکی باتیں ہیں جنہیں سرِعام نہیں کہا
جاسکتا۔ |
|