میں نے 1974 میں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے مکینیکل
انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی - اور پاکستان اسٹیل مل میں شمولیت اختیار کی -
اس زمانے میں اسٹیل مل کی تعمیر کا آغاز ہوا ہی تھا - جون جولائی کا مہینہ
تھا - مجھے لق و دق میدان میں سخت گرمی میں پائپ بچھانے کا کام سونپا گیا -
طرح طرح کے حشرات الارض سانپ بچھو اور سانڈے پھرتے نظر آتے تھے اور اوپر آگ
برساتا سورج ہوتا تھا -
|
|
ہمارے چیف انجینئر نے تعیناتی لیٹر پر سائن کرتے ہوئے کہا “کام سنبھال لو
گے نہ “ -
میں نے جواب دیا “جی ہاں“
خیر یہ تپتی دھوپ اور سانپوں کے معاملات تو ایک طرف ایک دوسرا مسئلہ جس سے
میں دو چار ہوا وہ یہ تھا کہ اس کام کی نوعیت یہ تھی کہ زمین کا سروے کرنا
پڑتا تھا کہ اس کا لیول کیا ہے - اس کی ڈھلان کس طرف ہے - پائپ لائن کے لئے
کتنا کھودناپڑے گا - وغیرہ وغیرہ - اس کے لئے مختلف کیمرہ نما مشینیں
استعمال کی جاتی تھیں جیسا کہ آپ نے بھی کسی پل یا بلڈنگ کی تعمیر کے دوران
دیکھی ہونگی -
تب مجھے انکشاف ہوا کہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں تو یہ مضمون مکینیکل
انجینئر کو پڑھایا ہی نہیں گیا تھا البتہ این ای ڈی کراچی میں پڑھایا جاتا
تھا -
خیر میں این ای ڈی یونیورسٹی گیا اور لائبریرین سے ملا -اپنے سارے مسئلے کی
تشریح کی اور بتایا کہ ہمیں یہ مضمون لاہور میں نہیں پڑھایا جاتا تھا-
لائبریرین صاحب چند لمحے مجھے دیکھتے رہے جیسے میرے بیان کی تصدیق کر رہے
ہوں اس کے بعد اٹھے اور ایک شیلف سے “لینڈ سروے“ کی کتاب نکال کر پکڑا دی -
|
|
اس سے بنیادی اصولوں سے آگاہی حاصل کی اور پائپ بچھانے کا کام شروع کیا -
بعد میں اس کام میں اتنی مہارت حاصل ہوئی کہ مجھے ایک دوسرے پلانٹ پر اضافی
طور چیف سروے انجینئر کے فرائض سونپ دئے گئے -
اب میں سوچتا ہوں کہ وہ کیا چیز تھی جس نے مجھے کامیابی دی تو میرا تجزیہ
یہ ہوتا ہے کہ اعتماد اور پھر مطالعہ - میں اس نئے کام سے ڈرا نہیں تھا اور
مطالعہ کے ذریعے اپنی خامی دور کر لی تھی- |