حافظ قرآن اور ھمارا معاشرہ

تراویح میں قرآن سننا اور سنانا ٢ سنتیں ھیں ابتداء اسلام سے اس سنت پر عالم اسلام کا معمول رھا ہے آج بھی الحمدللہ دونوں سنتیں زندہ تابندہ ہیں دعا ہے بار گاہ رب العزت میں یہ سنت زندہ تابندہ رہے۔

آج کل ایک مسئلہ زیر گردش ہے رمضان اس مسئلہ کا مقام اور موضوع حافظ قرآن ہے جو حافظ تراویح سنا کر کچھ لیتا ہے ایسے حافظ کی اقتدا درست نہیں یہ بات زبان زد عام ہے۔

انتہائی غلط بات گردش کر رہی ہے اور حوالہ علماء کا دیا جاتا ہے حقیقت یہ کہ ہم نے سرے سے مسئلہ سمجھا ہی نہیں۔

حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شھید رحمہ اللہ نے لکھا ہے جو حافظ تراویح پر معاوضہ مانگے اس کی اقتدا درست نہیں اور حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں حافظ قران کو تحفہ گفٹ کے طور پر دینا جائز ہے۔

دونوں باتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے قارئین کرام مانگنے مقرر کرنے اور دینے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

ایک یہ کہ حافظ صاحب طے کرے کہ اتنے پیسے وغیرہ لوں گا یہ ایک الگ بات ہے اسکو علماء منع فرماتے ہیں اور ایک یہ کہ ھم اپنے طور پر کچھ گفٹ کریں یہ دوسری بات ہے یہ درست جائز بلکہ ضرورری ہے آج کل۔

مسئلہ سمجھے ھم نہیں اور نقصان حافظ قرآن کا انصاف کا تو جنازہ نکل چکا۔

ایک حافظ صاحب کتنی محنت کر کے ہمیں اللہ کا پاک کلام سناتا ہے اور ہم ہیں کہ پورا سال کسی بھی موقع پر جائز ناجائز حلال حرام کی کوئی پراہ نہیں کرتے اور اس وقت پھر ہم بن جاتے ہیں طالب دین پورا سال پانچ منٹ تبلیغ والوں کی بات سننے کا ٹائم نہیں اور اس مسئلہ کے لئے ہم میسج میل کال تو کیا دارالافتاء کے کئی کئی چکر کاٹے ہیں مفتیان کرام دیکھتے سمجھ جاتے ہیں سائل کا مسئلہ کیا ہے۔

قارئین کرام: ذرا سوچئے کہ ہمیں قرآن سنانے کے لئے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے حافظ صاحب صبح تا شام قرآن ہی یاد کرتا ہے سحری کر کے ہم سوجاتے ہیں مگر وہ اپنا سپارہ یاد کرتا ہے ظہر کے بعد ہمارے کام مگر اسکا وہی معمول عصر کے بعد ہم افطاری کے لئے بازار مگر حافط صاحب کا کام قرآن یاد کرنا ہم خوب سیر ہو کے افطاری کرتے ہیں مگر تراویح میں طبیعت خراب نہ ہو اسی ڈر سے انکی افطاری بھی بقدر بادام۔

ان تمام کے باوجود ہم چند ہزار دیتے ہوئے ناجائز سمجھ کے روک لیتے ہیں اور نقصان اپنا کر جاتے ہیں اور سمجھتے تک نہیں اسی کا وبال پورا سال رہتا ہے مگر ہماری عقل کی آنکھیں بند ہیں اور رہتی ہیں۔

پورا مہینہ حافظ صاحب ہماری خدمت کرتے ہیں کیا کبھی سوچا ہے ہم نے کہ اس خدائی خدمت گار کا ہم پر حق ہے اپنے لئے عید پر چار سے پانچ آٹھ تک سوٹ ہر سوٹ کے ساتھ الگ بوٹ موبائل بھی الگ ایک نہیں چار اور حافظ صاحب کے لئے ایک پیسہ بھی حرام افسوس صد افسوس ہماری عقل پر-

ایک عام مزدور مہینے بھر میں بیس سے تیس ھزار کماتا ہے تو حافظ صاحب کا بھی تیس ھزار حق بنتا ہے مشکل کوئی نہیں تین سو آدمی ایک ایک سو جمع کر دے مسئلہ حل اور ثواب مفت کا دعائیں اتنی ملیں گی کہ شاید ساری زندگی ہم نے اپنے لئے نہیں مانگی ہوں گی اور جب بھی حافط صاحب ملے گا عزت کرے گا۔

حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہ ایک قافلے کے ساتھ جا رہے تھے ایک بستی میں انکو ٹھرنا پڑا مسافر تھے کھانے کا کوئی انتظام نہ تھا گاؤں والوں نے بھی نہیں پوچھا کہ مسافر ہے دیکھ لیا جائے انکی مہمان نوازی کی جائے مگر انکا ھمارا حال یکساں تھا کنجوسی کی انتہا-

گاؤں کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا تو گاؤں والے بھاگے آئے اور فریاد کرنے لگے حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں دم کردیتا ہوں لیکن معاوضہ لوں گا گاؤں والے مان گئے تین دن دم کیا تو سردار ٹھیک ہوگئے ایک روایت میں ہے تیس بکریاں دوسری روایت میں ہے ستر بکریاں گاؤں والوں نے خدمت میں پیش کی۔ ایک تیسری جگہ ایک سو بیس بکریاں کا ذکر ہے مگر یہ روایت ملی نہیں۔ اصحاب رسول نے عرض کیا یا جار ابن عبداللہ آپ نے سورہ فاتحہ پڑھ کے دم کیا اور بکریاں لی یہ تو اچھا نہیں کیا آپ نے انھوں نے فرمایا دربار رسالت میں اسکا فیصلہ ہو جائے گا-

مدینہ منورہ پہنچ کے جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قصہ پیش کیا گیا تو اللہ کے پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر بہت اچھا کیا آپ نے اس میں میرا حصہ بھی دے دو-

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں کئی مقامات پر اس حدیث کو نقل کیا اور خاص کر ابواب قرآن کے تحت اس حدیث کو لائے۔

ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مشتبہ چیز سے بھی اجتناب فرماتے ہیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے نے جب راستے میں ملی کھجور منہ میں ڈالی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگل مبارک ڈال کے نقال دی فرمایا ہوسکتا ہے یہ کھجور صدقہ کی ہو اور دوسری طرف حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرما رہے ہیں میرا حصہ بھی نکال دو۔

اس سے معلوم ہوتا ہے قرآن پڑھ کے دم کرنا اور قرآن سنانے پر کچھ لینا جائز بلکہ بہترین عمل ہے ورنہ نبی علیہ السلام کبھی بھی حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اتنی داد و تحسین نہ فرماتے بلکہ فورا حکم کرتے جاؤ یہ سب اس گاؤں والوں کو واپس کردو۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے معاوضہ طلب کرنے اور اس پر نبی علیہ السلام کی داد و تحسیں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں حافظ صاحب کا تراویح سنانے پر کچھ طلب کرنا جائز ہے اسی وجہ سے حضرت الشیخ مفتی محمد زرولی خان صاحب فرماتے ہیں لازمی ہے حافظ صاحب کو کچھ دینا۔

سورہ بقرہ آیت اکتالیس کو دلیل بنا کر کہا جاتا ہے قرآن سنانے پر کچھ لینا جائز نہیں یہ آیت کی غلط تفسیر ہے کسی بھی مفسر نے یہ تفسیر بیان نہیں کی ہے۔ اصل مسئلہ ہمارا ہے اس کے بعد والی آیت کو ہم نے دیکھا نہیں تو غلطی کر گئے ہم

یہود کی عادت تھی پیسے لے کر لوگوں کو انکی مرضی کے مسائل بتانا دنیا لے کے باطل کی ترویج کرنا اللہ نے انکی مذمت فرمائی فرمایا مال جائداد لے کے دین کو تبدیل نہ کرو اس تفسیر سے تو آیت کا مصداق وہ لوگ ہوئے جو اس آیت کو دلیل بنا کے کہتے ہیں حافظ صاحب کے لئے کچھ لینا حرام ناجائز ہے۔
وماعلینا الا البلاغ
M.ABID Ahsani
About the Author: M.ABID Ahsani Read More Articles by M.ABID Ahsani: 16 Articles with 15904 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.