وقت کے ساتھ
(Irfan Mustafa Sehrai, Lahore)
کسی قوم کی ترقی کا راز تعلیم
میں ہے ۔ آج جدیدیت کا دور ہے،اسی لئے تعلیم کو بھی وسیع پیمانے پر حاصل
کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ہرشعبے میں سپیشلٹ کو ترجیح دی جانے لگی ہے،اسی لئے
تعلیمی درس گاہوں میں جدید انداز اپنانے کی اہمیت کو سمجھا جا چکا ہے۔اس کے
لئے سہولیات بھی اسی نویت کی ہونی چاہئے۔طلباء کو وہ ماحول دینا جس سے ان
کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے۔دوسرے ممالک
میں جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی بجائے اپنے ملک میں اسی معیار کی تعلیم
کا حصول ہر امیر اور غریب کے قابل بچے کو میسر آئے۔اس کے لئے اقدامات کرنا
ہوں گے۔
حکمران طبقے کو ہمیشہ سے اس بات کا باخوبی اندازہ رہا ہے۔ ہر دور میں جدید
نظام تعلیم کی بہتری کے لئے کام کرنے کے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے رہے ہیں
،مگر وہ وعدے اور دعوے کیا جو وفا کئے جائیں۔ تعلیمی سرگرمیوں کی حالت ویسی
ہے جیسے دوسرے شعبے،فرسودہ، بے ہنگم اور سہولیات سے عاری ہیں۔ہم اگر پنجاب
یونیورسٹی آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کی مثال لیں ،تو اندازہ لگانا آسان ہو جائے
گا کہ ہمارا تعلیمی معیار اور اس پر توجہ کی صورتحال کیا ہے؟
جدید دور میں آرٹ اینڈ ڈیزائن کا شعبہ انتہائی اہمیت اختیار کر چکا
ہے۔پنجاب یونیورسٹی میں آرٹ اینڈ ڈیزائن کا ڈیپارٹمنٹ 1940ء میں بنا اور
گریجویشن 1942ء میں ،1955ء میں ماسٹر اور 2003میں پی ایچ ڈی کا آغاز کیا
گیا۔گرافک ڈیزائننگ اور پنٹنگ 1964ء میں شروع کی گئی ۔ 2004ء میں فائن آرٹ
اینڈ ڈیزائن کے ڈیپارٹمنٹ کو کالج کا درجہ دیاگیا۔یہ پنجاب یونیورسٹی اولڈ
کیمپس میں واقع ہے۔ اب یہاں بہت سے ڈیپارٹمنٹس ہیں۔جس میں آرکیٹکچر،گرافک
ڈیزائننگ،ٹیکسٹائل،پنٹنگ، انٹیریل ڈیزائننگ اور میوزک وغیرہ کے شعبوں میں
تعلیم دی جاتی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ تعلیم کو جدید انداز میں دیا جانے لگا
ہے،مگر حکومتی سطح پر ان شعبوں پر غیر سنجیدہ پن کی وجہ سے نقصان ہوا
ہے۔یہاں شعبے تو بنا دیئے گئے،مگر ان کی ضرورت کے مطابق سہولیات میسر نہیں
ہیں۔یوں تو ان کے پاس انتہائی قابلیت کے حامل اساتذہ موجود ہیں،مگر ان کے
پاس طلباء کو تعلیم دینے کے لئے نہ تو معقول جگہ ہے اور نہ ہی مطلقہ
سہولیات ہیں۔آرکیٹکچر شعبہ انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔اس شعبے نے با کمال
اساتذہ پیدا کئے ہیں۔ انہوں نے انتہائی قابل آرکیٹکچر ملک کو دیئے
ہیں،جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ باہر کے ممالک میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر
دکھا کر ثابت کیا ہے کہ ہم کسی بھی یورپین ملک کے آرکیٹکچر سے کم نہیں
ہیں،مگر آج بھی اس شعبے میں ان کے بیٹھنے کے لئے معقول ہال موجود نہیں،
جہاں انہیں کام کرنے کے لئے ضروری انسومنٹ مہیا ہوں ۔ پریکٹیکل کے لئے ٹورز
کی ضرورت ہوتی ہے۔ڈیپارٹمنٹ انہیں ٹرانسپورٹ دیتا ہے باقی اخراجات طلباء
خود برداشت کرتے ہیں ۔ انہیں وہ تک میسر نہیں ۔ آنے والے دور میں یہاں کے
گرایجویشن کی ملک کو اشد ضرورت ہوگی۔گرافک اینڈ ڈیزائننگ بھی ایک اہم شعبہ
ہے ، جس کے لئے لیب کی ضرورت ہوتی ہے۔جو ناکافی حالات میں موجود ہے۔ پنٹنگ
جدیدیت اختیار کر چکی ہے۔ یہاں با صلاحیت گرایجویشن طلباء کو پوری دنیا میں
نوکریوں کی پیش کش ہوتی ہے، وظائف آفر ہوتے ہیں۔ٹیکسٹائل ہمارے ملک کا
انتہائی اہمیت رکھنے والا شعبہ ہے۔ یہاں پر ٹیکسٹائل کے متعلق جدید تعلیم
دی جاتی ہے۔ انٹیریل ڈیزائننگ نہ صرف تخلیقی اور ٹیکنیکل شعبہ ہے،جس کی ملک
اور بیرون ممالک میں مانگ ہے۔
ہماری حکمرانوں کو اپنے ذاتی معاملات سے فرصت نہیں ،ان شعبوں پر توجہ کیسے
دے سکتے ہیں۔ہر سال کالج کے پرنسپل کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ طلباء کی
یونین اُن کی بھلائی کے لئے بنائی جاتی ہے۔جس سے طلباء کے مسائل کالج
یونیورسٹیوں میں ہی حل ہو جائیں ۔ جس کا فائدہ بھی ہوا اور نقصان بھی ۔ہمارے
ہاں اجارہ داری کی بیماری بہت زیادہ ہے۔ اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط کرنا
ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے تمام یونین کو ختم کر
دیاتھا۔جمعیت طلباء اسلام نے اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے بہت محنت کی ۔طلباء
کے مسائل کو حل کروانے کے لئے ان کی خدمات کم نہیں،لیکن اب ان کے حالات
یکسر بدل چکے ہیں۔طلباء کے اصل مسائل کو حل کروانے کی بجائے ایک مخصوص سوچ
کو طلباء پر زبردستی مسلط کرنا ان کا معمول بن چکا ہے۔اپنی اجارہ داری قائم
کرنے کے لئے طلباء کو تعلیمی سرگرمیوں سے روکتے ہیں،کیونکہ یہ ایسا پسند
نہیں کرتے، اسی لئے زور سے ان کو روکا جاتا ہے۔اگر پرنسپل ان کے خیالات کو
مسترد کرتا ہے ،تو اس کا تبادلہ کروا دیا جاتا ہے۔لڑکا اور لڑکی کلاس فیلو
آپس میں بات نہ کریں،لڑکیاں پردہ کر کے یونیورسٹی آئیں وغیرہ ۔یہ درست ہے
کہ ہم اسلامی کلچر کے باشندے ہیں ، ہماری کچھ روایات ہیں ،مگر انہیں یہ بھی
اندازہ ہونا چاہئے کہ زمانہ بہت تیزی سے بدل چکا ہے۔ یہ تربیت گھریلو سطح
پر ہوتی ہے۔ ہمارے کالجوں یا یونیورسٹیوں میں کوئی پابندی نہیں کہ طالبات
پردہ کر کے آئیں یا نہ کر کے آئیں،یہ ان کی مرضی پر ہے۔کسی پر زبردستی کسی
صورت جائز نہیں اور خاص طور پر تعلیمی حصول کے مواقع کو روکنا کسی طور پر
درست نہیں،کیونکہ جمعیت طلباء کے طالب علم بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں
،ان کو بھی اندازہ ہے کہ کوئی بھی پراجیکٹ کو کرنے کے لئے طالب علم اور
طالبات کا گروپ بنایا جاتا ہے۔یہی طریقہ دنیا میں تعلیم کے حصول کے لئے
کامیاب ہوا ہے۔ اس بات کو انہیں سمجھنا ہو گا۔ایک زمانہ تھا جب نیشنل کالج
آف آرٹ اینڈ ڈئزائن کا معیار انتہائی بہترین تھا۔ وقت کے ساتھ اب اُس میں
بھی بہت کمی آگئی ہے۔
ان مسائل کی وجوہات مختلف ہیں۔ ڈیپارٹمنٹ تو بنا دیا جاتا ہے لیکن اس کا
بنیادی ڈھانچہ پہلے سے نہیں بنایا جاتا۔ضروری سہولیات تک میسر نہیں
ہوتیں۔دوسرے لوگوں کی مداخلت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ناکافی جگہ کا ہونا۔قابل
اساتذہ تو موجود ہیں مگر اُن کے مسائل کو حل نہ کرنا، جس کی وجہ سے وہ اپنی
پوری توجہ طلباء پر نہیں دے سکتے ۔
اس گھٹن ماحول میں طلباء تخلیقی اور ٹیکنیکل کام کیسے کر پائیں گے، آرٹ
اینڈ ڈیزائن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے حکومت کواس پر بہت کام کرنے کی ضرورت
ہے۔ ان شعبوں کو پنجاب یونیورسٹی میں یا کسی کھلی جگہ میں منتقل کرنا
چاہئے۔ان کے کلاس رومز اور لیب کو جدید طرز پر استوار کرنا ہوگا۔ کالج کو
معقول فنڈز دیئے جائیں تاکہ اسے ان کی ضروریات کے مطابق بنایا جا سکے۔طلباء
یونین یا باہر سے کسی قسم کی انتظامی معاملات میں مداخلت درست نہیں۔طلباء
کو ممکنہ سہولیات دی جائیں ۔طلباء کو جہاں تھیوری کی ضرورت ہوتی ہے وہاں ان
شعبوں میں پریکٹیکل کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس کے لئے زیادہ سے زیادہ ٹورز
کا انتظام کرنے کے لئے سالانہ شیڈول بنانا ہو گا،تاکہ طلباء اپنی گرایجو
یشن کے بعد اتنے ماہر ہو جائیں کہ فیلڈ میں آتے ہی وہ اپنی صلاحیتوں سے ملک
کی ترقی میں اپنا اہم رول ادا کر سکیں ۔
یوں تو وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت بلیغ الرحمان کہتے ہیں کہ تمام بچوں
کو تعلیم کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔پاکستان میں فنی تعلیم
کم ہے،اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے،مگر جو ڈیپارٹمنٹ بنے ہوئے ہیں ان کی
بہتری کے لئے کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف تھوڑی سی توجہ اور نیت
کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم نے آج بھی مستقل مزاجی کا ثبوت نہ دیا، تو
آنے والے دنوں میں نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ہمیں وقت کے ساتھ چلنا سیکھنا ہو
گا،اگر ملک و قوم کو آگے لے کر چلنا ہے۔ |
|