رؤیت ہلال -چند گذارشات
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
رؤیت ہلال کمیٹی میں چند سالوں
تک ہم بھی سندھ کی طرف سے بطور ممبر کے شریک ہوئے ، اکثر وبیشتر اجلاسات
مفتی منیب الرحمن کی سربراہی میں محکمۂ موسمیات کراچی میں منعقد ہوئے ، عصر
کے بعد مغرب سے کچھ دیر قبل تا مابعدالمغرب رؤیت کے سلسلے میں ایک بیٹھک کا
اہتمام ہوتا، زونل کمیٹیوں ،عوامی فون کالز اور خاص کرجامعۃ الرشید کراچی
کے شعبۂ فلکیات سے آمدہ معلومات کے علاوہ، موسمیات والی بلڈنگ اوپر لگی
ہوئی دور بین پر بھی باری باری کمیٹی کے ارکان حاضر ہوتے اور ہلال کے
مشاہدے کی کوشش فرماتے ، اس کے بعد چیٔر مین موصولہ اطلاعات کی روشنی میں
اپنافیصلہ سناتے اور کانفرنس روم جاکر اعلان ہوجاتا، ہمیں یہ ریہرسل عجیب
سی لگتی ، باربار عرض کرتے : حضرت ، آپ پشاور میں مفتی شہاب پھو پھلزئی کے
یہاں اجلاس کیوں منعقد نہیں کرتے، تاکہ وہیں پر شہادتوں اور اطلاعات کی
جانچ پڑتال ہو ،دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو، یا اراکین میں سے دوچار
کو پہ ٹاسک کیوں نہیں دیتے ، تاکہ وہاں سے آپ ہی کے نمائندے آپ کو صحیح
صورت حال سے باخبر رکھ سکیں ، کیونکہ چاند دیکھنے کے دعوے وہاں ہوتے ہیں
،گویاشہادتیں پھوپھل زئی صاحب کو موصول ہوتی ہیں ، او رہم یہاں صرف سادہ سی
معلومات پرہی اکتفاکرتے ہیں ۔
رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئر مین کا فرض منصبی بنتاہے کہ وہ پہلے سے’’مائنڈ
سیٹ‘‘ سے ہٹ کر، رؤیت کی جتنی بھی اور جہاں سے بھی شہادتیں ہوں ، ان سب کا
بنظر غائر جائزہ لیں ، مدعیان رؤیت اور مدعیا ن عدم رؤیت کے ثبوتوں کی
تحقیق کریں ،پھر جو فیصلہ حق بجانب ہو، اس پر سب کو مائل اور قائل کریں ،
اگر ان سے تنہا مسئلہ سنبھل نہ رہاہو، تو دیگر علماء ومشائخ او رحکام
بالاکے ذریعے انہیں مطمئن کریں ، میڈیا کے سامنے اس مسئلے کوفوری طور پر نہ
لائیں ، تاکہ رؤیت ہلال پر فرقہ واریت،صوبائیت ،سیاست بازی اور شخصی تشہیر
نہ ہو ، یوں اگرمسئلہ حل نہ ہو، تو اگلے چند ماہ تک اس مسئلے پر ملک بھر
اور عالم اسلام کے معتمد اور مقتدر علمائے کرام ،ماہرین فلکیات او رمتعلقہ
حکام پر مشتمل سیمینارز اورکانفرنسز بلائیں ، تاکہ اندازہ ہو، کہ محکمہ یا
کمیٹی کا ذمہ دار مفوضہ امور میں دلچسپی لے رہاہے او راس حوالے سے سر گرم
ہے ، اس سے ان کی مساعی ، کاوشیں ، جہد مسلسل اور وسعتِ آگاہی سب لوگوں کے
سامنے ہوگی، اس میدان کے مختلف شعبوں ،اطراف اور کونوں کے ماہر او رہر لحاظ
سے باخبر شخصیت کے وہ مالک ہوں گے ، چنانچہ اس کے بعد ان کی رائے میں وزن
اور توازن دونوں ہی آجائینگے، بنابریں متعلقہ مسئلے میں ان کا قول او رفتوی
بھی معتبر سمجھا جائے گا۔
لیکن اگر اپنے شعبے کا کام کوئی بھی سرسری لے گا ، وقتی طور پر ان پر بحث
ومباحثہ کر کے اس کا کوئی مستقل یا دیر پا حل تلاش نہیں کرے گا، اجلاسات
بھی ’’نشستند ،خوردند اور برخاستند‘‘ تک محدود ہوں گے ، تو وہ شعبہ ایک بد
نصیب یتیم کی طرح کبھی پھل پھول نہیں سکے گا، اس کے پودے کبھی پھل دار درخت
نہیں بن سکینگے ، وہ شعبہ عوام میں ایک مسخرہ اور مضحکہ بن جائے گا، یہاں
قابل توجہ بات یہ ہے کہ صر ف وہ شعبہ تباہ نہیں ہوگا، بلکہ اس کے سربراہ سے
لے کر نیچے تک تمام ذمہ دار بھی اپنی اپنی بھاری بھرکم شخصیتیں کھو جائینگے
، متنازع ہوجائینگے ، ان کا فیض بھی محدود ہوگا، شعبہ جتنا اہم ، مشہور او
رعام لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوگا، اتنا ہی اس میں قاعدے سے کام کرنے سے
شعبہ اور اس کے منتظمین نیک شہرت کے حامل ہو جاتے ہیں ، اگر قاعدہ قانون
،شورائیت ، علمیت ، غور وتدبر سے کام نہ لیا جائے، تو متعلقہ شعبہ اور اتنی
ہی اس کی انتظامیہ عوام وخواص میں بدنامی ، خجالت ا ورشرمندگی سے دوچار
ہوجاتے ہیں ۔
اپنی ذاتی تجربے کی بنیاد پر میں دعوے سے کہہ سکتاہوں کہ اگر سنجیدگی اور
دانشمندی کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کی عمدہ کو ششیں کی گئیں ، تویہ
مسئلہ عقدہ ٔ لاینحل نہیں ہے ، بلکہ قابل حل ہے او رسو فیصد قابل حل ہے ،
افسوس سے کہناپڑ تاہے کہ اسے ذاتی اور مسلکی ’’انا‘‘کا مسئلہ بنایاگیاہے
،یہاں بلاوجہ ہر بات میں وہابیت اور سعودیت پر قدغن شروع ہوجاتی ہے، علمی
اور فنی حوالے سے بات ہی نہیں ہوتی،اسی لئے ہم نے تحریری استعفاء دیئے بغیر
ہی اجلاسوں میں جاناچھوڑ دیا، مفتی صاحب ،اپنی ذات میں کریم او رشریف آدمی
ہیں، ہمیں بذات خودکئی بار فون کئے ، مگر چونکہ اس مسئلے میں وہ وہی کرتے
ہیں ، جو ان کی سمجھ میں آئے ، اور اسی دلیل ومنطق کیلئے سمع خراشی فرماتے
ہیں جوان کے قائم کردہ معیار کے مطابق ہو،ورنہ عدم التفات۔
سب سے بڑی دلیل ان کے ساتھیوں کی یہ ہوتی ہے ، کہ حضرت امیر معاویہ ؓ کے
دور میں رمضان کا چاند جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب دیکھاگیا، حضرت کریب
ؓ کسی کام سے شام کے سفرپر تھے ، وہ جب مدینہ منورہ آئے ،تو پتہ چلا کہ
یہاں توجمعے ہفتے کی درمیانی شب چاند دیکھاگیا، وہ حضرت ابن عباسؓ کے پاس
گئے ،اور ان سے رویت کا واقعہ ذکرکیا، حضرت ابن عباسؓ نے پوچھا تم نے خود
چاند دیکھاتھا؟ حضرتِ کریب نے کہا، ہاں میں نے خود چاند دیکھا ، حضرت
امیرِمعاویہ ؓ نے بھی دیکھا ،شام کے سب لوگوں نے دیکھا اور سب نے جمعہ کو
پہلاروزہ رکھا ، حضرت امیرِمعاویہ ؓ نے بھی جمعہ کو پہلاروزہ رکھا، حضرت
کریب ؓنے جناب امیر معاویہؓ کا ذکر بطور خاص اس لئے کیا ،کہ وہ اس وقت
مسلمانوں کے امیرتھے ، حضرت ابن عباسؓ نے کہا،ہم نے ہفتہ کا روزہ رکھاہے ،
ہم یا تو تیس روزے پورے کریں گے ،یا پھر ہمیں چاند نظر آجائے ، حضرت کریب ؓ
نے کہا ،کیا امیر معاویہ ؓ کا چاند دیکھنا او رروزے رکھنا آپ کے لئے کافی
نہیں ؟ ابن عباس ؓ نے فرمایا’’نہیں ‘‘ کیونکہ ہمیں جناب رسول ﷺ نے یونہی
حکم دیاہے ۔ (صحیح مسلم )۔
یہاں منظروں اور مباحثوں کی نہیں، تھوڑی سی دیر کے لئے مسئلے کی نوعیت کو
’’خالی الذہن‘‘ ہوکر سمجھنے کی ضرورت ہے ، وہ یہ کہ حضرت ابن عباس ؓ کو اگر
بروقت پتہ چل جاتااور مذکورہ شہادتیں موصول ہو جاتیں کہ اہل شام نے چاند
جمعرات جمعے والی شب میں دیکھا ہے ،تو کیا وہ پھر بھی ہفتے تک روزہ مؤخر
کرتے ؟اور تمام اہلِ شام کی شہادتیں رد کرتے؟ ہر گز نہیں ،پتہ نہ چلنا اور
بات ہے اور پتہ چل جانے کی صورت میں عامۃ المسلمین ،حضرات صحابہؓ اور
بالخصوص وقت کے امیر المؤمنین کی شہادت کو تسلیم نہ کرنا اور بات ہے، آ ج
کے زمانے میں تو پھوپھلزئی صاحب ہی کیا ،پوری دنیائے عرب چاند دیکھنے کے
اعلانات ذرائع ابلاغ میں دھوم دھام سے کرتی ہے، گویا ہمارے یہاں صرف پھوپھل
زئی کو نہیں کروڑوں مسلمانوں کی شہادت کو مسترد کر دیا جاتا ہے،جس سے
مسلمانوں کی ایک ہی عید کا تصور بھی مجروح ہو جاتا ہے،اسلامی تاریخ،تقویم
اور کیلنڈر میں یکسانیت نہیں رہتی،روزے متأثر ہوجاتے ہیں،عیدین اور صلوات ِ
عیدین مشکوک ہوجاتے ہیں،حج اور ایام ِ حج تہ و بالا ہو جاتے ہیں،شعائر اﷲ
کی تضحیک ہوجا تی ہے، اس کے علاوہ بھی کئی قباحتیں لازم آجاتی ہیں۔اﷲ کرے
موجودہ رمضان کا چاند اس علمی، عمومی اور عوامی پریشان کن مسئلے کے حل کا
باعث ہو۔
|
|