مرشد کامل اکمل

قرآنِ مجید میں بھی وسیلہ تلاش کرنے کا حکم ہے۔

یایھا الذین امنو اتقوا اللہ وابتغوا الیہ الوسیلتَ
ترجمہ: اے ایمان والو !تقویٰ اختیار کرواور اللہ کی طرف وسیلہ پکڑو۔
اس آیت مبارکہ میں ایمان لانے والوں کو دو باتوں کا حکم ہوا ہے اول تقویٰ اختیار کرنا دوم اللہ کی پہچان کے لیے وسیلہ پکڑنا، ڈھونڈنا یا تلاش کرنا۔

و سیلہ کالغو ی معنی ''واضح راستہ اور ایسا ذریعہ ہے جو منزلِ مقصود تک پہنچادے اور اس حد تک معاون ومددگار ہو کہ حاجت مند کی حاجت باقی نہ رہے۔ اور اس وسیلہ کی بدولت وہ مقصودِ زندگی حاصل کر کے مطمئن ہو جائے'' ۔''لسان العرب'' (جلد 11 صفحہ 725 )میں وسیلہ کی تعریف یوں کی گئی ہے : ''جس کے ذریعے کسی دوسری چیز کا قرب حاصل کیا جائے اسے وسیلہ کہتے ہیں''

شرعی اصطلاح میں وسیلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی ایسی ہستی کو وسیلہ بنایا جائے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب اور پسند یدہ ہو، جس نے راہِ سلوک طے کیا ہو اور اس راستہ کے نشیب وفراز سے واقف ہو۔تصوف میں اس سے مراد مرشد ،ہادی ،شیخ یا پیر ہے جو خود شناسائے راہ ہو اور راہِ فقر کی منزلیں طے کرتا ہوا حریمِ قدس تک پہنچ چکا ہو اور اب اس قابل ہو کہ اُمت کے ناقص و خام عوام کی راہنمائی کر سکے۔ اور اپنی روحانی قیادت میں انہیں شیطانی وساوس و خطرات اور نفس کی تباہ کاریوں اور رکاوٹوں سے بچا کر آگے لے جاسکے۔ اِس صورت میں آیتِ کریمہ کا مطلب یہ ہوگا کہ ''اے لوگو! کسی ہادی کامل (مرشدِ کامل اکمل) کی تلاش کرو تاکہ ربّ تک پہنچ سکو۔''

اسم اللہ اور اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر اور تصور بھی تبھی بندے کو اللہ سے ملاتاہے جب یہ ذکر وتصور ایسے رہنما کی نگرانی میں کیا جائے جو اللہ سے وصال کی راہ جانتا ہو ۔جس طرح انسان کسی نئے راستہ پر چلنے سے پہلے' جس سے وہ بالکل ناواقف ہو' ضرور کسی کی رہنمائی حاصل کرتا ہے یا کسی بھی سبق اور تعلیم یا ہنر کو سیکھنے کے لیے اسے معلم کی ضرورت ہوتی ہے' اسی طرح فقر کے اس باطنی سفر کی راہ سے نہ صرف انسان ناواقف ہے بلکہ اس راستے پر جگہ جگہ شیطان راہزن بن کر گھات لگائے بیٹھا ہے تاکہ انسان کو اس راہ سے بھٹکا سکے اور کبھی اللہ تک نہ پہنچنے دے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

الشیطٰن یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشاء
ترجمہ: شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے اور فواحش کی تعلیم دیتا ہے۔
چنانچہ اس سفر میں اللہ کے طالب کو ذکر وتصورِ اسم اللہ کے زادِ راہ کے ساتھ ساتھ ایک رہنما کی بھی بہت ضرورت ہے۔ اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

الرفیق ثم الطریق
ترجمہ: پہلے رفیق تلاش کرو پھر راستہ چلو۔
مرشد کامل اکمل جواس راہ کو بخوبی جانتا ہے ایک سالک کا رہنما بھی ہے' معلم بھی ہے اور رفیق بھی۔ وہی طالب کو شیطانی وساوس اور خطراتِ ہوا و ہوس (نفسانی خواہشات) سے بچا کر اس راہ پر چلاتا اور منزل تک پہنچاتا ہے۔ مرشدِ کامل کے بغیر کسی بھی انسان کا' خواہ وہ کتنا ہی عبادت گزار اور نیک کیوں نہ ہو' اللہ کی معرفت کا سفر طے کرنا ناممکن ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :

من لا شیخ یتخذہ الشیطٰن
ترجمہ: جس کا شیخ (مرشد) نہیں اس کا شیخ (مرشد) شیطان ہے۔
یقیناًجب اصل رہنما کا ساتھ نہ ہوگا تو شیطان کے لیے آسان ہو جائے گا کہ وہ راستے سے ناواقف انسان کو بھٹکا دے۔ مرشدِ کامل ہی اس راہ میں سالک کا طبیب بھی ہے جو اس کی باطنی بیماریوں حسد' بہتان' غیبت' بغض' کینہ' بدگمانی' تکبر' عجب یعنی خود پسندی یا خودنمائی' ہوس' طمع لالچ' حرص وغیرہ کا علاج کر کے اس کی روح کو تندرست و توانا بناتا ہے تاکہ اس کے لیے یہ سفر طے کرنا مشکل نہ رہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
انسان کے وجود میں اللہ تعالیٰ اس طرح پوشیدہ ہے جس طرح پستہ کے اندر مغز چھپا ہوا ہے۔ مرشد کامل ایک ہی دم میں طالب اللہ کو حضورِ حق میں پہنچا کر مشرفِ دیدار کر دیتا ہے' کیا عالمِ حیات اور کیا عالمِ ممات کسی بھی وقت (طالب) اللہ تعالیٰ سے جدا نہیں ہوتا۔ (نور الہدیٰ کلاں)
بقول شاعر:

اللہ اللہ کرنے سے اللہ نہیں ملتا
یہ اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں

اللہ تعالیٰ خود بھی ایسے مرشد کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتا ہے جو ذکر میں کامل ہو۔

فسئلو آ اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون
ترجمہ: پس اہلِ ذکر سے(اللہ کی راہ ) پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔
یہاں اہلِ علم سے پوچھنے کا حکم نہیں دیا کیونکہ علم مختلف انسانوں کو ان کی سمجھ' approach اور زاویہ نگاہ کے مطابق ایک ہی شے کی حقیقت جاننے کے مختلف راستے بتاتا ہے اور یوں لوگوں میں تفرقہ کی بنیاد ڈالتا ہے۔ آج اُمتِ مسلمہ میں فرقہ پرستی کی بنیاد مختلف علماء کرام کا دین کے علم میں اختلاف ہی ہے کہ ہر عالم اپنی سمجھ کے مطابق دینِ اسلام کی نئی تشریح کرتا ہے۔ جن لوگوں کو اس کی تشریح کچھ مناسب معلوم ہوتی ہے وہ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں چنانچہ امت عبادات و عقائد کی بنیاد پر بے شمار فرقوں میں بٹی ہوئی مختلف راہوں پر چل رہی ہے۔ حالانکہ اللہ تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:

واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا
ترجمہ:''اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔
''یہاں' اللہ کی رسی' سے مراد مرشدِ کامل ہی ہے جو بندے کو اس کے رب تک پہنچاتا ہے۔ علماء کرام تو خود تفرقے میں پڑے ہوئے ہیں وہ کسی کو اللہ تک کیسے پہنچائیں گے۔

مرشدِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے باطنی جانشین' اُن کے نائب اور اُن کی امانتِ فقر کے وارث ہوتے ہیں۔ یہ ہمیشہ دنیا میں موجود ہوتے ہیں ا ور طالبانِ مولیٰ کو ان کے رب سے ملانے اور معرفتِ الٰہی کی تعلیم دینے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ دنیا کبھی ان سے خالی نہیں ہوتی۔ جو لوگ جعلی پیروں فقیروں کے چنگل میں پھنس کر اصل مرشدانِ کاملین سے بھی بدظن ہو بیٹھتے ہیں درحقیقت کھوٹ ان کی اپنی ہی نیت میں ہوتا ہے۔ جو مخلص ہو کر صرف اللہ کی طلب میں نکلے وہ کبھی دھوکہ نہیں کھاتا کیونکہ اللہ نے اپنی طرف آنے والے مخلصین کی رہنمائی کا خود وعدہ کیا ہے۔

والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا وان اللہ لمع المحسنین
ترجمہ: اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں کوشش اور جدوجہد کی ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے صحیح راستوں پر لگا دیں گے۔
اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ جن لوگوں کی طلب ہی دنیا اور دنیاوی مال و دولت' عزت و جاہ یا اللہ کی بجائے بہشت و حور و قصور ہو' ان کو رہنما بھی تو پھر ان کی طلب کے مطابق ہی ملے گا۔ البتہ جو لوگ خالص ہو کر صرف قرب و دیدارِ الٰہی کے خواستگار ہوں گے ان کی رہنمائی اللہ تعالیٰ ضرور کسی کامل رہنما کی طرف کر دیتا ہے۔ یہ مرشد کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس طریقہ کے مطابق طالب کے باطن کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ کرتا ہے جو قرآن پاک کی سورۃجمعہ میں مذکور ہے:

ھو الذی بعث فی الامین رسولاََ منھم یتلوا علیھم اٰیٰتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمت
ترجمہ: (اللہ)وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (باعظمت) رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھیجا جو ان پر آیات تلاوت کرتا ہے اور (اپنی نگاہِ کامل سے) ان کو پاک کرتا ہے اور کتاب کی(قرآن کی حقیقی باطنی) تعلیم اور حکمت عطا کرتا ہے۔''
مرشد طبیب کی مانند سالک کی روح کو روحانی بیماریوں' حسد' تکبر' بہتان' غیبت' بغض' کینہ' بدگمانی' عجب یعنی خود پسندی یا خودنمائی' ہوس' طمع لالچ' حرص وغیرہ تمام باطنی بیماریوں سے پاک کرتاہے۔ مرشدِ کامل کی مہربانی اور اسم اللہ ذات کے ذکر و تصور سے طالب باطنی پاکیزگی کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی روح روحِ قدسی کہلاتی ہے۔ روحِ قدسی ہی وہ روح ہے جو اپنی پاکیزگی کی وجہ سے اللہ کے انتہائی قریب پہنچ کر اللہ کا دیدار اور پہچان حاصل کر سکتی ہے۔ یہی وہ روح ہے جو انسان کی پیدائش کے وقت اس کے اندر موجود تھی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا

لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم
مرشدِ کامل روح کو پاکیزہ بنانے کے لیے سالک کی تربیت اس طریقے سے کرتا ہے کہ اس کو دنیا کی حقیقت معلوم ہوجاتی ہے۔ روحِ قدسی جب اللہ کے دیدار کی لذت پالیتی ہے تو دنیا کی فانی اور وقتی لذات اس کے لیے بے معنی ہو جاتی ہیں اور انہیں پانے کی تگ و دو کرنے کی بجائے وہ اللہ کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے دل سے مال و زر کی ہوس نکل جاتی ہے۔ اللہ کی رضا کے سامنے دنیا کی ہر شے ہیچ نظر آنے لگتی ہے۔ وہ اللہ کی رضا کی خاطر عاجزی و انکساری اختیار کرتا ہے۔ اللہ کی محبت اسے دنیا کی خواہشات سے نجات دلا کر دوسروں کی محتاجی سے خلاصی عطا کرتی ہے اور وہ اپنے رب کے سوا نہ کسی سے کوئی توقع رکھتا ہے نہ کچھ طلب کرتا ہے۔ بلکہ اس کی عاجزی و انکساری اور اللہ پر اس کا مکمل توکل اسے ہر حال میں اپنے رب سے راضی رہنا سکھا دیتا ہے۔ وہ نہ صرف لالچ اور حرص سے نجات حاصل کرتا ہے بلکہ اپنے رب کے سوا کسی غیر کا خوف بھی دل میں نہیں رکھتا۔ یوں اسے کوئی طاقت غلط کام کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ وہ جان لیتا ہے کہ قربِ خداوندی سے بڑھ کر دنیا و آخرت میں کوئی مرتبہ نہیں اس لیے دنیاوی مال و دولت' منصب و تکریم' شان و شوکت اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے اور ان کے حصول کے لیے وہ کبھی غلط قدم نہیں اٹھاتا۔ وہ جانتا ہے کہ جس دل میں بغض' حسد' کینہ' تکبر اور نفرت جیسی آلائشات ہوں وہاں اللہ کبھی نہیں آسکتا اس لیے لوگوں کے ساتھ بھی اپنے رویوں کو پاکیزہ بنا لیتا ہے اور کسی کے لیے اپنے دل میں میل نہیں آنے دیتا۔ یوں مرشد کامل کی مہربانی سے نہ صرف اس کا باطن درست ہوجاتا ہے بلکہ ظاہر بھی۔ معرفتِ الٰہی کے حصول کے بعد وہ حق الیقین سے اس بات کو جان لیتا ہے کہ اللہ ہر وقت اس کے پاس ہے اور اس کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے' چنانچہ خشیتِ الٰہی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور وہ خود کو گناہوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

انما یخشی اللہ من عبادہ العلموا
ترجمہ: اللہ کے بندوں میں سے اہلِ علم ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔
یہاں علم سے مراد دنیاوی علم نہیں بلکہ اللہ کی معرفت کا علم ہے جو صرف مرشد کامل اکمل سے حاصل ہوتا ہے۔

تحریر : خادم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس
Hamid Jamil
About the Author: Hamid Jamil Read More Articles by Hamid Jamil: 18 Articles with 61109 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.