کون دے گیا شہر کو پانی۔۔۔نعمت اﷲ خان و افغانی
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
ایک دفعہ لیاری میں پانی کی شدید
قلت ہوئی لوگ دور دور سے پانی بھر کر اپنے گھروں میں لا رہے تھے ۔عبدالستار
افغانی صاحب اس وقت میئر کراچی تھے وہ بھی اپنے بیٹوں کے ساتھ بالٹی لے کر
پانی بھرنے نکلے کہ اتنے میں کسی بلدیہ کے ملازم نے دیکھ لیا اور واٹر بورڈ
کے افسران کو اطلاع دی کہ میئر کراچی اپنے بچوں کے ساتھ خود بالٹی لے کر
اپنے گھر کے لیے پانی بھرنے نکلے ہیں ۔متعلقہ افسر نے فوری طور پر ایک
ٹینکر افغانی صاحب کے گھر بھجوایا ،افغانی صاحب نے یہ کہہ کر ٹینکر واپس
کردیا کہ یا تو لیاری کے ہر گھر کے لیے ٹینکر بھیجو یا اسے بھی واپس لے
جاؤمیں اسی طرح پانی بھروں گا جیسے لیاری کے اور لوگ بھررہے ہیں ۔
افغانی صاحب کے دور میں جب پانی کی قلت ہوتی تو مخالفین جلوس لے کر دفتر
آجاتے اور پی گیا شہر کا سارا پانی ۔۔۔عبدالستار افغانی کے نعرے لگاتے ہوئے
ان کے کمرے تک آجاتے تھے ۔افغانی صاحب آنے والے جلوس کا خیر مقدم کرتے ان
کی بات سنتے اور متعلقہ افسران کو ہدایت دیتے کہ ان کا مسئلہ فوراَحل کیا
جائے،اور شرکاء سے کہتے کہ اگر دو دن میں آپ کا مسئلہ حل نہ ہو تو آپ بتایے
گا میں افسران کے خلاف سخت کارروائی کروں گا،بہرحال افغانی صاحب ایسی محبت
والے انداز سے مشتعل مجمع کو مطمئن کرتے تھے کہ وہ لوگ جو افغانی صاحب اور
جماعت اسلامی کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے آتے تھے وہ جب واپس جاتے تو افغانی
صاحب زندہ باد اور جماعت اسلامی زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے جاتے تھے اس
طرح کے کچھ واقعات میرے سامنے بھی ہوئے تھے اس لیے میں اس کا عینی شاہد ہوں
۔
جب پانی کی یہ قلت تسلسل سے بڑھتی رہی تو افغانی صاحب نے اپنے دور میں دو
بڑے اہم پروجیکٹس پر کام کا آغاز کیا اور اپنے ہی دور میں اسے مکمل کیا
پہلا کام تو یہ کیا کہ حب ڈیم منصوبہ جو ایوب خان کے دور سے التواء کا شکار
تھا اس کی دبی ہوئی فائل کو نکلوایا اور حب ڈیم پر تیزی سے کام کا آغاز کیا
جس کی تکمیل کے بعد کراچی کے شہریوں کو 100ملین گیلن پانی اضافی ملنے لگا
جس سے نارتھ کراچی اور نارتھ ناظم آباد کے علاقوں کو پانی ملنے لگا جہاں
پہلے پانی کی شدید قلت ہوتی تھی۔دوسرا اہم پروجیکٹ تھرڈ فیز کی تکمیل تھی
جس سے نارتھ کراچی اور سرجانی ٹاؤن کو پانی کی سہولت میسر ہوئی ۔ان ہی دنوں
میں ایک چھوٹاسا اہم کام یہ بھی ہوا کہ ڈویژنل رابطہ کمیٹی کے چیر مین جناب
مظفر احمد ہاشمی جو واٹر اینڈ سیوریج بوارڈ کے تاسیسی رکن ہیں نے اسٹیل مل
کے چیرمین سے مذاکرات کیے اور ان سے کہا کہ آپ اپنے مل کی ضرورت کے لیے
اگرخود پانی کا انتظام کرلیں تو کئی ملین پانی روزانہ کراچی کے شہریوں کو
اضافی مل جائے گا چنانچہ انھوں نے اوپن کینال کے ذریعے اپنے مل کی ضرورت
پوری کرنے کا انتظام کر لیا ۔
1987میں افغانی صاحب کو گرفتار کر کے بلدیہ کراچی کو توڑ دیا گیا جرم یہ
تھا کہ وہ کراچی کے شہریوں کے لیے موٹر وہیکل ٹیکس کا مقدمہ لے کر اپنے
سیکڑوں کونسلرز ساتھیوں کے ساتھ میدان عمل میں آگئے تھے ۔اگر ان کے رہتے
ہوئے بلدیاتی انتخاب ہوتے تو تیسری بار بھی کراچی کے شہری امید تھی کہ
انھیں ہی منتخب کرتے لیکن جنرل ضیاء کا غصہ اپنے شباب پر تھا کہ کچھ عرصے
قبل ہی کراچی بلدیہ کے ایوان میں افغانی صاحب نے اس قرار داد کو پیش ہونے
سے روک دیا تھا جس میں جنرل ضیاء کو تا حیات صدر بنانے کا مطالبہ کیا گیا
تھا اس کے علاوہ جماعت اسلامی سے بھی ان کی طویل عرصے سے مخاصمت پہلے ہی سے
تھی اگ اس وقت یہ سیاسی مسائل نہ ہوتے اور جماعت اسلامی کو تیسری بار بلدیہ
کی میئر شپ ملتی تو آج کراچی میں پانی کا مسئلہ نہ ہوتا بعد میں جو قیادتیں
آئیں انھوں نے ایک گیلن پانی حصول کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ۔
1947میں کراچی کی آبادی تین لاکھ تھی 2002کی مردم شماری کے مطابق اس کی
آبادی 15.2ملین یعنی ایک کروڑ باون لاکھ تھی ایک اندازے کے مطابق 2020میں
اس شہر کی آبادی 27.5ملین یعنی دو کروڑ پچھتر لاکھ ہو جائے گی ۔11مئی
1957کراچی کے لیے پانی کا جو کوٹہ مقرر کیا گیا تھا وہ 450 cusecsیعنی 242
MGD/dayاس ملین گیلن کا مطلب ہے کہ اس وقت کراچی کو روزآنہ دو کروڑ بیالیس
لاکھ گیلن پانی ملتا تھا جو بعد میں بڑھ کر 520 cusecs 280 MGDہو گیا
.۔31سال بعد افغانی صاحب کے دوسرے دور میں یعنی 1985میں کراچی کو 1200
cusecs 650 MGDپانی کا کوٹہ مقرر کیا گیا جس میں یہ بات شامل تھی کہ K-111
کا پروجیکٹ مکمل کیا جائے گا۔اور دوسرا کام یہ ہوا جو اوپر بیان کیا جاچکا
ہے کہ حب ڈیم کو تیار کیا گیا جس سے سو ملین گیلن پانی ملنے لگا تھا ،لیکن
K-111پروجیکٹ کی تکمیل جناب نعمت اﷲ خان کے دور میں ان کی انتھک کوششوں سے
ہو چکی تھی لیکن یہ عملاَ2006میں اس کا آغاز ہوا جناب نعمت اﷲ ایڈوکیٹ سابق
میئر کراچی نے K-111کی تکمیل کے بعد K-1Vکے منصوبے پر کام کیا اور اپنے ہی
دور میں اس کی فزیبلٹی Feasibiltyبنا کر دے گئے تھے اور اس پروجیکٹ کو 2010
میں مکمل ہوکر شروع ہوجانا چاہیے تھا اور 2015 تک اس کو مزید وسعت دینا تھا
جب کہ اب اس سال یعنی 2015 میں اس ماہ جون میں وزیر اعلی ٰ نے اس کا افتتاح
کیا ہے اگر دوسری دفعہ موقع ملتا تو نعمت اﷲ صاحب K-1Vمکمل کروالیتے ،لیکن
افسوس ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو اس شہر کا اصل اسٹیک ہولڈر کہتے ہیں انھوں
نے اپنے دور میں K-1Vکے منصوبے کی فائل ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھائی جب کہ
مرکزی اور صوبائی حکومتیں بھی ان کے پاس تھیں پچھلے دنوں ایک مقامی ہوٹل
میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے معززین شہر اینکر پرسن
اور کالم نگاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہ" آج کراچی میں ایم کیو ایم کس منہ سے
پانی کے بحران پر مظاہرے کررہی ہے جب کہ یہ خود اس بحران کی ذمہ دار ہے کہ
کراچی کے شہریوں کی بنیادی ضرورت کا یک منصوبہ جس پر فائلنگ ورک کا کام ہو
چکا بس اس کو شروع کرانا تھا وہ نہیں کراسکے 2015میں اس وقت کراچی کی آبادی
دو کروڑ چھبیس لاکھ ہے اور اس وقت کراچی کے شہریوں کی پانی کی ضرورت 1250
MGDہے لیکن جو پانی مل رہا ہے وہ 650 MGDہے اس میں 550 MGDدریائے سندھ سے
کنجھر لیک اور دھابیجی پمپنگ سسٹم کے ذریعے آتا ہے اور 100 MGDحب ڈیم سے
۔آئندہ دس سال بعد یعنی 2025میں پانی کی ضرورت بڑھ کے 1725 MGDہو جائے گی
۔"
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حب ڈیم بند ہے دوسری طرف انڈس سسٹم سے 450 MGDکے
بجائے 400 MGD پانی مل رہا ہے جب کہ 50 MGDکا نقصان Lossesمیں جارہا ہے جن
کی وجوہات میں پمپنگ مشینوں کے مسائل (تکنیکی خرابیاں اور بجلی لوڈشیڈنگ)
پانی کے لیکیجزLeakagesپورٹ قاسم اور سٹیل مل کو فراہمی اس کے علاوہ پانی
کی چوری ،کراچی میں جہاں اور مافیائیں اپنے پنجے جمائے ہوئی ہیں وہیں سب سے
مضبوط ٹینکر مافیا ہے جو کراچی کے شہریوں کا پانی چوری کرکے کراچی شہریوں
کو فروخت کرتی ہے اور پانی کے بحران کے زمانے میں دو ہزار والا ٹینکر چار
ہزار میں فروخت ہونے لگتا ہے ۔
اس وقت پانی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے چند اقدامات اٹھانے ضروری ہیں سب
سے پہلے تو بارش کے لیے دعاؤں کی ضرورت ہے ابھی پچھلے دنوں سابق سٹی ناظم
جناب نعمت اﷲ صاحب نے حب میں جا کر نماز استسقیٰ ادا کی ہے سنا ہے کہ
بلوچستان میں کچھ مقامات پر بارش ہوئی اور حب ڈیم میں کچھ پانی آیا ہے ۔اس
کے علاوہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ حال ہی میں جس نئے پروجیکٹ کے فور
کا افتتاح ہوا ہے وہ بحریہ ٹاوٗن والے نہ لے جائیں اور کراچی کے شہری پھر
پریشان ہوں ۔ایک تجویز یہ بھی ہے کہ سمندری پانی کو میٹھا بنانے کی کوشش کی
جائے کراچی میں جو نئے اور بڑے بڑے اربوں روپئے کی مالیت کے رہائشی عمارتیں
بن رہی ہیں ان کے مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ جہاں اربوں روپئے خرچ
کرکے پروجیکٹ بنارہے ہیں وہیں پچاس ساٹھ لاکھ خرچ کر کے اپنا آر او R O
Plant پلانٹ بھی لگائیں ،اس طرح کے اقدامات سے ہم پانی کے بحران پر کچھ
قابو پا سکتے ہیں بس اخلاص کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ |
|