ایجوکیشن کی صورتحال
(Sami Ullah Khan, Mianwali)
سرکارِ دو جہاں کا فرمان
ہمارے لیئے مشعل راہ ہے’’علم حاصل کرناہرمسلمان مردوعورت پر فرض ہے۔‘‘ مگر
افسوس کہ ہم جہالت کے قعر مذلت کی عمیق گہرائیوں میں بصد شوق غوطہ زن ہیں
۔ہم شاید دنیا کی وہ پہلی امت ہیں جن کے پاک رسول ﷺ نے کفار کے جنگی قیدیوں
سے فدیہ کے بدلے اپنے بچوں کو تعلیم کا ہنردینے کافرمایامگرصدافسوس ہم قرآن
و رسول پاک ﷺ کی اس قیمتی تعلیم کو نظراندازکربیٹھے اورآج استعمار کی قوتیں
زمین کے ہرکونے پرمسلم خون سے کھیل رہی ہیں ۔ ہم نے اولیاء کی سرزمین
پردورحاضرکے اہل نظرکوکہتے سناکہ ’’دوسری زبانیں سیکھنا اﷲ کی معرفت میں
داخل ہوناہے۔‘‘مگر آج بھی ایسے ناعاقبت اندیش موجود ہیں جوسائنس سے دوری
کودینی کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں یاپھر جو اس چیز کو سمجھتے ہیں وہ اپنے
بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلواتے ہیں اورپاکستان میں محض حکومت کرنے آتے
ہیں۔
امریکہ کے پہلے اعزازی شہری بننے والے برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چرچل نے
جنگ عظیم دوم کے دوران جنگ کی تباہ کاری کے اثرات سے متعلق کسی کے استفسار
پر کہا کہ جب تک ہماری درسگاہیں علم بانٹ رہی ہیں اور عدالتیں انصاف فراہم
کر رہی ہیں اسوقت تک برطانیہ قائم رہے گا اور آج پاکستان سے کم رقبہ کا
حامل برطانیہ ہم سے ہزارہاقدم آگے ہے۔ہمارا حال یہ ہے کہ درسگاہوں کاعالمی
معیار جانچنے والے ادارے ٹائمز ہائیر ایجوکیشن (ٹی ایچ ای)کی 2015کی فہرست
میں ارضِ وطن کی ایک درسگاہ بھی شامل نہیں ۔ ہندوستان کے ادارے انڈین
انسٹیوٹ آف سائنس نے 37ویں پوزیشن حاصل کی ہے جو کہ پچھلے برس پنجاب
یونیورسٹی کے پاس تھی۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرارنے
کہا کہ ’’ان خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستان میں وسائل کا فقدان ہے
اورریسرچ اورڈویلپمنٹ کیلئے مشکل سے ہی رقم مختص کی جاتی ہے اس طرح کی
صورتحال میں اداروں کیلئے ریسرچ کا کلچرپیداکرنامشکل کام ہے۔‘‘ان کا یہ
شکوہ کسی حد تک بجا بھی ہے کیونکہ ہمارے ہاں جی ڈی پی کا چھ فیصد تعلیم
کیلئے مقرر کرنا اب ایک خواب بن کر رہ گیاہے۔اسکے ساتھ ساتھ اس حقیقت سے
بھی انکار ممکن نہیں کہ پچھلے برس چاروں صوبوں میں مکمل تعلیمی بجٹ خرچ ہی
نہ ہوسکایاپھرادھورے اوربے معنی منصوبوں پر خرچ ہوتارہا۔ٹی ایچ ای کے
ایڈیٹر فل باٹے نے بھی پاکستان میں یونیورسٹیز کیلئے فنڈز کی کمی کا
رونارویاانہوں نے کہا کہ ہمارے معیارپرپورااترنے کیلئے پانچ شعبوں
تدریس۔تحقیق۔مثالوں کے اثرات۔صنعتوں سے آمدنی اوربین الاقوامی نکتہ نظر میں
مضبوط کارکردگی کا ہونالازمی ہے‘بدقسمی سے ہمارے ہاں ان کا فقدان ہے۔اپنے
فنڈمیں سے زیادہ رقم خرچ کرنے کے حوالے سے پہلانمبرپنجاب ہی کو حاصل
رہا۔ہمارے بعد وجود میں آنے والے ہمسایہ ملک چین نے اکیس یونیورسٹیوں کے
ساتھ اس سروے میں مجموعی طورپر پہلی پوزیشن حاصل کرلی ہے جبکہ پہلی
یونیورسٹی کا اعزاز ایٹم بم سے زخم خوردہ جاپان نے حاصل کیا۔
پاکستان ایجوکیشن سٹیٹ اسٹکس کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر کے ایک لاکھ
پینتالیس ہزار چارسواکیانوے سرکاری ونجی سکولوں میں ایک کروڑ سترلاکھ بچوں
نے داخلہ لیا‘جبکہ اٹھارہ لاکھ چالیس ہزارطالب علموں نے چودہ ہزار پانچ
سورجسٹرڈمدرسوں میں داخلہ لیا۔ان مدارس میں سے محض 393سرکاری طورپرچلائے
جارہے ہیں باقی نجی ملکیت ہیں۔
پرائمری سکول
اکیڈمی برائے تعلیمی منصوبہ بندی و مینجمنٹ ‘ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن
سسٹم اورتعلیمی مہم الف اعلان کی یہ رپورٹ ہمارے دعوں کی قلعی کھولتے ہوئے
بیان کرتی ہے کہ2011-12میں پرائمری سکولوں میں داخل ہونے والے بچوں کی
تعدادایک کروڑ ‘75لاکھ‘67ہزار‘5سواکیاسی تھی۔رتی بھر اضافے کے ساتھ یہ
تعداد سن 2012-13 میں ایک کروڑ ‘75لاکھ ‘74ہزار ‘آٹھ سو انچاس ہوگئی ۔جبکہ
2013.14میں پرائمری سکول کے طلباء کی تعداد ایک کروڑ ‘ 78لاکھ‘69ہزار‘آٹھ
سوانسٹھ تھی۔
تعلیمی منصوبہ بندی میں سب سے اہم چیز اساتذہ اورطالب علموں کے مابین رابطہ
وہم آہنگی ہے۔اگرطالب علم کم ہوں گے توانہیں استاد کے ساتھ رابطہ میں آسانی
ہوگی جس سے انکاتعلیمی معیار بلند ہو گالیکن اس رپورٹ کے مطابق پنجاب کے
پرائمری سکولوں میں یہ شرح ایک استاد تینتیس طلباء‘جبکہ سندھ میں ایک استاد
انتیس طلباء ‘بلوچستان میں ایک استاد بتیس طلباء‘خیبرپختونخواہ ایک استاد
43طلباء اور اسلام آباد میں یہ شرح فی استاد 28طلباء ہے۔
ہائی سکول
ہائی اسکولوں میں اگرتناسب کو دیکھاجائے تو وہ پچھلے عرصے کے مقابلے میں
گزشتہ سال کم ہوتادکھائی دیتاہے۔تعلیمی سال 2011-12کے دوران 26لاکھ
‘91ہزارپانچ سوپچانوے طلباء نے سکولوں کا رُخ کیا۔2012-13میں اس تعداد میں
اضافہ ہوااوریہ تعداد 28لاکھ ‘پینتیس ہزار‘تین سوچھبیس تک جاپہنچی
۔2013-14کے تعلیمی سال میں اس میں کمی دیکھنے میں آئی اور یہ تعداد 23لاکھ
‘اٹھارہ ہزار‘آٹھ سوچالیس تک محدود رہی۔
یونیسکورپورٹ
ہم اگر سکول کی سطح پر تعلیم کا جائزہ لیں تو سرکاری اعدادوشمارکے مطابق
54لاکھ بچے سکول جانے سے قاصر ہیں اورجو سکول جاتے ہیں وہ دسویں جماعت تک
نہیں پہنچ پاتے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم یونیسکو نے سن 2000میں
تعلیم کیلئے اہداف مقررکیئے تھے جن میں بچوں کا سکول میں داخلہ ‘بالغ افراد
کی خواندگی کی شرح کو نصف کرنا‘ثانوی تعلیمی سطح تک لڑکیوں اورلڑکوں
کاتناسب برابرکی سطح تک لے جاناشامل ہے۔2015کے حوالے سے یونیسکوکاکہناہے کہ
پاکستان تعلیمی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ جبکہ جنوبی ایشیاکے
حوالے سے یونیسکونے ہندوستان‘ایران اورنیپال کی پیش رفت کو سراہتے ہوئے
پاکستان کو اس سے پیچھے رہ جانے والاملک قراردیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ
سن2014میں پاکستان کے مغربی صوبہ بلوچستان کے 33فیصد بچے اردو اورمقامی
زبان میں کہانی پڑھ سکتے تھے اورپنجاب میں انکی تعداد63فیصد ہے۔ادارے نے یہ
بھی کہا کہ اصلاحات کو سیاسی ترجیح نہیں دی جاتی اور نہ ہی انہیں عوامی
حمایت حاصل رہتی ہے۔
یونیسکو کے عالمی تعلیمی ڈائجسٹ شمارہ 2009کے مطابق 6.3فیصدپاکستانی
2007میں جامعات سے فارغ التحصیل تھے۔پاکستان ان اعدادوشمار کو 2015میں دس
فیصد اور 2020تک 15فیصد کرنے کاارادہ رکھتاہے۔جس کی تاحال کوئی صورت نظر
نہیں آتی۔ 2001میں سینیگال کے دارلحکومت ڈاکارمیں دنیا کے 164ممالک نے
2015تک تمام بچوں کو سکول داخل کروانے کے اعلامیے پر دستخط کیئے تھے لیکن
یونیسکو کی حالیہ رپورٹ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ پاکستان اپنے ہدف
تک پہنچنے میں ناکام رہاہے۔
جنوبی ایشیا میں بچوں کے سکول چھوڑنے کی شرح بہت کم ہوئی ہے اورپاکستان میں
یہ شرح بہت زیادہ ہے۔یونیسکوکے مطابق پاکستان پرائمری کی سطح پربچے
اوربچیوں کے تناسب کو برابرکرنے کی سطح پر پہنچ چکاہے۔
گھوسٹ سکول
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں گھوسٹ سکولوں کی
تعداد چھ ہزار چارسوسے زیادہ جبکہ بلوچستان میں یہ تعداد پانچ ہزار
ہے۔گھوسٹ سکولوں سے سینکڑوں اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں یہی وجہ ہے
کہ پاکستان میں 2010میں بدعنوان ترین شعبوں میں تعلیم جیسامقدس ادارہ چوتھے
نمبرپرتھا۔ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں 83جبکہ خیبرپختونخواہ میں 1300کے
قریب گھوسٹ سکول ہیں ۔یہ سکول مقامی بااثرافراد یا کسی اورمحکمے کے کنڑول
میں ہیں ۔ان اسکولوں کے اساتذہ محکمہ تعلیم پر بوجھ ہیں ۔ان کی بڑی وجہ
محکمہ میں سیاسی مداخلت ہے۔جب جعلی ڈگری والے منتخب ہوں گے تو ہم اُن سے
بہترمعیارِ تعلیم کی کتنی اُمید رکھ سکتے ہیں؟پنجاب میں گھوسٹ سکولوں کی کم
تعداداس بات کا مظہر بھی ہے کہ مکمل نہ سہی لیکن ’’پڑھوپنجاب
۔۔بڑھوپنجاب‘‘پرکسی نہ کسی طورعمل ضرور ہورہاہے۔پنجاب کے 36اضلاع میں پنجاب
ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے مالی تعاون سے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد
پندرہ لاکھ ہوچکی ہے جبکہ صوبے کے 55ہزاربچے پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ
کے ذریعے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔باقی صوبوں کو بھی قدم بڑھاناہوں گے ۔
ان سب معاملات کی جڑ تک پہنچنے کیلئے ہمیں اپنے نظام تعلیم کاازسرنوجائزہ
لیناہوگا۔ہمیں یہ سمجھناہو گاکہ کوئی بھی بچہ محض والدین کانہیں بلکہ ریاست
کا بھی اثاثہ ہے۔ہمارے شہروں ‘دیہاتوں ‘غریبوں اورامیروں کیلئے نظام تعلیم
الگ الگ ہیں ۔ملک کی شرح خواندگی کو بہتربنانے کیلئے سول سوسائٹی ‘والدین
‘معاشرے کہ ذمہ دار افراد سمیت اس قوم کہ ہر فرد کو ایک مشن لے کر
نکلناہوگاتب جاکرہم جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں سے اپنی قوم کو نکال پائیں
گے۔
اساتذہ کے مسائل
دنیاکے تمام ترقی یافتہ ممالک میں اساتذہ کو معاشرتی طورپر بہترین مقام
حاصل ہے۔ عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹوں کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ
خلیفہ نے بچوں کو ڈانٹاکہ تم محض لوٹے سے استاد کے پاؤں دھلوارہے ہوجبکہ
تمہارافرض تھاکہ دوسرے ہاتھ سے استاد کے پاؤں بھی دھوتے۔جب تک کسی معاشرے
میں استاد کو اس کامقام نہیں دیاجاتااسوقت تک وہ معاشرہ مہذب ‘خواندہ
اورترقی یافتہ نہیں بن سکتا۔پاکستان میں فوج کے بعد دوسرابڑاادارہ محکمہ
تعلیم ہے جس میں اگرسرکاری ونجی اسکولوں کے اساتذہ کی گنتی کی جائے تو یہ
تعداد16لاکھ سے زائد بنتی ہے مگراساتذہ پوری عمرایک اچھے مکان کوترستے رہتے
ہیں ۔تعلیمی سال کے دوران انہیں الیکشن‘خسرہ‘ڈینگی‘پولیو اوریوتھ فسٹیول
سمیت کئی کاموں میں غرقاب کیاجاتاہے جس سے اساتذہ کی نفسیات سمیت بچوں کے
مستقبل پر بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔حکومت کو چاہیئے کہ اساتذہ کو مالی
ومعاشرتی سطح پر ایک اچھے مقام کا حامل بنائے نہ کہ گلی گلی گھوماکران کی
تذلیل کی جائے۔
٭یکساں نظام تعلیم ملکی فلاح کیلئے اشدضروری ہے۔امیر‘غریب‘شہراوردیہات
‘پنجاب اورسندھ کی تفریق ختم کی جائے۔
٭ فنی ادارے قائم کیئے جائیں یا انہی اسکولوں میں فنی تربیت کا بندوبست
کیاجائے۔پرائمری سے جامعات تک ایسی حکمت عملی اپنائی جائے کہ غریب بچے عصری
علوم کے ساتھ ساتھ ایک دوگھنٹے فنی تعلیم حاصل کرکے مصنوعات تیارکریں جنھیں
سرکاری سطح پرخریدا جائے یا پھر انکے اسٹال لگانے میں حکومت مددکرے ۔اس
کافائدہ یہ ہوگاکہ والدین اپنے بچوں کو ورکشاپ بھیجنے کے بجائے اسکول
بھیجیں گے۔
٭
٭نظام تعلیم سے مایوسی کا بڑاسبب نوکریوں کانہ ملنا اورمیرٹ کا خون کرنا
بھی ہے۔یہ بھی ہمارے نظام تعلیم ہی کی خرابی کی مرہون منت ہے۔آپ کو چپڑاسی
کی نوکری کیلئے ایم اے پاس افراد درخواست دیتے اس لیئے نظر آتے ہیں کہ ہائی
سکول کی تعلیم کے بعد ان کے مستقبل کا فیصلہ دوسرے ممالک کی طرح ماہرین
تعلیم کی کسی کمیٹی نے نہیں بلکہ ان کے لاعلم والدین یاپھربھیڑ چال نے
کیاتھا۔ہمیں چاہیئے کہ فنی تعلیم کے ادارے قائم کریں۔ایک جیسانظام تعلیم
لائیں ۔ بچوں کے رجحان کے مطابق ان کے تعلیمی مستقبل کا فیصلہ کریں اور
تعلیمی اداروں میں تربیت کا بھی مناسب بندوبست کریں تاکہ ایک پڑھے لکھے فرد
کی شخصیت سے مترشح ہو کہ ہم نے اسے نہ صرف کاغذقلم دیاہے بلکہ ایک مربوط
ومضبوط نظام تعلیم کے تحت اسکی اخلاقی تربیت بھی کی گئی ہے۔
سائیڈ سٹوری:
اے ای پی اے ایم کی رپورٹ کے مطابق تعلیم کے میدان میں پاکستان بنگلہ دیش
سے نچلی سطح پر جبکہ سری لنکاسے بہت نیچے ہے۔
کوالٹی سٹینڈرڈ ورلڈیونیورسٹی رینکنگ 2010کے مطابق دنیا کی 200بہترین
جامعات میں پاکستان کی صرف 2جامعات شامل ہیں۔
ہماری سرزمین بانجھ ہوتی تو اس کے سپوت ایٹم بم بنانے سے قاصررہتے
‘ڈاکٹرعبدالسلام کو نوبل پرائز نہ ملتا۔
ایوب امیہ نے نیوروسرجن کے طورپراپنی فیلڈ میں بہت بہترین ریسرچزکیں ۔کم
وبیش 150کے لگ بھگ ریسرچ پیپرزان سے منسوب ہیں ‘انھوں نےommaya reservoir
medical procedureکی بھی بنیاد رکھی۔
مہاب الحق ایسے جہاندید پاکسانی ماہرمعیشت ہیں جنھوں نے ہندوستانی امرتیہ
سین کے ساتھ مل کرہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کی بنیادرکھی۔جوکہ جدید انٹرنیشنل
معیارکے مطابق ہیومن ڈویلپمنٹ کو ماپنے اورریٹنگ کرنے کا ذریعہ ہے۔
سائنسدان عطاء الرحمن نے اپنی فیلڈ نیشنل پروڈکٹ کیمسڑی میں گراں قدرخدمات
انجام دیں۔ ان سے 935ریسرچ پیپرز منسوپ ہیں۔
چند دن قبل کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک بچے حباب ادریس نے امریکامیں
منعقد ’’انٹیل سائنس‘‘کے میلے میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔اس آلے کی مدد سے
واٹرٹینک اوردیگراشیاء کا درجہ حرارت برقراررکھاجاسکتاہے۔ا س کے ذریعے خشک
پھلوں کا درجہ حرارت بھی برقراررکھاجاسکتاہے۔
گزشتہ برس عمرانورجہانگیرنے عالمی اقتصادی فورم کے سب سے کم عمر مندوب کا
اعزازحاصل کیا۔
|
|