نریندر مودی کا فون اور مسئلہ ِ کشمیر
(Naeem Ur Rehmaan Shaaiq, Karachi)
پچھلے دنوں بھارتی وزیر ِ اعظم
نریندر مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو فون کیا ۔ انھوں نے وزیر ِ اعظم
نواز شریف کو رمضان المبارک کی آمد پر مبارک باد دی ۔ اس کے علاوہ انھوں نے
پاکستانی مچھیروں کی رہائی کی نوید بھی سنائی ۔ دونوں رہنماؤں نے متانازعہ
بیانات نہ دینے پر اتفاق کیا ۔ یہ گفتگو پانچ منٹ تک جاری رہی ۔ بھارتی
وزیر ِ اعظم نے اس گفتگو میں کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے
ہیں ۔ اس موقع پر پاکستانی وزیر ِ اعظم نے اپنےبھارتی ہم منصب کو سمجھاتے
ہوئے کہا کہ ہمیں جنگ اور اختلافات کی بہ جائے امن و محبت کی طرف جانا
چاہیے ۔ تاکہ دونوں ملکوں کے عوام اپنے لیڈروں کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد
رکھیں ۔ قوموں کے حکم ران گھر کے سربراہ کی طر ح ہوتے ہیں ، جو اپنے خاندان
کو لڑائی جھگڑوں سے بچا کر امن کی طرف لے جاتے ہیں اور ہر آفت سے ان کی
حفاظت کرتے ہیں ۔ ان کی نظر میں کنبے کی فلاح ہر حال میں مقدم ہوتی ہے۔
بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی کی طرف سے اٹھایا گیا یہ اقدام واقعی قابل
ِ تعریف ہے ۔ یہ انصاف نہیں ہے کہ ان کی پاکستان مخالف تقریر کو تو ہم "
قابل ِ تذمیم" کہیں ۔لیکن ان کے متنازعہ بیان نہ دینے پر اتفا ق کے اقدامکی
ذرا بھی تعریف نہ کریں ۔ انصاف یہ ہے کہ غلطی اپنے بھی کریں تو سرزنش کی
جائے ۔ اچھائی غیر بھی کریں تو تعریف کی جائے ۔ بلاشبہہ یہ ہمارے وزیر ِ
اعظم کی مفاہمت پر مبنی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے بھارتی ہم منصب پگھل
گئے ۔ ورنہ طبل ِ جنگ تو دونوں طرف سے بج رہا تھا ۔ نریندر مودی کے پاکستان
مخالف بیانات کے بعد انڈیا اور پاکستان ، دونوں کی طرف سے شدید بیان بازی
کے گولے برسائے جارہے تھے ۔ کچھ بیانات پڑھ کر تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ
بس اب جنگ شروع ہونے کو ہے ۔ ہمارا دانش ور اور قلم کا ر طبقہ بھی شدید غصے
میں مبتلا تھا ۔ لیکن صاحبان ِ بصیرت جانتے تھے کہ برف ضرور پگھل جائے گی ۔مجھے
بھی جنگ کے امکانات دوردور تک دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔چناں چہ ایسا ہی ہوا
۔ ہمارے وزیر ِ اعظم کے مصلحت پر مبنی بیانات کام آگئے ۔ نریندر مودی سوچنے
پر مجبور ہوگئے ۔ بالآخر انھوں نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو فون کر دیا ۔یوں
وہ مصلحت پر اتر آئے ۔
نریندر مودی اس بات کا بھی ادراک رکھتے ہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے ۔
کسی ایٹمی طاقت سے الجھاؤ کے نتائج اچھے نہیں ہوتے ۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں
کہ" پاکستان میانمار نہیں "۔اگر رن پڑا تو زور کا پڑے گا ۔نقصان دونوں طرف
ہوگا ۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ پاکستانی وزیر ِ اعظم کی طرح مصالحت کی بات
کی جائے ۔نریندر مودی یہ بھی جانتے ہیں کہ اب یہ 1971 ء والا پاکستان نہیں
ہے ۔ یہ 2015 ء ہے ۔ اس وقت پاکستان ہر دفاعی خطرے سے نمٹنے کے لیے پوری
طرح تیا ر ہے ۔ پاکستان کو شکست ِ فاش دینا بہت مشکل ہے ۔ اس صورت میں امن
و سلامتی کا علم بلند کیا جائےتو بہتر ہے ۔
گو نریندر مودی نے وزیر ِ اعظم کو فون کرکے اس عزم کا بھر پور اظہار کیا ہے
کہ وہ خطے میں امن و سلامتی چاہتے ہیں۔ وہ تصادم سے گریز برتنا چاہتے ہیں ۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر دونوں ملکوں کے درمیان
امن وسلامتی کا پیدا ہونا عبث ہے ۔ پاکستان کو بھارت سے دیگر تحفظات بھی
ہیں ۔ مثال کے طور پر پاکستان کئی بار کہہ چکا ہے کہ بھارت اندر ہی اندر سے
پاکستان کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اسی طرح پاک چین اقتصادی راہداری
پرپاکستان کو بھارت کے موقف پر شدید اعتراض ہے ۔ اس کے علاوہ پانی کا مسئلہ
ہے ، جو دونوں ملکوں کے درمیان شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ لیکن ان تمام
مسئلوں میں سے سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کا مسئلہ ہے ۔ مبصرین تو یہاں تک کہتے
ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر جنوبی ایشیا میں امن کا خواب دیکھنا محض
خواب ہی ثابت ہوگا ۔ پھر کشمیریوں کے استقامت ، ہمت اور صبر کو جتنی داد دی
جائے ، کم ہے۔ بھارت 1948ء سے کشمیریوں کو دبانے کی کوشش کر رہاہے ۔ لیکن
آج بھی میرے کشمیری بھائی پاکستان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں ۔ جب وہ
پاکستان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں توبھارت کو یہ بات برداشت نہیں ہوتی ۔
بھارت کی سکیورٹی فورسز ان پر ظلم وستم کرتی ہے۔ان کے جذبہ ِ آزدی کو سلب
کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ ان کے دل سے پاکستان کی محبت نکالنے کی سعی کرتی ہے
۔ لیکن اس میں انھیں ذرا سی بھی کام یابی حاصل نہیں ہو تی ۔
بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی سے گذارش ہے کہ اگر وہ واقعی امن کے خواہاں
ہیں ، تو کشمیریوں کو حق ِ خود ارادیت دے دیں ۔ اقوام ِ متحدہ کی قرار
دادوں کے مطابق کشمیر کا مسئلہ حل کر دیں ۔ اس کے بعد ہی دونوں ملکوں کے
درمیان کشیدگی ختم ہو گی ۔ مسئلہ ِ کشمیر حل کیے بغیر "وقتی امن" تو قائم
کیا جا سکتا ہے ۔ "حقیقی امن "نہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ بھارتی وزیر ِ
اعظم وقتی امن چاہتے ہیں یا حقیقی امن ۔ |
|