بھارت پاکستان پر اس لیے
حملہ نہیں کرسکتا کہ ہمارے پاس بھی ایٹم بم موجود ہے جو بھارت کو بھی منٹوں
میں راکھ کا ڈھیر بنا سکتا ہے ۔ لیکن میری نظر میں بھارتی وزیر اعظم کی
دھمکی کا مقصد صرف یہ ہے کہ اقتصادی راہداری کے منصوبے سے توجہ ہٹائی جائے
۔پہلے پاکستان میں اپنے زر خرید غلاموں کے ذمے یہ کام لگایا تھا جب وہ
ناکام ہوئے تو خود میدان میں اتر گئے ہیں اور کھلم کھلا مخالفت کردی۔ ان
حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام اور سیاست دان ذاتی مفادات
اور اختلافات کو فراموش کرکے یک قالب یک جان ہوجائیں تاکہ دشمن کو باہمی
اختلافات سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ نہ مل سکے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ
اس وقت پاکستانی سیاست دان باہم دست گریبان ہیں ۔ عمران خان نواز شریف
حکومت کوہر حال میں ختم کرنا چاہتے ہیں تو ایم کیو ایم اپنی بھتہ خوری اور
جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے پارلیمنٹ سمیت ہر سطح پر شور مچا رہی ہے ۔باقی
رہی پیپلزپارٹی اس کے قائد آصف علی زرداری نے سندھ میں لینڈ مافیا کے خلاف
رینجر کے اقدامات کی وجہ سے فوج کے خلاف ہی اعلان بغاو ت کرکے ماحول میں
انگارے بھر دیئے ہیں ۔خیبرپختوانخواہ میں اپوزیشن اتحاد نے بھی اس وقت تک
احتجاج کااعلان کیا ہے جبکہ تحریک انصاف کی حکومت ختم نہیں ہوجاتی ۔ پنجاب
میں ق لیگ کے چوہدری برادرن دن رات شہباز حکومت کے خلاف زہر اگل رہے ہیں
۔اس ماحول میں کیا یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کو زیر کرنے کے
لیے بھارت کو فوجی یلغار کی ضرورت پڑے گی ۔ وہ کام جو بھارت کرنا چاہتا ہے
وہ کام تو ہمارے سرکردہ سیاست دان ملک میں افراتفری ٗانتشار پھیلا کر خود
کررہے ہیں ۔کسی بھی ملک کا دفاع صرف فوج نہیں کرتی بلکہ پوری قوم کی یہ ذمہ
داری بنتی ہے ۔ جبکہ پاکستانی قوم مہنگائی ٗ بے روزگاری ٗ بجلی اور گیس کی
لوڈشیڈنگ ٗ غربت ٗ جہالت کی وجہ سے زندہ درگور ہوچکی ہے اس کی سوچ دواور دو
چار روٹیوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔اس میں
شک نہیں کہ پاک فوج دنیا کی بہترین فوج ہے اس کی جنگی صلاحیتوں کااعتراف
دنیا بھر میں کیا جاتا ہے لیکن گزشتہ چودہ سالوں سے فوج حالت جنگ میں ہے
اتنے افسر اور جوان پاک بھارت جنگوں میں شہید نہیں ہوئے جتنے نام نہاد دہشت
گردی جنگ کی نذر ہوچکے ہیں ۔شمالی وزیرستان جو دنیا کا مشکل ترین محاذ جنگ
ہے جہاں پہاڑی غاروں میں چھپے ہوئے دہشت گرد کسی بھی فوج کا حوصلہ پست کرنے
میں کامیاب ہوتے ہیں۔پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جانوں کانذرانہ
دے کر اس مشکل ترین محاذ پر بھی کامیابی حاصل کرلی ہے پھر بھی کہیں نہ کہیں
دہشت گرد یلغار کرتے نظر آتے ہیں۔ ملک کا کوئی حصہ دہشت گردوں سے محفوظ
نہیں ہے ۔ حالانکہ اندرون ملک سیکورٹی اور حفاظت کی ذمہ داری پولیس کی ہے
لیکن پولیس اس حد تک ناکام ٗ نااہل اور بڑدل ثابت ہوئی ہے کہ دہشت گردوں
کامقابلہ کرنا تو دور کی بات ہے وہ چوروں اور ڈاکوں کو بھی پکڑ نہیں سکتی ۔
پولیس کی نااہلی اور خود حفاظتی پالیسی کی بنا پر دہشت گرد ایک شہر سے
دوسرے شہر تک آزادی سے آ جارہے ہیں ۔ان حالات میں فوج کو ہر محاذ پر لڑنا
پڑ رہاہے ۔ پولیس کی ناکامی کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہوگا کہ شہروں کا
نظم و نسق کے لیے بھی رینجر اور فوج کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ اقتصادی
راہداری کے لیے فوج کاالگ ڈویژن قائم کرناپڑا ہے ۔ خیبر پختوانخواہ میں
ہونے والے الیکشن میں اس قدر خونریزی ہوچکی ہے کہ اب وہاں بھی یہ مطالبہ
شدت سے کیاجارہا ہے کہ فوج کی نگرانی میں الیکشن کروایاجائے ۔ بلوچستان میں
بھی فوج کو بار بار آپریشن کرنا پڑ رہا ہے ۔ سعودی عرب اور یمن کی جنگی میں
پاک فوج کو سعودی عرب کی حفاظت کی ذمہ داری بھی نبھانی پڑ رہی ہے۔ان حالات
میں ہونا تو یہ چاہیئے کہ تمام پاکستانی سیاست ذاتی مفادات کو فراموش کرکے
قومی مفاد کی خاطر یک قالب و یک جان ہوجاتے اور فوج کے شانہ بشانہ کھڑے
ہوکر بھارت کو یہ پیغام دیتے کہ اگر اس نے پاک سرزمین کی جانب میلی آنکھ سے
دیکھا تو اس کی وہ آنکھ ہی نکال دی جائے گی لیکن حالات اس کے بالکل برعکس
ہیں ۔ اقتصادی راہداری کو روکنے کا جو کام بھارتی وزیر اعظم کرنا چاہتے ہیں
وہی کام پاکستانی سیاست دان باہمی اختلافات اورانتشار کاماحول بنا کر از
خود کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلتے جارہے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمیں بھارت
سے زیادہ اپنے کرپٹ ٗ خائن اور بددیانت سیاستدانوں سے خطرہ ہے ۔ بھارت
پاکستان پر دھمکی کے باوجود حملہ نہیں کرسکتا لیکن اپنے ہی سیاست دان ملک
کو انتشار اور اختلافات کی بلندی پر پہنچا کر تباہی و بربادی کا سامان ضرور
پید ا کرسکتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کاکچھ نہیں
بگاڑ سکتی جب تک پاکستانی قوم ٗ سیاست دان اور فوج آپس میں متحدہے ۔ افسوس
کہ قوم اور فوج تو قومی بقا اور سالمیت کی خاطر یکجان ہیں لیکن سیاست دان
اب بھی لوٹ کھسوٹ میں سب سے آگے نکلتے جارہے ہیں۔ ایم کیو ایم ہو یا پیپلز
پارٹی ٗ تحریک انصاف ہو یا ق لیگ ٗ فضل الرحمن ہو یا اسفند یار ولی ۔ سب
اپنے اپنے مفادات کے پچاری ہیں ۔ان حالات میں کیا فوج ملک کا دفاع کر پائے
گی یہ ایک مشکل سوال ہے جس کا جواب ہم سب کو تلاش کرنا ہے۔ |