سالانہ تربیتی کورس اور چند اصلاحی باتیں

جن لوگوں کو پروفیشنل کے طور پر عملی زندگی میں کردار ادا کرنا ہوتاہے انہیں میدان عمل میں اترنے سے پہلے لازمی تربیت اور ریفریشر کورس کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے تاکہ بطریق احسن اپنے فرائض منصبی ادا کر سکیں۔ اسلام عقلی موشگافیوں اورتوہمات کی گرد سے پاک ایک اعتقادی و عملی دین اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ماہ رمضان کی صورت میں سالانہ ایک ریفریشر کورس کا اہتمام ہوتا ہے تاکہ دینی و اخلاقی ضابطوں کے مطابق عملی زندگی گزارنے کیلئے اسلام کے پیروکاروں کی تربیت ہو سکے ۔ یہ تربیت اخلاق کو سنوارتی اور کردار کو نکھارتی ہے۔ جب بھی رمضان کے روزوں کی مقصدیت کی بات چلے تو آغاز اس سے ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے سے بندہ متقی اور پرہیزگار ہو جاتا ہے کیوں کہ خود قرآن نے روزے کی اس حکمت کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ لیکن کوئی ہم سے سوال کرسکتا ہے کہ کھانے، پینے سے رک جانے سے بندہ پرہیزگار کیسے بن جاتا ہے؟ اس سوال کے جواب اور حکمت کو سمجھنے کیلئے ہمیں اپنے ہر روز کے معمول کا جائزہ لینا ہوگا۔ روزہ کی حالت میں ہمیں کئی مواقع ایسے میسر آتے ہیں جہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا۔ پیاس بجھانے کیلئے پانی یا دیگر خوش ذائقہ مشروبات موجود ہیں۔ بھوک مٹانے کیلئے سامان خوردونوش میسرہے۔ نفس امارہ خواہش پیدا کرتا ہے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا لھذا بھوک اور پیاس کی حالت میں کھا پی لو۔ لیکن اندر کی ایک نادیدہ قوت ہمارے ہاتھ کو روک لیتی ہے۔ہمیں باور کراتی ہے کہ اگر کوئی بھی نہیں دیکھ رہا تو پھر بھی ایک ذات پاک ہر لمحہ تیرے ساتھ ہے۔ تیری شاہ رگ سے بھی قریب تر ہے اور تجھے لمحہ بہ لمحہ دیکھ رہی ہے۔ جو تیرے دل میں مچلنے والے خیالات اور نگاہوں کی خیانت سے بھی واقف حال ہے۔ اور وہ ہے’’ اﷲ جل مجدہ کی ذات ستودہ صفات‘‘۔ یہی تصور اور اعتقاد قلب مومن میں دن بھر ترو تازہ رہتا ہے یہاں تک کہ سورج مغرب کی پہنائیوں میں ڈھل جاتا ہے اور وقت افطار آن پہنچتا ہے۔روزہ دار اہتمام کے ساتھ افطاری کے وقت خوش و خرم ہو کے کھاتا پیتا ہے کہ اب میرے رب کریم کے حکم کے مطابق مجھے کھانے پینے کی اجازت ہے۔ یہی معمول دن بھر اور پھر ایک ماہ تک جاری و ساری رہتا ہے اور بندہ مومن عملا ثابت کر رہا ہوتا ہے کہ وہ اﷲ کی رضا جوئی کیلئے ہر طرح کی قربانی کئے ہمہ وقت تیار ہے۔ اگر روزے کی مقصدیت اور حکمت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ لمحات گزارے جائیں تو یقینا ایک ماہ کا یہ ریفریشر کورس بندہ مومن کے قلب و باطن میں کمال درجہ کا تقوی و پرہیزگاری کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ تقویٰ حقیقت میں اس باطنی نور اور کیفیت قلبی کا نام ہے جو انسان کو اﷲ کی احدیت ،معیت، قرب اور معبودیت کا یقین کامل دلا کے دلجمعی کے ساتھ اطاعت گزار بندہ بنا دیتی ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ اس مقصد کے حصول کیلئے صدیوں سے ایک مجرب اورکارگر نسخہ کیمیا کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر اسی تصور سے رمضان کا مہینہ گزرا تو رمضان شریف کے بعد بھی گیارہ ماہ تک یہ ٹریننگ کام آئے گی۔ بعد از رمضان جب سرکش شیاطین اور نفس امارہ حرص و ہوس کے وسوسے ڈال کے گناہ کی طرف رغبت دلائیں گے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا گناہ کرلو۔ تو اسوقت اس ایک ماہ کی تربیت کے نتیجے میں دل کی گہرائیوں اور باطن کی پہنائیوں سے زبان حال پکار پکار کے کہ رہی ہوگی کہ اس گناہ کی طرف نہیں جانا کیوں کہ تیرا رب ہمہ وقت تیرے ساتھ ہے اورتجھے دیکھ رہا ہے۔ عنقریب تو نے اس کے پاس لوٹ کے جانا ہے اور اپنے کیے پر جواب دہ ہونا ہے۔

ایک اور بات بھی ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ کچھ چیزیں وہ ہیں جنہیں عارضی طور پر دورانِ روزہ ہمارے لیے حرام کیا گیا ہے مثلا کھانا پینا اور منکوحہ زوجہ کے ساتھ عمل مباشرت۔ لیکن کچھ اعمال وہ ہیں جو ہمہ وقت اور زندگی بھر کے لئے حرام ہیں مثلا جھوٹ، غیبت، فحش گوئی، زنا اور حرام خوری وغیرہ۔ حالت روزہ میں ہم عارضی طور پر حرام کیے گئے اعمال سے تو بچیں اور جنہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حرام کیا گیا ہو ان کی پرواہ ہی نہ کریں تو یہ بھی روزے کی حکمت اور مقصدیت کے خلاف ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جو کوئی حالت روزہ میں جھوٹ اور برے اعمال سے اپنے آپ کو نہیں بچاتا تو پھر اﷲ تعالیٰ کو بھی کسی کے بھوکا یا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔جو کوئی اﷲ کے حکم کی تعمیل میں دوران روزہ محنت اور کاوش کی کمائی کا رزق حلال کھانابھی ترک کردیتا ہے کہ اﷲ تعالی نے میرے لیے اسے اس وقت اسے حرام کیا ہے۔ تو پھر کیسے ممکن ہو گا کہ وہ جان بوجھ کر بعد از رمضان حرام خوری کا رستہ اپنائے۔ اسی طرح بیوی یا خاوندنے دوران روزہ صرف اس لیے ازدواجی تعلق منقطع کیا کہ اﷲ نے منع کیا ہے تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ بعد از رمضان نگاہ غیر محرم کی طرف اٹھے یا بدکاری اور حرامکاری کا ارتکاب کریں۔علاوہ ازیں یہ بھی تو ممکن ہے کہ زندگی بھر کچھ لوگوں کو ایسے حالات کا سامنا ہی نہ کرنا پڑا ہو کہ بھوک یا پیاس کی شدت کو کبھی محسوس کیا ہو۔ بھوک کی حالت میں طرح طرح کے کھانے میسر اور پیاس کی حالت میں پانی موجود ہو۔ ایسے لوگوں کو کیامعلوم کہ بھوک اور پیاس کی حالت میں کسی پر کیا گزرتی ہے۔ رمضان کا مہینہ مختلف موسموں میں بد ل بدل کے آتا ہے۔ کبھی دھوپ کی تپش میں پیاس کی شدت پر اﷲ کی خوشنودی کیلئے صبر اور کبھی سرد موسم میں بھوک کی کیفیت پر تحمل و بردباری اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اس کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ جب خود اس کیفیت سے گزریں گے تو پھر زندگی میں کسی کو بھوک سے تڑپتا یا شدت پیاس سے کراہتا دیکھ کر ہمیں صحیح اندازہ ہو سکے گا کہ جب کھانے پینے کو کچھ میسر نہ ہو تو پھر جسم و جان پر کیا گزرتی ہے۔ اس طرح غربا و مساکین کے ساتھ غمگساری اور ہمدردی کے جذبات کو تقویت ملے گی۔ دل نرم ہو گا اور اﷲ کے رستے میں خرچ کرنے کی طرف دل مائل ہوگا۔ اسی لیے ہمارے پیار نبی کریمﷺ نے اس مہینے کو ہمدردی اور غمگساری کو مہینہ قرار دیا ہے۔ اول تا آخر اس ماہ مبارک میں رحمتوں کا نزول، مغفرتوں کی ر م جھم اورنور کی برسات جاری و ساری رہتی ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس ماہ مبارک کی حقیقت کو پہچانتے ہیں اور اپنے لیے غنیمت سمجھتے ہوئے اس کی کما حقہ قدر کرتے ہیں۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 240891 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More