الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على
سيد الأنبياء والمرسلين
أما بعد فأعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم
سوال: کيا مردے سنتے ہيں؟
جواب: کثير صحيح وقوی احاديث اس بات پر دلالت کرتی ہيں کہ بعدِ موت مردے
شعور رکھتے ہيں، اور انہيں جو کچھ سنايا جائے وہ اسے سنتے ہيں؟
صحيح بخاري ميں حضرت سيدنا ابو سعيد خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی
ہے:رسول کريم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا:جب ميت کو چارپائی پہ رکھا
جاتا ہے اور اسے لوگ اپنے کندھوں پر اٹھا ليتے ہيں، اگر وہ مردہ نيک ہوتا
ہے تو وہ کہتا ہے: مجھے جلدی آگے ليے چلو، ليکن اگر وہ نيک نہ ہو تو وہ
اپنے گھر والوں سے کہتا ہے: ہائے بربادی! مجھے کہاں ليے جارہے ہو؟ اس کی يہ
آواز انسانوں کے سوا ہر مخلوقِ خدا سنتی ہے اور اگر يہ آواز انسان سن لے تو
بے ہوش ہو جائے
(صحيح البخاري، کتاب الجنائز، باب قول الميت وهو علی الجنازة: قدموني)
اس حديث پاک سے ثابت ہوا کہ مردوں کو شعور ہوتا ہے کہ اسے اٹھا ليا گيا ہے
اور اب اسے لئے جارہے ہيں، اور اسے اس بات کی بھی مکمل معرفت ہوتی ہے کہ اس
کے ساتھ اچھا يا برا، کيا ہونے والا ہے؟
منکرین سماع موتٰی کے متفق علیہ امام، ابن تيميہ کے "مجموع الفتاوی"سے ايک
سوال و جواب:
سوال: کيا ميت زائر (يعنی قبر پر آنے والے) کا کلام سنتی ہے اور کيا اس شخص
کو ديکھتی ہے؟
جواب: بالکل، وہ ميت اس کی آواز سنتی ہے جيسا کہ صَحيحيَن (يعنی بخاری اور
مسلم) ميں ہے کہ نبی کريم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا: ميت لوگوں کے
قدموں کی چاپ تک سنتی ہے جب وہ اسے دفنا کر لوٹتے ہيں۔
ايسے ہی نبی کريم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے يہ بھی ثابت ہے کہ انہوں نے
بدر ميں قتل ہونے والوں (کی لاشوں) کو تين دن تک چھوڑے رکھا، اور پھر ان کے
پاس تشريف لائے پھر فرمايا: يا ابا جهل بن هشام، يا اُمية بن خلف، يا عتبة
بن ربيعة، يا شعبة بن ربيعة، کيا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پايا جو اس
نے تم سے کيا تھا؟ بے شک ميں نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پايا جو اس نے مجھ
سے کيا، جب حضرت سيدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے يہ سنا تو عرض کی،
يارسول اللہ! وہ کيونکر سنيں گے اور جواب ديں گے؟ يہ تو مردار ہو کر سڑ گئے
ہيں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا: قسم اس ذاتِ پاک کی جس کے قبضہ
قدرت ميں ميری جان ہے تم اس بات کو ان سے زيادہ نہيں سنتے جو ميں ان سے کہہ
رہا ہوں، ليکن يہ جواب دينے کی قدرت نہيں رکھتے، پھر آپ صلی اللہ عليہ وآلہ
وسلم نے حکم فرمايا اور وہ کھينچے گئے اور بدر کے کنوؤں ميں ڈال ديئے
گئے۔(صحيح مسلم، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب عرض مقعد الميت…)
ابن تيميہ مزيد لکھتا ہے کہ صحيحين ميں نبی کريم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم
سے روايت ہے کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے قبروں والوں کو سلام کرنے کا
حکم فرمايا، اور فرمايا : تم لوگ کہو: "السلام عليکم أهل الديار من
المؤمنين والمسلمين…" يہ ان مُردوں سے خطاب ہے اور خطاب اسی سے ہوتا ہے جو
سن سکتا ہے۔ (مجموع الفتاوی، کتاب الجنائز، باب زيارة القبور، ج:24، ص:363،
دار الوفاء)
اس سے معلوم ہوا کہ مُردے زندوں سے بھی زيادہ سنتے ہيں اور يہ بھی پتا چلا
کہ فوت شدگان کو "يا" کے ساتھ نِداء کرنا شرک نہيں ورنہ نبی کريم صلی اللہ
عليہ وآلہ وسلم ان کفار کو "يا عتبة يا شعبة" کہہ کر ہرگز نہ پکارتے۔ وہ
لوگ غور کريں جو "يا رسول الله، يا على، يا غوث اعظم (صلی اللہ عليہ وآلہ
وسلم ، ورضی اللہ تعالی عنہما)" کہنے پر مسلمانوں کو کافر و مشرک کہتے نہيں
تھکتے، کہ اب يہاں کيا فتوٰی لگائيں گے؟
يہاں ايک اِشکال پيدا ہوتا ہے کہ پھر ان آيات سے کيا مراد ہے جن ميں کہا
گيا ہے: آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم مُردوں کو، قبر والوں کو نہيں سنا سکتے
اور قبروں والے سنتے نہيں۔
اولاً يہ سوال تو ان سے پوچھنا چاہيے جو ان آيات سے مُردوں کے نہ سننے پر
استدلال کرتے ہيں کہ وہ اس کا جواب ديں کہ کيا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا
کلام، قرآن اور نبی پاک صلی اللہ عليہ وآلہوسلم کی احاديث آپس ميں متعارض
(ٹکراتی) ہيں، اور پھر ان کے امام پر کيا فتویٰ ہوگا، جو يہ فرماتے ہيں کہ
بے شک مردے سنتے ہيں، کيا وہ مشرک ہوگيا؟ اور اس کا کلام قرآن سے متعارض
ہے؟
اور خوش عقيدہ حضرات کی تشفی کے ليے اس کا جواب يہ ہے:
اولاً: يہ آيات مبارکہ کفار اور ان کے باطل خداؤں کے حق ميں نازل ہوئيں،
انہيں مسلمانوں اور خاص طور پر انبياء کرام و اولياء عِظام کی مقدس ذوات پر
چسپاں کرنا انتہاء درجہ ظلم اور بے ادبی ہے اور خوارج کا طريقہ ہے کہ جنہوں
نے قرآنی آيات پڑھ کر مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکريم پر شرک کا
فتویٰ لگايا تھا اور جن کے بارے ميں امام بخاری اپنی "صحيح " ميں حضرت
سيدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قول نقل فرماتے ہيں کہ وہ
خوارج کو بد ترين مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے کہ يہ وہ لوگ ہيں جو کافروں
کے حق ميں نازل شدہ آيات مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہيں۔ (صحيح البخاري، کتاب
استتابة المرتدين، باب قتل الخوارج والملحدين…)
ثانياً: قطع نظر اس بات سے کہ يہ آيات کفار کے حق ميں نازل ہوئيں، پھر بھی
ان آيات سے اہل قبور کے نہ سننے پر استدلال درست نہيں، آئيے ان آيات کی
تفسير منکرین سَماع موتیٰ کے امام ابن تيميہ کی زبانی سنتے ہيں:
ابن تيميہ کہتا ہے:"إنك لا تسمع الموتى"، اے نبی صلی اللہ عليہ وآلہوسلم آپ
مردوں کو نہيں سنا سکتے، سے مراد ايسا سننا ہے کہ جسے سننے کے بعد قبول کر
ليا جائے اور اس پر عمل کيا جائے، اللہ تعالیٰ نے کافروں کو ميت کی طرح کہا
جو کہ پکارنے والے کا جواب نہيں ديتی، اور کافروں کو جانوروں کی طرح کا
کہا، جو کہ آواز تو سنتے ہيں ليکن بات کا مطلب ومقصود نہيں سمجھتے، اور ميت
اگرچہ کلام سنتی اور اس کا مطلب سمجھتی ہے ليکن اس کے ليے ممکن نہيں کہ وہ
پکارنے والے کا جواب دے سکے اور اس کے امر و نہی کا امتثال کرسکے، ميت کو
امر ونہی سے کچھ فائدہ نہيں ہوتا، اسی طرح کافر کو بھی امر ونہی کا کچھ
فائدہ نہيں ہوتا اگرچہ وہ خطاب سنتا ہے اور اس کا معنی سمجھتا ہے، جيسا
اللہ تعالیٰ نے فرمايا:"ولو علم الله فيهم خيراً لأسمعهم" يعنی اگر اللہ
تعالیٰ ان ميں کچھ بھلائی جانتا تو انہيں سنا ديتا۔ (مجموع الفتاوی، کتاب
الجنائز، باب زيارة القبور، ج:24، ص:364، دار الوفاء)
اس سے پتا چلا کہ يہاں مردوں سے مراد کافر ہیں اور ان سے بھی مطلقاً ہر
کلام کے سننے کی نفی مراد نہيں ہے، بلکہ پند و موعِظت اور کلامِ ہدايت کے
بسمعِ قبول سننے کی نفی ہے اور مراد يہ ہے کہ کافِر، مُردہ دل ہيں کہ نصيحت
سے منتفع نہيں ہوتے۔ تو اس طرح كی آيات کے معنی يہ بتانا کہ مردے نہيں سنتے
بالکل غلط ہے كيونكه صحيح احاديث سے مُردوں کا سُننا ثابت ہے، جيسا کہ
ماقبل گزر چکا۔
اللہ کریم سننے کے بعد سمجھنے اور حق قبول کرنے کی توفیق دے، والله تعالىٰ
أعلم بالصواب ، وما عَلَيَّ إلا البلاغ۔ |