جمعیت علمائے اسلام.....

جمعیت علمائے اسلام پاکستان کی ایک درمیانہ مقبولیت کی حامی سیاسی جماعت ہے.... یہ درمیانی مقبولیت بھی خالصتا مسلک کی سطح پر ہے...

جمعیت پاکستانی سیاست میں براہ راست کسی اہمیت کی حامل نہیں رہی...لیکن سیاسی جوڑ توڑ کے لیے ہمیشہ حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کی منظور نظر جماعت رہی ہے.... جمعیت پر ایک تنقید ہمیشہ یہ بھی رہی ہے کہ پاکستان مخالف دہشت گرد گروپوں کے بارے میں واضح موقف ایون میں نظر نہیں آیا.. نیز لگ بھگ 90% کالعدم تنظیمیں بھی اسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہیں...

یہاں پر ایک چیز قابل ذکر ہے تمام ہی مذہبی سیاسی جماعتوں کے سپوٹرز باقی جماعتوں پر تو کھل کر تنقید کرتے ہیں... لیکن اپنی جماعت پر ہلکی سی تنقید کو بھی خوب اسلامی لبادہ پہن کر اس طرح کا رخ دیا جاتا ہے...جیسے خدانخواستہ کوئی گستاخی نما گناہ سرزد ہو گیا ہو...

میری نظر یں مذہبی سیاسی جماعتیں زیادہ قابل گرفت ہیں جو قرآن و سنت پر اپنی سیاست کو استور کرتی ہیں... کسی بھی دوسی سیکولر جماعت کے مقابلے میں مذہبی سیاسی جماعتیں تنقید کی زیادہ حق دار ہیں...
یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں بظاہر مارشل لا کے خلاف نظریات رکھتی ہیں... لیکن درحقیقت تمام ہی جماعتیں مارشل کے کندھے کی سوار ہیں یا دوسرے لفظوں میں کندھا دیتی آئی ہیں....

ایوب خان دور میں دوبارہ صدارتی الیکشن کے لیے ایوب خان کو آئین میں ترمیم کی ضروت تھی.... آئین کے تحت صدر مملکت عہدے پر رہتے ہوئے دوبارہ صدر مملکت بننے کے لئے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ لیکن دو تہائی اکثریت کی حمایت سے آئین میں ترمیم کرکے وہ آئینی پابندی کو ترمیم کے ذریعے ختم کر سکتے تھے۔ انہیں اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لئے جن دو ووٹوں کی ضرورت تھی، ان میں ایک ووٹ حضرت مفتی محمود کا بھی تھا۔... اس ووٹ کا جواز یہ دیا گیا کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں.. چونکہ مقابلہ فاطمہ جناح سے تھا تو اس لیے اسلامی قانون کا خیال رکھا گیا...

جبکہ مفتی محمود کی وفات کے بعد پارٹی پر قبضہ کرنے بعد مولانا صاحب 1994 میں بنظیر بھٹو کے اتحادی بن گئے.. یوں مفتی محمود کے جواز کی نفی ہو گئی... اور دلچسپ بات اتحادی بننے سے پہلے مولانا صاحب خود بھی بنظیر بھٹو کی مخالفت کرتے رہے تھے....

1970 میں مفتی محمود مرحوم کا چار نشتوں کے ساتھ چالیس کے ایون میں تب کے صوبہ سرحد کا وزیراعلی بن جانا بھی ایک کمال تھا..

جمعیت بھٹو حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کا بھی حصہ رہی اور جنرل ضیا کی وفاقی کابینہ میں بھی شمولیت حاصل کی....

جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دوران جمعیت ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑی اور ایک بار پھر سرحد میں حکومت اور وزیراعلی کا منصب لینے میں کامیاب رہی...

یہاں سب سے دلچسپ بات جو اپنی نوعیت کا شاید انوکھا واقعہ ہو... جمیعت مرکز میں پاکستان مسلم لیگ ق کی حکمران جماعت کے خلاف اپوزیشن میں تھی تو اسی جماعت کے ساتھ مل کر بلوچستان اسمبلی میں حکومت کا حصہ بھی تھی...

2008 کے انتخابات کے بعد زرداری حکومت کو کندھا دینے میں اہم کردار ادا کیا... ساتھ ہی ساتھ حکومت کے خلاف بظاہر تحفظات سے بھی قوم کو آگاہ کرتے رہے....

2012 کے الیکشن کے بعد میاں نوز شریف کے اہم اتحادی بنے.... اور اس بار سارا فوکس مرکزی حکومت کی بجائے اپنے سیاسی حریف عمران پر رکھا..

مجھے نہیں یاد پڑتا کبھی مولانا صاحب نے وفاق ' پنجاب یا سندھ حکومت کی پالسیوں خلاف کبھی کھل کر رائے دی ہو.....

اور مولانا صاحب کی سیاسی حکمت عملی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ دن پہلے تک زرداری صاحب سے اچھے تعلقات کے حامل مولانا صاحب نے مصروفیت کا بہانہ بنا کر زرداری صاحب کے افطار ڈنر سے معزرت کر لی....سیاسی ہوا کا بہاؤ زرداری صاحب کے خلاف جو ٹھہرا..... 😊

سیاست تو اسی طرح ہی کی جاتی ہے.... سب اسی طرح کرتے ہیں...

بجائے اپنی پالسیوں کو اسلام کا لبادہ پہنا کر اکڑنے کے... شاید زیادہ تنقید قبول کرنی چاہیے... کہ ہم صرف سیاست نہیں اسلام کے نام پر سیاست کرتے ہیں... تنقید اور فتوے اگر کھلے دل سے تقسیم کرنے ہیں تو خود پر کی جانے والی تنقید بھی کھل کر قبول کیا کریں...
( ہمارا پاکستان)
‫#‏صدف‬
صدف
About the Author: صدف Read More Articles by صدف: 4 Articles with 5229 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.