کیافوج مخالف بیان پر پی پی پی کی محاذ آرائی جمہوری سسٹم
کو ڈی ریل کرسکتی ہے...؟؟
جیساکہ گزشتہ دِنوں پاکستان پیپلزپارٹی فاٹا کے عہدیدران کی حلف برداری کے
موقع پر پی پی پی کے شریک چیئرمین و سابق صدرآصف علی زرداری کی پاک فوج کے
خلاف کی جانے والی دھواں دارتقریر اور اِس کے بعد پی پی پی کی سنٹرل
ایگزیکٹوکمیٹی (سی ای سی ) کی جانب سے بھی پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی
زرداری کے بیان کی توثیق کئے جانے اور اِنہیں حکومت کے ساتھ بات چیت کا
اختیاربھی سُونپے جانے جیسے معاملے کے بعد مُلکی سیاست میں ایک ایسا تلاطم
پیداہوگیاہے،اَب جس پرتینوں یا دونوں کی جانب سے کچھ بھی ہوسکتاہے..؟؟یہ تو
آنے والے دن بتائیں گے مگر ضروری ہے کہ پہل کرنے والو ں کی ہی جانب سے
افہام وتفہیم کے ساتھ پیچ کی کوئی صلاح کی راہ نکالی جائے تونہ صرف مُلک و
قوم بلکہ جاری جمہوری نظام کے لئے بھی بہتر ہوگاورنہ ..زمانہ ایک مرتبہ پھر
سب کے کرداروں پر سوالیہ نشان لگادے گا۔
آج مُلک میں سابق صدرزرداری کے خطاب کے بعد درآنے والی صورت حال پر تجزیہ
نگاروں کا قوی خیال یہ ہے کہ زرداری کا بیان اور اِس پر پاکستان پیپلزپارٹی
کی سی ای سی کااپنے سربراہ کو ڈٹ جانے اور لڑنے کے لئے تیاررہنے جیسے مشورے
دینا،آج دراصل جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے جس سے مُلک کے جمہوری سسٹم
پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جس پر سیاسی بصیرت رکھنے والی اکثریت کا یہ
کہناہے کہ زرداری کا ایک ایسا بیان جس کا مُلک کی موجودہ نازک حالت میں
کہیں سے کوئی تُک نہیں بنتاہے..؟؟ اور اِس پرسُونے پہ سُہاگہ یہ کہ پی پی
پی کی سی ای سی کی کھل کر حمایت کرتے ہوئے اِس کی توثیق کردینا بھی باعث
تشویش ہے ۔
اِس صورت حال میں ایسالگتاہے کہ جیسے زرداری کا بیان دراصل مُلک میں دہشت
گردی اور کرپٹ عناصر کے خلاف مسلسل کامیابی حاصل کرنے والی پاک فوج کے
مورال کو سبوتاژ اورن لیگ حکومت کو تنہاکرنے اور اِس کی جمہوری کاوشوں کی
چولیں ہلانے کے لئے دیاگیاہے یا دانستہ دلوایاگیاہے۔
جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کی فوج کے خلاف کی جانے والی تقریر اور پی پی
پی کی سی ای سی کی طرف سے زرداری کے بیان کی توثیق سے نہ صرف پاکستان میں
موجود ہر پاکستانی کو دُکھ پہنچاہے بلکہ زرداری کے فوج کے خلاف دیئے جانے
والے بیان کی ساری دنیامیں بسنے والے محب وطن پاکستانی بھی مذمت کرتے ہیں۔
آج اِس بات پر قوم کو حیرانگی ہوئی ہے اور وہ اِس مخمصے میں مبتلاہے کہ وہ
کیا عوام اور محرکات ہیں..؟؟ جن کی بناپر پانچ سال صدارت کی کرسی پر رہنے
والے مصالحت پسندی کے دلدادہ سابق صدرآصف علی زرداری کے پچھلے دِنوں ہونے
والے بھڑکیلے خطاب نے مُلکی سیاست میں ایک بھونچال پیداکردیاہے، اِس کے
مستقبل قریب میں مُلکی سیاست اور جمہوری سسٹم پر کیااور کیسے منفی و مثبت
اثرات مرتب ہوں گے ..؟ جس میں اُنہوں نے کسی کے اشاروں پر مُلک کے سب سے
مقدس قومی ادارے فوج کی جس طرح کردارکش کی ہے وہ باعث تشویش و افسوس ہے۔
آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے موجودہ
شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے جذباتی خطاب میں مُلک فوج جیسے مقدس قومی
ادارے کی کی جانے والی کردارکشی پر حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن اور
اتحادی جماعتوں سمیت مُلک کی دوسری اپوزیشن جماعتوں کو دوحصوں میں واضح طور
پر تقسیم کردیاہے۔
جبکہ یہاں زرداری کے خطاب پر اِن سوالات اور خدشات کا جنم لینا لازمی
تھااورلازمی ہے کہ سابق صدر زرداری نے کیوں ایساکیاہے اورکس کے اشارے پر
کیا ..؟اِن کے بھڑکیلے خطاب کے پوشید ہ رازکیا ہیں اور کن کے مقاصد کے لئے
ہیں..؟ اِس کے زرداری اور اِن کی جماعت اور دوسروں کو کیا اور کیسے
فوائداور نقصانات حاصل ہوں گے ..؟موجودہ حالات میں کہ جب پاک فوج کے آپریشن
ضرب عضب کو کامیابیوں کے ساتھ ایک سال گزرگیاہے اور پاک فوج نے اپنی انتھک
محنت سے مُلک سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ وبرباد کرکے
نوے فیصدیا اِس سے زیادہ اپنی کامیابیوں کے اہداف حاصل کرلئے ہیں تو پھر
ایسے میں فوج کے خلاف زرداری کا ایسابھڑکیلاخطاب بہت سے خدشات اور سوالات
کو جنم دے چکاہے۔
اَب کیا اِن تمام سوالات اور خدشات کے جوابات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے
آتے جائیں گے اور قوم کے سامنے سب کچھ واضح ہوتاجائے گامگر آ ج سابق صدر
زرادی کے خطاب اور اِن کی تقریر کے اِس جملے پر جس میں زرداری نے تین بار
’’ ہوشیار،ہوشیار، ہوشیار‘‘ کی تکرار کی اِس نے زرداری کے خطاب کو شک و
شبہات کی گھٹی میں ڈبو کر پیش کیا ہے اَب زرداری اور اِن کی پارٹی کی جانب
سے وضاحتیں آنی باقی ہیں دیکھتے ہیں کہ سابق صدرزرادی اور پی پی پی کے
جیالے اِس کا کیا جواب دیتے ہیں۔
بہرحال... میڈیارپورٹ کے مطابق روس کے دورے پر گئے ہوئے جنرل راحیل شریف سے
روسی شہر ماسکو میں وزیراعظم نوازشریف ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے
درمیان ٹیلی فونک رابطہ قائم ہوااِس دوران وزیراعظم نوازشریف نے جنرل راحیل
شریف کوگزشتہ دِنوں زرداری کے بیان پراپنا خصوصی موقف بتایاکہ ’’ پاک فوج
مُلکی سالمیت اور استحکام کی جنگ لڑرہی ہے ،فوج کے خلاف کسی بھی قسم کے
بیان پر حکومت خاموش نہیں رہ سکتی ہے‘‘ ۔
اگرچہ خبریہ بھی ہے کہ اِس دوران وزیراعظم نوازشریف نے جنرل راحیل شریف سے
دورانِ گفتگو مُلکی سلامتی کی صورت حال سمیت اہم اُمورپر بھی بات چیت کی
مگرجنرل راحیل شریف کو فون کرنے کا اصل مقصدیہ بتاناتھاکہ حکومت فوج کے
ساتھ ہے اِسے کسی کے بیان کی وجہ سے خود کو تنہاسمجھنے اور اپنے نیک عزم کو
متزلزل کرنے کی ضرورت نہیں ہے حکومت اور عوام پاک فوج کے شانہ بشانہ ہیں
پاک فوج مُلک سے دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پُرعزم رہے اور
آپریشن ضرب عضب کا دائرہ قومی اداروں کو لوٹنے اور جائز وناجائز اختیارات
اور حربے استعمال کے قومی دولت لوٹنے والوں کے خلاف یوں ہی جاری رکھناچاہئے
یعنی مختصریہ کہ وزیراعظم نوازشریف نے جنرل راحیل شریف سے اپنے ٹیلی فون
رابطے کے دوران یہ بتانے اورجتانے کی پوری طرح سے سعی کی کہ زرداری کے بیان
کا حکومت نے بھی سختی سے نوٹس لیاہے ، مگر حکومت اور عوام پاک فوج کے ساتھ
ہیں،ہم فوج کے مورال کو سبوتاژ کرنے والوں کی ہر سطح پر مخالفت کریں گے
کیوں کہ فوج ہماری ہے اور اِس پر قوم کا اعتماد ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
جبکہ اِدھرزرداری کے فوج مخالف بیان کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے جنرل
راحیل شریف کو فون کرکے اپنے اور اپنی پارٹی کے موقف کی وضاحت کی ہے تو
اُدھر جدہ میں ایک انٹرویومیں صدرِ پاکستان ممنون حُسین نے بھی سابق صدرآصف
علی زرداری کے بیان پر اپنے مخصوص لہجے میں کہاہے کہ’’کسی کے سیاسی بیان سے
کراچی میں جاری آپریشن ہرگزنہیں رکے گا،یعنی جیسے اپنے انٹرویو میں
صدرممنون حُسین نے سیاستدانوں کو متنبہ کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیاہے کہ
سیاسی لوگوں کو بیانات دیتے وقت الفاظوں کا بہترچناؤکرناچاہئے،اِنہیں ورنہ
بعدمیں اپنی بات کا مطلب بتاناپڑتاہے جو کہے گئے الفاظوں سے مختلف
ہوتاہے‘‘یعنی کہ صدرِپاکستان نے بھی زرداری کے بیان پر انتہائی مدھم اور
دھیمے لہجے میں اپنے غصے کا اظہاربھی کیا تو وہیں سیاست دانوں کو سمجھابھی
دیاہے کہ وہ اپنے بیانات دیتے وقت احتیاط برتیں ایسانہ ہوکہ بعد میں انہیں
اپنے بیان کی وضاحتیں کرنی بھی مشکل ہوجائیں جیسے کہ اِن دِنوں پاکستان
پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کے فوج کے خلاف دینے جانے والے
بیان کے بعد خود زرداری اور پی پی پی کی سی ای سی کو وضاحتیں کرنے میں
مشکلات اور پریشانیوں کا ایساسامنہ کرناپڑرہاہے کہ جس کے لئے اِن کے پاس
الفاظ کم ہوگئے ہیں جہاں ایساہواہے تو وہیں زرداری کے فوج کے خلاف داغے گئے
بیان کے بعدپی پی پی والے خود کو تنہابھی محسوس کرنے لگے ہیں۔
اگرچہ وزیراعظم نوازشریف اور حکومت کی جانب سے زرداری کے فوج کے خلاف بیان
اور فوج کوبیجاتنقید کا نشانہ بنائے جانے کی مخالفت کے بعد مُلکی سیاست میں
خود کو تنہاکردینے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی
زرداری اور پی پی پی کی سی ای سی والوں نے اپنے موقف کو درست اور اٹل ثابت
کرنے اور اپنے حامیوں کی تعدادبڑھانے کے خاطر سیاسی رابطے شروع کردیئے ہیں
ایسالگتاہے کہ جیسے زرداری سمیت پی پی پی والوں کو یہ احساس ہوگیاہے کہ اِن
کی جانب سے پاک فوج کے خلاف دیئے جانے والے تنقیدآمیزبیان کا نقصان اِنہیں
ہی پہنچے گا کسی کا کچھ نہیں بگڑے گاتو اِس بناپر اِنہوں نے سیاسی رابطے
کرنے تیزکردیئے ہیں۔
اِس سلسلے میں ابتدائی خبریں یہ ہیں کہ پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی
زرداری کی خصوصی ہدایت پر سابق وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے خود
پہل کرتے ہوئے سندھ کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی شہرِ کراچی کی بڑی سیاسی
جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قائد الطاف حُسین سے ٹیلی فونک رابطہ
کیا(یہاں میں واضح کرتاچلوں کہ یہ وہی متحدہ قومی موومنٹ اور اِس کے قائد
الطاف حُسین ہیں جن کی پارٹی کے مرکزی دفترنائن زیرو پر دس، گیارہ مارچ کی
درمیانی شب پر رینجرز نے چھاپاماراتھااور اِن سطور کے رقم کرنے تک دہشت
گردی کے خلاف کراچی میں جاری آپریشن کے اصل کپتان اور اپیکس کمیٹی کے
سربراہ وزیراعلی سندھ سیدقائم علی شاہ کی ہدایات پر ایم کیو ایم کے کارکنان
کے خلاف پوری قوت سے آپریشن جاری ہے جس پر نہ صرف سندھ میں پی پی پی کی
قیادت بلکہ وفاق سے بھی پی پی پی کے کسی رہنماکی جانب سے ایک بھی لفظ مذمت
اور افسوس کا نہیں آیاہے بلکہ آج تک سب ہی ایم کیو ایم کا تماشہ دیکھنے کی
آرزوئیں لگائے بیٹھے ہیں مگر اَب جب کہ پاک رینجرز نے اپنے آپریشن کی ہوا
سندھ کے اداروں میں موجود کرپٹ عناصر کے خلاف چلادی ہے تو اِنہیں(پی پی پی
والوں کو) بھی اپنے گردگھیراتنگ ہوتامحسوس ہونے لگاہے تو خود کو محفوظ کرنے
اور اپنی کمر مضبوط کرنے کے خاطر اِنہوں نے فوراََ ہی سیاسی رابطے شروع
کردیئے گئے ہیں)خبرہے کہ اِس دوران دونوں رہنماؤں( زرداری اور الطاف حُسین
)نے گفتگوکرتے ہوئے اختلافات ختم کر نے پر اتفاق کیا اور کہاکہ
ہماراجینامرناسندھ دھرتی ماں کے دامن سے وابستہ ہے ایک دوسرے کے لئے ایثار
وقربانی کا عملی مظاہرہ کرناچاہئے ، آج ہماری اتحاد ویکجہتی کی جتنی ضرورت
ہے پہلے کبھی نہیں تھی‘‘ جبکہ زرداری صاحب نے جمعے کو پہلے روزے
کابھرپورفائدہ اُٹھاتے ہوئے عمران خان، مولانافضل الرحمن، اسفندیارولی،
چوہدری شجاعت سمیت سیاسی رہنماؤں کوافطارڈنرکی دعوت دی تو ،اے این پی کے
سربراہ اسفندیارولی نے زرداری کے رابطہ کرنے پر ( اپنی بیماری یا سیاسی
بیماری کا پتہ پھینک دیا ) اور اُنہوں نے زرداری سے اپنی بیماری کے باعث
شرکت سے معذرت کرلی ، اور اِسی طرح جب زرداری صاحب نے چوہدری برادران سے
رابطہ کیاتو اُنہوں نے تیل اور تیل کی دھاردیکھتے ہوئے دعوت میں شرکت سے
متعلق فوج کے خلاف دیئے گئے اِن کے بیان کو واپس لینے سے مشروط کردی ‘‘ اور
جب زرداری جی نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اپنی دعوت
افطارو ڈنرمیں تشریف لانے کے لئے رابطہ کیا اور اِنہیں دعوت دی تو عمران
خان نے بھی براسامنہ بناتے ہوئے جیسے کہ یہ کریلے چپارہے ہوں یاکسی نے اِن
(عمران )کے کان میں کریلے کا جوس اُنڈیل دیاہو،عمران خان نے کڑواسامنہ
بناکرزرداری کی دعوتِ افطارڈنر کو قبول کرنے سے صاف انکارکردیا،جبکہ
مولانافضل الرحمن نے رمضان میں ختم القرآن کی مصروفیات کے باعث شرکت نہیں
کریں گے مگر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حُسین نے زرداری کی افطارڈنرکی دعوت
میں شرکت میں آمادگی کا اظہارکیا (کیوں کہ وہ یہ بات اچھی طرح سے سمجھتے
ہیں کہ مصیبت میں کسی پریشان حال کے کام آنااِنسان اور اِنسانیت کا احترام
کرنااور ایسے میں پریشان کی مددکرنے سے خدااور رسولﷺ کی خوشنودی بھی حاصل
ہوتی ہے آج یقینااپنے ایک بیان کی وجہ سے زرداری اور اِن کی جماعت کتنی
پریشان ہے یہ تو یہی جانتے ہیں ظاہری طور پر لاکھ یہ کہیں کہ ایساکچھ نہیں
ہے جیسا قوم کودیکھ رہاہے یامحسوس کریاجارہاہے مگر حقیقت تویہی ہے کہ آج پی
پی پی والے بہت پریشان ہیں تب ہی جس کے لئے یہ سیاسی جماعتوں سے رابطے کرتے
پھررہے ہیں یہ اُن کا ظرف تھا، اور ہے کہ اُنہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف
جاری آپریشن سے پریشان حال متحدہ سے کبھی بھی ہمدردی کا ایک لفظ نہیں
کہااور اِس کی آواز سے آوازملاکر اِس کی پریشانیاں کم کرنے کے لئے اِس کی
حمایت میں شابہ بشانہ کھڑے ہوکر مذمت کا اظہارتک نہیں کیامگر ایک ایم کیو
ایم ہی ہے جس نے زرداری کو مصیبت کے وقت ساتھ دینے پر رضامندی کا مظاہرہ
کیا اوراِن کی دعوت افطارڈنرمیں فاروق ستار اور رشیدگوڈیل کی ایم کیو ایم
کی نمائندگی سے آمادگی کا اظہار کیاجہاں مصیبت کے وقت ایم کیو ایم کا پی پی
پی کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان سندھ کی سیاست میں اہم رول اداکرے گاتو وہیں
اُمیدہے کہ اگر آج پی پی پی نے ایم کیو ایم کی اہمیت سمجھی ہے اور خود ایک
اورایک گیارہ بنالیاہے تو پھرپی پی پی ،ایم کیو ایم کے متحدہ ہونے سے مُلکی
سیاست میں بھی اِس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔
بہر کیف ..!اِس میں شک نہیں کہ ہمیشہ افہام وتفہیم اور مصالحتوں سے کام
لینے والے سابق صدر اور پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اپنی ذات
میں ایک ایسی شخصیت ہیں جنہیں دیکھ کر یہ اندازہ کیاجاتارہاہے کہ اِنہیں
کبھی غصہ نہیں آتاہوگامگر جب گزشتہ دِنوں قوم نے یہ دیکھاکہ آصف علی زرداری
اپنے خطاب میں کہیں ڈھکے چھپے توکہیں واضح الفاظوں اور جملوں کے ساتھ پاک
فوج کے خلاف تنقیدکرتے ہوئے بھڑک رہے ہیں تو قوم بھی شسدررہ گئی اور پھر تب
سے آج تک پی پی پی اور حکومت و فوج کے حامیوں کے درمیان نوک جھونک اور بحث
وتکرارکا جیسابازارگرم ہے اِس شورشرابے سے تو یہی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ
پی پی پی کی قیادت اور ساری جماعت زرداری کے فوج کے خلاف بیان اور تنقیدکے
بعد پوری طرح سے تنہارہ گئی ہے اور اگر ابھی اِس نے اپنے بیانات کی ٹھیک
طرح سے وضاحتیں نہ کیں اور فوج کو مطمئن نہ کیاتو پھر پی پی پی کو یہ یقین
کرلیناچاہئے کہ عنقریب حکومت اپنے مفادات کے خاطر پی پی پی کے خلاف وہ کچھ
کرے گی جس کا پی پی پی کو گمان بھی نہیں ہوگاتب صدر زرداری کی اپنے دور
حکومت ا ور ن لیگ کی حکومت میں پی ٹی آئی کے طویل دھرنوں کے دوران ن لیگ کے
ساتھ کی گئی مصالحت پسندی بھی کوئی کام نہیں آئے گی کیوں کہ ن لیگ جو اپنے
اِسی تیسرے دوراقتدارکے ابتدائی چندایام اور ماہ میں فوج کی سب سے بڑی
مخالف نظرآتی رہی تھی آج یہ اپنے اقتدار کو بچانے اور طول دینے کے خاطر فوج
کی سب سے بڑی حامی بن گئی ہے آج اِس بات کو زرداری اورپی پی پی والوں کو
سمجھنی چاہئے کہ اَب ن لیگ خالصتاَ جمہوری نہیں بلکہ جمہوریت کے چاشنی میں
ڈوبی آمریت کی آمیزش کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔ |