ڈاکٹر قاضی نثار احمد علیگڑھ سے دیالگام تک

یہ ۱۹۵۲؁ء اپریل کا مہینہ تھا جب اسلام آباد کے مشہور مذہبی گھرانے میں ایک ہونہار بچہ پیدا ہوا جو بعد میں ڈاکٹر قاضی نثار کے نام سے مشہور ہوا ،اسلام آباد کا یہ مذہبی گھرانہ گذشتہ چھے صدیوں سے منصب قضاۃ پر فائز رہا ہے ،اس خاندان کے ایک نامی بزرگ ’’اسداﷲ شاہ‘‘بڈشاہ کے دور میں قضاۃ کے منصب پر فائز کیے گیے اور یہی سے یہ خاندان ’شاہ‘ سے’ قاضی ‘میں بدل گیا۔قاضی نثار مرحوم نے ابتدائی تعلیم اسلام آباد میں حاصل کی ،دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد آپ نے ایس،پی کالج سرینگر میں داخلہ لیکر گریجویشن مکمل کی ،ان دنوں آپ کا قیام سرینگر کے مگرمل باغ میں رہاجہاں ’امامت ‘کے ساتھ ساتھ آپ ماہنامہ تبلیغ اور الاعتقاد کے مدیر بھی رہے ،گریجویشن کی تکمیل کے بعد آپ نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے عربی شعبہ میں ایم ،اے کے لیے داخلہ لیا۔ایم ،اے کے بعدایم ،فل اور پی ،ایچ ،ڈی کیا اور ساتھ ہی ساتھ قانون کی مروجہ باریکیوں کو سمجھنے کے لیے لکھنؤ یونیورسٹی سے ایل،ایل،بی کی ڈگری حاصل کی،۱۹۸۲؁ء میں حاجی محمد عبداﷲ نامی بزرگ کی دختر نیک اختر سے آپ کا نکاح ہوا اور ۱۹۸۳؁ء میں پہلی اولاد کی ولادت ہوئی جن میں مشہور ڈاکٹر قاضی یاسر ہے جو آج کل اپنے والد مرحوم کی دینی اور ملی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کے لئے انہی کی قائم کردہ ایک تنظیم ’اُمت اسلامی‘کے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دے رہے ہیں ۔

قاضی نثار صاحب مرحوم نے ۱۹۸۵؁ء میں پی،ایچ،ڈی کی ڈگری مکمل کی اور ۱۹۸۶؁ء میں اس وقت ریاستی منظر پر چھا گئے جب ریاست جموں و کشمیر کے گورنر جگموہن نے ’ہندؤں کے مذہبی تہوار جنم اشٹمی ‘پر جانور ذبح کر نے پر پابندی عائد کی ،قاضی نثار نے اس حکم کو مسلمانوں کے مذہبی مسائل میں مداخلت سے تعبیر کرتے ہو ئے اسلام آباد کے لال چوک میں ایک جانور ذبح کر کے گورنر کے خلاف ایک تحریک برپا کردی ،گورنر نے نثار صاحب کی گرفتاری کا حکم دیا جس سے وادی کے طول وعرض میں ہیجان پیدا ہوا ،اور اسلام آباد میں عوامی احتجاج شروع ہوا جس میں کم و بیش بارہ سو لوگوں کو گرفتار کیا گیا ،قاضی صاحب کو ساڑھے پانچ ماہ تک نظر بند رکھا گیا کہ اس کے معاََ بعد ان کے والد بزرگوار قاضی غلام محمد کا انتقال ہوا۔

قاضی غلام محمد مرحوم کے انتقال کے موقعہ پر مولانا عباس انصاری تعزیت کرنے آئے اور یہی سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اجتماعی جدوجہد شروع کرنے کی سوچ پیدا ہوئی ،جس نے بعد میں ’’مسلم متحدہ محاذ‘‘کی شکل اختیار کی ۔اس پلیٹ فارم نے ریاست کی سیاست ہی نہیں بلکہ اغیار کے ایوانوں میں بھی بھونچال پیدا کردیا،اس لئے کہ اس میں جہاں بعد میں جماعت اسلامی اورمسلم کانفرنس جیسی کئی تنظیمیں شامل ہوئیں وہی سید علی گیلانی ،پروفیسرعبدالغنی بٹ،مولانا عباس انصاری ،عبدالغنی لون،ڈاکٹر قاضی نثار احمد ،محمد اشرف صحرائی اور سید صلاح الدین احمد جیسے معروف اشخاص کی شمولیت اور سرگرمیوں سے دہلی اور ان کے مقامی خوشہ چیں اس قدر خوفزدہ ہو گئے کہ انھوں نے اس پلیٹ فارم کے ذریعے سامنے آنے والے لیڈروں کو دیوار کے ساتھ لگانے کے لئے تمام تر شرافت و اخلاق کا دن دہاڑے جنازہ نکال دیا ،البتہ کشمیر ی مسلمانوں کا یہ لا مثال اتحاد زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکا اور ۱۹۸۷؁ء کے الیکشن کے فوراََ بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا ۔

ڈاکٹر قاضی نثار صاحب مرحوم کے بارے بہت سارے لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ در حقیقت غیر سیاسی مزاج کے ایک عالم اور دانشور تھے مگر حق یہ ہے کہ یہ صرف دعویٰ ہے حقیقت نہیں ،قاضی صاحب سمجھتے تھے کہ آج کی سیاست گندھی ہے مگر اس نے تمام انسانی وسائل پر کنٹرول سنبھال لیا ہے ،لہذا تبدیلی کے لئے اس میدان میں آنا ضروری ہے اور یہی وجہ تھی کہ نہ صرف ان کی محنتوں سے مسلم متحدہ محاذ نامی طاقتور سیاسی پلیٹ فارم وجود میں آگیا بلکہ انھوں نے ۱۹۸۴؁ء میں الیکشنوں میں حصہ لینے کے لیے بحثیت امیدوار فارم بھی بھرا جو انھوں بعد میں والدصاحب کے اصرار پر واپس نکالا ۔

قاضی صاحب نہ صرف ایک سیاستدان اور عالم دین تھے بلکہ عربی ،اردو اور انگریزی زبانوں پر کامل دست رس کے ساتھ ساتھ انھیں اسلامی اور غیر اسلامی قوانین کا کافی مطالعہ تھا ،وہ ایک باحمیت اور نڈر عالم دین تھے جسکی ایک واضح مثال ان کا پی،ایچ،ڈی مکمل کرتے ہی ایک ظالم اور جابر گورنر کے اسلام کش حکم پر اس کی خلاف ورزی ہے اور پھر اسی واقعہ کے سبب مسلمانوں کے تمام مسالک و مکاتب فکر کا مجتمع ہونا اس کی روشن مثال ہے ،قاضی مرحوم نے قصبہ اسلام آباد میں’ بین الفرق ‘اختلافات کے خاتمے کے لیے ایک انوکھی بلکہ اپنی نوعیت کی قابل تقلید مثال یہ قائم کی کہ وہ ’مف‘ کے وجود میں آنے سے قبل جمعہ کی نماز عیدگاہوں میں پڑھنے لگے اور اس کے لیے اسلام آباد کے دو عیدگاہوں کا انتخاب کیا گیا ایک ’’احناف‘‘کا دوسرا ’’اہلحدیث‘‘کا ،اور جب احناف کے عیدگاہ میں نماز پڑھانے کا وقت آتا تھا تو اہلحدیث عالم کو آگے بڑھایا جاتا تھا اور جب اہلحدیث عیدگاہ میں نماز پڑھانی ہوتی تھی تو ڈاکٹر قاضی نثار صاحب امامت کے فرائض انجام دیتے تھے ۔

ڈاکٹر صاحب روانی عربی بولتے تھے ، انھیں جدید عربی کی خوب واقفیت تھی ان کا پی،ایچ،ڈی کاتحقیقی مقالہ شام کے ایک’’ معروف ادیب عبدالرحمان بک ‘‘سے متعلق ہے جس کے مطالعہ سے ان کے محققانہ مزاج اور انداز فکر کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،اﷲ تعالیٰ نے آپ کو شیریں زباں عطا کر نے کے ساتھ ساتھ قلمی خوبی سے نوازا تھا ۔ماہنامہ الاعتقاد، مبلغ،ماہنامہ اسلام آباداور ہفت روزہ کشمیریت کے اوراق ان موتیوں سے بھرے پڑے ہیں ،جس میں چند نمونے یہ ہیں :ڈاکٹر صاحب’ ہفت روزہ کشمیریت۲۸مئی ۱۹۹۲؁ء ‘میں’’ بھارتی سیاسی عمل ایک ڈھکوسلہ ‘‘کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں ’ہمارا سوال تعلق پسندوں سے نہیں،ان سے ہے جو نئے ’ألست‘ سے سرشار ہیں ،بازارِ مصطفےٰﷺ میں اپنا تن و من اﷲ کو بیچ چکے ہیں ،بعلبک کی جنگ میں دس آدمیوں کی چھوٹی سی ٹولی کے ساتھ خالد بن ولید ؓ کا دشمن کے صفوں میں گھس جانا ،یزیدی افواج کے خلاف حسین ؓ کا فیصلہ جہاد ،طارق بن زیادؒ کا دیارِ غیر میں پہنچ کر ان کشتیوں کا خاکستر کر دینا جن پر سوار ہو کر وہاں پہنچے تھے ۔۔۔ٹڈی دل مسیحی فوجوں کی راہ میں صلاح الدین ایوبی ؒکا حائل ہونا ،محمد بن قاسم ؒ کا ہندوستان آنا ،کیا یہ سب اپنے آپ کوہلاکت میں ڈالنے کے واقعات نہ تھے؟کیا عقل ان معرکوں پر روانہ ہو نے کی اجازت دے سکتی تھی؟ان دنوں اصحاب فہم و فراست نے یقینا معرکین کی کوششوں کو ہلاکت کے مترادف قرار دیا ہوگا لیکن آج تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والے حضرات کو اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے کہ ان کے فیصلے صحیح تھے اور ان کی یہ کوششیں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کی نہیں بلکہ اسلامی نشرواشاعت کے لیے ان کی جاندار کوششیں تھیں ۔

ماہنامہ اسلام آباد کے جون ۱۹۸۳؁ء کے شمارہ نمبر ۴ میں مرحوم لکھتے ہیں ’’جی ہاں !ہم کھاتے بھی ہیں اور پیتے بھی ،تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا بھی میسر ہے اور سر چھپانے کے لیے مکان بھی ،لیکن ہم پھر بھی غلام ہیں ،ان دنوں بھی غلام تھے جب ہمیں انگریزوں سے خریدا گیا اور آج بھی غلام ہیں جب کہ ہم مفت میں بیچے گئے ہیں۔۔۔آج ہمارے ہاں کونسی آزادی نہیں ؟ہماری مسجدوں میں ذکر بالجہر بھی ہوتا ہے اور علی الاعلان خطبے بھی،جمعہ کا اہتمام بھی ہوتا ہے اور عید کی تعطیل بھی۔۔۔صبح بنارس ہماری صبح پر رشک کرتی ہے،شامِ اودھ ہماری شام کی عظمت سے شرمندہ ہے ،شبِ شیراز شبِ کشمیر ہونے کی تمنا کرتی ہے۔۔۔لیکن یہ ذکر یہ خطبے،یہ جمعہ،یہ عید،اس صبح کی رعنائیاں،اس شام کی دلنوازیاں چِلا چِلا کر کہتی ہیں کہ ہم غلام ہیں ۔

مرحوم نہ صرف سماجی مسائل میں بحثیت کارکن آگے آگے نظر آتے تھے بلکہ جب بھی اسلام ،قرآن اور پیغمبرﷺ کی بات آتی تھی تو خطرات کی پرواہ کئے بغیر قائدانہ رول نبھاتے تھے ،جگموہن کے خلاف اعلانِ بغاوت اور پھر اُمتِ اسلامی کے قیام کے بعد اُمت کے مفاد میں مسلکی اور فکری اختلافات کی پرواہ کئے بغیر دوسرے مخالفین کو ساتھ لیکر ایک ایسی مثال قائم کی جو آج تک ان کے خیالات کے ہم نوائی کا دعویٰ کرنے والوں میں دور دور تک کہیں بھی نظر نہیں آتا ہے ،اپنی زندگی میں اسے بھی بڑا کارنامہ مرحوم نے یہ انجام دیدیا کہ ’’مسلم متحدہ محاذ‘‘کے لیے اپنے آپ کو اس کے انتشار تک وقف کر دیا ،یہ ماننا پڑے گا کہ موجودہ تحریک میں مسلم متحدہ محاذ کا اہم رول رہا ہے اور اس اتحاد میں قاضی صاحب کے رول کو مستقبل کا مورخ نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔

۱۹۹۰؁ء کی خونین تحریک میں قاضی صاحب خاموش نہیں رہ سکتے تھے اور نہ یہ ان کے منصب سے میل کھانے والی سوچ ہوتی اگر چہ اس دور میں کئی لوگوں نے وہی رویہ اختیار کر کے اپنے آپ کو مسجدو محراب تک محدود رکھا ،مگر قاضی صاحب جیسے باحمیت اور باغیرت نوجوان قائد قوم کے جنازوں ،سوگوار گھروں ،بین کرتی ماؤں ،نمناک یتیموں کی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے ایک حامی اور وکیل کی صورت میں میدان میں آگئے اور صرف چند ہی روز میں دلی کے اشاروں پر دوسرے قائدین کی طرح ۱۹۹۰؁ء میں گرفتار کر کے جیل پہنچا دیے گیے اور جولائی ۱۹۹۲؁ء میں دوسرے قائدین کے ساتھ رہا کر دئے گیے،جیل میں ہی دوسرے قائدین کے ساتھ یہ بات طے ہوئی تھی کہ باہر آکر اجتماعی سیاسی جودجہد کا آغاز کیا جائے گا،سنیچر کے دن ان کی رہائی عمل میں لائی گئی اتوار کے بجائے سوموار کو میڈیا کے ساتھ اجتماعی بریفنگ کا فیصلہ طے تھا ،قاضی صاحب اپنے گھر اسلام آباد روانہ ہوئے انھیں حسب وعدہ سوموار کی پریس بریفنگ میں شامل ہونا تھا کہ دوسرے قائدین نے اتوار کو ہی میڈیا کوبلا کر اپنے خیالات اور مسقبل کے پروگرام سے واقفیت دلا دی جس سے قاضی صاحب بد دل ہو گئے اور انھیں شدت کے ساتھ محسوس ہوا کہ یہ انھیں ’’کنارے لگانے ‘‘کی ایک دیدہ دانستہ کوشش ہے اور بعد کے حالات نے ان کے اس ظن پر مہر تصدیق ثبت کر دی اس لئے کہ اتنے باصلاحیت آدمی کو کبھی بھی خاطر میں نہیں لایا گیا۔

دوسرے قائدین کی طرح قاضی نثار کی کوئی اپنی عسکری تنظیم نہیں تھی حالانکہ کئی تنظیموں نے انھیں سرپرستی کی دعوت دی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کا ہر ایک کو اپنا سمجھنا اور کسی ایک گروہ سے اپنے آپ کو وابستہ نہ کرنا ان کی ’’بڑائی بھی اور سادگی بھی ‘‘تھی اس لئے کہ کشمیر میں اس وقت حالات ایسے تھے کہ کسی گروہ سے اپنے آپ کو نہ جوڑنا خطرے سے خالی نہیں تھا بالخصوص آپسی تصادموں میں ایسے لوگ بری طرح پسے جاتے تھے ،کشمیر میں عسکریت کے شروع ہونے کے بعد ایک لاعلاج مرض بہت تیزی کے ساتھ پھیلا، اور وہ ہے ایک دوسرے پر شک کرنا ،قاضی نثار کی ’شہادت‘میں اس عنصر کو بڑا عمل دخل رہا ہے ،جیل سے رہائی کے بعد چونکہ قائدین کی بے رخی سے وہ ایک طرح سے دلبرداشتہ تھے لہذا ان کا سیاسی رول ضلع اسلام آباد تک ہی محدود ہو چکا تھا،مگران دنوں سرگرم نہ رہنا بھی ایک گناہ بن گیا تھا ،بعض لوگ اس پر رنگ چڑھا کر خودساختہ کہانیاں بیان کرتے تھے۔

۲۰۱۳؁ء میں برطانیہ کے معروف صحافی نے اپنی کتاب میں یہ انکشاف کیا کہ قاضی نثار کے قتل میں براہ راست آئی ،بی ملوث ہے جنہوں نے سکندر نامی حرکت الانصار کے ڈیوژنل کمانڈر کو(غلط فہمی میں مبتلا کر کے)استعمال کرتے ہوئے حزب المجاہدین تک یہ بات پہنچا دی کہ قاضی نثار ہندوستان نواز آدمی ہے اور حزب نے اسی اطلاع پر انھیں قتل کر دیا ،ضلع اسلام آباد کے اکثر لوگ یہ مانتے ہیں کہ انھیں سیاسی انتقام گیری کا نشانہ بنایا گیا جب کہ حزب نے اس الزام کو کبھی بھی قبول نہیں کیا کہ وہ براہ راست ان کے قتل میں ملوث ہے ،قاضی نثار کے قتل کا معمہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے کہ کس نے اور کیوں کر انھیں قتل کر دیا ؟اس حوالے سے آج تک جو کچھ سامنے آچکا ہے وہ بس قیاس آرائیوں پر مبنی کہانیاں ہیں حالانکہ ان جیسے لوگوں کا قتل اس بات کا متقاضی ہے کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ انھیں کس نے اور کیوں قتل کر دیا ؟

برطانیہ کے صحافی کی تحقیقات کو رد کرنا بھی درست نہیں اس کی کہانی کی تائید اور بھی کئی چیزوں سے ہو تی ہے جن میں میرے نزدیک تین اسباب قابل وزن ضرور ہیں نمبر ایک قاضی نثار کے خفیہ مراسم مجاہد دور کی اخوان سے کم ’’حرکت الانصار‘‘کے ساتھ زیادہ تھے مگر یہ بات بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہے ،برعکس اس کے بعض لوگوں نے اخوان کی بات کو اس کے سرکارنواز بن جانے کے بعد کافی شدت کے ساتھ پھیلا دی ،حرکت الانصار انھیں پاکستان لے جاکر دوسری تنظیموں کی طرح پاکستان میں سیاسی کشمیری وکیل ،ترجمان اور لیڈر کے طور پر پیش کرتے ہوئے عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتی تھی اس لئے کہ اس کا اعلیٰ کیڈر ہی غیر کشمیریوں پرمشتمل تھا،دوسری چیز انھوں نے اسلام آباد اور اسے باہر فوج اور پولیس کے ہاتھوں زیادتی کی شکار قریباََ پانچ سو خواتین کی ڈاکومنٹر ی تیار کی تھی جو وہ عموماََ غیر ملکی وفود اور میڈیا کو پیش کیا کرتے تھے،تیسر ی اور سب سے اہم چیز یہ تھی کہ طویل جدوجہد کے بعد وہ ضلع اسلام آباد کے حوالے سے بالعموم اور قصبہ اسلام آباد کے حوالے سے بالخصوص حکومت کے ہاتھوں سے اوقاف اسلامیہ کا قبضہ چھڑانے کے قریب پہنچ چکے تھے ،۳مئی۱۹۹۴؁ ء کوقاضی محلہ میں ایک آئین تشکیل پایا جس میں وقف کے ایک ایک جز اور اس کے الگ الگ اخراجات کی تفصیلی وضاحت موجود ہے اور حکومت اس بات پر آمادہ ہو چکی تھی کہ اوقاف مسلمانان کشمیر کی پراپرٹی ہے اور وہی اس کو خرچ کرنے کے مجاز ہیں جس میں آمدنی سے لیکر اخراجات تک کی مکمل تفصیل موجود ہے ،اور یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر ایسا ہو جاتا تو یقینا کشمیر میں آج اوقاف حکومت کی میراث کے بجائے مسلمانانِ کشمیر کی پراپرٹی ہوتی ۔

قاضی نثار مرحوم نے اپنے پیچھے چھے اولادیں چھوڑی ہیں جن میں ڈاکٹر قاضی یاسر کافی معروف ہیں ،یہ نوجوان جو اپنے چچا مرحوم کے بعد ’جنوبی کشمیر کے میر واعظ‘بھی ہیں ۲۰۱۰؁ء کی ایجی ٹیشن میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کورٹ بلوال سے لیکر سری نگر سینٹرل جیل تک لمبی قید کاٹ چکے ہیں ،جس میں اپنے والد کی طرح کچھ کرنے کی لگن اور تڑپ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے انھیں اپنے والد کے نقش پا پر چلنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا اور انھیں کسی خاص فرقے کے بجائے چھے سو سال پرانے جد امجد مولانا اسداﷲ شاہ کی پہچان کو قائم رکھنا ہو گا ان میں بے شک قاضی نثار کا عکس ہی نہیں خون شامل ہے مگر قاضی نثار اپنی مثال آپ تھے ،اہلیان اسلام آباد قاضی یاسر سے یہ اُمید رکھے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے باپ کے ’’غلبۂ اسلام ‘‘کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں انہی کی طرح نئے جذبے اور جوش کے ساتھ میدان عمل میں آئیں گے یہی ان کا حقیقی خراج اور مشن کے ساتھ وفاداری کی کامل دلیل ہوگی۔

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 93722 views writer
journalist
political analyst
.. View More