انسانی حیات کا حقیقی راز’’موت‘‘
میں پوشیدہ ہے۔موت ایک حصار ہے جس نے اس دنیا میں حیات کو اپنی قید میں لے
رکھا ہے۔ اس حصار سے نکل جانا حقیقی حیات ہے۔ موت ایک راز ہے،جس نے اس راز
تک رسائی حاصل کر لی وہ اِ س سے نجات پا گیا۔موت ایک پردہ ہے خالق و مخلوق
کے درمیان، بندے اور رب کے درمیان۔اس حجاب کو ہٹا کر خالق سے جا ملنا حقیقی
حیات ہے،خواہ یہ حجاب دنیاوی زندگی کے دوران ہی ہٹ جائے یا جسمانی وجود سے
نجات کے بعد ہٹے۔ جس نے جسمانی وجود کی موجودگی میں یعنی دنیاوی زندگی کے
دوران ہی اس حجا ب کو پار کر لیا وہ جسمانی موت سے آزا د ہو گیا۔ انسان کی
دنیاوی زندگی کے آغاز سے ہی موت اس پر مسلط کر دی گئی ہے جو اِ س دنیا میں
آیا ،موت اُ س کے لیے لازم وہ گئی چنانچہ موت کا اِ س دنیا سے گہرا تعلق ہے
یعنی موت صرف اِ س دنیا سے جڑی ہے، نہ ازل میں موت کا کوئی وجود تھا،نہ ہی
ابد میں ہو گا،کیونکہ نہ ازل میں اللہ اور مخلوق کے در میان کوئی شے حائل
تھی اور نہ ابد میں ہو گی۔ پس موت وہ شے ہے جو اللہ اور مخلوق کے درمیان
حائل ہے۔
انسان کا وجود بہت سی پرتوں پر مشتمل ہے۔ اِ س جسمانی وجود کے اند ر پہلی
پرت نفس کی ہے،دوسری روح اور تیسرا قلب ہے۔ قلب کے اندر نورِ حقیقی یعنی
ذاتِ حق تعالیٰ پوشیدہ ہے۔قلب،روح اور نفس ابتدائے حیات میں انتہائی لطیف
اور آئینے کی طرح شفاف ہوتے ہیں پس عبد اور رب میں کوئی پردہ حائل نہیں
ہوتا۔ نفس وقلب و روح نورِ حق سے مجلیٰ(روشن) ہوتے ہیں یعنی نورِ حق ہی کے
آئینے اور صورت ہوتے ہیں۔ اِ س دنیا میں آمد کے ساتھ ہی سب سے پہلے نفس
دنیاوی خواہشوں سے گر د آلود ہونا شروع ہو تا ہے۔ جس قدر گرد آلود ہوتا ہے
اُ سی قدر میلا اور موٹا ہوتا ہے پس بندے اور نورِ حق کے درمیان حائل ہونے
لگتا ہے۔ بندہ اپنے رب سے دور ہونے لگتا ہے۔اِ س نفس کے پردے کی میل بڑھتے
بڑھتے اِ سے نفسِ اماّرہ کے درجے تک پہنچا دیتی ہے۔ نفسِ امّارہ نفس کی وہ
حالت ہے جو ہمیشہ برائی کا حکم دیتی ہے۔نفسِ امّارہ سیاہ صورت رکھتا ہے یہی
وجہ ہے کہ جب ایک عام انسان اپنے من میں جھانکتا ہے تو اُ سے اندھیرا
دکھائی دیتا ہے حالانکہ اِ سی انسان کے اندر ذاتِ حق تعالیٰ موجود ہے جیسا
کہ اللہ نے خود فرمایا کہ وَفِیْ اَ نْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْن ترجمہ:
’’ اور میں تمہارے اندر موجو د ہوں کیا تم دیکھتے نہیں‘‘ اور فرمایا کہ ’’
ہم تو شہ رگ سے بھی نزدیک ہیں‘‘۔ نفسِ اماّرہ کا کالا پردہ اسے اپنے ہی
اندر موجود نورِ ربیّ کے قرب و دِ یدار سے محروم رکھتا ہے ،نفسِ امّارہ کی
یہ حالت روح اور قلب پر بھی ا ثر انداز ہونے لگتی ہے۔نفسِ امّارہ اللہ سے
دور اور شیطان سے قریب اُ س کے قبضے میں ہے نفس پر شیطانی قبضے کے باعث روح
اور قلب بیمار اور پژمردہ ہونے لگتے ہیں باطنی بیماریاں حسد، تکبر،
لالچ،ہوس اور کینہ ان پر حملہ کر کے انہیں اِ س قابل بھی نہیں چھوڑتیں کہ
وہ اپنے رب سے صحیح اور سچا تعلق قائم کر سکیں لیکن بالآخر ہر ذی روح کو
اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن ’’بیشک
ہم سب ا للہ کی طرف سے ہیں اور اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانے والے ہیں‘‘ اللہ
کی طرف لوٹنا کیا ہے ؟ اللہ کی طرف لوٹنا درحقیقت نفس کے اُ س کالے ،موٹے
،میلے پردے اور حجاب کا کٹنا اور ختم ہو جانا ہے جو اللہ اور بندے کے
درمیان حائل تھا جس کے بعد بندے اور خالق کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہتا۔
قرآن میں اللہ نے ’’موت‘‘ کا لفظ حرف ’’نفس ‘‘ کے لیے استعمال کیا کُلُّ
نَفْسٍ ذَائقَۃُالْمُوْت ترجمہ : ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ یعنی جب
بھی موت وار د ہو گی نفس پر ہی ہو گی جسم یا روح پر نہیں ہو گی جسم تو روح
کے بغیر ویسے ہی بے جان شے ہے اور بے جان اشیاء مرتی نہیں اور روح تو
’’امرِ ربّی‘‘ ہے ، اسے ہی تو جا کر اللہ کے سامنے حا ضر ہونا اور حساب
کتاب دینا اور جزاوسزا حاصل کرنا ہے، اس لئے روح مر نہیں سکتی اسلأے موت جب
بھی آئے گی نفس پر ہی آئے گی اور جتنا یہ نفس موٹا اور کالا ہو گا اُ تنی
ہی اِس کے کٹنے کی یعنی موت کی اذیت ذیا دہ ہو گی۔نفس کے کٹتے ہی بندہ اپنے
رب سے بھی مل جاتا ہے اور اپنے قلب اور روح کی وہ بُری اور بیمار حالت بھی
دیکھ لیتا ہے جو نفس کے پردے کی وجہ سے اوجھل تھی۔اُ س وقت اُس کا یہ
خوبصورت جسم اُ سکا ساتھ چھوڑ کر کیڑوں کی خوراک بن چکا ہوتا ہے جس کی
پرورش میں اُ س نے ساری عمر صَرف کی تھی۔ اب اُس کے پاس اُس کی بیمار روح
اور پژمردہ قلب کے سوا کچھ نہیں جس کے ساتھ ا ب اُس نے ہمیشہ رہنے والی
حیات میں گزارہ کرنا ہے اُس کی اِ س گندی حالت کے باعث پاک رب بھی اُ س کی
طرف نظر نہیں کرتا۔
البتہ وہ لوگ جن کی نظر اِ س دنیا میں آ کر بھی اپنے رب پر رہتی ہے، جو پاک
رب سے اپنا پاک تعلق جوڑے رکھنا چاہتے ہیں سب سے پہلے اپنے نفس کی پاکیزگی
کی فکر کرتے ہیں۔ خواہشاتِ نفس کی خلاف ورزی کرنے سے نفس کا پردہ باریک
ہونے لگتا ہے، توبہ کے آنسو اور ذکرِ الٰہی میں شدت سے نفس پر پڑی میل بھی
صاف ہونے لگتی ہے۔ گناہوں اور خواہشاتِ نفسانی کی پیروی سے اجتناب کے باعث
مزید گَرد سے نفس محفوظ رہتا ہے۔ اِس پر اگر کسی ولیِ کامل کی نگاہ میسر آ
جائے تو نفس اِ س نگاہ کے نورانی ا ثر سے روشن اور شفاف ہونے لگتا ہے روح
اور قلب بھی صحت مند ہونے لگتے ہیں۔ جب نفس شفاف ہوتے ہوتے امّارہ سے لوامہ
، پھر لوامہ سے ملہمہ اور پھر ملہمہ سے مطمئنہ کے درجے پر پہنچتا ہے تو اُ
سی طرح شفاف اور لطیف ہو جاتا ہے جیسا ازل میں تھا ۔پس اتنا باریک اور لطیف
ہو جاتا ہے کہ قلب کے اندر موجود نورِ حق انسان کے اندر ظاہر ہو جاتا ہے،رب
اور بندے کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہتا۔یعنی جسم کے روح سے جدا ہونے سے
آنے والی جسمانی موت سے قبل ہی انسان اپنے رب سے ملاقات کر لیتا ہے۔انسانی
نفس کی اِ سی حالت کو حضور اکرم ﷺ نے مُوْتُوْاقَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا
ترجمہ: ’’ مرنے سے پہلے مر جاؤ‘‘ کی مبارک حدیث میں بیان فرمایا ہے جس
انسان نے اپنے نفس کو جسم کی موت سے قبل ہی مار کر نفسِ مطمئنہ کے پاک و
شفاف مقام تک پہنچالیا اُ س کے لیے موت صرف اِ س جہان سے دوسرے جہان منتقل
ہونا ہے جیساکہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا اِنَّ اَوْلِےَآءَ
اللَّہِ لاَ ےَمُوْتُوْنَ بَلْ ےَنْتَقِلُوْنَ ترجمہ: ’’ بیشک اولیاء اللہ
مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہو جاتے ہیں ‘‘۔ کیونکہ وہ تو
اِ س دنیا میں رہتے ہوئے ہی اپنے رب کی طرف رجوع کر چکے تھے ،لوٹ چکے تھے۔
اِ س دنیا میں رہ کر نفس کو آہستہ آہستہ مارنا بظاہر مشکل لگتا ہے لیکن اگر
کسی کو بوقتِ موت نفس کے کالے موٹے پردے کے کٹنے کی اذیت کی شدت جسے عام
الفاظ میں جان کنی یا نزع کی کیفیت کہتے ہیں،کا احساس ہو جائے تو وہ ضرور
اِ س ا ذیت سے بچنے کے لئے اِ سی دنیا میں ہی نفس کو دھیرے دھیرے موت کے
گھاٹ اتارنا ذیادہ پسند کرے اور اگر اسے نفس کے نفسِ مطمئنہ بن کر قربِ
الٰہی میں رہنے کی لذت کا اندازہ ہو جائے تو وہ کبھی دنیاوی لذتوں اور نفس
کی خواہشوں پر ایک نظر بھی نہ ڈالے اور پھر نفس کو مارنا اس پر اور بھی
آسان ہو جائے ۔بیشک نفس کی موت ہی اصل اور ہمیشہ کی خوبصورت حیات ہے۔
تحریر: مسز عنبرین میغیث سروری قادری |