حضرت سلطان باھو اور مرشد کامل اکمل

مرشدِ کامل کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

مرشدِ کامل کسے کہتے ہیں ؟ مرشد کِن خواص واوصاف کا ما لک ہوتا ہے؟ مرشد طالب کو کس طرح غرقِ تو حید کرتا ہے اور کس طرح مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پہنچاتا ہے؟ اور مرشد کس مقام اور کس درجے کا مالک ہوتا ہے؟مرشد ''صاحبِ تصرف فنافی اللہ بقاباللہ'' فقیر ہوتا ہے جو مردہ قلب کو زندہ کرتا ہے زندہ نفس کو مارتا ہے، مرشدلا یحتاج (ہر حاجت سے پاک) ہوتا ہے۔مرشداُس سنگِ پارس کی مثل ہوتاہے جو اگر لوہے کوچھو جا ئے تو لوہا سو نا بن جاتا ہے ۔مرشد کسوٹی کی مثل ہے ۔اس کی نظر آفتاب کی طرح فیض بخش ہوتی ہے جو طالب کے وجود سے خصائلِ بد کو مٹادیتی ہے۔مرشد رنگریز کی مثل ہے۔ مرشد تنبولی کی مثل ہے جو پا ن کے پتوں سے کار آمد پتوں کو چھانٹتا ہے۔ مرشد صاحبِ خُلق ہوتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جیسے خُلق کا مالک ہوتا ہے ،مہربان ایسا کہ ماں باپ سے زیادہ مہربان ،راہِ خدا کاہادی وراہنما ،گوہر بخش ایسا کہ جیسے کانِ لعل وجواہر ،موجِ کرم ایسے کہ جیسے دریائے دُر، منزل کشا ایسے کہ جیسے قفل کی چابی ، مال وزردنیا سے بے نیاز ،طمع سے پاک ،طالبوں کو اپنی جان سے عزیز تر رکھنے والا مفلس درویش۔مرشد مردوں کے غسا ل کی مثل ہوتا ہے اور ہر وقت مُردہ طالب کی تلاش میں رہتا ہے جو '' موتوا قبل ان تموتوا ‘‘ (مرنے سے قبل مرجاؤ) کا مصداق بن کر مرنے سے پہلے مرچکا ہو ، جس کا نفس مردہ مگر دل زندہ ہو اور ر اہِ فقر میں فاقہ کشی کرنیوالا ہو ورنہ نالا ئق طالب تو اپنی مرضی پر چلتا ہے۔مرشد کمہار کی مثل ہوتا ہے جس کے سامنے مٹی دم نہیں مارتی چاہے وہ اس سے جو بھی سلوک کرے۔مرشد کو چاہیے کہ وہ خدابین ہو اور طالب کو چاہیے کہ وہ صادق الیقین ہو۔ مرشد رفیق کو کہتے ہیں چنانچہ حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا فرمان ہے ''پہلے رفیقِ راہ تلاش کرو پھر راہ چلو''۔اِس دور کے مرشد زرپرست ہیں ،نظر سے مٹی کو سونا بنانے والے مرشد نایاب ہیںآج کل کے مرشد زر پرست و زن پرست ہیں ،زر پر ست وزن پرست ودل سیاہ خود پرست ہیں۔

مرشد درخت کی مثل ہوتا ہے جو موسم کی سردی گرمی خود برداشت کرتا ہے لیکن اپنے زیرِ سایہ بیٹھنے والوں کو آرام وآرائش مہیا کرتا ہے مرشد کو دشمنِ دنیا اور دوستِ دین ہونا چاہیے اور طالب کو صاحبِ یقین، جو مرشد پر اپنی جان ومال قربان کرنے سے دریغ نہ کرے۔مرشد کو نبی اللہ کی مثل ہونا چاہیے اور طالب کو ولی اللہ کی مثل۔(عین الفقر)

وسیلت (مرشد)بہتر ہے فضیلت (علم)سے۔ گناہ کرتے وقت علمِ فضیلت بندے کو گناہ سے نہیں روک سکتا جبکہ وسیلت بندے کو گناہ سے روک لیتی ہے جیساکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو وسیلت نے زلیخا کے شر سے بچالیا تھا۔ حضور علیہ لصلوٰۃالسلام کا فرمان ہے ''شیخ اپنی قوم میں اس طرح ہوتا ہے جس طرح کہ نبی اپنی اُمت میں ۔''(عین الفقر)
مرشد تین قسم کے ہوتے ہیں:
1. مر شدِ د نیا
2. مرشدِ عقبیٰ اور
3. مرشد کامل اکمل۔

اوّل مرشد دنیا مال ودولت ، عزت وشہرت اور رجو عاتِ خَلق کا طا لب ہوتا ہے ، مرید کی ہڈیاں بیچ کھانے ، خا نقا ہیں بنانے ،زمین وآسمان کا سیر تما شا کرنے، صاحبِ کشف وکرامات ہونے اور بادشاہِ دنیا کے قرب وملا قات کا طا لب ہوتا ہے ۔ ایسی طلب کا تعلق مرتبہِ مخنّث(ہیجڑہ) سے ہے لہٰذا عارفِ دنیا مرشدمخنثّ ہوتا ہے ۔اس کا طا لب بھی مخنث ہو تا ہے۔دوم مرشدِ عقبیٰ عابدزاہد ، ا ہلِ علم اور متقی وپر ہیز گا ر ہو تا ہے جس پر خوفِ جہنم سوار رہتا ہے اور ہر وقت طلبِ جنت میں عبا دت کرتا ہے ،اس کا تعلق مرتبہِ مؤنث سے ہے اور اس کا طالب بھی مؤنث ہی ہو تا ہے ۔ سوم مر شد کا مل اکمل جو عارفِ مولیٰ عارفِ باللہ تو حیدِ الٰہی میں غرق صاحبِ حضور ہوتا ہے جو دنیا و عقبیٰ سے دُور اور اشغالِ اللہ میں مسرور ہوتا ہے ۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس ۔(عین الفقر)

پس مرشدکسے کہتے ہیں ؟ جو دل کو زندہ کردے اور نفس کو ما ر دے اور جب طا لب پر جذب وغضب کی نگاہ ڈالے تو اس کے دل کو زندہ کردے اور نفس کو ما ردے ۔ مرشد اسے کہتے ہیں جو فقر میں اس درجہ کا مل ہو کہ اس نے خود پر غیر ما سویٰ اللہ کو حرام کر رکھا ہو اور ازل سے ابد تک احرام با ند ھے ہوئے حاجی بے حجاب ہو۔ایسا مرشد طبیب کی مثل ہوتا ہے اور طا لب مریض کی مثل ۔ طبیب جب کسی مریض کا علا ج کرتا ہے تو اسے تلخ وشیریں دوائیں دیتا ہے اور مریض پر لازم ہو تا ہے کہ وہ یہ دوائیں کھائے تاکہ صحت یاب ہوسکے۔(عین الفقر)

مرشد کامل اکمل کی نشانی کیا ہے ؟ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

مرشد کامل پہلے دن اسمِ اللہ ذات لکھ کرطالب کے حوالے کردیتا ہے ۔اور اسے کہتا ہے ''اے طالب اسمِ اللہ ذات دِل پر لکھ اور اس کا نقش جما ۔''جب طالب تصور سے دل پر اسمِ اللہ ذات نقش کرنے میں کا میاب ہوجاتاہے تو مرشد طالب کو توجہ دے کر کہتا ہے'' اے طالب اب اسمِ اللہ کو دیکھ ''چنانچہ اسی وقت اسمِ اللہ ذات آفتاب کی طرح تجلّی انوار سے روشن اور تاباں ہوجاتا ہے۔ (نورالہدیٰ )
مرشدِ کامل وہ ہوتا ہے جو طالب کو اسمِ اللہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس کا تصوربھی عطا کرے آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:''جو مرشد طالب کو تصور اسمِ محمد ذات عطا نہیں کرتا وہ مرشد لائقِ ارشاد مرشد نہیں۔''(نور الہدیٰ)
مرشدِ کامل پہلے دن ہی طالب مولیٰ کو اسم اللہ ذات تحریر کرکے دے دیتا ہے۔(کلید جنت)
بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پہاڑ یا دیوار حائل نہیں ہے ۔اور نہ ہی میلوں تک پھیلی ہوئی طویل مسافت ہے۔بلکہ پیاز کے پردہ سے بھی زیادہ باریک پردہ ہے جسے تصورِ اسمِ اللہ ذات اور صاحبِ راز مرشد کامل کی توجہ سے توڑ نا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ تو آنا چاہے تو درواز ہ کھلا ہے، اگر نہ آئے تو اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔(کلید التوحید کلاں )
مرشدِ کامل اکمل باطن کی ہر منزل اور ہرراہ کا واقف ہوتا ہے۔باطن کی ہر مشکل کا مشکل کشاہوتا ہے۔مرشدِ کا مل توفیق الٰہی کا نام ہے جب تک توفیقِ الٰہی شاملِ حال نہ ہو کو ئی کام سرانجام نہیں پاتا۔ مرشدِ کامل کے بغیر اگر تو تمام عمر بھی اپنا سر ریا ضت کے پتھر سے ٹکراتارہے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ بے مرشد وبے پیر کوئی شخص خداتک نہیں پہنچ سکا ۔مرشدِ کا مل اکمل جہاز کے دیدہ با ن معلم کی طرح ہوتا ہے۔ جو جہاز رانی کا ہر علم جانتا ہے اور ہر قسم کے طوفان وبلاسے جہاز کو نکال کر غرق ہونے سے بچا لیتا ہے ۔مرشد خود جہاز ، خود جہاز ران ہوتاہے( سمجھ والا سمجھ گیا) ۔(عین الفقر)
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ صاحبِ راز (مرشد کا مل اکمل)کے سینے میں ہے کیونکہ قدرتِ توحید و دریاء وحدتِ الٰہی مومن کے دل میں سمائی ہوئی ہے اس لیے جو شخص حق حاصل کرنا چاہتا ہے اورواصلِ باللہ ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے سب سے پہلے مرشد کاملِ اکمل کی طلب کرے اس لیے کہ مرشد کامل اکمل دل کے خزانوں کا مالک ہوتا ہے۔جوشخص اپنے دِل کا محرم ہوجاتاہے وہ دیدارِ الٰہی کی نعمت سے محروم نہیں رہتا۔(عین الفقر)
مرشدِ کامل وہ ہے جو طالب کے ہر حال، ہر قول، ہر فعل، حالتِ معرفت و قرب وصال اور ہر حالتِ و دلیل و وہم خیال سے باخبر رہے۔ مرشد کو اس قدر ہو شیار ہونا چاہیے کہ وہ ہر وقت طالب کی گردن پر سوار رہے اور اس کی ہر بات اور ہر دم نگہبانی کرتا رہے۔ مرشد اس قدر باطن آباد ہو کہ طالب اسے حاضراتِ اسمِ اللہ ذات کی مدد سے ظاہر و باطن میں ہر وقت حاضر ناظر سمجھے اور اس سے کامل اعتقاد رکھے ۔ہر عام و خاص مرشدی کا اہل نہیں ہوتا ۔مرشد تو پارس پتھر کی مثل ہوتا ہے جسے چھو کر لوہا سونا بن جاتا ہے۔(کلید التوحید کلاں)
مرشدِ کامل طالبِ اللہ کو تصورِ اسمِ اللہ ذات کے ذریعے معرفت و دیدار کا سبق دیتا ہے۔ اور دنیا مردار سے بیزار کر کے ہزار بار توبہ کراتا ہے۔ مرشدِ کامل وہ ہے جو تصورِ اسمِ اللہ ذات سے معرفتِ دیدار منکشف کرتا ہے پھر اسمِ اللہ ذات میں لوٹ آتا ہے کیونکہ ابتدا اور انتہا کا کوئی مرتبہ بھی اسمِ اللہ ذات سے باہر نہیں اور نہ ہوگا۔(نور الہدیٰ)
اگر کوئی شخص تمام عمر ریاضت میں گزار ے اور تیس سال تک ایک پاؤں پر کھڑ ا ہو کر عبادت کرتا رہے، تب بھی وہ رموز باطنی اور دیدار حق سے نا آشنا رہتا ہے یہ نعمت مرشدِ کامل کی رحمت کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتی مرشد کامل کی ایک نگاہِ کرم سالہا سال کی عبادت سے بہتر و بالا ہے ۔(امیر الکونین)
سروری قادری مرشد کے بارے میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں

عارف کامل قادری بہر قدرتے قادر و بیر مقام حاضر

ترجمہ: عارف کامل قادری (صاحبِ مسمّٰی مرشد کامل سروری قادری)ہر قدرت پر قادر اور ہر مقام پر حاضر ہوتا ہے۔(رسالہ روحی شریف)
سروری قادری مرشد بھی دو طرح کے ہوتے ہیں:

صاحبِ اسم :
صاحبِ اسم صاحبِ ذکر ہے اور صاحبِ اسم مقامِ خَلق پرہوتا ہے، یہ خلفاء ہوتے ہیں ۔ اِن کے مریدین ساری عمر اسم نقش کرنے میں گزار دیتے ہیں۔

صاحبِ مسمیٰ :
صاحبِ مسمّٰی فقیر فنا فی اللہ بقاباللہ ہوتا ہے۔ امانتِ الٰہیہ ، خلافتِ الٰہیہ کا حامل اور انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے اور یہی مرشدِ کامل اکمل نور الہدیٰ ہے۔ اِن کے مریدین کو اسمِ اللہ ذات سے تصورِ شیخ حاصل ہوتا ہے ایسے مرشد کے بارے میں سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں'' عارف باللہ، فنا فی اللہ فقیر اسے کہتے ہیں جو فنا فی الرسول ہو، فنا فی فقر ہو اور فنا فی 'ھُو' ہو۔''(عین الفقر)

صاحبِ اسم اور صاحبِ مسمّٰی کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ عین الفقر میں فرماتے ہیں:

نفس و زبان ''مخلوق'' ہیں اور قلب و جسم و روح بھی ''مخلوق'' ہیں جبکہ اسمِ اللہ ''غیر مخلوق'' ہے لہٰذا ''غیر مخلوق'' کو غیر مخلوق ہی سے یاد کرنا چاہیے۔
''اسم ''اور ''مسمّٰی '' کے درمیان کیا فرق ہے ؟

صاحبِ اسم صاحبِ ذکر ہے اور صاحبِ اسم ''مقامِ خَلق ''(مخلوق) پر ہوتا ہے اور صاحبِ مسمّٰی صاحبِ ِ استغراق ہے۔ اور صاحبِ مسمّٰی مقامِ '' غیر مخلوق'' پر ہوتا ہے۔ صاحبِ مسمّٰی پر ذکر حرام ہے کہ وہ ظاہر باطن میں ہر وقت غرق فنا فی اللہ ہوتا ہے۔(عین الفقر)۔

مسمیٰ آں کہ باشد لازوالی
نہ آں جا ذکر و فکر نہ وصالی
بود غرقش نہ بہ وحدت عین دانی
فنا فی اللہ شود سر نہانی

''غیر مخلوق'' ہے لہٰذا ''غیر مخلوق'' کو غیر مخلوق ہی سے یاد کرنا چاہیے۔
''اسم ''اور ''مسمّٰی '' کے درمیان کیا فرق ہے ؟

صاحبِ اسم صاحبِ ذکر ہے اور صاحبِ اسم ''مقامِ خَلق ''(مخلوق) پر ہوتا ہے اور صاحبِ مسمّٰی صاحبِ ِ استغراق ہے۔ اور صاحبِ مسمّٰی مقامِ '' غیر مخلوق'' پر ہوتا ہے۔ صاحبِ مسمّٰی پر ذکر حرام ہے کہ وہ ظاہر باطن میں ہر وقت غرق فنا فی اللہ ہوتا ہے۔(عین الفقر)

کامل مرشد ایسا ہووے جیہڑا دھوبی وانگوں چھٹے ھو
نال نگاہ دے پاک کریندا وچ سچی صبون نہ گھتے ھو
میلیاں نوں کر دیندا چٹا وچ ذرہ میل نہ رکھے ھو
ایسا مرشد ہووے باھو جیڑا لوں لوں دے وچ وسے ھو

آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مرشد کامل کو دھوبی کی طرح ہونا چاہیے۔ جس طرح دھوبی کپڑوں میں میل نہیں چھوڑتا اورمیلے کپڑوں کو صاف کردیتا ہے اسی طرح مرشد کامل اکمل طالب کو وردوظائف ،چلہ کشی ،رنجِ ریاضت کی مشقت میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ اسمِ اللہ ذات کی راہ دکھا کر اور نگاہِ کامل سے تز کیہ ء نفس کر کے اس کے اندر سے قلبی اور روحانی امراض کا خاتمہ کرتا ہے اوراسے خواہشاتِ دنیااور نفس سے نجات دلاکر غیر اللہ کی محبت دل سے نکال کر صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق میں غرق کردیتا ہے اور ایسا مرشد تو طالب کے لُوں لُو ں میں بستا ہے۔

ایہہ تن میرا چشمہ ہووے تے میں مرشد ویکھ نہ رجاں ھو
لوں لوں دے مڈ لکھ لکھ چشماں ہک کھولاں تے ہک کجاں ھو
اتنا ڈٹھیاں صبر نہ آوے میں ہور کتے ول بھجاں ھو
مرشد دا دیدار ہے باھو مینوں لکھ کڑوڑاں حجاں ھو

اس بیت میں آپ رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ کاش میرا سارا جسم آنکھ بن جائے تاکہ وہ یکسو ہو کر ہر لمحہ مرشد کا دیدار کرتا رہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ بھی کم ہے ، میری طلب تو یہ ہے کہ میرے جسم کے روئیں روئیں میں لاکھ لاکھ آنکھیں ہوں تاکہ آنکھ جھپکتے وقت لمحہ بھر کے لئے اگر کچھ آنکھیں بند بھی ہو جائیں تو میں باقی کھلی آنکھوں سے مرشد کے دیدار میں محو رہوں۔ یعنی مرشد کے دیدار میں ہر لمحہ محو رہنا ہی طالب کے لئے کامیابی کی کلید ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اتنی آنکھوں سے دیدار کرنے کے باوجود بھی میری طلب اور خواہش کم نہیں ہورہی اور بے چینی اور بے قراری بڑھتی ہی جارہی ہے جو مجھے اگلی منزل کی خبر دیتی ہے اور مرشد کا دیدار تو میرے لئے کروڑہا حج کے برابر ہے اللہ کرے یہ حالت مجھے ہمیشہ نصیب رہے۔

جل جلیندیاں جنگل بھوندیاں میری ہکا گل نہ پکی ھو
چلے چلپئے مکے حج گزاریاں میری دل دی دوڑ نہ ڈکی ھو
تریہے روزے پنج نمازاں ایہہ وی پڑھ پڑھ تھکی ھو
سبھے مراداں حاصل ہویاں باھو جداں مرشد نظر مہر دی تکی ھو

جنگل جنگل ،صحراصحرا پھرتا رہا ،چلہ کشی میں مصروف رہا ،نمازیں پڑھ پڑھ کر، روزے رکھ رکھ کر اور حج کر کے تھک گیا لیکن دِل کی مراد پوری نہ ہوئی یعنی معرفتِ حق تعالیٰ حاصل نہ ہوسکی ۔لیکن جب مرشد کامل نے ایک نگاہِ محبت ڈالی توسارے حجاب دور ہوگئے۔

مرد مرشد کامل اور نا مرد مرشد ناقص کی پہچان

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ طالب کے لیے تو معیار یہ رکھتے ہیں کہ اُس کی طلب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہو اور مرشد کے لیے معیار یہ ہے کہ وہ صاحبِ تصورِ اسمِ اللہ ذات ہو اورطالب کو پہلے دِن ہی سلطان الاذکار ھو اور اسمِ اللہ ذات کا تصور اور مشقِ مرقومِ وجودیہ عطا کر کے اُسے انتہا تک پہنچا دے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

پس معلوم ہو اکہ تلقین کسی مرد مرشد سے لینی چاہیے ۔ زن سیرت ونامرد مرشد کو تین طلاقیں دے دینی چاہئیں۔ مرد مرشدِ کامل اور نامرد مرشدِ ناقص کی پہچان کیا ہے؟ مرشدِ کامل طالب کو اسمِ اللہ ذات اور اسکی مشقِ وجودیہ کراتا ہے اور اپنی توجہ سے حضوری میں پہنچاتا ہے لیکن نامرد مرشدِ ناقص آج کل کے وعدے کرتا ہے۔(نور الہدیٰ کلاں)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

پیر ملیاں جے پیڑ ناں جاوے اس نوں پیر کی دھرناں ھو
مرشد ملیاں ارشاد نہ من نوں اوہ مرشد کی کرناں ھو
جس ہادی کولوں ہدایت ناہیں اوہ ہادی کی پھڑناں ھو
جے سر دتیاں حق حاصل ہووے باھو اس موتوں کی ڈرناں ھو

اگر مرشد مل جانے سے قلب کی حالت نہ بدلے اور اس سے ظاہر وبا طن میں کوئی فرق نہ پڑے، نہ ہی ''راہِ حق'' کی طلب پوری ہو اور نہ ہی ایسے مرشد کے پاس ہدایت دینے کی طاقت ہوتو ایسے ناقص مرشد کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس سے بچنا چاہیے ۔ہاں اگر سر دینے سے دیدارِ حق حاصل ہو تو ایسی موت سے کبھی گریز نہیں کرنا چاہیے ۔


تحریر : خادم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس
Hamid Jamil
About the Author: Hamid Jamil Read More Articles by Hamid Jamil: 18 Articles with 56225 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.