ماہ نزول قرآن کے تقدس کی پامالی!
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں
اور نزول قرآن کریم کے اس مقدس مہینہ میں احکامات الہٰی اور فرامین نبی
برحق سیدالمرسلین ﷺ کی توہین اور تقدس اقدار اسلامیہ کی پامالی میں میڈیا ،
اہل علم ، ثنا خوانِ رسول اور بالخصوص جید علمء کرام اور مفتیانِ دین بڑی
کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے پیش پیش ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان کہ مومن مرد
اور مومن عورتیں اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ سورہ احزاب کی وہ آیات بھی دیدہ
دانستہ نظرانداز کردی جاتی ہیں کہ جن میں فرمایا گیا کہ عورتیں اپنے گھروں
میں رہیں اور باہر نکلیں تو چہروں پر نقاب ڈالیں، آرائش و سجاوٹ کے ساتھ
باہر نکل کر ایام جاہلیت کی یاد تازہ نہ کریں۔ ٹی وی مذاکروں میں غضب کی
سجاوٹ سے تزئین و آرائش دین و شریعت کے علمبرداروں کی نشست وبرخاست اور خوش
گپیاں ماہ مبارک کے تقدس کے منافی نہیں تو اور کیا ہیں؟ ان دین فروش ملاؤں
کو بے حیائی کرتے ہوئے جب عوام دیکھتے ہیں تو ان ملاؤں کے بارے میں انکے
تاثرات زبان زدعام ہیں کہ ان مولویوں نے دین کی کشتی ڈبوئی ہے۔ منبر پر
اپنے خطبات میں کچھ ہیں اور عملا کچھ اور ہیں۔ اس ماہ مبارک میں ٹی وی
چینلوں پررمضان المبارک کے حوالے سے مخلوط پروگرام پیش کیئے جارہے ہیں۔ ان
محافل میں خواتین کی خاصی تعداد ہوتی ہے۔ یہ خواتین مقدور بھر پرکشش بن کر
آتی ہیں، نقاب تو کسی کے چہرے پر ہونا ممکن ہی نہیں۔ان حاضرات میں کسی عمر
رسید ہ خاتون کو شامل نہیں جاتا۔ نوجوان لڑکیاں جو ٹی وی پروڈکشن کے فروغ
اور کشش کا سبب بن سکیں انہیں ہی مدعو کیا جاتا ہے۔ ان میں اکثریت موسیقی
کی شوقین ہوتی ہیں۔ اسی طر ح دراز ریش فیشن زدہ محافل صنف نازک کے
رسیامفتیان اور مولوی زینت محفل ہوتے ہیں ۔ جو حاضرات کو جنتی حوریں
تصورکرتے ہوئے ان کی جانب آنکھ جھپکانا بھی شائد کفران نعمت سمجھتے ہیں۔
قارئین حضرات اس کا تجزیہ کریں اور بتائیں کہ کیا یہی تقدس ماہ مبارک ہے؟
قرآنی تعلیمات کو مد نظررکھیں اور ان مفتیوں و ملاؤں کے کردار کو سامنے رکھ
کر فیصلہ کریں کہ کیا یہ اس قابل ہیں کہ دین کے مفتی اور حقدار امامت و
خطابت ہیں؟ کیا یہی ہمارے دینی رہنما ہیں؟ شائد اس بنا پر ہمارا وطن عزیز
مشکلات و مصائب کا شکار ہے؟ مجھے حیرانگی اس بات پر ہوتی ہے کہ اس ملک میں
بڑے بڑے دینی مدارس ہیں، اہل علم ہیں ، مشائخ ،علماء کرام اور مفتیاں عظام
ہیں ، انہوں نے کبھی بھی ان خرافات اور رمضان المبارک کے تقدس کی پامالی کے
خلاف ایک لفظ تک منہ سے نہیں نکالا۔ لگتا ہے ہر کوئی مست پئے تن آسانی ہے۔
میڈیا اپنی نشریات کو ان خرافات اور غیر شرعی ماحول سے پاک کریں۔دوران
تحریر ایک چینل پر افطاری کی تیاری ریکارڈنگ چل رہی ہے۔ ایک دراز ریش لحیم
و جسیم ملا صاحب بڑی چرب زبانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیرمحرم سجی سجائی
عورتوں پر اپنا سکہ ء لفاظی جمارہے ہیں۔ اینکر صاحبہ بڑے خلوص کے ساتھ
اسلامی سزاؤں پر رطب للسان ہیں۔ ایک عمامہ سے مزین فقہ جعفریہ کے مولوی
صاحب بھی عینک کے شیشوں پیچھے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ
ایک مختصر ریش نعت خوان صاحب ہیں جو پیچھے اس اما م کے اﷲ اکبرکے قائل ہیں۔
اسلامی سزاؤں کا نام لینا آسان ہے لیکن عملی تصور پر جسم کانپ اٹھتا ہے۔
کیا اسلامی ضابطہ قوانین ہمیں اس طرح کی رنگین محافل جمانے اور مردوزن کے
اختلاط کی اجازت دیتا ہے؟اس گمراہی اور فحاشی کو فورا بند کرنا چاہیئے۔
ویسے بھی میڈیا فحش اشتہارات کے ذریعہ نئی نسل کے عادات خصائل بگاڑنے میں
جو کردار ادا کر رہا ہے وہ محض حصول دولت کے لیئے کررہاہے لیکن یاد رکھیں
کہ اس دنیا میں کمائی گئی دولت یہیں رہ جائے گی اور یہ دولت اﷲ کے عذاب سے
ہرگز نہ بچا سکے گی۔ تو میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کا حقیقی خیر
خواہ ہونے کے ناطے مشورہ دوں گا کہ دین کو کھیل کود نہ بناؤ۔ ڈرو اﷲ سے کہ
یہ ماہ مبارک تقویٰ اور پرہیز گاری کے حصول کا ہے۔ استغفار کریں۔اﷲ ساری
امت کو بخشے آمین۔ |
|