برقی(الیکٹرانک ) میڈیا اور شتر بے مہار آزادی

برقی میڈیا(الیکٹرانک میڈیا)پاکستان میں آزاد کیا ہو ا، فہاشی، عریانیت، بے حیائی کا کھلے عام دور دورہ ہوگیا۔ جس چینل کا جی چاہتا ہے ڈراموں، اشتہاروں کے نام سے فہش،عریاں اور بے حیا قسم کے سین شامل کرکے کھلے عام دکھاتا ہے۔ ا س پر شرم و ندامت بھی محسوس نہیں کرتے۔ نہیں معلوم اس عریانیت اور فہاشی سے کونسی خدمت وہ کرنا چاہتے ہیں۔ برقی میڈیا کی ا س بے مہار آزادی نے گھر گھر داخل ہوکر ہماری عزت و آبرو اور ہماری مشرقی روایات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ حکومتی مشینری لگتا ہے چین کی بانسری بجارہی ہے۔ اُسے کچھ نظر ہی نہیں آتا، جو صاحب اختیار ان امور کی نگرانی پر مامور ہیں وہ صرف اس فکر اور تَگا پُو میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کا عہدہ برقرار رہے۔چینلز کیا کررہے ہیں، کیا دکھارہے ہیں انہیں اس کی پروا نہیں۔ نجی چینل پر بڑھتی ہوئی عریانیت اور فہاشی کے بارے میں کئی قلم کاروں نے لکھا، حکام بالا کی توجہ اس جانب دلائی، روزنامہ جنگ نے فہاشی پر مبنی ڈراموں کی تصویریں بھی شائع کیں، دیگر اخبارات بھی اس جانب توجہ مبزول کراچکے لیکن حکومتی مشینری کی آنکھوں پر نہ معلوم کس قسم کی پٹی بندھی ہے کہ انہیں کچھ نظر ہی نہیں آرہا۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، اگر آپ اس حد کو کراس کرجائیں گے تو ایک نہ ایک دن شعیب شیخ کی طرح پکڑ میں ضرور آجائیں گے۔

نجی چینل کے متعلقہ حکام، ڈرامے لکھنے اور تشکیل دینے والے، بیہودہ سین اسکرین کی ذینت بنانے والے ایماندار سے یہ سوچیں کہ کیا وہ بیہودہ سین، عریاں قسم کے اشتہارات اپنے گھر میں اپنی فیملی کے ہمراہ، اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں؟ انہیں جواب از خود مل جائے گا اور کسی کو بھی حکومت وقت یا کسی اور اتھارٹی سے اس جانب توجہ کرنے کی التجائیں کرنی نہیں پڑیں گی۔ کبھی سوچین کہ کیا ہماری مشرقی روایات یہیں ہیں جوہم ٹی وی اسکرین پر ڈراموں میں اور اشتہاروں میں دکھارہے ہیں۔ کیا ہمارا مذہب ہمیں یہی درس دیتا ہے،ہر گز نہیں۔ قرآن کریم میں فہاشی سے ، بے حیائی سے منع کیا گیا ہے۔ارشاد ربانی ہے ’خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو( خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو‘۔(سورۃ النحل آیت 9)۔

آخر ہم اپنی آئندہ آنے والی نسل کو کس قسم کا تیار کرنا چاہتے ہیں۔ بے حیائی، بیہودہ اور فہش قسم کے ڈراموں، فلموں، اشتہارات سے ہماری نسل پر یقینا اچھے اثرات نہیں ہوں گے وہ بے راہ روی اور برائی کارخ ہی کر ے گی۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر بے شمار لکھا گیا، لکھنے والوں نے ہر طرح سے حکمام متعلقہ کی توجہ دلائی اور دلاتے رہیں گے۔ ا س لیے کہ برائی کے خلاف مسلسل جہاد کی ضرورت ہے ۔اس عمل کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، فہاشی، عریانیت اور بے حیائی و بیہودگی کی جانب حکمرانوں کی توجہ مبزول کراتے رہنے سے مثبت اثرات ہوں گے ۔ کبھی تو ہمارے حکمراں نوں میں سے کوئی اس جانب توجہ دے گا۔ برائی کے کاموں کو انجام دینا ہی برائی نہیں بلکہ برائی کے کاموں کو منظر عام پرلانے والے عمل میں کسی بھی حیثیت سے شرکت گویا برائی کو عام کرنے کے مترادف ہے۔ بعض نجی چینلوں ہی نہیں بلکہ اس قسم کی بے حیائی، بیہودہ اور فہش قسم کے سین اور کلپس سوشل میڈیا پر بھی عام ہوتے جارہے ہیں، فلموں کا تو کیا ہی کہنا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس جانب  بھی توجہ دے اور اس قسم کی بے راہ روی اور فہاشی پھیلانے والوں کو قانون اور اخلاق کے دائرے میں لائے۔

اس موضوع پر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم جن سے میرا روحانی، اخلاقی، دینی عقائد کے علاوہ خاندانی رشتہ بھی ہے کہ ادارے ’تنظیم ِ اسلامی‘ کا ایک خط کالم نگار و تجزیہ نگار انصار عباسی نے اپنے کالم ’مشرقی روایات کا جنازہ‘ کے عنوان سے لکھا جو (روز نامہ جنگ اشاعت 25جون2015) میں شامل ہے اس تحریر کو میں بھی اس غرض سے شامل کررہا ہوں کہ شاید متعلقہ احباب کی توجہ اس جانب ہوجائے اور معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہورہا ہے اسے روکا جاسکے۔ کالم نگار کی یہ بات درست ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے اس معاملے کو اگر اسی طرح نظر اندار کیا جاتا رہا تو اس کے نتائج ہمارے اور ہماری نسلوں کے لیے انتہائی سنگین ہوں گے۔خط کا متن ملاحظہ یہ کچھ اس طرح ہے۔

’’اگر چہ ہمارے معاشرے میں ایک عرصہ سے بعض فلموں اور ڈراموں میں فحاشی اور بے حیائی کی شکایت تھی لیکن چونکہ شریف النفس لوگ اس راستہ سے ہی گریز کرتے تھے اور پاکیزہ ذہن اور نیک فطرت لوگ تو اخبارات کے رنگین صفحات اور فلمی اشتہارات پر بھی خفا اور معترض رہتے تھے۔ لہٰذا صورت حال کبھی اتنی گھمبیر نہ تھی۔ لیکن جب سے الیکٹرونک میڈیا میں نجی چینلز کی اجازت ہوئی جنہیں پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں دیکھا جاسکتا ہے ‘تب سے ہمارے یہاں فہاشی، عریانی اور بے حیائی کا ایک طوفان امڈ آیا ہے۔ شاید اس کا سبب یہ بھی تھا کہ مقتدرحلقوں نے ساتھ ہی یہ نوید بھی سنادی تھی کہ میڈیا اب آزاد ہوگا۔حضور والا! ہم انتہائی دکھ اور افسو سے عرض گزار ہیں کہ یہ آزادی مادر پدر آزادی ثابت ہوئی اور اس شتر بے مہار آزادی نے گھر گھر داخل ہوکر ہماری مشرقی روایات اور اقدار کا جنازہ نکال دیا۔ایک ایسی تہذیب ہمارے گھروں میں گھس آئی ہے جو نہ صرف اسلامی تہذہب اور شعائر کی بلفعل دشمن ہے بلکہ حیاداری اور شرافت کے عام معیار و تصورات سے بھی متصادم ہے۔ یہ بے حیا تہذیب ہمارے معصوم بچوں اور نوجوان نسل کو ’’رحمان ‘‘ سے دور اور ’’شیطان‘‘ کے قریب کرہی ہے۔ بہر حال نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ان عام گھرانوں میں جہاں شرم و حیا کا واجبی سا تصور ابھی موجود ہے وہاں ماں بیٹا اور باپ بیٹی اکھٹے ٹیلی ویژن کے سامنے نہیں بیٹھ سکتے۔اس نوعیت کی شکایت بہت سے اطراف سے سامنے آئی۔ چنانچہ یہ ایک حیقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ایک قابل لحاظ حصے میں اس حوالے سے خاموش اضطراب پایا جانے لگا ہے‘کیونکہ نوجوان نسل پر غیر معمولی طور پر اس کلچر کے منفی اور برے اثرات مرتب ہونے لگے ہیں۔ جناب عالی! تنظیمِ اسلامی نے مسئلہ کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے گزشتہ دنوں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں فحاشی اور عریانی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے خلاف اپنے عزیزوں، دوستوں اور اہل محلہ سے رابطہ کی بنیاد پر ایک دستخطی مہم شروع کی‘ جس میں حکومت کے ذمہ داران سے پرزور گزارش کی گئی تھی کہ وہ ان حوالوں سے فحاشی و بے حیائی کے سیلاب کو روکنے میں اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کریں اور اس سلسلے کو روکنے کے لیے حکومتی قوت اور وسائل کو بروئے کار لائیں۔ہمارے ساتھیوں کی چند ماہ کی محنت اور پاکستان کے عوام کے تعاون کے نتیجے میں نہایت قلیل مدت میں آٹھ لاکھ گیارہ ہزار دو سو دس(8,11,210)افراد نے ہماری اس مہم سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے دستخط کر دیے۔ہماری خواہش تھی کہ دستخط شدہ شیٹس ہم خود وزیراعظم کو پیش کریں تاکہ اُن سے درخواست بھی کی جاسکے کہ وہ اعلیٰ ترین حکومتی ذمہ داری نبھا تے ہوئے اس فحاشی اور بے حیائی کا قلع قمع کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔جو معاشرے کے جسد کو کینسر کے مرض کی طرح لاحق ہوگئی ہے۔لیکن صد افسوس کہ ایک طویل عرصہ تک سر توڑ کوشش کے باوجود ہمیں وزیراعظم تک رسائی نہ ملی۔تب ہم نے اخباری اشتہارات کے ذریعے حکومت اور عوام دونوں سے درخواست کی کہ آئیے مل کر جہاد کریں اور شرم و حیا اور غیرت کونیست و نابود کردینے والے اس شیطانی طوفان کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہوجائیں‘ لیکن حکومتی سطح پر ہمیں کوئی رسپانس نہ ملا۔ہم نے سپریم کورٹ میں ایک آئینی رٹ بھی دائر کر رکھی ہے کہ عدالت عظمیٰ آگے بڑھ کر اس کا نوٹس لے اور انتظامیہ کو حکم دے کہ الیکٹرنک میڈیا پر فحاشی کے سیلاب کے آگے بند باندھے‘لیکن سر دست کوئی شنوائی نہیں ہورہی ۔یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اس نیک کام کی انجام دہی کے لیے کسی نئی قانون سازی کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔پہلے ہی سے ایسے قوانین موجود ہیں جن کی بنیاد پر فحاشی کے فروغ کے مرتکب افراد اور اداروں کے خلاف کاروئی کی جاسکتی ہے۔پھر یہ کے آرٹیکل 31کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اقدام کرے جن سے اسلامی اقدار کا فروغ اور عوام کو ایسا ماحول فراہم کیاجائے جو اُن کی زندگیوں کو اسلامی طرز حیات میں ڈھالنے میں معاون و مددگار بنے۔محترم! ہماری یہ عاجزانہ کاوش جس میں آپ کو لکھی جانے والی یہ تحریر بھی شامل ہے‘ اس کا حقیقی ہدف یہ ہے کہ روز قیامت اﷲ کے حضور ہم یہ معذرت پیش کرسکیں کہ ہم نے قوم کو اس گناہ عظیم سے بچانے کے لیے حکومتی اداروں سے بھی رابطہ کیا اور افراد کے سامنے بھی اپنی گزارشات رکھیں۔ جناب عالی! ہر مسلمان یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ جزاو سزا کے دن اﷲ کے ہاں سب کو فرداًفرداً پیش ہونا ہے ۔ ظاہر ہے معاشرے میں جو شخص زیادہ اثر و رسوخ کامالک ہوگا اور جتنا بڑا منصب ہوگا‘ پرسش بھی اُ سی قدر کڑی اور سخت ہوگی۔ آپ سے مودبانہ التجا ہے کہ آگے بڑھیں۔ اس سے پہلے کہ فحاشی کینسر معاشرے کی روحانی موت کاباعث بنے آپ اپنا قومی اور دینی فریضہ اداکریں تاکہ آپ بھی روز قیامت اﷲ کے حضور سرخرو ہوسکیں‘‘۔(26جون2015)
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1440716 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More