ہماری دو چار تحاریر کیا شائع
ہوئیں مختلف رسائل و جرائد میں کہ ہم سے تحریر کے متعلق مشورے لینے کے لئے
لوگوں کا تانتا بندہ گیا۔۔ ہمیں بخوبی واقف ہیں کہ ہم کوئی پیشہ ور لکھاری
نہیں اور نہ ہی مشورہ دینے کے اہل ہیں مگر ہماری اس بات کو ہماری انکساری
گردانا گیا حالانکہ من آنم کہ نم دانم۔ بعض حاسدین کی نظر میں یہ گھمنڈ ہے
کہ ہم پوچھنے والوں کی مدد کرنے کی بجائے نخرے کر رہے ہیں۔ یہ سب جان کر ہم
نے فیصلہ کیا کہ اب ہم ضرور اپنے تجربے سے مستفید کریں گے خواہ آپ مستفید
ہونے کے خوہش مند نہ ہوں۔
عزیزو سب سے اہم کام جو تحریر لکھنے کے لئے ضروری ہے وہ ہے خیال۔ خیال
عمومًا اپنے ارد گرد غور کرنے سے بآسانی مل جاتا ہے۔ خیال حاصل کرنا ہمارے
عزیز ملک میں کچھ مشکل نہیں۔ حکومت کے علاوہ کچھ اور قوتیں بھی اس کوشش میں
مگن ہیں کہ خیالات کی کسی کو کمی نہ ہو بلکہ ہر شخص دانشور بن کے ابھرے۔
خیال مل جانے کے بعد اس کا بیان ہے۔ بیان کے لئے ضروری ہے کہ لکھاری پہلے
اس زبان کا انتخاب کرے جس میں خیالات و احساسات کو مستحسن انداز میں پیش
کیا جا سکے۔ کچھ احباب اردو میں تحریر شروع کرنے کے بعد اسے انگریزی سے
آلودہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص قمیص و ٹائی کے
نیچے دھوتی پہن لے۔ ضروری الفاظ جن کے بناء چارہ نہیں وہ تو بجا مگر زبان
غیر کے الفاظ کی غیر ضروری نمائش سے تحریر کا حسن متاثر ہونا بالکل فطری ہے۔
مزید براں یہ آْپ کی قومی زبان سے زیادتی اور اس کے حق پر ڈاکہ بھی ہے۔ نیز
لکھاری دانستہ و نادانستہ اپنی زبان کی جڑیں کاٹنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
زبان کے انتخاب کے بعد اگلا مرحلہ صنف کا چناؤ ہے۔ ہر زبان میں مختلف اصناف
ہوتی ہیں۔ مثلًا اردو میں نظم اور نثر۔ پھر دونوں میں ذیلی اقسام۔ نثر میں
مضمون، افسانہ، ناول، کالم، ڈرامہ اور نظم میں مسدس، مخمس، رباعی، غزل،
آزاد نظم وغیرہ۔ ان میں سے لکھاری کو اپنی طبع سے جو سب سے موزوں اور مناسب
محسوس ہو اس میں طبع آزمائی کرے۔ یاد رکھیے کہ ہر کوئی ہر صنف پر ایک جیسا
قادر نہیں ہوتا۔ ہر صن?ف میں اپنا ہنر آزمانے یا اپنی صلاحیت جانچنے کی
قطعًا ضرورت نہیں۔ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔
اب آپ کو لکھنا ہے۔ لکھنے کے لئے آپ صفحات بھی سیاہ کر سکتے ہیں بذریعہ قلم
مگر اس کے لئے آپ کی لکھائی بہت دلکش نہ سہی پڑھے جانے کے قابل تو ضرور
ہونی چاہیے۔ نا کہ ہم جیسی کہ پڑھنے کے لئے خود جانا پڑے۔ تاہم اگر ایسا
بھی ہے تو کوئی دقت نہیں۔ آپ کمپوٹر میں تحریر کریں۔ یہ چنداں مشکل نہیں۔
بس شروع میں انگریزی حروف سے اردو لکھنا کچھ الجھن کا باعث بنتا ہے مگر یہ
اذیت دائمی نہیں۔ تھوڑی سی مشق آپ کو اس میں ماہر بنا دے گی۔ کمپیوٹر میں
نہ صرف خوشخطی کا بھرم رہ جاتا ہے بلکہ صادقین اور گل جی بھی آْپ کی لکھائی
پر رشک کریں گے۔
تحریر آپ نے لکھ دی۔ اب کسی اخبار، جریدے کا برقی پتہ گوگل چاچو سے پتہ
کریں۔ جو وہ بتائیں اس پر حرف بہ حرف عمل کریں۔ورنہ فیس بک پر بھی بہت سے
صفحات ایسی ہی تحاریر کے لئے مختص ہیں اور بعض تو نو آموذ لکھاریوں کی
حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ جہاں مناسب سمجھیں تحریر بھیج دیں۔
تحریر لکھنے کا تو مرحلہ آسان تھا جو کہ بآسانی طے پا گیا۔ اصل مرحلہ اب
درپیش ہے یعنی کہ تحریر کو کامیاب بنانے کا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کام
تو تحریر لکھنے کے دوران یا کم از کم تحریر ارسال کرنے سے پہلا ہونا چاہیے
تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ مندرجہ بالا طریقے اب فرسودہ ہو چکے۔ آپ بھی
اپنے آپ کو موجودہ دور سے ہم آہنگ کریں
نئے صبح و شام پیدا کر نیا زمانہ،
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ یہ دور درجہ بندی کا ہے۔ جس پروگرام یا ڈرامے کا
درجہ اونچا اسی کا لوہا مانا جاتا ہے اور اسی درجہ بندی کے چکر میں بعض
پروگرام اور ان کے میزبان تہذیب کو بھی دو جوتے لگا جاتے ہیں۔ یہی حال اب
تحریروں کا بھی ہے۔ تحریر کی کامیابی کا دار و مدار بھی آپ کے لکھے پر کم
اور دوسروں کے اظہار پسندیدگی اور ان کے تبصروں پر ہے۔ جان لیجیے کہ اس دور
عدم فرصتی میں کس کے پاس وقت ہے کہ نئی تحریر کا پوست مارٹم کرے۔ دوسروں کی
آراء اور پسندیدگی ہی سے اندازہ لگا لیا جاتا ہے۔ کم و بیش تمام اخبار و
رسائل انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور یہیں سے تحریر کی بھی کامیابی اور ناکامی
کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں آپ کے لئے لازم ہے کہ آپ اپنی
محنتکو ضائع ہونے سے بچائیں۔ جوں ہی آپ کی تحریر نیٹ پرپوسٹ ہو اپنے تمام
جاننے والوں سے کہہ دیں کہ وہ اظہار پسندیدگی اور ممکن ہو تو تبصرہ بھی
کریں۔ اس سلسلے میں اگر انگلیاں ٹیڑھی بھی کرنی پڑیں تو مضائقہ نہیں۔ آخر
مستقبل کا سوال ہے۔ یہاں پہلی بار آپ کو اپنے حلقہ احباب وسیع ہونے کا
فائدہ ہو گا۔ نہ صرف یہ بلکہ جعلی اور مصنوعی آئی ڈیز کا پہلا مثبت استعمال
یہیں کر پائیں گے آپ۔ اخبار میں کالم کی کامیابی کا پیمانہ یہ ہے کہ اس
کالم کو کتنے لوگوں نے دیکھا ہے، بھلے پڑھا نہ ہو۔۔۔۔۔۔ ہر پانچ منٹ بعد
اپنے کالم والے صفحے کو از سر نو تازہ کرنے سے آپ کے کالم کے ناظرین بڑھتے
جائیں گے۔
اب ہمارے مشوروں پر عمل کرنا اور فائدہ اٹھانا آپ پر ہے۔ ہم نے تو سر عام
اپنی کامیابی کا راز افشا کر دیا۔ اب ہم پر کوئی الزام نہ لگائے
ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم پہلے کی طرح کچھ نہیں کریں گے۔ |