ایک مرتبہ آپ ﷺ مسجد نبوی ﷺ میں
تشریف لائے اور جو نہی منبر پر پہلا قدم مبارک رکھا تو آپﷺ نے فرمایا
آمین،دوسر ا قدم رکھا پھر فرمایا آمین،تیسرا قدم منبر پر رکھا،پھر فرمایا
آمین۔ صحابہ کرام ؓ نے نبی ﷺ سے سوال کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ آج آپ نے خلاف
معمول تین مرتبہ آمین کہا،اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہ
میرے پاس جبرائیل ؑآئے تھے،انہوں نے تین باتیں کہیں،تو میں نے ان کے جواب
میں آمین کہا۔ پہلی بات انہوں نے کہی کہ اﷲ کی رحمت سے دوری ہو اس شخص کے
لیے جو اپنے والدین کو زندہ پائے اور ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کرے ،تو
میں نے کہا آمین۔ ہلاکت ہو اس شخص کے لیے،جس کے سامنے میرا نام نامی اسم
گرامی محمد ﷺ لیا جائے اور وہ مجھ پر دورد نہ بھیجے،میں نے کہا آمین۔ تیسری
مرتبہ آمین اس لیے کہا کہ اﷲ کی رحمت اس سے دور ہو جائے ،جو اپنی زندگی میں
رمضان المبار ک کا مہینہ پائے ،دن کو روزہ رکھ کر کے اور رات کو قیام کر کے
اﷲ سے اپنے گناہوں کو نہ بخشوائے،میں نے کہا آمین۔ اس حدیث مبارکہ میں نبی
ﷺ نے امت مسلمہ کے لیے تین کامیابی کے اصول واضح کر دیئے ہیں۔ والدین کی
خدمت کرنا باعث ثواب ہے اور نبی ﷺ کی واضح حدیث موجود ہے کہ اﷲ کی رضا ماں
باپ کی رضا میں شامل ہے،جب ہم اپنے والدین کی خدمت کریں گے تو ان کی دعائیں
ہمارے لیے دنیا میں بگڑے کاموں کو بھی سیدھا کر لیں گی اور آخرت میں جنت
ہمارا مقدر ہوگی۔ نبی ﷺ پر درود و سلام (درود ابراہیمیؑ) پڑہنے سے دس
نیکیاں اعمال نامہ میں شامل،دس گناہوں کا خاتمہ اور دس درجات بلند کر دئیے
جاتے ہیں۔ نبی ﷺ پر درود و سلام بھیجنا نہایت عزت کی بات ہے،کیونکہ رب
ذوالجلال قرآن حکیم میں خود اعلا ن کر چکے ہیں کہ" اﷲ تعالی اور اس کے
فرشتے نبی ﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں اس لیے اے ایمان والو تم بھی آپ ﷺ
پر درودو سلام بھیجو"۔رمضان المبار ک اﷲ کا مہینہ ہے اور اس میں اﷲ کے ساتھ
مومن کا خفیہ معاہدہ ہوتا ہے۔ باقی عبادات جو ہم کرتے ہیں ،وہ دکھائی دیتی
ہیں مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو ظاہر نہیں ہوتا،اس لیے یہ عبد اور معبود
کے مابین ایک تعلق ہے۔اب جو معاہدہ رب اور بندے کے مابین ہو تو اس کے اثرات
و اس سے حاصل ہونے والے فوائد کا علم بھی کسی اور کو نہیں ہو سکتا۔ اس لیے
تو اﷲ تعا لی نے روزے دار کے اجرو ثواب کو اپنے پاس مخفی رکھا ہے۔روزہ اﷲ
نے صرف امت مسلمہ کے لیے ہی نہیں بلکہ باقی امتوں کے لیے بھی فرض قرار دیا
تھا ۔ روزہ رکھنے کا مقصد اﷲ تعا لی کا قرب حاصل کرنا ہے۔ کیونکہ روزہ دار
صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک بھوک پیاس برداشت کرتا ہے اور ایک پل میں
حلال چیز کو صرف رضائے الہی کے حصول کے لیے حرام سمجھ کر اس سے دوری اختیار
کرتا ہے،اﷲ کو اپنے بندے کی یہ ادا پسند آ تی ہے اور وہ روزے دار کے لیے
اجرو ثواب کے خزانوں کا منہ کھول دیتا ہے۔
روزہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں ہے بلکہ کچھ دیگر عوامل بھی
موجود ہیں جن پر احتیاط برتنا روزہ دار کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اگر کوئی
بھی مسلمان ان عوامل پر عمل پیرا ہو جائے تو اس کی اہمیت اﷲ تعالی کے نزدیک
فرشتوں سے بڑھ کے ہو جاتی ہے۔ روزہ دار کو چاہیے کہ اپنی نفسانی خواہشات پر
قابو رکھے۔ رمضان المبار ک کی ایک اہمیت یہ ہے کہ اس ماہ مقدس میں قرآن
حکیم کا نزول ہوا،تو روزہ دار مکمل دل قرآن کے ساتھ لگا لے اور کثر ت سے
تلاوت قرآن کرے۔ روزہ دار کے لیے لازم ہے کہ نماز کی ادائیگی بر وقت اور با
جماعت مسجد میں کرے ،پانچ وقت نماز اور تراویح کا اہتمام باقاعدگی سے کرے۔
اس شخص کا روزہ نہیں ،جس نے نماز ادا نہ کی۔ روزہ دار اگر صاحب نصاب ہے تو
رمضان المبار ک کے مہینہ میں اپنی زکوۃ کی ادائیگی کرے۔ زکوۃ تو ویسے جمع
شدہ مال کے ایک سال مکمل ہونے پر ادا کی جاتی ہے ، (آپ اپنی زکوۃ اپنے غریب
رشتہ داروں ، غریب بیوہ ،یتیم ومستحق لوگو ں ،مدارس ،یتیم خانوں ،ہسپتالوں
و دیگر رفاعی کام کرنے والے اداروں کو دیں)زکوۃ کی ادائیگی سے اﷲ آپ کے مال
کو پاک صاف کر دیتا ہے اور اس کے بدلے میں آپ کے مال میں اضافہ اور آپ کے
اعمال میں کثرت سے نیکیوں کو شامل کر دیتا ہے ۔ اس لیے زکوۃ کے علاوہ بھی
جتنا ہو سکے صدقہ و خیرات اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے کیونکہ اس
ماہ میں اﷲ تعالی ہر نیکی کا اجر کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ روزہ دار لازمی طور
پر جھوٹ،غیبت،لڑائی جھگڑا، رشوت خوری،سودی کاروبار ،جواء کھیلنے،حسد،چغل
خوری ،تکبرکرنے سمیت دیگر معاشرتی برائیوں سے بھی دور رہے اور اپنے غریب و
مستحق عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ رمضان المبار ک میں جہاں
ایک جانب نیکیوں کا موسم ہوتا ہے تو دوسری جانب ہمارے کاروباری دوست احباب
کے لیے بھی یہ نیکیوں کی بہار ،ان کے کاروبار میں بھی چمک لاتی ہے،ان سے
گزارش ہے کہ آپ اپنا جائز منافع ضرور کمائیں ،لیکن جو مال آپ فیکٹری سے
سستے داموں خریدتے ہیں ،وہی مال آپ بیچتے وقت ایک تو زائد منافع کما رہے
ہوتے ہیں تو ساتھ میں جھوٹی قسم بھی کھاتے ہیں کہ خدا کی قسم جتنے کا آپ کو
یہ مال بیچا ہے اتنے کی خرید بھی نہیں،اس لیے انہیں جھوٹی قسمیں کھانے سے
اجتناب کرنا چاہیے اور جائز منافع پر اپنا مال فروخت کرنا چاہیے اور سب کو
حلال کمانا ،کھانا اور کھلانا چاہیے،بصورت دیگر ان کا روزہ اﷲ کی بارگا ہ
میں مقبول نہیں ہو گا۔
رمضان المبار ک میں جہاں ہم بہت سے نیک کام کرتے ہیں ،وہاں ہمیں ایک نیک
کام اور کرنا چاہیے ،وہ ہے روزے دار کو افطار کروانا۔ ہمیں اپنے ہمسایوں
میں،اپنے غریب رشتہ داروں میں،مساجد و مدارس میں ،مسافر خانوں و ہسپتالوں
میں ،یتیم خانوں و غرباء کی جھونپڑیوں میں روزے داروں کا روزہ افطار کروانے
کے لیے خاص انتظام کرنا چاہیے۔ ایک شخص میرے والد محترم جناب پروفیسر شہاب
الدین مدنی صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے آفس میں آیا اور ان سے کہنے لگا کہ
مدنی صاحب ہم سال میں پھل صرف رمضان کے مہینہ میں کھاتے ہیں اور گوشت صرف
عید الاضحی کے موقع پر ہی نصیب ہوتا ہے۔ اب وہ شخص بظاہر بڑے اچھے لباس میں
اور شکل و صور ت سے بھی با وقار دکھائی دے رہا تھا،یہ الفا ظ سن کر والد
محترم نے اس شخص سے اس کی کہی ہوئی بات کی تفصیل پوچھی،تو وہ صاحب کچھ یوں
فرمانے لگے،مدنی صاحب آپ کی مسجد(مرکزی جامع مسجد اہل حدیث محمدی مدینہ
مارکیٹ) میں رمضان المبار ک کے ماہ میں جو آپ کی جانب سے اور آپ کے اہل
خانہ و دیگر آپ کے مسجد کے نمازیوں کی جانب سے جو افطار پورے رمضان کے ماہ
میں کروایا جاتاہے ،ہم غریب لوگ اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ دو وقت کی روٹی
عام دنوں میں خود کھا سکیں اور اپنے بیوی بچوں کو کھلا سکیں تو پھل فروٹ و
باقی نعمتیں کیسے کھا سکتے ہیں ،ایسے میں جو افطار آپ کی مسجد میں روزانہ
ہوتا ہے تو مجھ سمیت بہت سے غریب لوگ ،جن میں مسافر،مزدور ،طالب علم اور
معلوم نہیں کو ن لوگ شامل ہوتے ہیں وہ اپنی افطاری وہاں کرتے ہیں اور
دسترخوان پر موجود ہر نعمت سے لطف اٹھاتے ہیں اور نماز مغرب ادا کر کے اپنی
منزل کی جانب رواں دواں ہوجاتے ہیں اور گوشت سارا سال میں عید الاضحی کے
دنوں میں ہی ہمارے گھروں میں پکایا جاتا ہے،وہ بھی آپ کے ادارے (جامعہ
محمدیہ اپر چھتر) سے گھر میں آ کر دے جاتے ہیں تو دل کو سکون ملتا ہے اور
اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں۔۔۔۔!!! نا معلوم کتنے ایسے کنبے ہمارے اڑوس پڑوس
میں ہر وقت موجود ہوتے ہیں،جو کبھی اپنی عزت نفس کی وجہ سے اپنی ضرورت کا
اظہار کسی سے نہیں کر پاتے۔ ہم لوگ جو فضول میں بڑے بڑے لوگوں کے لیے افطار
ڈنرز کا اہتمام گھروں ،ہوٹلوں میں کرتے ہیں،جس میں سے بہت سے کھاناضائع ہو
جاتا ہے،اگر ہم روزانہ گھر میں اپنے لیے جو افطار کے لیے چیزوں کا اہتمام
کرتے ہیں،ان میں تھوڑا سا اضافہ کر کے اپنے ہمسایوں ،گلی محلے میں رہنے
والے غرباء کے گھروں میں ہی بھیج دیں تو اس کا اجرو ثواب بہت زیادہ ہو گا ۔
" خلیفہ المسلمین حضرت علی ؓ کے گھرانے کے حوالے سے ایک واقع آپ کی نظر
کرتا چلوں کہ ایک مرتبہ حضرت علی ؓ کے دروازے پر افطار کے وقت کسی نے دستک
دی ۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک مسافر افطار کے لیے سوال کر رہا
ہے۔یہ سن کر حضر ت علی ؓ جو دسترخوان پر تشریف فرما تھے ،فرمانے لگے کہ ان
کے حصے کی افطاری اس مسافر کو دے دی جائے،یہ سننا تھا کہ خاتون جنت حضرت
فاطمہ ؓ فرمانے لگیں،کہ میں رسول اﷲﷺ کی بیٹی ہوں ،میں علی ؓ آپکو نیکی کے
معاملے میں ایسے سبقت لے جانے ہر گز نہیں دوں گی،میر ے افطار کا حصہ بھی
مسافر کو دے دیا جائے،حضر ت حسن ؓ جو پاس ہی تشریف فرما تھے،یہ سن کر وہ
فرمانے لگے کہ انکے افطار کا حصہ بھی مسافر کو دے دیا جائے،اور جو خادمہ
افطار کا سامان لے کر مسافر کو دینے جارہی تھی،کہنے لگی کہ آخر میں نے بھی
اس گھرانے سے نیکی کی تعلیم حاصل کی ہے اور میں اپنے افطار کا حصہ بھی اس
مسافر کو دیتی ہوں،اس طرح پورے کے پورے گھرانے نے افطار کے وقت ایثار کیا ،سارا
کھانا مسافر کو دے دیا اورخود پانی سے روزہ افطار کیا"۔
یہ الفاظ تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ رمضان المبار ک کے گنتی کے دن بڑی
تیزی سے گزر جائیں گے ،ان لمحات کو اپنے لیے غنیمت جانیں اور زیاد ہ سے
زیادہ نیکی کے کاموں میں دلچسپی لیں اور اپنی عاقبت کو سنواریں اور اس کے
ساتھ ایک خصوصی گزارش یہ ہے کہ رمضان المبار ک میں افطار کے وقت ایسی
گھڑیاں ہوتی ہیں کہ جن میں انسان اﷲ سے جو بھی دعا مانگتا ہے ،اﷲ اس دعا کو
ضرور با ضرور قبول کرتا ہے،تو ایسے میں ان گھڑیوں کو ٹی وی،ریڈیو و دیگر
کاموں میں نہیں بلکہ بارگاہ الہی میں دعا کرتے ہوئے گزارنا چاہیے۔ رمضان
آئے گا اور چلا جائے گا،خوش قسمت صرف وہ ہوں گے جو اس ماہ مقدس میں اپنے
لیے اﷲ سے رحمت،مغفرت اور جہنم سے آزادی حاصل کرلیں گے۔ ہمیں ان خو ش
نصیبوں میں شامل ہونے کے لیے زیادہ سے زیاد ہ محنت کرنا ہوگی ،جیسے میرا
کوئی بھائی یا بہن دنیاوی امتحانا ت میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کرتا
ہے،اس سے زیادہ محنت آخروی کامیابی کے لیے درکار ہے،کیونکہ ہم اپنا امتحان
اﷲ کو دے رہے ہیں ،جو پوری دنیا کے نظام کو کنڑول کرتا ہے۔ دنیاوی امتحانات
دنیا میں ہی رہ جاتے ہیں اوران کے نتائج آخروی زندگی پر اثر انداز نہیں
ہوتے مگر آخروی زندگی کو بہترین بنانے کی کوشش کرنے والوں کے لیے دنیا بھی
روشن اور آخرت میں بھی دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال کے ساتھ سروخروئی میں
حاصل ہوتی ہے۔ آخر میں بس اتنا ہی کہ دنیاوی زندگی رمضان جیسی بنا لیں ،آخرت
عید جیسی بن جائے گی۔۔۔۔۔!!!! |