دین اسلام اﷲ تبارک وتعالیٰ کا
وہ ہم پرخاص انعام ہے جسکا ہم پر ہر گھڑی اﷲ کا شکر اداکرنافرض ہے ۔اسلام
وہ ضابطہ حیات ہے جس میں انسان کے جسم کے ساتھ ساتھ روح کی پاکیزگی کا بھی
خاص خیال رکھا گیا ہے ۔اسی پاکیزگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اﷲ تبارک وتعالٰی
نے ہم پر رمضان کے روزے فرض کئے جن کو نبی کریم ﷺ نے اسلا م کی بنیادی
چیزوں میں رکھ کر ان کی اہمیت کو اپنی امت پر واضح کیا ہے ’’اسلام کی
بنیادپانچ چیزوں پرہے ،اس بات کی گواہی دیناکہ اﷲ کے سواکوئی عبادت کے لائق
نہیں اور محمدﷺاﷲ کے رسول ہیں ، نمازقائم کرنا،زکوٰۃاداکرنا،حج کرنا اور
رمضان کے روزے رکھنا‘‘(بخاری) اسلام کی بنیادی چیزوں میں رمضان وہ عبادت ہے
جسکے متعلق حدیث قدسی میں فرمایا’’ روزہ میرے لئے ہے میں ہی اس کی جزادوں
گا‘‘(بخاری) اس حدیث کے متعلق امام ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ
روزے کی نسبت اﷲ کی طرف خاص اس لئے ہے کہ اس میں کوئی دکھاوا نہیں۔یعنی کس
کا روزہ ہے اور کس نے صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے کھانے سے پرہیز کیا ہوا
ہے اور خلوت میں کیاکھاتاپیتا ہے اس کا علم صرف اﷲ کو ہے ۔رمضان نکلا ہے
رمض سے ۔اس کے مختلف معانی ہیں ایک یہ کہ زمین اتنی گرم ہوکہ اونٹ کے بچے
کوپاؤں جل جائیں ۔اسی طرح اﷲ تعالیٰروزہ دار کے گناہوں کوجلادیتے ہیں ۔ایک
معنی یہ بھی لیاجاتا ہے رمض اس بارش کوکہتے ہیں جو موسم خریف سے پہلے گرم
زمین پربرس کر زمین کو پاک کردیتی ہے ۔گویا کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے مسلمان
کو گناہوں سے پاک کرنے کے لئے رمضان کا مہینہ اسکو عنایت کیا ہے ۔
قرآن مجید میں اﷲ تبارک وتعالیٰ روزے کے متعلق اور اس کی غرض وغایت کے
متعلق ارشاد فرماتے ہیں ’’اے ایمان والوتم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ
تم سے پہلوں پرفرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن سکو‘‘ )سورۃ البقرۃ آیت
نمبر (183یہ حکم ربی روزہ کے متعلق ہے جو ارکان اسلام میں داخل ہے اور نفس
پرستوں پر بہت شاق گذرتا ہے ۔اسی پرہیز گاری کے متعلق محمدکریم ﷺ نے
ارشادفرمایاـ’’جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنانہ چھوڑاتو اﷲ کو اس کے
کھاناپیناچھوڑدینے کی کوئی ضرورت نہیں (بخاری) یعنی جس نے اس ماہ مقدس میں
روزہ رکھتے ہوئے بھی گناہ ،فسق وفجور کو ترک نہ کیا اورصرف بھوک پیاس کو ہی
روزہ جانا تو اس نے اپنے آپ کو صرف تنگی میں ڈالا۔حضرت ابوہریرہ سے روایت
ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کتنے ہی روزہ دار ہیں جن کو روزوں سے صرف پیاس
ملتی ہے اور کتنے ہی رات کو قیام کرنے والے ہیں کہ ان کو قیام سے صرف
بیداری (رات کو جاگنا)ہی ملتی ہے (مشکوٰۃ شریف) ۔ احادیث مبارکہ میں فضائل
رمضان بڑی کثرت سے بیان ہوئے ہیں جن میں سے چند ایک قارئین کے سامنے
بطورسعادت رکھتا ہوں تاکہ ہم سب ان کو سمجھتے ہوئے ان فرامین رسول ﷺ پرعمل
کرتے ہوئے رمضان کے اصلی مقصد کوحاصل کرسکیں ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’جنت
کا ایک دروازہ ہے جس کا نا م ریان ہے قیامت کے دن اس دروازے سے صرف روزہ
دار ہی داخل ہوں گے ۔کہا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں ؟ وہ لوگ کھڑے ہوں
گے ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہ ہوسکے گا جب وہ داخل ہوجائیں گے تو
دروازہ بند ہوجائے گا اور اس میں کوئی داخل نہ ہوگا ‘‘ (بخاری) ایک اور جگہ
نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے
ہیں ۔(بخاری)سنن ابن ماجہ میں ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ
ﷺ نے فرمایاانسان کا ہرعمل بڑھایا جاتا ہے دس گنا سے سات سوگنا تک بلکہ اس
سے آگے تک جتنا اﷲ چاہیں۔ اﷲ فرماتے ہیں سوائے روزے کہ وہ خاص میرے لئے ہے
میں ہی اسکا بدلہ دوں گا ۔آدمی اپنی خواہش اورغذا میرے لئے چھوڑتا ہے ۔روزہ
دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ،ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے
پروردگار سے ملاقات کے وقت اور بلاشبہ روزہ دار کے منہ کی بو اﷲ کے ہاں مشک
کی بو سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔(سنن ابن ماجہ) رمضان کے دن کے روزوں کے ساتھ
ساتھ اس کی راتوں کے قیام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے محمد کریم ﷺ نے ارشاد
فرمایا’’جس نے رمضان کی راتوں میں ایمان واحتساب کے ساتھ قیام کیا تو اس کے
پچھلے گناہ معاف کردئیے جائیں گے (مسلم )
اسی طرح قرآن مجید میں رمضان کے متعلق بیان کرتے ہوئے ساتھ ہی دعا کا
ذکرکیا گیا ہے ارشاد باری تعالٰی ہے ــ’’اے نبی ﷺ میرے بندے اگر تم سے میرے
متعلق پوچھے تو انہیں بتادو کہ میں ان کے قریب ہی ہوں ،پکارنے والا جب
پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں ۔لہذاانہیں چاہیئے
کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پرایمان لائیں ،شاید کہ وہ راہ راست
پالیں ــ‘‘(سورۃ البقرۃ 186) لہذا رمضان کے ان پرمسرت لمحات میں دعاؤں کا
خاص اہتمام کیجئے کیونکہ حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ’’ دعاعبادت کا مغز ہے
‘‘ اور رمضان ہمارے پاس اﷲ کریم نے عبادات کے لئے گویا کہ بہار بنا کربھیجا
ہے ۔
رمضان ایک طرح سے ہماری جسمانی وروحانی تربیت کی ایک کلاس ہے جو اﷲ تبارک
وتعالٰی کے نبی آخرمحمدکریم ﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ہونی چاہیئے
۔اس میں ہم کوشش کریں کہ قرآن مجید کو سمجھ کرروزانہ کی بنیاد پرپڑھیں تاکہ
ہمیں پتہ چلے کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے ۔احادیث مبارکہ کا
مطالعہ کریں ،ذکرواذکار کریں ،نمازوں کی پابندی کا خاص اہتمام کریں کہ نماز
دین کا ستون ہے۔ جھوٹ ،غیبت ،چغلی اور ان جیسی دوسری روحانی بیماریوں سے
پانے آپ کو بچانے کی کوشش کریں تاکہ اس ماہ مقدس کے بعد بھی ہم ان بیماریوں
سے محفوظ رہ سکیں ۔رمضان ایک روایت نہیں یہ ایک دین کا بنیادی رکن ہے اس کو
ہم اسلام کے تابع رہ کر گذاریں ۔اﷲ کی متعین کردہ حدود میں رہتے ہوئے رمضان
گذاریں اور کوشش کریں کہ رمضان کے بعد بھی ہم اسلام کے تابع ہی رہیں ۔ہم
بیشمار دنیاوی کتابیں دن رات پڑھتے ہیں رمضان میں کوشش کریں داعی اعظم ﷺ کی
سیرت مطہرہ کا اوراسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں ناکہ وقت گذاری کے لئے ٹی
۔وی وکمپیوٹر پر وقت ضائع کریں ۔ اپنا محاسبہ کریں کہ اﷲ کے ہم پرکتنے
احسانات ہیں اور ہم کتنے اسلامکی تعلیمات کے مطابق اپنی اور اپنے اہل وعیال
کی تربیت کررہے ہیں ۔
اسی طرح رمضان کریم میں نبی کریم ﷺ کا ایک اور عمل بھی تھا جیساکہ صحابی
رسول فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ کی
سخاوت اس وقت عروج پر پہنچ جاتی تھی جب جبرائیل علیہ السلام آپ سے
آکرملاکرتے تھے ،رمضان کی ہررات آپ ﷺ انہیں قرآن سناتے اور اس زمانے میں آپ
کی سخاوت تیز آندھی سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔آپ ﷺ نے فرمایاجہنم کی آگ سے بچو
خواہ ایک کھجور کے آدھے حصے کے ذریعہ کیوں نہ ہو۔رمضان کے اس بابرکت مہینے
میں اپنے اردگرد دیکھیں ،روز ہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ بھوک وپیاس کیا چیز
ہے جو لوگ ان بنیادی چیزوں سے محروم رہتے ہیں ان پرکیا بیتتی ہے ۔اس لئے اس
رمضان میں کوشش کریں کہ ایسے لوگوں تک اﷲ نے ہمیں جو مال ودولت دیا ہے اس
میں سے ان لوگوں کو بھی دیں ۔ہمیں یادرکھنا چاہیئے کہ ہمارا حقیقی مال
ومتاع وہی ہے جو اﷲ کی راہ میں ہم خرچ کردیں ۔ اس حوالے سے ہمارے اپنے ملک
میں بیشمار لوگ ہیں جن کو ہماری مددکی ضرورت ہے تھر پارکر میں لوگ بھوک
وپیاس اور بنیادی سے بھی کہیں نیچے کی ضروریات سے بھی دور ہیں ہم ان کی مدد
کرسکتے ہیں ۔ |