دنیا کی زندگی میں کوئی امیر ہو یا غریب، عالم ہو یا جاہل،
حاکم ہو یا محکوم سب کو ایک دن گزارنے کیلئے چوبیس گھنٹے میسر ہوتے ہیں۔
قدرت کی طرف سے زرا بھر بھی کسی کیلئے اس میں کمی یا زیادتی نہیں
ہوتی۔فوائد و نقصانات کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ان لمحات کو کس طرح
گزاراجاتا ہے۔ اگرہم اپنا معقول نظام الاوقات ترتیب دے لیں تو بیشمار فوائد
کا حصول ممکن ہے۔ ہم نے بھی کل بروز بدھ ، سات رمضان المبارک کا دن کافی
مصروف گزارا۔ سوچا کہ اسی کو ہدیہ قارئین کردوں۔’’ ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ تو
آپ دیکھتے ہی رہتے ہیں ، آج ’’ ایک دن جنگ کے ساتھ‘‘ بھی پڑھ لیں۔بعد از
عشاء و تراویح ابھی ایک گھنٹہ ہی آرام کیا تھا کہ صبح دو بجے بیٹی نے آکر
جگایا، اٹھ کر وضوء کیا اور نوافل ادا کیے۔اتنے میں حسب معمول کچن سے اہلیہ
محترمہ کی آواز کان پڑی کہ وقت کم ہے سحری کر لیں۔ سحری کا کھانا کھایا،
مسواک کی اورمسجد میں تین بجے نماز باجماعت کی ادائیگی کیلئے حاضر ہوئے۔
واپس آکر نیچے فرنٹ روم میں بیٹھ کر قرآن پاک کاکچھ حصہ تلاوت کیا۔ چونکہ
آج کل یو کے میں راتیں بہت چھوٹی ہیں۔ تراویح کے بعد بمشکل ایک گھنٹہ آرام
کیلئے ملتا ہے۔ ابھی چار بج رہے تھے اور نیند کا غلبہ طاری ہو رہا تھا۔
ارادہ کیاکہ فورا ہی محو استراحت ہوا جائے۔ نو بجے آنکھ کھل گئی۔ غسل کیا،
کپڑے تبدیل کیے اور نیچے فرنٹ روم میں آکر ذکر کا معمول شروع کیا۔ ذکر الہی
سکون قلب اور روحانی صحت کا ایک مجرب نسخہ ہے۔ دو زانوں قبلہ رخ بیٹھ کر
ذکر خفی کا آغازکیا۔ ساتوں لطائف پر پانچ پانچ منٹ لفظ ’’اﷲ‘‘ کی پوری توجہ
کے ساتھ ضربیں لگائیں۔ ساتوں لطائف سے مراد وجود انسانی میں وہ سات مقامات
ہیں جہاں پر توجہ کرتے ہوئے ذکرسے ایک خاص کیف و سرور نصیب ہوتا ہے۔ مجدد
الف ثانی ؒ نے مکتوبات شریف میں، شہاب الدین سہروردیؒ نے عوارف المعارف میں
، خواجہ محبوب الہی ؒنے اپنی تصنیفات میں، سلطان باہو ؒ نے پنجابی شاعری
میں اور بیشمار دیگر بزرگان دین نے ان کا تذکرہ فرمایا ہے اور وجود انسانی
میں قرآنی آیات اور احادیث کے حوالوں سے ان کا تعین کیا ہے۔ وہ سات لطائف
یہ ہیں ۔ قلب، روح ، سری ، خفی، اخفی، نفسی ، قالبی یا سلطان الاذکار۔ بہر
کیف لطائف کے بعد نفی اثبات کا سلسلہ شروع ہوا۔ نفی اثبات میں لا الہ اﷲ۔لا
معبود الااﷲ۔لامقصود الا اﷲ۔ لاموجود الا اﷲ اور لا مطلوب الااﷲ کی ضرب جب
قلب پر لگتی ہے تو جو اطمینان اور سکون ملتا ہے اس کا تعلق باطنی کیفیات سے
ہے جسے کما حقہ لفظوں کا جامہ پہنانا نا ممکنات میں ہے۔ اس کے بعد مراقبا ت
شروع ہوتے ہیں۔ساتوں لطائف کے مراقبات کے بعد احدیت، معیت، اقربیت ، دوائر
ثلاثہ کا مرحلہ آتا ہے۔ پھر اﷲ کی رحمت کے بحر بیکراں میں ڈوب جانے کیلئے
ایک لا متناہی سمندر ہے۔
کسی کو راس آتا نہیں نہ آئے عشق ہمیں تو تمہارے درد نے انساں بنا دیا
اس سارے معمول پر ایک گھنٹہ اور دس منٹ لگے۔ دعا کے فورا بعد خیال آیا کہ
ایک قریبی دوست ملک عبدالمجید ایڈووکیٹ کے دو عزیز پاکستان میں انتقال کر
گئے لھذا فاتحہ خوانی کیلئے حاضر ہوا جائے۔ ٹیلیفونک اطلاع دے کر ان کے پاس
تعزیت اور فاتحہ خوانی کیلئے حاضر ہوا۔ جب گھڑی پر نظر پڑی تو دس بج کر
چالیس منٹ ہو چکے تھے۔ پورے گیارہ بجے’’ ریڈیو انسپائر‘‘ پر سیرۃ النبیﷺ کے
حوالے سے لائیو پروگرام میں حاضر ہوناتھا۔ دس منٹ کے بعد ان سے اجازت لی
اور پانچ منٹ کی ڈرائیو کے بعد ریڈیو سٹوڈیو پہنچ آیا۔ آج نبی کریم ﷺ کی
سیرت طیبہ کے ان گوشوں پر روشنی ڈالی جو عام سماجی اور گھریلو زندگی سے
متعلق ہیں۔ آپﷺ کے اخلاق کریمانہ کے کچھ مستند واقعات بھی نذرسامعین کیے۔
بارہ بجے پروگرام سے فارغ ہو کر گھر کی لائبریری میں پہنچا کیوں کہ ظہر کی
نماز سے قبل ا لحرا ایجوکیشن سنٹر میں درس قرآن دینا تھا۔ سورۃ الفرقان کی
آیات کا چند تفاسیر کی روشنی میں مطالعہ کیا۔ سوا ایک بجے درس شروع ہوتا ہے
لھذا کوشش کی کہ بروقت مسجد میں پہنچا جائے۔ آج بنیادی طور پر ’’عباد
الرحمٰن‘‘ کے ان چند اوصاف کا ذکر کیا جو قرآن پاک کی اس سورۃ مبارکہ میں
بیان ہوئے۔ ان میں عاجزی و انکساری، راتوں کو جاگ کر عبادت الہی میں مصروف
ہونا۔ مال خرچ کرنے میں کنجوسی اور فضول خرچی سے اجتناب کر کے اعتدال کا
رویہ رکھنا۔شرک، تکبر اور زنا سے بچنا ۔ دو بجے نماز ظہر کی ادائیگی سے
فارغ ہو کر عازم برمنگھم ہوا کیونکہ تکبیر ٹی وی پر چار بجے میرا لائیو
پروگرام تھا۔ نوے میل گاڑی چلاکر پروگرام سے پندرہ منٹ قبل ٹی وی سٹوڈڈیو
پہنچ چکا تھا۔ آج کا موضوع تھا ’’ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مالی
معاملات‘‘۔ ایک گھنٹے کے اس پروگرام میں کوشش کی کہ مال و دولت کے حوالے سے
پائی جانے والی غلط فہمیوں اور غفلتوں کو دور کیا جائے۔ مالی فرائض و
واجبات کی طرف توجہ مبزول کرائی جائے۔ خصوصا ذکوۃ کی دینی اور سماجی اہمیت
پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ پروگرام پانچ بجے ختم ہوا۔ کچھ احباب نے برمنگھم
میں دعوت افطاردی لیکن معذرت کی کیونکہ ساڑھے سات بجے لوٹن میں سینیٹر جنرل(
ریٹائرڈ) عبدالقیوم صاحب کے اعزاز میں سینئر صحافی شیراز خان کی طرف سے ایک
پروگرام تشکیل دیا گیا تھا جس میں لازمی شرکت کا وعدہ کیا ہواتھا۔ بروقت
لوٹن پہنچ کر بعد از نماز عصر ایک مقامی ریسٹورنٹ میں اس تقریب میں شرکت کی۔
صرف آدھا گھنٹہ ہی اس پروگرام میں شامل ہو سکا کیوں کہ افطاری سے قبل قریب
ہی ایک دوسرے ریسٹورنٹ میں ایک دوست کی بیٹی کے مسنون نکاح کی تقریب میں
بھی شرکت کرنی تھی۔ وہاں بھی بروقت پہنچ کر افطاری کی۔ نماز مغرب ادا کی
اور نکاح کے بعد بمشکل الحرا ایجوکیشن سنٹر میں نماز عشاء میں پہنچے۔ اس
طرح زندگی کا ایک اور دن تمام ہوا۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو رمضان شریف کے ان با
برکت لمحات سے کما حقہ اکتساب فیض کی توفیق دے۔ ہماری کو تاہیوں کو معاف
فرمائے اور دین و دنیا کی سعادتوں سے بہرہور فرمائے۔ آمین ثم آمین |