با تیں صلیبی کما نڈ ر لو ئس نہم کی ( ۲)

اس مذکورہ ذکر کے ساتھ بغداد کا ذکر نا گزیر ہے،کیو نکہ بغداد سے اسلا می تا ریخ کے بہت سے ر وشن باب وابستہ ہیں،بلکہ بغداد کے حوالے سے یہ کہنا کہ وہ ہماری اسلامی تا ریخ کا قلب و جگر رہا ہے کو ئی مبالغہ نہیں ،عبا سی بادشا ہوں نے پو ری دنیا کانظام اسی سر زمین سے چلا یا ہے ، لیکن تا ریخ کی ستم ظریفی نے ہمیشہ بغداد کو مشق ستم بنا ئے رکھا ،اس میں کیا راز ہے اس کو اﷲ ہی بہتر جا نتا ہے ۔لیکن قو موں کے عروج و زوال میں اپنے ہاتھو کے کا رنا مے اور ساتھ ساتھ اعمال نا موں کا بھی بڑا دخل ہے،بہر کیف ۷؁ ھ میں تا تاری قوم کے قہر سے جو قیامت اہل بغداد پر گزری اس کوبعض مو رخوں نے بیا ن کر نے سے اس لیے گریز کیا کہ کہیں لو گ اس کی صدا قت پر یقین نہ کریں ،مشہو ر مورخ علامہ ابن اثیر کے بقول ’’ان تا تاریوں کو وہ مو قع جس کی مثال ماضی میں ملتی ہے اور نہ عصر حا ضرمیں ایک جما عت جو حدود چین سے نکلتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال سے کم کے عرصے میں اس اطراف سے ارمینیہ کے علا قوں تک پہنچ جا تی ہے اور ہمذان کی جا نب سے عراق سے متجا وز ہو جاتی ہے، اﷲ تعا لی کی قسم مجھے اس میں شک نہیں کہ جب کچھ زما نہ گذر جا ئیگا اور ہما رے بعد آ نے لوگ اس واقعہ کو لکھا ہوا دیکھ کر اس کا انکا ر کرکے اسے بعید سمجھے گے‘‘( تا ریخ ابن کثیر ص ۱۳۲جـ۷)

ایک مشہو ر مصنف تا تا ری حملے کی صورت حال بیا ن کرتے ہوے لکھتا ہے۔’’صبح قیا مت تک جب بھی یہ امت ان بیا لیس سالوں کو یا د کرے گی تو خو ن کے آنسوں روئے گی ،کیسے کیسے لعل و گوہر ،کیسے کیسے صا حب علم و فن اہل ورع اور شب زندہ دار ، اس امت نے ان بیا لیس سا لو ں میں گنوائے ہیں ان کی یا دیں اس امت کو ہمیشہ تڑپا ئیں گی، شا ید اب یہ آسما ن اپنے نیچے اور یہ زمین اپنے سینے پر ایسے یکتا ئے روز گا ر کو کبھی یکجا نہ دیکھ پا ئے گی۔ما وراء النھر، خراسا ن اور عراق عجم کے خون کے سمندر میں تبدیل ہو گئے، سیر دریا کے شہر جند ،خجند،اترار ، فنا کت، سقناق ، اوز جند،اور اشنا ش لا شوں کے ڈھیر میں بدل گئے ،بخا را کے قلعے میں تیس ہزار اور شہر میں ستر ہزار ، سمر قند میں ایک لا کھ مرد ، عورت اور بچے قتل کر دیے گئے ، خوارزم میں ایک لا کھ قیدی بنا لیے گئے،جو بعد میں ’’ حشر‘‘ کی آگ میں جھو نک دیے گئے ،اور تین لاکھ سے زائد وہیں قتل کر دیے گئے، ما زند ران اور آ ذ ر با ئجان میں ،ہر ستر ہزار لا شو ں کے ڈ ھیر پر ایک رو نے والا بھی مشکل سے میسر آسکتا تھا ۔خراسان اور مرو میں تیر ہ لا کھ مرد عورت اور بچے ذبح کر دیے گئے۔

نیشا پور میں عور توں اور بچوں کے علا وہ دس لا کھ اور چا لیس ہزار مرد قتل کر دیے گئے ہرا ت میں سو لہ لا کھ مسلمان قتل کیے گئے ، قریب ہی کا لیوان کے چھو ٹے سے علا قے میں ایک لا کھ لو گ مو ت کے گھا ت اتا ر دیے گئے، ہرات میں مو لا نا شر ف الد ین اور دیگر پندرہ اشخا ص جن کے نا م تا ریخ ہرات میں مرقوم ہیں با قی بچے۔ہرات اس کے پا س کے مضا فات کی اٹھا رہ لا کھ آبا دی میں چا لیس اشخاص کے علا وہ کو ئی نہ تھا ، وہ لو گ ملک غیاث الد ین کے مقبرے کے نیچے رہتے تھے ،پندرہ سا لوں تک ہرات کے شہر یا ہرات کی سر زمیں پر ان چا لیس اشخاص کے علا وہ کو ئی نہ تھا ، بلخ میں دو لا کھ لو گ ذبح کر دیے گئے ، غزنی ،طا لقان اور با میا ن میں عورت مرد بو ڈھے اور بچوں کی با ت تو در کنا ر کتے اور بلی تک زندہ نہ بچے، غور میں ایک نفر زندہ نہ چھو ڑا گیا ،فہروز کو ہ میں بھی کو ئی فرد بشر زندہ نہ بچا ۔
اور بغداد ۔۔۔ بغداد میں تین دنوں تک گلی کو چوں میں پا نی کے بجا ئے خو ن بہتا رہا ، دجلہ کا پا نی میلوں تک سر خ ہو گیا ،چھہ ہفتوں تک یہ قہر ٹو ٹتا رہا ۔محلات مسا جد ، مقا بر یا تو خا کستر کردیے گئے ، یا زمین بو س شفا خا نوں میں مریض، مدارس میں طلبہ اور ان کے اسا تذ ہ ذ بح کر دیے گئے ، مقا بر کو اکھا ڑ کر شیوخ اور اما موں کی با قیات کو اور تما م علمی خزا نوں کو خا کستر کر دیا گیا ، کتا بیں آ گ کے شعلوں میں پھینک دی گئی ، اور جہا ں دجلہ قر یب تھا وہا ں اس کے حوا لے کر دی گئی،پا نچ صدیوں کا سارا اثا ثہ را کھ کر دیا گیا ،اور بغداد کی سا ری آبا دی جو گیا رہ لا کھ سے زیا دہ افراد پر مشتمل تھی قتل کر دی گئی( عالم اسلام کی اخلاقی صورت حال ص ۱۵۴ ) ‘‘ بعض مو رخین نے بغداد میں قتل ہو نے والے مسلما نوں کی تعداد میں اختلا ف کیا ۔ بعض کہتے ہیں آٹھ لا کھ ، بعض کہتے ہین ایک کروڑ آٹھ لا کھ بعض کہتے ہیں مقتو لین کی تعداد دو کروڑ تک پہنچی ہے مورخین کے مطا بق جب یہ تقدیر کا فیصلہ پورا ہوا اور چا لیس روز گزر گئے تو بغداد با کل ویران ہو گیا ، وہا ں معدودے چند آد می تھے مقتولین راستوں میں پڑے تھے جیسے ٹیلے ، پھر جب ان پر با رش پڑی تو ان کی صورتیں بدل گئی او رشہر ان کی لا شوں سے بد بو دارہو گیا اور ہوا آلو د ہو گئی ۔جس کی وجہ سے سخت وبا پھیلی اور بیما ری متعدی ہو کر بذریعہ ہوا شا م پہنچ گئی ،ہو ا کی خرا بی اورفضا کی آ لو دگی سے بہت سے لوگ مو ت کا شکا ر ہوے لو گوں پر مہنگا ئی، وبا قبا اور طا عون جمع ہو گئے(، تا ریخ ابن کثیر)

یہ تما م صورت حال جس کا ذکر اوپر ہوابغداد اور دوسرے اسلامی ملکوں کوکیوں پیش آئی؟، کیا مملکت بغداد اور خورزم شا ہ کی حکو مت اتنی کمزور ہو گئی تھی کہ وہ تاتاری سیلاب کو روکنے سے قا صر تھیں۔اور اس کا مقا بلہ کرنے کی ان میں ہمت اور طا قت نہیں تھی اس طر ح کے بہت سے سوالات کسی کے بھی ذہن میں آسکتے ہیں ، کیونکہ ان دو نوں حکو متوں کے پا س بڑی طاقت اور دولت کے انبار تھے ، اور ساتھ ہی ان دونوں حکو متوں کے تگ و تا ز میں پو ری دنیا تھی ایک نگریز ی مورخ ہیر لڈ لیمب اپنی کتاب چنگیز خا ن میں لکھتا ہے ۔اسلا می ملکوں کے قلب میں سلطان محمد خوارزم شا ہ اورنگ شا ہی پر خدائے جنگ بنا بیٹھا تھااس کی قلمرو ہندوستان کی سر حد سے بغداد تک اور بحر خوارزم سے خلیج عجم تک( تا ریخ دعوت و عزیمت ۳۱۰) اور بغداد کی اسلامی سلطنت کے ایک عظیم خلیفہ ہا رون رشید نے ایک مرتبہ با دل کے ایکٹ ٹکڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا تھا جہا ں تیرے جی میں آئے جا کر برس جا تیری پیداوار کا خرا ج میرے ہی پا س آئیگا ۔(ص ۶۹ تا ریخ دعوت و عزیمت ) اس تنا ظرمیں ان سوالات کا ذہن میں آنا فطری ہے۔ لیکن ان سوالات کی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوے بغداد کا سقوط اور خوارزم شا ہ کی حکومت کی تبا ہی کا سبب الگ الگ ہے ۔خوارز شا ہ کا قصور یہ تھا کہ اس نے چنگیز خان کے سفیر کا قتل کیا تھا جس کی وجہ سے تا تا ر ی ان پر بھوکے درندوں کی طرح ٹوت پڑے اور عظیم سلطنت کا جو حا ل ہو ا اس کا ذکر اوپر گذر چکا۔ جہاں تک با ت بغداد کی ہے تو بغداد میں وہی مشترک با تیں ہیں جو لو ئس نہم کے نظر یے کی پیدا وار ہیں، یعنی سلطان معتصم با ﷲ کے وزیر ابن علقمی کی بغاوت ۔ اس کی وجہ مو رخوں نے یہ بیا ن کی ہے ۔کہ پچھلے سال جب اہل سنت اور روافض میں سخت جنگ ہو ئی جس میں کرخیوں اور روافض کے محلوں میں لوٹ مار ہوئی، حتی کہ وزیر کے بعض رشتہ داورں کے گھر بھی اس کا شکار ہوئے تو اس پر وزیر کو سخت غصہ ا ٓیا جس کی بدولت اس نے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف وہ چال چلی جس کے نتیجے میں یہ اتنا بھیانک واقعہ پیش آیا ، جس کی تاریخ میں بدترین مثال نہیں ملتی۔ جب سے بغداد بنا اسی وجہ سے پہلا شخص جو تاتاریوں کی طرف سے نکلا وہ یہی وزیر تھا ۔وہ اپنے اہل و عیال ،دوست احباب اور خدم و حشم کے ساتھ نکل کر بادشاہ ہلاکو خان کے ساتھ مل گیا (اﷲ اس پر لعنت کرے) ۔ پھر وہاں سے واپس آکر خلیفہ کو اس کے پاس جانے اور اس کے سامنے پیش ہونے کا مشورہ دیا ۔ تاکہ اس بات پر صلح ہو جائے کہ بغداد کا نصف خراج انہیں دیں گے اور نصف خلیفہ لیگا تو خلیفہ کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ سات سو سواروں کے ساتھ نکلے جن میں قاضی ، فقہاء و صوفیاء اور حکومت کے بڑے بڑے عہدیدار شامل تھے یہ لوگ جب ہلاکو خان کی منزل کے قریب پہنچے تو سوائے سترہ آدمیوں کے باقی سب چھپا دئے گئے ۔ خلیفہ ان مذکورہ لوگوں کو بچا کر لے گیا اور بقیہ کو سواریوں سمیت اتار کر لوٹ لیا اور سب کو قتل کر دیا ۔ خلیفہ کو ہلاکو کے سامنے پہش کیا گیا تو اس نے خلیفہ سے بہت سی چیزوں کا سوال کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ کی آواز اس خطرے کی وجہ سے جو اہانت اور زبردستی کی وجہ سے اس نے دیکھی تھی ، لڑ کھڑا گئی۔ اس کے بعد وہ بٖغداد واپس ہوا اس کے ساتھ خواجہ نصیر الدین طوسی اور وزیر ابن علقمہ وغیرہ تھے ، خلیفہ کی حفاظت اور مطالبات کے تحت تھا اس نے دار الخلافہ سے سونے چاندی زیورات اور بہت سی عمدہ چیزیں منگوائی ادھر روافض کے ان سرداروں اور دوسرے منافقین نے ہلاکو خان کو صلح نہ کرنے کا مشورہ دیا ۔ اس وزیر نے کہا کہ اگر صلح ہو بھی گئی تو کم از کم سال دو سال چلے گی ۔ انہوں نے ہلاکو خان کے سامنے خلیفہ کا قتل کرنا مناسب سمجھا، توتونہی خلیفہ ہلاکو خان کے سامنے آیا تو اس نے قتل کا حکم دے دیا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قتل کا مشورہ وزیر ابن علقمہ اور طوسی نے دیا تھا ۔( ج۷ ص۲۵۶تا ریخ ابن کثیر)

شا ید ہما ری بد قسمتی کی انتہا کا اندازہ لگا نے کے لیے یہ کا فی ہے کہ ہم اکثر اپنوں ہی کے ہا تھوں ما رے اور ذبح کیے گئے ہیں ۔ہمیشہ دوسروں کی دست برد جس نے ہما رے جسم کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہے خود ہما رے ہی ہا تھوں سے چلی ، غرض وہ سب ہوا اور ابھی ہو رہا ہے جس کی امید زندہ قوموں سے نہیں لگا ئی جا سکتی ، ایسا لگتا ہے کہ ہما ری روح اور ضمیر اپنے سینے میں زندہ ہو نے کے با وجو د مردہ یا جاں بلب ہو گئے ہیں ۔ وہ کردار وہ گفتار اور وہ اخوت اب ان بے ضمیر اور بے کردار دلوں سے نکل گئی جس کو غیرت اور حمیت سے یا د کیا جا تا تھا ، نا لہ شبگیری کا ذکر تو کجا ۔ اس نا امیدی میں ضرورت اس بات کی ہے کہ کو ئی عرب یا عجم کے لا لہ زاروں سے مسیحا ئی کا روشن چراغ لیکر اٹھے ۔اور ان مردہ دلوں میں امید کی آس جگا دے ،ورنہ تما م قا فلہ اور سا لار قا فلہ محو خواب ہے کب وہ اس نیند سے بیدارہو اور کب یہ تا ریکی چھٹے ،اور کب روشنی کے مینار بلند ہو ، اس پر کچھ نہین کہا جا سکتا ۔ لیکن ہم اﷲ کی ذات سے پر امید ہیں کہ ایک دن آئیگا جب یہ امت پھر تا زہ دم ہو کراٹھے گی اور اسی طاقت ،ہمت اور حوصلوں کے سا تھ اٹھے گی جو اس کی عا دت ہے ، ماضی کی ہزاروں مثا لیں اس با ت کی گواہ ہیں ،کہ اس امت پر ایسے بہت سے فکری اور عسکری حملے ہو چکے ہیں ، جس میں اپنے اور غیر برا بر کے شریک رہے ،لیکن اﷲ کے فضل سے کبھی عرب وعجم کبھی عبا سی اور کبھی سلجوقی اور خود کبھی تا تا ری قوم ہی اسلام کی محا فظ بن گئی ،یہ اسلام کی ابدیت اورآفا قیت کی واضح دلیل ہے اور دسری طرف اس با ت کی بھی دلیل ہے کہ اﷲ تعا لی جب یہ دیکھتا ہے کہ کسی قوم کے ہا تھ پیر اسلام کی حفا ظت کے لیے سستی اور کا ہلی کا مظا ہرے کر رہے ہیں تو ان سے یہ دولت چھین لیتا ہے جیسے پہلے عرب پھر عجمی ہا تھ اسلام کی آبر بنے رہے اور اب یہ دولت کس کے ہا تھوں میں جا ئے کون اسلام کا محافظ ہو گا اس کو اﷲ ہی بہتر جا نتا ہے -
Fateh Muhammad Nadwi
About the Author: Fateh Muhammad Nadwi Read More Articles by Fateh Muhammad Nadwi: 30 Articles with 29933 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.